ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی مصر میں اردو کی سفیر ہیں۔ وہ اس زبان میں مسلسل لکھ رہی ہیں۔ نظم، نثر۔ تحقیق اور افسانہ، یہ سب ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے سوراخ کے عنوان سے ایک افسانہ سپرد قلم کیا ہے۔ یہ افسانہ جدید معاشرتی رویوں اور قدیم انسانی جذبات کی دلچسپ تصویر پیش کرتا ہے۔
آج پھر سنیچر ہے ۔۔ کتنا مشکل دن ہوتا ہے یہ۔ اس دن مجھے چھ بجے صبح کو جلدی اٹھنا پڑتا ہے۔ اپنے شوہر اور بچوں کے لئے ناشتہ تیار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ لیسنز جانے کے لئے بچے کیا پہنیں۔ دوپہر کے کھانے میں کیا کھائیں۔ اور اسی طرح سے دن کے دوران درجنوں فیصلہ کرنے پڑتے ہیں۔ میں بھی اوروں کی طرح اپنے بچوں کے لئے بہت فکر مند رہتی ہوں۔ خاص طور پر جب وہ اس دن ٹیوشن کے لیے زیادہ وقت گھر سے باہر گزارتے ہیں۔ دن بھر میرے دل و دماغ کو سکو ن نہیں ملتا۔ جب تک کہ میرے سب بچے گھر واپس نہیں آ جاتے ہیں۔ پریشانی کے ساتھ ساتھ میرے کاندھے پر گھر کا پورا کام کاج سنبھالنے کا بوجھ دوگنا ہوجاتا ہے۔ اگر سچ کہوں توسانس لینے کی فرصت نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے میرا مزاج بھی چڑچڑا ہوجاتا ہے۔
پانچ بجے شام کے وقت میں کپڑے تہہ کر رہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں دستک سن کر دروازہ کھولنے کے لئے بھاگی۔ میری یہ عادت ہے کہ دروازہ کھولنے سے پہلے دوربینی سوراخ سے دروازے پر کھڑے ہوئے شخص کو دیکھتی ہوں۔ تاکہ جان سکوں کہ کون ہے۔ حسب معمول میں نے سوراخ سے جھانک کر دیکھا تو میری منجھلی بیٹی دروازے پر کھڑی تھی اور اس کے پیچھے کچھ فاصلے پر ایک مرد اور ایک کم سن لڑکی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ میں نے جلدی سے دروازے کو کھول کر اپنی بیٹی کواندر داخل کیا اور فوراً دروازہ بند کر دیا۔ دروازہ کھولتے وقت دونوں اجنبیوں نے جب مجھے دیکھا تو اس مرد نے لڑکی سے کہا کہ ’لگتا ہے غلطی ہوگئی ہے شاید،۔یہ وہ فلیٹ نہیں ہے جو ہم چاہتے تھے۔ پھر دونوں سیڑھیاں اترنے لگے۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ چار وجوہات جو کے پی کے میں پی ٹی آئی کی شکست کا باعث بنیں
ممتاز قادری کیس: کیا صدر ممنون حسین اور پیر امین الحسنات میں گٹھ جوڑ تھا؟
لڑکی خوبصورت تھی اور تقریباً پندرہ سولہ سال کی لگ رہی تھی۔ جبکہ مرد کی عمر تقریبا تیس پینتیس سال کی رہی ہوگی۔ پتہ نہیں کیوں مجھ میں تجسس پیدا ہوا۔ اس لئے میں نے پھر سے دوربینی سوراخ سے جھانکنا شروع کیا۔ اچانک ہی میں نے دونوں کو چپکے چپکے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دیکھا۔ اور چونکہ میرا فلیٹ عمارت کی آخری منزل پر ہے۔ اس لئے دونوں چھت پر چلے گئے۔ دوربینی سوراخ سے جھانکتے ہوئے میں انتظار کر رہی تھی کہ دونوں جلدہی نیچے اتریں گے۔ کیونکہ اوپر کوئی اور فلیٹ نہیں تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس سے میرا تجسس اور خوف مزیدبڑھ گیا۔ میں تقریباً دس پندرہ منٹ انتظار کرتی رہی۔ اس درمیان میں نے عمارت کے چوکیدار کو اور اس کے ساتھ چار لوگوں کو سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دیکھا۔ ان لوگوں میں ایک آدمی اپنے ہاتھ میں ایک بڑی سی چھڑی پکڑے ہوئے تھا۔ سب عمارت کی چھت کی طرف جا رہے تھے۔ اس وقت میں کافی پریشان تھی۔ میرا ذہن کام نہیں کر رہا تھا، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
