Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
فرخ سہیل گوئندی معروف پبلشر،سیاسی کارکن ،ادیب اوردانشورہیں۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہوکرقارئین کی بھرپور پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔”میں ہوں جہاں گرد” فرخ سہیل گوئندی کا پہلا سفرنامہ ہے۔کتاب ایک منفردسفرکی داستان ہے جولاہورسے یورپ تک زمینی راستو ں پرسیاحت کرتے مکمل ہوا۔
1983ء میں انہوں نے ایک سیاح کے طور پرسفرکیا اوراس پھراس زمانے کو”میں ہوں جہاں گرد” میں محفوظ کردیا۔ان کے بقول،ایک حقیقی سیاح ہم عصرتاریخ کاگواہ اورمورخ ہوتاہے۔اس کتاب میں فرخ سہیل گوئندی نے ایسے زمانے کومحفوظ کیاہے جواب بیت چکاہے۔ایران اورترکی جوبدلاسوبدلا،سوشلست بلغاریہ توبالکل ہی بدل گیا جسے وہ اپنے سفرمیں سرخ جنت قرار دیتے ہیں ۔
یہ بھی دیکھئے:
”میں ہوں جہاں گرد” اردوکے جدید سفرناموں میں ایک دلچسپ،معلوماتی اورسحرانگیزسفرنامہ ہوگاکہ یہ قاری کواپنے ساتھ ساتھ لے کرچلتاہے۔فرخ سہیل گوئندی نے پچھلے چندبرسوں میں مختلف جرائدمیں اپنے کئی سفروں کولکھا اور پھرقارئین کی دلچسپی اوراصرارکے باعث انہوں نے اپنی یادگارسیاحت کوکتاب کی صورت محفوظ کردیاہے۔یوں”میں ہوں جہاں گرد” ان کا پہلا سفرنامہ ہے۔ یہ ان دیکھے خطو ں،مقامات ،بستیوں،قصبات اور شہروں کی سیاحت اورناقابل یقین واقعات اورداستانوں پرمشتمل اردوادب میں اپنی نوعیت کا پہلاسفر نامہ ہے جوقارئین کوسفرنامہ کے نئے شاندارپہلوؤں سے آشناکرے گا۔
”جہاں نامہ” کے عنوان سے پیش لفظ میں فرخ سہیل گوئندی لکھتے ہیں۔”جنونِ سفراسکول کے زمانے ہی سے تھا۔اسکول کی طرف سے منظم کیے گئے سفروں کے علاوہ میں اسکول کے زمانے میں اپنے شہرسرگودھاکے قریب دریائے جہلم اوردریائے چناب کے کنارے سیاحتی سفرمنظم کیے۔جب کالج پہنچاتوابھرتی جوانی میں گھروالوں سے ‘آزادی سفر’ کاحق لینے میں کامیاب ہوگیا،تب مجھے یہ بے تابی شروع ہوگئی کہ پاسپورٹ حاصل کرنے کی عمرشروع ہوتے ہی سرحدپارکی دنیادیکھناشروع کردوں۔جب پاسپورٹ حاصل کرلیاتوواہگہ کی سرحدپار کر کے ہندوستان چلاگیا۔
ہندوستان کے سفروں نے میری جہاں گردی میں تربیت کاکردار اداکیا۔لیکن میراخواب تھا کہ اپنے قدم مشرق وسطیٰ اور یورپ کی جانب اٹھاؤں۔اور یوں 1983ء میں میں نے اپنی زندگی کی وہ اہم جہاں گردی کی،جس نے مجھے حقیقی معنوں میں جہاں گرد بنادیا۔لاہورسے یورپ تک ٹرینوں،بسوں ،ویگنوں پرسفرکرتے ہوئے میں نے اپنے اس خواب کوحقیقت میں بدلنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
1983ء میں دنیا بہت مختلف تھی۔کسی بھی جگہ کی معلومات حاصل کرناآج کی طرح آسان نہیں تھااورنہ ہی ان ممالک کے حوالے سے زیادہ لٹریچردستیاب تھا۔ایک نوجوان طالب علم ہونے کے ناتے کم وسائل بھی معلومات کے حصول کے لیے کافی نہیں تھے۔اتنے وسائل نہ تھے کہ ڈھیرسی کتابیں خریدتا،اس لیے بڑا ذریعہء معلومات پبلک لائبریری تھی اور وہاں بھی پرانی کتابیں زیادہ تھیں اورنئی کم۔خصو صاً بلغاریہ جیسے سوشلست ممالک کے حوالے سے لٹریچرکی دستیابی مشکل ہی نہیں خطرناک کام تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
یکم اپریل؛ مستنصر حسین تارڑ کی سالگرہ آج منائی جارہی ہے
