برطرف ملازمین کے بارے میں سپریم کورٹ نے ایک درمیانی راستہ نکالتے ہوئے ایک حل پیش کر دیا ہے۔ امید تو یہ تھی کہ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جس تین رکنی بینچ نے طویل عرصے تک اس کیس کو سماعت کے بعد فیصلے کے لئے محفوظ کیا تھا اس کے فیصلہ سنانے کے طرز عمل کے بارے میں کوئی مفید بحث سامنے آئے گی تاکہ مستقبل میں فیصلوں کو لٹکانے اور معلق رکھنے کی روایت کو روکا جا سکے۔ مگر ظاہر ہے یہ خواہش بھی نا آسودہ ہی رہے گی!
یہ بھی پڑھئے:
سولہ ہزار برطرف ملازمین کی بحالی، سپریم کورٹ فیصلے کا منفرد پہلو
سقوط ڈھاکا: مغربی پاکستان کیا جانتا تھا جب مجیب کو غدار ٹھہرایا گیا
اکثریتی آرڈر کے مطابق اس قانون کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا ہے۔ جس کی رو سے پیپلزپارٹی کے دور میں بھرتی کئے گئے ملازمین کی معطلی کو بحال کیا گیا تھا۔ مگر سپریم کورٹ نے اپنے خصوصی اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے ملازمین کی بحالی کا راستہ نکال لیا ہے۔
ان ملازمین کے لئے تو یہ اچھی خبر ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ سوال ضرور جنم لیتا ہے کہ جو راستہ سپریم کورٹ نے قانون میں سقم ہونے کے باوجود نکال لیا ہے اگر اسی راستے کی اجازت مقننہ کو دی جاتی تو کیا حرج تھا؟ یعنی سپریم کورٹ کے لئے قانون کے بجائے ایکوٹی کورٹ بننے کا راستہ ہمہ وقت اور ارزانی سے دستیاب ہے۔ مگر مقننہ کے لئے یہ سہولت میسر نہیں ہے۔
تفصیلی فیصلے میں شاید اس بارے میں بحث پڑھنے کو ملے کہ کب عدالت قانونی الجھاؤ اور جکڑ بندیوں سے ماوراء ہو کر عوامی مفاد کا لبادہ اوڑھ کر انصاف فراہم کر سکتی ہے اور کب عدالت کے لئے ایسا کرنا – مثلا نسلہ ٹاور کیس میں – روا نہیں ہے۔