میری آنکھیں اب بھی دروازے کے دوربینی سوراخ سے لگی ہوئی تھیں۔ ایک لمحے کے لئے بھی میری آنکھیں نہیں جھپکیں۔ مجھے ڈر تھا کہ کوئی انہونی نہ ہو جائے اور میں اس سے ناواقف رہوں۔ خاص طور پر اس لئے کیونکہ میری بڑی بیٹی ابھی تک گھر سے باہر تھی۔ اور اس کے آنے کے دوران کہیں عمارت کی سیڑھیوں پر کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ یا کچھ ہو نہ جائے اور کہیں وہ لوگ مجھ پر اور میرے بچوں پر حملہ نہ کر دیں اور کہیں دروازہ نہ توڑ دیں۔
میں اسی سوچ میں اتنی الجھی ہوئی تھی کہ اچانک میں نے عمارت کے چوکیدار کو سیڑھیاں اترتے اور چیختے ہوئے سنا:
’’اے حرام زادے! مجھے تم دونوں پر پہلے ہی شک ہوا تھا۔ جب میں نے تم دونوں کو دیکھا تھا کہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے عمارت کی طرف جا رہے ہو۔ ان دنوں ہر جگہ پر آوارہ نوجوانوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے۔ روز تم جیسوں کو دیکھتا ہوں۔ اے کمینے! تم دونوں کو عمارت کی چھت کے سوا کوئی اور جگہ نہیں ملی۔ کہ تم اپنی جنسی ہوس کی آگ بجھا سکو !! بدمعاش!!‘‘۔
چوکیدار کی بات سن کر میں اپنا توازن کھونے لگی۔ میرا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ میرے ہونٹ خشک ہوگئے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں! صرف یہ جملہ دہرانے لگی ’رحم کر میرے رب۔۔۔‘۔
میں دروازے کے دوربینی سوراخ سے سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ ایک مرد لڑکی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا اور لوگ ان دونوں کو الگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے لڑکی کا دوسرا ہاتھ پکڑ کے اسے کھینچنا شروع کر دیا۔ لڑکی درد سے کراہ رہی تھی۔ تھوڑی دیر کی کوششوں کے بعد وہ لوگ لڑکی کو اس سے الگ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان میں سے کسی نے لڑکی سے کہا:
’’اپنے گھر جاؤ! یہاں سے بھاگ جاؤ!‘‘
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ لڑکی اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ بلکہ وہ کہہ رہی تھی کہ ’’اسے بھی چھوڑ دیں ، میں اس کے ساتھ کسی اور جگہ پر نہیں جاؤں گی۔ قسم سے سیدھے اپنے گھر جاؤں گی‘‘لیکن لوگوں نے اس کی بات نہ سنی۔ بلکہ اسے نیچے جانے کے لئے دھکا دیتے رہے۔ لڑکی نے کئی بار ان لوگوں سے التجا کی، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر کار وہ نیچے اتر گئی۔
لڑکی کے جانے کے بعد لوگوں نے اس مرد کی جم کر پٹائی کی۔ خوب مارا۔ پھر اسے اپنے ساتھ لے کر نیچے چلے گئے۔ میں بھاگ کر جلدی سے بالکونی کی طرف گئی۔ باہر جھانک کر دیکھا کہ سڑک پر چوکیدار لڑکی کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنے قریب لا رہا تھا۔ لیکن لڑکی نے اس کو جھٹک دیا اور ایک رکشہ پر سوار ہو کر چلی گئی۔ اس منظر کو دیکھ کر میں کافی الجھن میں آ گئی۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی!!!
تھوڑی دیر بعد، باقی لوگ سڑک پر نمودار ہوگئے۔ وہ پٹائی کرنے کے بعد مرد کو ایک گاڑی میں بٹھا کر لے گئے، چلے گئے۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کہاں گئے؟ مجھے محسوس ہوا کہ شاید قریبی پولیس اسٹیشن اسے لے جائیں گے!!