اٹھائیس فروری: آج معروف مرثیہ نگار نسیم امروہوی کا یوم وفات ہے
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
ہمارے ہاں اگرآپ ان دنوں کسی کمیونسٹ ملک کے بارے میں کچھ پڑھتے پکڑے جاتے توآپ جیل کی ہواکھاسکتے تھے۔”میں ہوں جہاں گرد” ایک ایسی سیاحت کی داستان ہے کہ اگر آج دوبارہ انہی راہوں پرسفرکیاجائے توآج کی دنیااس سے بہت بدل کی ہے۔خمینی کاایران جہاں انقلاب کی حدت ابھی جوبن پرتھی ، ترکی جہاں کنعان ایورن کامارشل لاء عروج پرتھااوربلغاریہ میں کمیونزم۔میں نے اس سیاحت کے دوران جہاں جہاں سفرکیا،وہ قصبے،شہر اورملک آج اڑتیس برس بعدبہت بدل چک ہیں۔
تین دہائیاں بیت جانے کے بعد،اپنے مشاہدات ،واقعات ،روئیدادکواپنی ڈائری پرلکھے چندایک نوٹس اوریادداشتوں سے کریدکرید کررقم کرناخاصادشوارکام تھا،اس کے لیے کروناکی وبانے وہ وقت فراہم کردیاجواس عرق ریزی کے لیے درکارتھا۔مجھے اس کتاب کولکھنے میں دوسال لگے اورمیں نے آج تک جوکچھ بھی تحریرکیا،اس میں یہ مشکل ترین تھا۔تراسی میں استنبو ل کی آبادی پچاس لاکھ تھی تواسے ویساہی لکھنا،یاوہ ایران جہاں ابھی امام خمینی حیات تھے اورایران عراق جنگ اپنے عروج پرتھی اورسب سے بڑھ کرسوشلسٹ بلغاریہ کواسی زمانے میں قیدرہ کرلکھناایک محقق اورسیاح کے طور پرکٹھن کام تھا۔وہ بلغاریہ جومیں نے دیکھا،وہ کمیو نسٹ تھاجبکہ آج کابلغاریہ سرمایہ داردنیاکااہم ملک ہے۔مگراس اولین سفرکوسفرنامے کی صورت دینامیرے لیے یوں ضروری تھاکہ میں اس کے بعددنیاکے مختلف ممالک کی سیاحت کوترتیب سے لکھ سکوں۔”
اس طرح فرخ سہیل گوئندی نے ”میں ہوں جہاں گرد” کوپسندکرنے والے قارئین کومستقبل میں مزیدسفرناموں کی خوش خبری بھی سنائی ہے ۔”میں ہوں جہاں گرد”سات سوچھیاسی صفحات کاضخیم سفرنامہ ہے ۔جس میں آرٹ پیپر کے بتیس اضافی صفحات رنگین تصاویرسے کتاب کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔خوب صورت کمپیوٹرکتابت، بہترجلدبندی،دلکش سرورق سے آراستہ،سرورق اوربیک پیچ کے اندرعمدہ رنگین تصاویرکے ساتھ جمہوری پبلی کیشنز کی بہترین اورمعیاری طباعت کے ساتھ تیرہ سواسی روپے قیمت موجودہ دورکے لحاظ سے کافی کم ہے۔
فرخ سہیل گوئندی کااسلوب سادہ ،دل پذیر اورعام فہم ہے۔وہ جن ملکوں، شہروں اورقصبات سے گزرے ، ان کاذکراس انداز میں کرتے ہیں کہ قاری خود کووہیں محسوس کرنے لگتاہے اورہرچیزاس کی نگاہوں میں پھرجاتی ہے۔یہی نہیں ”میں ہوں جہاں گرد” میں موجودآرٹ پیپر کے بتیس صفحات پرایک سوچوہتردلکش،رنگین تصاویرقاری کے لیے فرخ سہیل گوئندی کادیکھاہرمقام اورعلاقے کوچشم دیدبنادیتے ہیں۔ پھرمصنف جس خطے سے بھی گزرتاہے۔وہاں کی تہذیب،اہم خصوصیات،سیاسی،معاشی اورمعاشرتی صورت حال اورسماج کی تفصیلات بھی بیان کرتے جاتے ہیں۔جس سے قاری کی معلومات میں گراں قدراضافہ ہوتاہے۔
