کے پی کے میں پی ٹی آئی کی شکست سے حیران کن نہیں۔ نتائج کی آمد جاری ہے لیکن ایک ایسا رجحان سامنے آ چکا ہے جس میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا ضروری ہو گیا ہے کہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ مرکز اور صوبے کی حکمراں جماعت کو اس روز بد کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟
پی ٹی آئی کی شکست کی وجوہات بالکل سامنے کی ہیں۔ مثلآ بری حکومت، آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بنیادی اشیائے صرف کی عدم دستیابی اور غیر ذمے داری۔
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی شکست پر صوبے کے ایک وزیر سے سوال کیا گیا تو انھوں نے تسلیم کیا کہ اس کی وجہ مہنگائی ہے۔ وفاقی وزیر شبلی فراز نے بھی مہنگائی کے عنصر کو تسلیم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک سیاسی استدلال بھی پیش کیا۔ ان کے خیال میں تحریک انصاف کے داخلی انتشار نے بھی اس جماعت کو یہ دن دکھایا ہے۔
یہ تمام دلائل درست ہیں۔ تحریک انصاف کے قائدین نے یہ دلائل پیش کر کے دراصل تسلیم کیا ہے کہ ان کی جماعت حکومت چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
یہ بھی پڑھئے:
صدر ممنون حسین اور پیر امین الحسنات کے بیچ راز و نیاز کی حقیقت
ریسرچ جرنل مافیا، تیز رفتار تحقیق اور مقالے مسترد ہونے کا راز
پی ٹی آئی کی شکست : چار بڑی وجوہات
تحریک انصاف کے فدائین اگر برا نہ مانیں تو اس کی شکست کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔
اس کی شکست کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ساڑھے تین چار برس کے اقتدار کے باوجود یہ جماعت حقائق کا سامنا کرنے سے انکار کرتی ہے۔ یعنی وہ اپنی ناکامی کاسارا بوجھ ماضی کی حکومتوں پر ڈالتی ہے۔ یہ ایک ایسی دلیل ہے جو نفرت کے منفی جذبے سے لت پت کارکن کی تسکین کا باعث ہی بن سکتی ہے۔ چولہا چوکا کرنے والی خاتون خانہ اور خون پسینہ ایک کر کے گھر کے اخراجات پورے کرنے والے سربراہ خانہ کو مطمئن نہیں کر سکتی۔
سچ کا سامنا نہ کرنے کا ایک نقصان اور بھی ہوتا ہے۔ متعصب کارکنوں کی طرح وابستگی نہ رکھنے والے عوام ایسی جماعتوں کے بارے میں منفی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے انتخابات سے اس تاثر کی تصدیق ہوئی ہے۔ آئندہ انتخابی معرکوں میں یہ تاثر تحریک انصاف کو لے ڈوبے گا۔
بدزبانی اور ایک صفحہ
ایک اور سرگرمی بھی سیاسی جماعتوں کو عوام کی نگاہوں سے گرا دیتی ہے۔ یہ سرگرمی ہے، بدزبانی۔ یہ ایک ایسی خامی ہے جس میں تحریک انصاف اپنے مخالفین کو کوسوں پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ تحریک انصاف کی اس انفرادیت نے اس جماعت پر پلٹ کر حملہ کر دیا ہے۔ اب بچت کا کوئی راستہ اس کے لیے باقی نہیں بچا۔ آئندہ انتخابی معرکوں میں یہ حقیقت مزید نکھر کر سامنے آئے گی۔
تحریک انصاف کو ایک صفحے پر بہت ناز تھا۔ ایک صفحے کا تو جو حشر ہوا ہے، وہ اپنی جگہ۔ لیکن اس تاثر نے ایک منفی تاثر کو جنم دیا۔ منفی تاثر یہ ہے کہ یہ جماعت اپنی مقبولیت کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں رکھتی۔ اس کی ساری کامیابی پیساکھیوں یا سرپرستوں کے زور پر رہی ہے۔ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخاب نے اس تاثر کو مضبوط کر دیا ہے۔ عوام یہ سمجھنے لگے ہیں کہ صرف ایک تبادلے نے حکمراں جماعت کی ساری مقبولیت کا پول کھول دیا ہے۔