میں پورے منظر کو دیکھ کر کافی پریشان ہوئی اور اس بارے میں سوچنے کی مزید ہمت نہیں کر سکی۔ اس واقعہ کے بعد میرے ذہن میں کئی سوال الجھن پیدا کر رہے تھے۔ کیوں اس مرد نے لڑکی کا ہاتھ اس قدر مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا!! کیا وہ آدمی واقعی اس لڑکی سے پیار کرتا تھا!! اسے اس کی فکر تھی!! یا وہ چاہتا تھا کہ لڑکی اس کے ساتھ رہے۔ تاکہ وہ اپنے آپ کو لوگوں سے بچائے، خاص طور پر لڑکی کے ساتھ لوگوں کی ہمدردی دیکھنے کے بعد !!۔
رات ڈھل چکی۔۔ اوہ کتنا مشکل دن تھا !! تھکاوٹ کی وجہ سے سنیچر کو حسب معمول سب سو گئے۔ اور میں نے اپنا تھکا ہوا جسم بستر پر پھینک دیا۔ اپنی آنکھیں بند کر لیں مگر مجھے نیند نہیں آئی۔ میری آنکھ کافی دیر تک کھلی رہی۔ آج جو کچھ ہوا اس سے مجھے رات کو خوفناک بھوتوں اور ڈراؤنے خوابوں میں بدل دیا ہے۔ جس سے میں اپنی آنکھیں بند کرنا شروع کردی جو مجھے گھیر لیتے ہیں۔
آج کے واقعہ نے میرا ذہنی سکون چھین لیا۔ میرے ذہن میں یہ سوالات اٹھ رہے تھےکہ کیوں لوگوں نے صرف اس مردکو سزا دی۔ شایداس لئے کیوں کہ وہ زیادہ عمر کا تھا اور لڑکی سے بڑا لگ رہا تھا!! يا اس مرد کے پاس لڑکیوں کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے؟!۔ کیا وہ ان مردوں کی طرح انہیں اپنی میٹھی میٹھی باتوں اور جھوٹے وعدوں سے دھوکہ دیتا ہے۔ اور اگر اسے اپنی مرضی کی چیز مل جائے تو وہ دوسری لڑکی کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ اور اس طرح وہ مذہب اور حیا سے باز نہیں آتا۔ وہ ایک وحشی درندے کی مانند ہے۔ جو اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنے شکار کی تلاش میں صحرا میں بھٹکتا رہتاہے؟
اس کے ایک اشارے اور دھوکے میں لڑکی اس کے جال میں آ جاتی ہے۔ اور وہ اپنا فون نمبر اس لڑکی کی طرف پھینک دیتا ہے۔ وہ اسے کال کرتا ہے اور اس سے اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ اور اس سے اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرتا ہے۔ اپنی میٹھی باتیں اسے سنانے لگتا ہے۔ جن سے لڑکی محبت اور جذبے کی دنیا میں تیرنے لگتی ہے۔ وہ اپنے فریب سے لڑکی کے دل پر قبضہ کر لیتا ہے۔ یہ کہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے چھوڑ نہیں سکے گا۔ کیونکہ وہ اس کے لیے ہوا کی طرح ہے۔ اگر وہ اس سے جدا ہو جائے، وہ مرے گا۔ چونکہ لڑکی بھولی ہے اور اس محبت میں دھوکہ کھا جاتی ہے۔ تو وہ اس پر مسحور ہو جاتی ہے۔ وہ اس سے بہت لگاؤ محسوس کرتی ہے اور اس سے الگ نہیں ہوسکتی۔ جس پر وہ یقین رکھتی ہے اور خواہشات کا تبادلہ کرتی ہے۔ اور جب اس بدکار کو لگتا ہے کہ لڑکی پک گئی ہے اور توڑنے کے لیے تیار ہوگئی، تو وہ اسے نگل جاتا ہے۔ جیسا کہ وہ دوسری لڑکیوں کے ساتھ کیا کرتا ہے؟؟؟
ميں بھی اس لڑکی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ جس کے پتے کھلے، جوانی پھولی۔ وہ غافل ہو کر پرہیزگاری کی باڑ کو بھلا چکی تھی۔ اس لیے خواہش کی جھیل میں تیر گئی اور نہ جانے اس پر کیا گزرے گی۔ وہ آزادی کے ساتھ زندگی گزارتی ہے۔ بغیر کسی پابندی یا نگرانی کے۔ اور والدین کی طرف سے اعتماد کی باڑ اسے نتائج کی قدر کیے بغیر کسی بھی نام نہاد بوائے فرینڈ کو لینے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اور شیطان آزادی اور خود اعتمادی کی باڑ سے ٹکرا جاتا ہے۔ اور یہ کہ یہ معمول کی بات ہے۔ لڑکی دوڑتی ہے اور پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اور کال آتی ہے، وہ اس کے پاس جاتی ہے۔ اور جہاں چاہے جاتی ہے، اور والدین کو کچھ نہیں معلوم۔ کیونکہ وہ ان سے جھوٹ بولتی ہے!!!!
میں بستر سے اٹھ کر اپنی بیٹیوں کے کمرے میں چلی گئی۔ وہ سب نیند میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ میرے اندر کی کشمکش کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ میں اس زمانے میں خود کو اور اپنی بیٹیوں کو کیسے محفوظ رکھ سکوں گی؟ اس دنیا میں کیسے انہیں احمقانہ کاموں سے بچا سکوں گی؟!
سماج میں جو بدعنوانی پھیلی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اب اس جنسی بے راہ روی کے طوفان کو روک پانا ممکن نہیں؟
اگر چوکیدار کو کوئی رشوت دے دیتی ہے تو وہ خاموش رہے گا اور غلط کام چلتا رہتا ہے؟
کیا معاملہ صرف مار پیٹ سے حل ہونے والا ہے؟!
اب میں بدلتی ہوئی دنیا کو زیادہ گہرائی سے دیکھ رہی ہوں۔ میں نے آج اپنی آنکھوں سے عفت کی راہ سے انحراف کی قیمت دیکھی ہے ۔ فضول اور تماشے کا نتیجہ بھی دیکھا ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ دروازے کا سوراخ روز بروز بڑا ہوتا جا رہا ہے۔