فرخ سہیل کی سیاحت کی بنیادگورنمنٹ کالج لاہور کے استاد مرزامظفرکی بدولت پڑی۔جن کا کہناتھاکہ” گوئندی،تم جنرل ضیاکے خلاف جس قدرمتحرک ہو،اگراس کالج میں داخل ہوئے تو چند ہی روزمیں دھرلیے جاؤ گے۔ان کی یہ نصیحت مجھے ایک نئی دنیا میں لے گئی،جہاں گردی کی دنیا۔تب میں نے مرحوم استاد سے کہا ،تو ٹھیک ہے،میں ہواجہاں گرد۔” اس سیاحت کے لیے وہ بمشکل تین سوڈالرجمع کرسکے۔پھرایران،ترکی اورسب سے بڑھ کرکمیونسٹ بلغاریہ کاویزا لینے کی داستان بھی پر لطف ہے۔خمینی کے ایران اورکنعان ایورن کے ترکی کے ساتھ کمیونسٹ بلغاریہ کے سفرکے مشاہدات قاری کوایک نئی دنیا میں لے جاتے ہیں ۔ ان ممالک کی موجودہ صورتحال میں یہ تذکرے انتہائی دلچسپی کاباعث بنتے ہیں۔
بذریعہ بس ایران جاتے ہوئے راستے میں مصنف کوہپی افرادبھی ملے ۔فرخ سہیل ایک سیاسی کارکن ہیں اس لیے سیاسی تجزیہ کرنے سے خود کوروک نہیں پاتے۔” ہپی دنیامیں یکایک نمودارہو ئے ، کسی شہاب ثاقب کی طرح آئے اوراسی طرح غائب ہوگئے۔مغرب کی مادہ پرستی سے تنگ ہپی،جرمنی سے چلتے،یورپ عبورکرتے ہوئے باسفورس،اناطولیہ،ایشیائے کوچک،ایران ،افغانستان،پاکستان، گنگاجمنا کے دیس اورپھرکھٹمنڈوجاڈیرے لگاتے۔ساگرماتا(ماؤنٹ ایور سٹ) دنیاکے بلندترین پہاڑ کے پہلومیں،نیپال ان ہیپیوںکی جنت اور آخری منزل ہوتی تھی۔سرمایہ داردنیاکے ان باغیوں کی داستان بھی عجب ہے۔
یہ ایسے باغی ہوئے جنہوں نے کبھی کسی کواپنی بغاوت اور باغیانہ طرز زندگی میں تشدد کانشانہ نہیں بنایا۔مال،دولت،سرمایہ دارانہ طرز زندگی کے ان باغیوں نے جہاں جہاں قدم رکھے،وہاں اپنے اثرات چھوڑتے گئے۔باغیوں کی یہ ایک عجیب تحریک تھی،جس کا کوئی رہبرنہیں تھا۔کوئی دفتر،سیکریٹریٹ،چھپامنشور،عہدے دار، لیڈر،رکنیت سازی کاکوئی تصوراور وجود نہیں تھا۔یہ مکمل آزاداور خودمختار تحریک تھی۔سردجنگ کے زمانے میں جنم لینے والے ان باغیوں نے عالمی سیاست اورثقافت پروہ اثرات مرتب کیے کہ عالمی طاقتیںاپنے وسائل اورپراپیگنڈے ے نہ کرپائیں۔ان ہیپیوں میں دنیاکے کئی نامور لوگ بھی شامل ہوئے۔آزادانسانوں کی اس آزادتحریک نے جدید عالمی سیاست پردواہم اثرات مرتب کیے۔جنگ مخالف تحریک اور آلودگی کے خلاف تحریک۔جنگ مخالف ہیپیوں نے امریکی سامراج کوایساجھٹکادیاکہ دنیاکی سیاست ہی بدل گئی۔ان ہیپیوں نے امریکہ میں مظاہروں کے علاوہ ویت نام کے میدان جنگ میں جاکر امریکی فوجیوں کوپھول پیش کرکے،بم کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہتھیار استعمال کرکے ان کے ضمیرکوجھنجھوڑ ڈالا اوریوں امریکہ اپنے ملک کے اندرجاری ویت نام جنگ مخالف تحریک کے نتیجے میں ویت نام چھوڑنے پرمجبورہوا۔
مشہدمیں فرخ سہیل نے تین دن گزارے۔یہیں ایک روزایک بڑا جلوس دیکھا۔جو”مرگ برامریکہ” اور”مرگ برصدام” کے نعرے لگا رہا تھا۔عورتیں سیاہ چادروں میں ملبوس۔فارسی میں پہلی بارانہوںنے یہ نعرے بازی سنی۔جلوس میں چندتابوت بھی شامل تھے،جوعراق کے خلاف لڑتے ہوئے شہداکے تھے اورہاتھوں میں ان کی تصاویر۔امام رضاجب مشہدمیں دفن ہوئے تویہ ایک گاؤں تھا۔اہل تشیع کے آٹھویں امام کی شہادت کے بعداسی مناسبت ہی سے یہ عام سی بستی خاص ہوئی اوراس کانام مشہدپڑگیا،یعنی’جائے شہادت’ ۔آج مشہد،تہران کے بعدایران کادوسرابڑا شہرہے۔امام رضا کے مزارکاکل رقبہ چونسٹھ لاکھ تینتالیس ہزارآٹھ سونوے مربع فٹ ہے ،جس میں صرف مزارکی عمارت کارقبہ دولاکھ سڑسٹھ ہزاراناسی فٹ ہے۔مزارکے اندرمیوزیم،لائبریری،قبرستان،وسیع ہال اورکانفرنس روم ہیں۔