گذشتہ ہفتے جب روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو دنیا کے بیشتر ممالک نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ رائے عامہ بھی دوحصوں میں تقسیم ہو گئی ایک حصہ بڑی حدتک یوکرائن کی خود مختاری کا حامی اور روسی حملے کو علاقائی غنڈہ گردی قرار دے رکا تھا اور دوسرا علاقائی طاقتوں کے اپنے محلے میں اپنی مرضی کے نفاذ کے حق کا دفاع کرتی نظر آرہی ہے۔
جہاں تک ملکی خود مختاری کے سبق جو آج ہر ایک کی زبان پر کی بات ہے صرف یہئ عرض کیا جاسکتا ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے پڑوس کی آزادی و خودمختاری کو اپنے مفادات کی عینک سے دیکھتی ہیں۔
یہ بھی دیکھئے:
بھارت کے پڑوس میں نیپال و بھوٹان ان کی مرضی کے خلاف دم بھی نہیں مار سکتے، بنگلہ دیش مکمل طور پر بھارت کا تابع مہمل تو نہیں پھر بھی زیادہ دور بھی نہیں، سری لنکا نے آزاد روی کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے جب بھارت نے وہاں تامل ٹائیگر کی سرپرستی کرکے ایک لاکھ سے زیادہ اموات بشمول سری لنکا کے صدر پریماداسا اور کئی وزیر اور اعلی ترین فوجی افسران شامل ہیں کاسبب بنا۔
یہ الگ بات ہے کہ بعد میں بھارت کو بھی اس ایڈونچر کی قیمت ادا کرنی پڑی جب اسوقت کے وزیراعظم نے تامل ٹائیگرز کی حمایت کی پالیسی تو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور ان سے مقابلے یا انہیں راہ راست پرلانے کے لئے اپنی فوج بھیجی اور نہ صرف وہ فوج 32 ماہ میں 1100 فوجیوں کی اموات کے بعد ذلت آمیز طریقے سے واپس آئی بلکہ، اس کی پاداش میں سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی بھی تامل ٹائیگرز کے ہاتھوں مارے گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
اٹھائیس فروری: آج معروف مرثیہ نگار نسیم امروہوی کا یوم وفات ہے
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
معاملہ صرف یوکرین کا نہیں ہے، یورپ بھی سمجھ سکتا کہ روس ہو یا امریکہ کوئی بھی بڑی طاقت اپنی سرحدوں کے ساتھ دشمن فوجی اڈّے برداشت نہیں کرسکتی ۔ یہی حرکت ۱۹۶۲ میں روس نے کی تھی جب کیوبا میں ایٹمی میزائل نصب کر لئے تھے اس پر امریکی ردعمل بھی اتنا شدید تھا کہ دنیا تیسری جنگ عظیم کے دھانے پر پہنچ گئی پھر روس کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
یہاں بھی کہا جاتا ہے کہ ایک خواب دیکھنے والا اداکار عوامی حمایت کے کاندھوں پر سوار ہو کر دور دراز کی طاقتوں کے وعدوں کے بل پر پڑوسی ہاتھی کی سونڈ میں گھسنے کی کوشش کر بیٹھا ۔اور اب پوری قوم کی آزادی وخودمختاری کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق روسی صدر پیوٹن نے جنگ بندی کی جو شرائط پیش کی ہیں ان کے مطابق:-
1. روس کا یوکرائن کے علاقے کریما پر 2014 کے قبضے کو تسلیم کرکے اسے باقایدہ روس کا حصہ تسلیم کیا جائے، واضع رہے کہ کریمیا میں روسی نژاد آبادی کی اکثریت ہے اور ایک متنازعہ ریفرینڈم میں 90 فیصد ووٹ روس سے انضمام کے حق میں آئے تھے۔
2. یوکرائن کی فوج کو ختم کیا جائے۔
3. یوکرائن میں نازی اثرات (غالبا روس مخالف عناصر کو نازی کہا جارہا ہے) ختم کیے جایئں۔
4. یوکرائن کی “غیر جانبدار” حیثیت کو یقینی بنایا جائے ۔
بڑی حدتک یہ وہ شرایط ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جرمنی پر عائد کی گئیں تھی۔ اور ان شرائط کو تسلیم کرنے مطلب عملی طور پر یوکرائن کی آزاد مملک کی حیثیت کا خاتمہ ہوگا۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ معاملات یہاں تک کیسے پہنچے؟ روس کے یوکرائن کے بارے میں عزائم خفیہ نہیں تھے, 2014 کے سقوط کریمیا نے پہلے ہی وارننگ شاٹ فائر کردئیے تھے۔ پھریوکرائن کی حکومت اس صورتحال سے بچنے کے لیے کیا کرسکتی تھی؟
