او آئی سی اسلام آباد کا وزرائے خارجہ اجلاس افغانستان میں استحکام کے لیے کیا کرے؟ افغانستان گزشتہ نصف صدی میں دنیا میں سب سے زیادہ تباہی کا شکار ہونے والا ملک ہے۔ اس ملک کو مسلسل 40 سال سے جنگ کا سامنا ہے۔ 2021 ء میںالآخر امریکہ و اتحادی افواج ذلت آمیز شکست کے بعد افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوئیں۔
اب سوال یہ ہے کہ افغانستان کو اپنے استحکام کے لیے مستقبل قریب میں کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ گزشتہ چار دھائیوں کے دوران قریبا عالمی طاقتوں نے اس ملک کے در و دیوار ہلا کر رکھ دئیے۔
یہ بھی پڑھئے:
انیس دسمبر: آج نامور محقق اور مزاح نگار مشفق خواجہ کی سالگرہ ہے
ملازمین بحالی کیس: سپریم کورٹ کے پاس ایسا کیا ہے جو پارلیمنٹ کے پاس نہیں؟
اٹھارہ دسمبر: آج عظیم خطیب علامہ رشید ترابی کا یوم وفات ہے
یہی سوال ہے جو 19 دسمبر کو اسلام آباد میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اہم ترین اجلاس میں زیر بحث آئے گا۔ اسلامی دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مفادات سے اوپر اٹھ کر فیصلے کریں۔ اور افغانستان کے مظلوم و محروم عوام کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں۔ ہم یہاں ایک نئے پیراڈایم کی بات اس لیے کر رہے ہیں کہ اس کے بغیر تبدیلی اور تعمیر کے مواقع ضائع ہو جائیں گے۔
افغانستان اپنی قابل فخر تاریخ و ثقافت کے باعث یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ بیرونی مداخلت سے آزاد ہو کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے البتہ بنیادی اسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ اسلامی دنیا اس سلسلے میں اس کی مد کر سکتی ہے۔
سردست موسم سرما کے خوفناک نتائج مرتب ہونے سے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان ضروریات میں خوراک، ادویات اور سردیوں میں بچاؤ کے لئے اشیا کی ضرورت ہے۔ تاکہ خواتین اور بچوں و بچیوں کے علاوہ معذروں اور کمزور طبقات کو کسی انسانی المیے سے بچایا جاسکے۔ یہ عالمی برادری خاص طور مسلم دنیا کی پہلی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح افغانستان کو ٹیکنالوجی بیس معاشرے میں تبدیل کرنے کے لیے نئے عمرانی و فکری مکالمے کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ اپنے مسائل سے خون خرابے کے بغیر چھٹکارا حاصل کرسکیں۔ یہ وہی ہدف ہے جس کی نشان دہی جس کی نشاندھی مفکر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے 1934/35 میں کابل یونیورسٹی میں گفتگو کے دوران کی تھی۔