کمپلیکس کے اندر مسجدگوہرشاہی رقبے اورنمازیوں کی تعداد کے اعتبارسے دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔مزارسے منسلک ایک یونیورسٹی بھی ہے۔سالانہ جو چندہ اکٹھاہوتاہے،اس سے اس شاندارقیام وطعام کاانتظام اورمتعدد صنعتیں بھی قائم ہیں۔امام رضا ٹرسٹ کے تحت سوسے زائدکارخا نے ہیں اور یہ ایران کاایک بڑا صنعتی ادارہ ہے۔امام رضا کے مزارکی ملکیت میں زرعی زمینیں بھی ہیں۔یہ سب کچھ پلازے اورلاتعدادعمارا ت اکٹھاہونے والے چندے سے قائم کی گئی ہیں۔امام رضا کامزارجس قدرعالی شان ہے،اسی قدراس روضہ مبارک کے تحت چلنے والی صنعتیں،اسکول،یونیورسٹی اورلاتعداد اداروں کاانتظام بھی اپنی مثال آپ ہے۔
ایرانی روٹی شاید دنیا کی طویل ترین روٹی ہوتی ہے۔صبح صبح مردوخواتین اپنے کندھوں پرڈیڑھ دوگزروٹی لٹکائے یوں چل رہے ہوتے ہیں جیسے کپڑے کے تھان اٹھائے ہوں۔ایران میں گھرمیں روٹی پکانے کاتصورشایددیہات میں بھی کم ہے۔ایک اہم ایرانی روایت ‘سرویس’ ہے۔لوگ سڑک کنارے کھڑے ہوکرباآوازبلندانہیں جہاں جانا ہو،پکارتے ہیں۔گزرنے والی گاڑیوں کے مالکان اگر وہاں جارہے ہوں توگاڑی روک کرانہیں بٹھالیتے ہیں اورمسافرگاڑی میں رکھے پیالے میں کرایہ کی رقم ڈال دیتے ہیں۔فرخ سہیل گوئندی نے بھی اس سرویس سے بھرپور استفادہ کیا ۔
فرخ سہیل لکھتے ہیں۔”ایرانی انقلاب کازمانہ میری چڑھتی جوانی کازمانہ تھا۔جب میں اس انقلاب کے چارسال بعدایران داخل ہواتو انقلابِ ایران بھی اپنے جوبن پرتھا جس کے جوبن میں ایران عراق جنگ نے ایندھن کاکام کیا۔عرب فارس تاریخی وتہذیبی تصادم میں برپاایک اہم جنگ جس کے اثرات آج تک مشرقِ وسطیٰ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ان دنوں پاکستانی سفارت خانے پرایرانی خفیہ والے اور دیگر ادارے کڑی نظررکھتے تھے،اس لیے کہ امام خمینی کاانقلاب’مرگ برامریکہ’ کے پرچم تلے ہواتھا اورجنرل ضیا’امریکی پرچم تلے’ حکمرانی کررہاتھا۔ایرانیوں کوپورایقین تھاکہ پاکستانی سفارت خانہ ،جنرل ضیاکے آقاکے مفادات کی بھرپورنگہبانی کررہاہے۔اسی لیے جب جنرل ضیااپنی سفارت کاری کے جوہردکھانے کچھ عرصہ پہلے تہران پہنچاتوایرانی طلبانے تہران کی سڑکوں پرجگہ جگہ بینرلگادیئے۔”سگِ امریکہ آمداست”۔”
”دانشگاہِ تہران”،”اصفہان نصف جہان”،” اصفہان اندراِک جہان”،”شہررے”،”تہران گشت گیری”،”اجڑاایرانی شاہی محل” اور ”تہرا ن میں شام”ان ابواب میں ایران کی تہذیب،ثقافت،روایات اورعوام کارہن سہن کومصنف نے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ روانگی سے قبل آخری روزفرخ سہیل نے گشت گیری(ٹورسٹ آفس )سے ترکی جانے کے بارے میں معلومات حاصل کیں، وہیں وہ تہرا ن کی یادیں تازہ کرکے قارئین کومعلومات فراہم کرتے ہیں۔”تہران شہرکی عجب سیاسی داستانیں ہیں۔دوسری جنگ عظیم تک ایران میں سابق سوویت یونین اوربرطانوی افواج کاکنٹرول رہا۔ایران کوعملاً غیرجانبدار رہناتھا لیکن شہنشاہ ایران رضاشاہ پہلوی کاجھکاؤجرمنی کی طرف تھا۔اسی خوف کے باعث دونوں ممالک نے تیل سے مالامال اس ملک کوزیرکرلیا اور رضاشاہ پہلوی کواقتدارسے نکال باہرکیااوراس کے بیٹے محمدرضاپہلوی کومسند اقتدار پربٹھادیاگیاتاکہ ایران،اتحادی افواج کے ہاتھوں سے نہ نکل پائے۔
سوویت یونین نے اس دوران شمالی ایران اوربرطانیہ نے جنوبی ایران پرقبضہ کرلیا۔شہنشاہ ایران غیرملکی حملہ آوروں کے خلاف لڑناچاہتاتھالیکن اقتدارکے ایوان میں برطانیہ کے گہری ‘سن’ لگارکھی تھی،اسی لیے رضاشاہ کوہٹاکراس کے بیٹے کوتخت پربٹھادیاگیا۔اس کے بعد تین بڑے اتحادی ممالک سابق سوویت یونین،برطانیہ اورامریکہ نے جرمنی کے خلاف مشہورزمانہ کانفرنس اسی شہر میں رکھی جسے’تہران کانفرنس’ کہاجاتاہے۔کانفرنس سوو یت سفارت خانے کے اندرہوئی۔ہٹلر نے بگ تھری(چرچل،روزویلٹ اوراسٹالن) کوکانفرنس کے دوران قتل کامنصوبہ بنایالیکن سوویت یونین کے جاسوسی نظام نے نازی منصوبہ ناکام بنادیا۔تہران کانفرنس ہی میں بعدازجنگ جرمنی کی تقسیم جیسااہم فیصلہ ہوا۔پولینڈکی سرحدا ت کابھی فیصلہ ہوا ، اور روزویلٹ نے اسی کانفرنس میں اقوام متحدہ کاتصور پیش کیا۔”
فرخ سہیل گوئندی کنعان ایورن کے مارشل لا ء دورمیں ترکی پہنچے۔اس وقت پاکستان میں ضیاالحق کامارشل لاء نافذ تھا لیکن ترک مارشل لاء پاکستان سے کہیں زیادہ سخت تھا۔پہلے ہی روزترک فوجوں کی پریڈاورتوپ کے گولوں کے دھماکوں سے انہیں جنگ کاگمان ہوا۔ایک یورپی سیاح نے انہیں بتایااس روزتیس اگست کوترکی کاقومی دن ہے۔
فرخ سہیل ترک قوم کاتجزیہ کرتے ہیں۔” ارضِ روم پہنچنے تک میں نے یہ راز پالیاکہ ترک کس قدرقوم پرست ہیں۔ترک گھروں،عمارات،ہوٹلوں کے استقبالیوں،دکانوں کے اندر،بینکوں ،غرض ہرجگہ ترکی پرچم لاز می ہے اوراس طرح ہرقصبے میں مصطفی کمال کامجسمہ اوران کے نام پرشاہراہوں کے نام۔ترکی کے مشرق سے مغرب کی طرف میراسفر۔ ترک دیہات سے شہروں اورسماج کی اونچ نیچ اوراس کے اندررچے بسے تضادات کوسمجھنے کاایک نادرتجربہ تھااوراس تجربے میں سونے کاسہا گہ تجربہ ایک جرنیلی حکومت کے دنوں میں سیاحت۔مجھے جنرل کنعان ایورن کی فوجی حکومت کی شکل میں،ترک سیاست کے ایک منفردعوا می اورسماجی جائزے کاموقع مل گیا۔”
اسی طرح فرخ سہیل مختلف خطوں،شہروں اورقصبوں کی سیرکرتے اورنت نئے تہذیبوں،معاشروں اورلوگوں کاجائزہ لیتے قاری کوساتھ لیے چلتے ہیں اورپڑھنے والا ہرصفحہ پرآگے کیاکے تجسس میں مبتلا رہتاہے اورصخیم سفرنامے کی دلچسپی کم نہیں ہوتی۔ترک سیاحت کے دوران مصنف کردتحریک،اس کے بانی عبداللہ اوجلان،ترکی،ایران،عراق،شام میں کردوآبادی اوران کی جدوجہد کے بارے میں بھی آگاہ کرتے جاتے ہیں،انہوں نے ایک غلط فہمی بھی دورکی۔”ہمارے اکثر’ماہرین ترکی’جن الفاظ کواردو۔ترکی زبان کے مشترکہ الفاظ قرار دیتے ہیں،اگروہ تھوڑی سی عقل استعمال کریں تواردواورترکی زبان میں مشترک ایسے الفاظ، درحقیقت عربی اورفارسی کے الفاظ ہیں۔یہی تو زبان کی وہ اصلاحات تھیں جوزوال یافتہ عثمانی سلطنت کے بعد ترکوں نے اپنی زبان سے فارس وعرب سرزمین کے الفاظ نکالنے کی کوشش کی کہ ہم ترک ہیں اوربس،نہ عرب نہ عجم۔جبکہ ہمارے ہاںزبان کی ان اصلاحات کواسلامی رسم الخط سے بغاوت قراردیاجاتاہے۔در حقیقت یہ اصلاحات مشرقِ وسطیٰ میں اپنی شناخت قائم کرنے کی طرف اہم قدم تھا۔”