ویسے بھی 1991 تک یوکرائن سویت یونین کا حصہ تھا اور بڑی سلطنتیں و ریاستیں ٹوٹ پھوٹنے کے باوجود اپنی عظمت رفتہ کے خواب سے دستبردار نہیں ہوتیں ۔ یوکرائن بھی روس کے اس ماضی کا یرغمالی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا واقعی روسی صدر پیوٹن یوکرائن کی حکومت کے اقدامات کی وجہ فوجی مداخلت کے پر مجبور ہوا ہے یا روس کے یوکرائن زیر اثر رکھنے کے عزائم نے اسے روسی ریچھ سے بچنے کے لئے ناٹو و یورپین یونین کی پناہ تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑا؟
یقیناً بڑے اور طاقتور مملک اپنی سرحدوں پر اپنے حلقہ اثر سے محفوظ یا دشمنوں سے قریبی تعلقات رکھنے والے ممالک کو پسند نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود چھوٹے ممالک کی آزادانہ پالیسی بنانے کی خواہش کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پولینڈ کی بھی روس سے سرحد ملتی ہے اور وہ 1999 سے ناٹو اور 2004 سے یورپین یونین کا ممبر ہے، اس پر تو روس اتنا چراغپا نہیں ہوا۔
روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد حیرت انگیز بلکہ غیر متوقع طور پر یوکرائن کی مزاحمت نے مبصرین کو ششدر کردیا ۔ یقیناً یہ ابتدائی نتائج ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی اپنی محدودات کی بناپر یوکرائن تنہا روسی فوجی قوت کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔
وقت کے ساتھ یوکرائن کی مزاحمت کو دیکھنے کے بعد پڑوسی یورپین ممالک نے جو ابتدائی حملے کے بعد بڑی حدتک مفلوج ہو گئے تھے، توقعات یہی تھی کہ 24 یا زیادہ سے زیادہ دو دنوں میں پورا ملک روسی قبضے میں ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ بلّی کو بھی مجبور کردیا جائے تو وہ بھی پنجہ مارتی ہے یوکرائن کے صدر جو دو دن قبل یورپ اور امریکہ کی مدد سے مایوس ہو کر روس سے آبرو مندانہ شرائط پر سمجھوتے کے اشارے دے رہے تھے۔
بلکہ وہ یوکرائن ناٹو کی ممبر شپ کے معاملے میں پیچھے ہٹنے کے لیے تیار تھے، چونکہ روس کی کسی بھی مزاکرات سے قبل ہتھیار ڈالنے کی شرط قابل قبول نہیں تھی اس لئے نہ چاہتے ہوہے بھی جنگ جاری رکھنے پر مجبور ہو گئے اور روسی صدر پیوٹن نے طاقت کے زعم میں بحران کے باعزت اور فوری خاتمے کا موقع ضایع کردیا۔
لیکن ایک طرف تو یوکرائن کی فوج و عوام کی غیر متوقع مزاحمت دوسری ابتدائی طور پر یورپین اقوم کی روسی حملے کی رسمی مذمت جسے خاموشی سے نظر انداز کی جاسکتا تھا، لیکن روسی صدر پیوٹن بھی طاقت کے نشے میں چور ہوکر تقرینا تمام ہی پڑوسی یورپین ممالک کو مداخلت کے بدترین نتائج کی دہمکیاں دیکر پورے خطے میں خطرے کی گھنٹیاں بجادیں۔
یورپی ممالک کو اس تنازعے سے دور رکھنے کی کوشش میں دئیے جانے والے جارحانہ بیانات نے اطراف کے تماشہ دیکھنے والے یورپی ممالک کو بھی مستقبل کے خطرے کے سدباب کے لیے میدان میں کودنے پر مجبور کردیا۔
یورپ سے ملنے والی فوری فوجی امداد (جرمنی نے بہت بڑی تعداد میں اسٹنگر میزائل اور اینٹی گائیڈد ٹینک میزائل ATGM فراہم کیے اور مزید اسلحہ راستے میں ہے) نے یوکرائن کی حکومت و فوج کے گرتے ہوئے مورال کو سھارا دیا میدان جنگ کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی سامنے آئی۔
آج یوکرائن کے صدر زیلنسکی نے یورپین یونین سے اپیل کی ہے کہ یوکرائن کو ہنگامی طور پر یورپین یونین کی ممبر شپ دی جائے، سب دیکھنا ہے کہ یورپین یونین کیا فیصلہ کرتی ہے؟ لیکن اس وقت یورپ کا موڈ دیکھتے ہوئے یہ ناممکن نہیں لگتا۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا یوکرائن روس کے لیے دوسرا افغانستان بن سکتا ہے؟ اہم بات یہ ہے کہ یوکرائن میں روسی نژاد آبادی جن کی ہمدردیاں روس کے ساتھ ہیں کہ قابل ذکر تعداد میں ہے۔اس لئے اگر روس قابض ہونے میں کامیاب ہو گیا تو مقامی مزاحمت محدود حدتک ہی ممکن ہے۔
