او آئی سی اسلام آباد اجلاس کا چھ نکاتی منصوبہ کیا افغانستان کو امکانی تباہی سے بچا سکے گا؟ اس سوال کا جواب شاید منصوبہ سازوں کو بھی نہیں ہو گا۔ اس لیے ایسا دعویٰ کرنے کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے کہ یہ اجلاس کامیاب رہا۔
کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان کو ممکنہ تباہی سے بچانے کے لیے او آئی سی کی تجاویز اچھی ہیں۔ ان تجاویز پر عمل ہو جائے تو ہمارا پڑوسی یقینی طور مسائل کی دلدل سے نکل آئے گا۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوسکے گا، اگر ان تجاویز پر عمل ہو سکے۔ کیا ایسا ہوسکے گا، اس سوال کا جواب اس غیر معمولی اجلاس نے فراہم نہیں کیا۔ کسی کوشش کی کامیابی یا ناکامی کو جاننے کا سب سے بڑا پیمانہ یہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
او آئی سی کا وزرائے خارجہ اجلاس افغانستان میں استحکام کے لیے کیا کرے؟
جامعات کے بی پی ایس اساتذہ کا استحصال
انیس دسمبر: آج نامور محقق اور مزاح نگار مشفق خواجہ کی سالگرہ ہے
بھارت فیکٹر
او آئی سی اسلام آباد اجلاس کو ایک اور واقعے نے بھی گہنا دیا۔ یہ واقعہ نئی دہلی میں پیش آیا۔ جہاں افغانستان ہی کے موضوع پر ایک اور کانفرنس منعقد ہوئی۔ بدقسمتی سے یہ کانفرنس عین اسی وقت منعقد ہوئی جس وقت اسلام آباد میں یہ کانفرنس جاری تھی۔ دوسری بدقسمتی یہ تھی کہ اس کانفرنس میں او آئی سی کے چھ ملکوں نے شرکت کی۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ نئی دہلی کانفرنس میں ان ملکوں کی شرکت پاکستان کی قیمت پر ہوئی۔ یعنی چھ مسلمان ملکوں نے او آئی سی اجلاس اور پاکستان پر بھارت کو ترجیح دی۔ پاکستان اور او آئی سی ان ملکوں کو بھارت جانے روکنے میں ناکام کیوں رہے؟ یہ ناکامی اس کانفرنس کی بھی ناکامی ہے۔
وسط ایشیا کے ان ملکوں کے وزرائے خارجہ کا بھارت جانا ایک خدشے کی بھی نشاہدہی کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہمارے دوستوں کو ساتھ ملانے میں کامیاب رہا ہے۔ وسط ایشیا کے ملکوں کا پاکستان پر بھارت کو ترجیح دینا ایک بہت بڑی ناکامی ہے۔ حکومت کو یہ ناکامی تسلیم کرنی چاہیے۔
بھارت تنہا ہوا یا۔۔۔۔۔
ہمارے حکمران اکثر دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ وہ افغانستان کے سلسلے میں بھارت کو تنہا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسلام آباد اجلاس کے موقع پر او آئی سی کے چھ وزرائے خارجہ کی دہلی میں موجودگی نے اس دعوے کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے۔
وسط ایشیا کے چھ ملکوں کی طرف سے پاکستان پر بھارت کو ترجیح دینا بڑے دور رس اثرات کا حامل ہوگا۔ آنے والے دنوں میں ہمیں ان مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا چیلنج بھارت کے لیے افغانستان سے وسط ایشیا کے لیے راہداری کے مطالبے کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔
کہا گیا کہ دہلی اجلاس پہلے سے طے شدہ تھا۔ اگر ایسا تھا تو او آئی سی اسلام آباد کی تاریخ کا تعین درست نہیں ہوا۔ یہ اجلاس پہلے یا بعد میں بلا کر وسط ایشیا کے ان ممالک کو شرکت کا موقع فراہم کرنا چاہئے تھا۔ اگر وہ اس کے باوجود نہ آتے تو خود بے نقاب ہو جاتے۔
اسلام آباد اجلاس کا ایک اور کمزور پہلو یہ بھی ہے کہ 56 رکنی او آئی سی کے صرف 22 وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ یہ تعداد نصف سے بھی کم ہے۔ کیا ایسے اجلاس کو کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے؟