تاریخی عمارتوں کی سیاحت کرتے ہوئے کہیں فرخ سہیل سلجوق حکمرانوںکے تاریخ اورفتوحات کاذکرکرتے ہیں توکہیں عثمانی سلطنت کے عروج وزوال کے داستان بیان کرتے ہیں۔”تین گنبدوں کی طرف گامزن ہواتودیکھاکہ ہاتھ بلندکیے ایک ترک خاتون کامجسمہ، ایک ہا تھ میں بندوق اورماں پشت پرایک ترک سپوت بندھاہواہے۔یہ للکارتی خاتون،ترکوں کی قومی ہیرو’نانے خاتون’ ہے ،جس نے روس ترکی جنگ میںارض روم میں لڑتے ہوئے اپنی مادروطن کادفاع کرکے ترکوں کی بہادری کی تاریخ کوایک اورفخرعطاکردیا۔’نانے خاتون’ ارض روم کی بیٹی تھی مگروہ ترکوں کی ماں کہلائی۔وہ جدیدترکی تاریخ میں بہادری کانشان ہے۔اسے ماؤں کی ماں بھی کہاجاتاہے۔1952ء میں ایک امریکی جرنیل نانے خاتون کوخاص طور پرملنے گیا۔اس نے پوچھا۔اگرتمہیں آج جنگ لڑناپڑے توکیاتم لڑوں گی؟ پچیانوے سالہ ترک ماں نے کہا،’ہاں بالکل ضرور لڑوں گی’۔نانے خاتون ترکوں کی ماں اورارض روم کی پہچان ہے۔”
ذرافرخ سہیل کی زبانی پاکستان اورترکی کاموازنہ ملاحظہ کریں۔” یہاں آکر معلوم ہواکہ ایک پسماندہ قوم میں ایک جدیدشہر’اسلام آباد’ آباد کرلینے اورایک قوم کی ترقی کے سفرمیں انقرہ جیساجدیدشہرآباد کرنے میں بہت فرق ہے۔اسلام آباد ملک سے کٹاہوایایوں کہہ لیجیے کہ ترقی کاایک مصنوعی جزیرہ ہے جبکہ انقرہ ایک تیزرفتارترقی کرتی قوم کاشہر۔جدیدعمارات اورجدید ہی لوگ۔آزادی کے بعد ہم نے تین اہم قومی ادارے بنائے۔پی آئی اے۔پی ٹی وی اورواپڈا۔پی آئی اے نے ایک شاندار اورکامیاب ایئرلائن کے طور پردنیاسے اپنالوہا منوا لیا۔اس کااشتہارتھا’باکمال لوگ،لاجواب پرواز’۔لیکن اب تینوں ہی اپنی کارکردگی کی مدت پوری کرچکے ہیں۔ایک یہ ترک ہیں ساٹھ سال میںیہ مملکت ترقی کی جانب ہی بڑھتی دکھائی دی۔یہ باکمال لوگ نہیں باکمال قوم ہے۔”
ذراچھپن سپوتوں کے شہرارضِ روم کی داستان ملاحظہ کریں۔” ارضِ روم میں جولائی 1919ء سے 4اگست1919ء تک تیرہ دن چھپن بہادرترک سپوت اکھٹے ہوکراپنی قوم کے متعلق فیصلہ نہ کرتے توترکی آج کچھ یونان،کچھ شام،عراق،بلغاریہ،روس ،آرمینیااورنہ جانے کے کس کس کے حصے بٹاہوتا۔آیاصوفیہ اورنیلی مسجدآج یونانی گرجاہوتے اورہم سیاح لوگ قرطبہ کی مشہورزمانہ ہسپانوی مسجد کی طرح،نیلی مسجد استبول کے سامنے تصاویربناتے کہ کبھی یہ مسجدبھی آباد ہواکرتی تھی۔استنبول کے لیے یونان کاویزالیتے اورارض روم کے لیے روس یا آرمینیاکاویزا درکار ہوتا۔
اسی شہرمیں مدبروں نے فیصلہ کیا’Now or Never’ عثمانی خلیفہ برطانوی دربار کامرہون منت ہوچکاتھا، اس کاحشربہادرشاہ ظفرسے بھی زیادہ بھیانک ہوتا۔ایسے میں اس بستی میں مغربی استعمارمشترکہ یلغارکے خلاف ترکوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ارض ِ روم کانگریس نے ترکوں ایک نئے جنم کے فیصلے پراکٹھاکردیا۔برطانیہ ،فرانس کے یونان کے ساتھ مٹتے ترکی پریلغارکردی اورکانگریس نے فیصلہ کیاہم فتح یاب ہوں گے یالڑتے لڑتے مرجائیں گے۔ارضِ روم کاکورکمانڈرکاظم کارابیکروہ عظیم جرنیل تھاجس نے اتاترک کودعوت دی کہ آپ اپنی قوم کافیصلہ کریں۔آپ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں اوراتحادی افواج کے احکامات ماننے والے سلطان کی قانونی دسترس سے آزادہوکرجنگ آزادی کااعلان اوراس کی قیادت کریں۔ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ترکوںکی قسمت کافیصلہ اسی شہر میں ہوا۔زوال اورشکست کی راکھ سے ،ایک سلطنت کی آزادی اورقیام کی جدوجہدشروع ہوئی۔”
