آج پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی برسی ہے۔ حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ءکو پنجاب کے مشہور شہر جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔
وہ گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے۔ جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
وقت بے وقت رابطے میں نہ آنے والے
مرید اقبال علامہ غلام فرید نقشبندی کی یاد میں واہ کینٹ میں خصوصی تقریب
حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
ان کے شعری مجموعوں میں نغمہ بار، تلخابہ شیریں اورسوزو ساز، افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر، گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا، پھول مالی اور بچوں کی نظمیں اور اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب چیونٹی نامہ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔
حفیظ جالندھری نے 21 دسمبر 1982ء کو لاہور میں وفات پائی۔ وہ مینار پاکستان کے سایہ تلے آسودہ خاک ہیں۔
نمونہ کلام:
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہسوار ہے
جو ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بلیقن حسینؑ ہے، نبیﷺ کا نوُرِعین ہے
جو ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
—–
دیکھا جوکھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا
کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب
میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں