کیا صدر ممنون حسین نے وزیر مملکت پیر امین الحسنات کے کے درمیان کوئی گٹھ جوڑ تھا؟ کیا صدر مملکت نے پیر صاحب سے کہا تھا کہ وہ اس ملک کے آئین کو مانتے ہیں نہ عدالت کو؟ ذرا ٹھہریے، یہ بیان ذرا سخت ہو جائے گا۔ یوں کہہ لیجئے کہ وہ عدالت کے کسی سزا یافتہ مجرم کو بچانے پر کمر بستہ تھے۔ اس راز و نیاز کے لیے انھیں پیر امین الحسنات ہی دست یاب تھے۔ ایسی کوئی سرگرمی ایوان صدر میں ہوئی تو ضرور تھی لیکن یہ سرگرمی کیا تھی؟ اب وقت آگیا ہے کہ اس کی تفصیل بھی قوم کے سامنے آجائے۔
دفتر میں تاخیر ہو جاتی تو میں ڈرائیور کو چھٹی دے دیتا اور چہل قدمی کرتا ہوا گھر پہنچتا۔ ایوان صدر میں آنے جانے کے راستے دو ہیں۔ ایک وہ ہے جس کا ناک نقشہ ہر پاکستانی کے ذہن میں نقش ہے۔ یعنی قمقموں میں چمکتا ہوا عظیم الشان دروازہ۔ یہ ایک ایسا دروازہ ہے جس کے عین وسط سے گزرتے ہوئے اس کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس ایوان میں آنے جانے یا یہاں کام کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی آمد و رفت یہیں سے ہوا کرے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ یہاں سے گزرنے والے اس در و دیوار کی بزرگی کے ساتھ کہیں اپنی ذات کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس دروازے کے بڑے قد کاٹھ کے ساتھ خود ان کا اپنا قد بھی شامل ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
ریسرچ جرنل مافیا، تیز رفتار تحقیق اور مقالے مسترد ہونے کا راز
وہ دو وجوہات جنھوں نے او آئی سی اسلام آباد اجلاس کو ناکام بنایا
او آئی سی کا وزرائے خارجہ اجلاس افغانستان میں استحکام کے لیے کیا کرے؟
اس معروف دروازے کی لفٹ براہ راست چوتھے فلور پر پہنچاتی ہے۔ یہ وہی منزل ہے جہاں صدر مملکت کا دفتر ہے۔ دیگر منزلوں پر جانے کے لیے ایک اور راستہ ہے۔ بائیں جانب ایک چھوٹاسا دروازہ ہے جو گیٹ نمبر دو کہلاتا ہے۔ اس راستے سے آنے والے ایک طویل سرنگ سے گزرتے ہوئے لفٹ تک پہنچتے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی تھے۔ دفتر تو ان کا تیسری منزل پر تھا۔ لیکن یہ عوامی راستہ اختیار کرنے کے بجائے آنے جانے کے لیے ہمیشہ بادشاہی راستہ اختیار کرتے۔
اس ایوان کے ہر گوشے تک رسائی کی قانونی اجازت حاصل تھی۔ اس کے باوجود میں نے اپنی آمد و رفت کے لیے اسی بائیں بازو والے درویشی دروازے کا انتخاب کیا۔ سبب یہ تھا کہ جب میں یہاں آی تو مجھے ابتدا میں کچھ اچھے لوگوں کی دوستی میسر آگئی۔ یوں اس ایوان کے بادشاہی اور درویشی طور طریقے میری سمجھ میں آگئے۔