جب ترکوں نے جنگ آزادی کااعلان اورآغاز کیااورہندوستان تک اس کی خبرپہنچی تویہاں تحریک خلافت کااعلان کردیاگیا۔اناطولیہ میں برٹش جہازوں سے لاچارترک سلطان کے احکامات اورملاؤں کے فتوے گرائے گئے کہ مصطفی کمال غدار ہی نہیں بلکہ کافر بھی ہے۔سلطان نے کاظم کارابیکراورغازی مصطفی کمال کوگرفتارکرنے کے حکم دیا۔مگراناطولیہ کے لاکھوں کسانوں نے اتحادی افواج کے پٹھوسلطان کے پمفلٹوں اورفتوؤں کومستردکردیا اورمصطفی کمال کی قیادت میں جنگ آزادی شروع کردی جو چاربرس کی عظیم الشان بہادری سے لڑتے ہو ئے کامیاب ہوئی اورجدید ترکی وجود میں آیا۔
ایک بلاتبصرہ اقتباس۔”غازی مصطفی کمال کے مقبرے انت کبیرکے بڑے ہال سے نکلاتویکایک ٹھپ ٹھپ ،فوجی بوٹوں کی آوازکان میں پڑی۔سارادن تعینات فوجی اپنے قائد اورکمانڈرکی آخری آرام گاہ پرجس طرح بڑے پیشہ ورانہ انداز میں جذبات میں آئے بغیراپنی ڈیوٹی بدلتے ہیں، وہ منظراتاترک کی عظمت بیان کرتاہے۔واہگہ بارڈر پرسرحدکی اس طرف اور اُس طرف مسخروں کی طرح ٹانگیں پیشانیوں تک لے جانے جیسا منظر نہیں بلکہ ایک نیشنل آرمی جس کی تاریخ فتوحات سے عبارت ہے،اس کافخرسے لبریزمنظر۔ایک ایسی فوج جوتیسری دنیامیں قوم پرست یعنی نیشنل آرمی ہے جوکسی کلونیل نظام کی پیداوار نہیں اورنہ کسی کلونیل نظام کی وارث ہے۔ایک ایسی فوج جس نے دنیاکی بڑی طاقتو ں کوبیانات سے نہیں بلکہ عملی طور پرجنگ کے میدانوں میں شکست دی۔”
انت کبیرمیں سویاہواترکوں کاباپ اتاترک،علامہ اقبال اورقائداعظم محمدعلی جناح کا پسندیدہ ہیروتھا۔جس نے مغربی استعماری طاقتوں سے لڑکرترکوں کونئی زندگی دی۔1983ء میں جنرل کنعان ایورن کے مارشل لاء کی دہشت کایہ عالم تھا۔فرخ سہیل گوئندی کوایک صبح گھر سے نکال دیاگیا۔میزبان نے اُلس پہنچ کرفون کرنے کاکہا۔فون کرنے پربتایا۔” بہت معذرت خواہ ہوں،تمہیں معلوم نہیں کیاہوا۔انٹیلی جنس کوبھنک پڑگئی کہ ایک غیرملکی ہمارے ہاں ٹھہرا ہواہے جوہمارے ہاں جرم ہے۔خصوصاً فوجی حکام کوبنااطلاع دیے غیرملکی کورکھنا۔ویسے بھی ہماراگھرسرخ نشان سمجھو۔اس طرح یہ جرم دگناہوجاتاہے۔” جنرل کنعان ایورن کی آمریت میں ساڑھے چھ لاکھ لوگوں کوگرفتارکیاگیا ۔ڈھائی لاکھ کافوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوا۔سات ہزارلوگوںکوسزائے موت سنائی گئی۔ایک لاکھ افراد کوفوجی عدالتوں نے مختلف سزائیں دیں۔ہزاروںکوبے روزگارکیا اورہزاروں جلاوطن اورلاپتہ ہوئے۔
فرخ سہیل گوئندی ترکی کی سیاحت کے دوران وہاں کی سیاسی،سماجی،معاشی صورتحال بیان کرتے ہیں۔اسی کے ساتھ اتاترک کے انقلاب اوربرصغیرکی خلافت تحریک کی حقیقت بھی کھول دیتے ہیں۔وہ سیاحت کے اگلے مرحلے میں ”سرخ جنت”یعنی کمیونسٹ بلغار یہ پہنچے جوان کی اصل منزل تھی۔بلغاریہ کے سفرکی داستان بھی کسی الف لیلہ سے کم نہیں۔
”میں ہوں جہاں گرد” ایک انتہائی دلچسپ،منفرداور قابل مطالعہ سفرنامہ ہے۔جس کے نت نئے واقعات،تجزیوں اوردلچسپیوں میں قاری کو کتاب کے اختتام تک پہنچنے کاعلم ہی نہیں ہوتا۔فرخ سہیل گوئندی کوبہترین سفرنامہ پیش کرنے پرمبارک باد،مزیدسفرناموں کاانتظاررہے گا۔