واضع رہے کہ یوکرائن اسوقت ناٹو کا ممبر نہیں ہے۔ اس لئے ناٹو اس کے تحفظ کے لیے جنگ میں کودنے کا پابند نہیں ہے۔ لیکن یوکرائن کی سرحد پر پولینڈ ناٹو کا ممبر ہے۔ اور پولینڈ کے خلاف کسی بھی کاروائی کا نتیجہ ناٹو براہ راست جنگ ہو سکتی ہے۔چونکہ اس وقت پولینڈ ہی یوکرائن کو یورپین اسلحہ کی فراہمی ذریعہ ہے اب یہ روس پر منحصر ہے کہ کیا وہ (پولینڈ کے خلاف کاروائی کرکے) براہ راست ناٹو سے لڑائی چاہے گا یا نہیں۔
یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ پیوٹن نے فن لینڈ اور سوئیڈن (دونوں ناٹو کے ممبر نہیں ہیں )کو دھمکیاں دیکر غلطی کی ہے جس کے نتیجے میں پڑوسی یورپی ممالک روس کو صرف یوکرائن نہیں پوری یورپین کمیونٹی کے لیے خطرہ تصور کرنے پر مجبور کردیا۔
حالت جنگ میں بہتر اسٹریٹجی یہی ہوتی ہے دشمن کو جہاں تک ممکن کو تنہا کردیا جائے تاکہ یہی اسے کہیں اور سے امداد میسر نہ آسکے۔ لیکن اپنے دہمکی آمیز روئیے سے پیوٹن نے دیگر پڑوسی ممالک کو بھی یوکرائن کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کردیا۔ -اب صدر پیوٹن کی دھمکی کے جواب میں فن لینڈ نے بھی یوکرائن کو ہتھیاروں و دیگر دفاعی سازو سامان کی فراہمی کے اعلان کرکے دیا ہے۔
بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس جنگ کے ابتدائی دونوں میں روسی فوج کی غیر متوقع طور پر کمزور کارکردگی اور اس کے ساتھ ہی صدر پیوٹن کی علاقائی ممالک کو دی جانے والی دھمکیوں نے روس کی فوجی طاقت کے رعب و دبدبے کو کم کیا اور دیگر ممالک کو بھی اس جنگ میں یوکرائن کی حمایت میں کھڑے ہونے پر مجبور کردیا۔
جوں جوں یہ جنگ طول پکڑ رہی ہے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حیرت انگیز طور پر اس وقت روسی صدر پیوٹن کے اعصاب جواب دے رہے ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی استعمال کی دہمکی فوجی طور کسی کمزور طاقت کا آخری ہتھیار ہوتا ہے۔
انڈیا پاکستان کے تنازعے میں فوجی طور پر طاقتور بھارت ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل ے نہ کرنے کا اعلان کرتا رہا ہے، لیکن نسبتا کمزور پاکستان نے کبھی ایسا وعدہ واعلان نہیں کیا۔
گذشتہ روز روسی صدر کے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو تیاری کی حالت میں کرنے کا اعلان ایک لحاظ سے اس کی اپنی روایتی جنگی صلاحیتوں عدم اعتماد کا مظہر سمجھا جاسکتا ہے۔ کیا یورپ اس ایٹمی دھمکی کے نتیجے میں یوکرائن کو روس کا ترنوالہ بننے کے لئے چھوڑ دے گا؟
اگر نہیں ! تو کیا دنیا یوکرائن کے معاملے پر تیسری عالمی جنگ کا خطرہ مول لے سکتی ہے؟ یا روس یا یورپ میں سے کسی ایک کو تو پیچھے ہٹنا ہی ہو گا۔یادرہے کہ یورپین ایٹمی طاقتیں صرف برطانیہ اور فرانس ہیں۔باقی یورپی ممالک بڑی حد تک ناٹو کی چھتری پر بھروسہ کرتی ہیں۔
ناٹو کے غیر موثر ہونے کی صورت میں پورا یورپ روس کی رحم و کرم پر آ سکتا ہے۔اسی صورت کو مدنظر رکھتے ہوئے یورپ میں ناٹو کے متبادل کے طور پر یورپی فوجی اتحاد قائم کرنے کی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔
اس وقت تیسری عالمی جنگ کی سرگوشیاں شروع ہو گئی ہیں۔لیکن صورتحال کا جائزہ لینے سے محسوس ہوتا ہے کہ فی الوقت آئندہ جنگ عالمی کی بہ نسبتا علاقائی ہوگی۔
فی الوقت روس کی جنگ اگر پھیلی بھی تو زیادہ امکان براعظم یورپ کی حدتک محدود رہنے کا ہے۔
ایشیا میں سب بڑا تنازعہ چین و تائیوان اور چین و بھارت کا ہے، ویسے چین کے کچھ (بعض سمندری جزیروں کے ) تنازعات جاپان و فلپائن سے بھی ہیں ۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ امریکہ کے روس کے خلاف یورپی جنگ میں اُلجھنے کی وجہ سے وہ ان مقامات پر چین کے خلاف مزاحمت کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔
اب تک کی تاریخ کی مطابق امریکہ و روس کبھی ایک دوسرے سے براہ راست فوجی تصادم تصادم نہیں کرتے ۔یہ کام “چھوٹوں” کے ذریعے ہی کرایا جاتا ہے۔ آخر مرنا چھوٹے نے ہوتا ہے اور جیت ان کی۔۔
لیکن اب روس نے غلطیاں کرنی شروع کردیں ہیں، ان غلطیوں کے نتائج وقت ہی بتا سکتا ہے۔