وہ فروری کا کوئی دن تھا جب کام نمٹا کر میں اٹھا اور اسی سرنگ میں بل کھاتا ہوا باہر نکلا۔ باہر نکلتے ہی اس شہر کی خوش گوار خنکی نے میرا خیر مقدم کیا۔ مری کی یخ ہوائیں اسلام آباد کا موسم بدل دیتی ہیں۔ یہ ہوائیں اس ایوان کے صدیوں پرانے چیڑ کے درختوں کو چھوتے ہوئے نیچے اترتے ہیں تو فضا معطر ہو جاتی ہے۔ عمارت سے نکل کر میں نے دو چار لمبے سانس لیے۔ پھر گھر کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ راستہ سپریم کورٹ کے ایک کونے کو چھوتا ہوا ہیلی پیڈ تک پہنچتا ہے۔ پھر وہاں سے رہائشی علاقے میں داخل ہو جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا، سپریم کورٹ والی نکڑ پر کچرا کندی بنی ہوئی تھی۔ جس سے اٹھنے والی بو یہاں کے معطر ماحول کو آلودہ کر دیتی تھی۔ جانے کیا واقعہ ہوا کہ یہ جگہ سپریم کورٹ کے کسی چیف جسٹس کی نگاہ میں آگئی۔ یوں اس قریۂ خوب سے اس نظر بٹو کے ہٹانے کی نوبت آئی۔ ورنہ صبح و شام یہاں سے گزرتے ہوئے طبیعت منغض ہوتی تھی۔ اُس روز بھی میں اس کوچے کے اچھے برے گوشوں سے ہوتا ہوا گھر پہنچا۔ ابھی اوسان بحال نہیں ہوئے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف میرے دوست اور رفیق کار نوید الٰہی تھے۔
ایوان صدر میں کام مختلف ڈائریکٹر جنرلز میں منقسم ہے۔ دیگر وزارتوں کے علاوہ وزارت مذہبی امور بھی ان ہی کے پاس تھی۔ انھوں نے چھوٹتے ہی بتایا کہ ایک گڑبڑ ہو گئی ہے۔ ‘کیسی گڑبڑ نوید بھائی؟ میں نے کسی قدر پریشانی سے سوال کیا۔ نوید الٰہی ایوان صدر کے نہایت متحرک اور ذمہ دار افسروں میں سے ایک تھے۔ اگر وہ پریشان تھے تو اس کا مطلب یہی تھا کہ واقعی کوئی بڑی گڑ بڑ ہے۔
کہنے لگے کہ فون پر نہیں بتائی جا سکتی۔ میں خود آ رہا ہوں۔ پتہ یہ چلا کہ اگلی صبح وزیر مملکت برائے مذہبی امور سید امین الحسنات آنے والے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ علما اور مشائخ بھی لا رہے ہیں۔’ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟’۔ میں نے نوید صاحب سے کہا۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق اس ملاقات میں یوں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ کیوں کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ صبح و شام صدر مملکت سے ملتے رہتے ہیں۔ یہ ملاقات تو ویسے بھی معمول کا حصہ تھی۔ کیوں کہ وفد کی قیادت کابینہ کے ایک رکن کر رہے تھے۔’ یہی تو گڑ بڑ ہے۔ نوید صاحب نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد نوید الٰہی نے جو بات بتائی، اس کے بعد واقعی پریشانی شروع ہو گئی۔
یہ وفد ملک کے ایک خاص مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور مشائخ عظام پر مشتمل تھا۔ وفد میں دیگر لوگوں کے علاوہ پیر افضل قادری بھی شامل تھے۔ پیر افضل قادری صاحب کے ساتھ دو مسائل تھے۔ ایک تو وہ تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی قائدین میں سے ایک تھے۔ تحریک لبیک پاکستان وہ جماعت تھی جو ممتاز قادری کی بریت کے لیے تحریک چلا رہی تھی۔
اس پس منظر میں غالب امکان یہی تھا کہ صدر ممنون حسین سے یہ وفد ممتاز قادری کے سلسلے میں ملنا چاہتا ہے۔ ممتاز قادری کے ورثا کچھ عرصہ قبل رحم کی درخواست دائر کر چکے تھے۔وفد امکانی طور پر چاہتا تھا کہ صدر مملکت ممتاز قادری کی جان بچانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ اگر وہ اس سلسلے میں طاقت کے دیگر مراکز کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو آخری چارہ کار کے طور پر وہ ان کی رحم کی درخواست منظور کر لیں۔
کابینہ کا کوئی رکن یا ویسے ہی کوئی شہری سربراہ ریاست سے ملنا چاہے تو اس میں ایسی کوئی خرابی نہیں لیکن اس پس منظر میں یہ ملاقات کئی مسائل پیدا کر سکتی تھی۔ اس کے علاوہ وفد کی تشکیل میں ایک تیکنیکی مسئلہ بھی تھا۔ پیر افضل قادری حکومت کو بہت سے مقدمات میں مطلوب تھے۔ ان میں ایک مقدمہ ایسا بھی تھا جس کی وجہ سے پولیس نے ان کا نام شیڈول فور میں شامل رکھا تھا۔
کوئی ایسا شخص جس کا نام اس شیڈول میں ہو، پولیس کو اطلاع دیے بغیر اپنے شہر یا ضلعے سے باہر نہیں جا سکتا۔اس قانونی رکاوٹ کے باوجود پیر افضل قادری اپنے ضلعے سے نکل کر اسلام آباد کیسے پہنچ گئے؟معاملے کا یہ ایک ایسا پہلو تھا جو اس ملاقات میں رکاوٹ پیدا کر سکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا فرد جو پولیس کو اس درجے مطلوب ہو اوروہ صدر مملکت کو ملنے پہنچ جائے تو ا س میں کئی قسم کی قباحتیں ہو سکتی ہیں۔ سارے معاملے کا جائزہ لینے فیصلہ یہی ہوا کہ صدر مملکت کو اس صورت حال سے آگاہ کیا جائے، اس کے بعد وہ جیسا چاہیں، ویسے ہی کر لیا جائے۔
یہ معاملہ اس لیے زیادہ حساسیت اختیار کر گیا کہ ان دنوں ایوان صدر میں کوئی مستقل سیکریٹری نہیں تھے۔ سیکریٹری کی عدم موجودگی میں جو صاحب قائم مقام سیکریٹری کی ذمہ داری انجام دے رہے تھے، ان کی ہمدردیاں تحریک لبیک کے ساتھ تھیں۔ لہٰذا ڈائریکٹر جنرل نوید الٰہی نے انھیں پیر افضل قادری کا نام فورتھ شیڈول میں شامل ہونے کے بارے میں بتایا تو انھوں نے اس پر برا منایااور ملاقات طے کر دی۔ اس لیے ضروری ہو گیا کہ صدر مملکت کو معاملے کی حساسیت سے آگاہ کیا جائے۔
صدر ممنون حسین تک جب یہ اطلاع پہنچی تو انھوں نے ہدایت کی کہ کوئی خلاف ضابطہ کام نہ کیا جائے اور قانون کو مطلوب کسی شخص کو وفد کا حصہ نہ بنایا جائے۔صدر مملکت کی اس ہدایت پر پیر افضل قادری کا نام وفد سے نکال کر پیر امین الحسنات صاحب کو مطلع کیا گیا ۔ اس اطلاع پر وہ مایوس ہوئے اور انھو ں نے کہا کہ اُن کے بغیر ملاقات کے سود مند نہیں ہوگی۔یوں یہ ملاقات منسوخ کر دی گئی۔
صدر ممنون حسین اور پیر امین الحسنات کے مابین کیا راز و نیاز ہوئے، ان کا نہ تو کوئی گواہ ہے اور نہ ریکارڈ پر کوئی ایسی بات موجود ہے لیکن پیر صاحب ایک خاص سلسلے میں صدر ممنون حسین سے جس وفد کی ملاقات کرانا چاہتے تھے،اُن کی وہ کوشش کس انجام سے دوچار ہوئی، اس کی تفصیل میں نے یہا ں بیان کر دی ہے۔ اس باوجود اگر کوئی بزرگ اس سلسلے میں اپنے دعووں کا سلسلہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