فرخ سہیل گوئندی معروف پبلشر،سیاسی کارکن ،ادیب اوردانشورہیں۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہوکرقارئین کی بھرپور پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔”میں ہوں جہاں گرد” فرخ سہیل گوئندی کا پہلا سفرنامہ ہے۔کتاب ایک منفردسفرکی داستان ہے جولاہورسے یورپ تک زمینی راستو ں پرسیاحت کرتے مکمل ہوا۔
1983ء میں انہوں نے ایک سیاح کے طور پرسفرکیا اوراس پھراس زمانے کو”میں ہوں جہاں گرد” میں محفوظ کردیا۔ان کے بقول،ایک حقیقی سیاح ہم عصرتاریخ کاگواہ اورمورخ ہوتاہے۔اس کتاب میں فرخ سہیل گوئندی نے ایسے زمانے کومحفوظ کیاہے جواب بیت چکاہے۔ایران اورترکی جوبدلاسوبدلا،سوشلست بلغاریہ توبالکل ہی بدل گیا جسے وہ اپنے سفرمیں سرخ جنت قرار دیتے ہیں ۔
یہ بھی دیکھئے:
”میں ہوں جہاں گرد” اردوکے جدید سفرناموں میں ایک دلچسپ،معلوماتی اورسحرانگیزسفرنامہ ہوگاکہ یہ قاری کواپنے ساتھ ساتھ لے کرچلتاہے۔فرخ سہیل گوئندی نے پچھلے چندبرسوں میں مختلف جرائدمیں اپنے کئی سفروں کولکھا اور پھرقارئین کی دلچسپی اوراصرارکے باعث انہوں نے اپنی یادگارسیاحت کوکتاب کی صورت محفوظ کردیاہے۔یوں”میں ہوں جہاں گرد” ان کا پہلا سفرنامہ ہے۔ یہ ان دیکھے خطو ں،مقامات ،بستیوں،قصبات اور شہروں کی سیاحت اورناقابل یقین واقعات اورداستانوں پرمشتمل اردوادب میں اپنی نوعیت کا پہلاسفر نامہ ہے جوقارئین کوسفرنامہ کے نئے شاندارپہلوؤں سے آشناکرے گا۔
”جہاں نامہ” کے عنوان سے پیش لفظ میں فرخ سہیل گوئندی لکھتے ہیں۔”جنونِ سفراسکول کے زمانے ہی سے تھا۔اسکول کی طرف سے منظم کیے گئے سفروں کے علاوہ میں اسکول کے زمانے میں اپنے شہرسرگودھاکے قریب دریائے جہلم اوردریائے چناب کے کنارے سیاحتی سفرمنظم کیے۔جب کالج پہنچاتوابھرتی جوانی میں گھروالوں سے ‘آزادی سفر’ کاحق لینے میں کامیاب ہوگیا،تب مجھے یہ بے تابی شروع ہوگئی کہ پاسپورٹ حاصل کرنے کی عمرشروع ہوتے ہی سرحدپارکی دنیادیکھناشروع کردوں۔جب پاسپورٹ حاصل کرلیاتوواہگہ کی سرحدپار کر کے ہندوستان چلاگیا۔
ہندوستان کے سفروں نے میری جہاں گردی میں تربیت کاکردار اداکیا۔لیکن میراخواب تھا کہ اپنے قدم مشرق وسطیٰ اور یورپ کی جانب اٹھاؤں۔اور یوں 1983ء میں میں نے اپنی زندگی کی وہ اہم جہاں گردی کی،جس نے مجھے حقیقی معنوں میں جہاں گرد بنادیا۔لاہورسے یورپ تک ٹرینوں،بسوں ،ویگنوں پرسفرکرتے ہوئے میں نے اپنے اس خواب کوحقیقت میں بدلنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
1983ء میں دنیا بہت مختلف تھی۔کسی بھی جگہ کی معلومات حاصل کرناآج کی طرح آسان نہیں تھااورنہ ہی ان ممالک کے حوالے سے زیادہ لٹریچردستیاب تھا۔ایک نوجوان طالب علم ہونے کے ناتے کم وسائل بھی معلومات کے حصول کے لیے کافی نہیں تھے۔اتنے وسائل نہ تھے کہ ڈھیرسی کتابیں خریدتا،اس لیے بڑا ذریعہء معلومات پبلک لائبریری تھی اور وہاں بھی پرانی کتابیں زیادہ تھیں اورنئی کم۔خصو صاً بلغاریہ جیسے سوشلست ممالک کے حوالے سے لٹریچرکی دستیابی مشکل ہی نہیں خطرناک کام تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
یکم اپریل؛ مستنصر حسین تارڑ کی سالگرہ آج منائی جارہی ہے
اٹھائیس فروری: آج معروف مرثیہ نگار نسیم امروہوی کا یوم وفات ہے
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
ہمارے ہاں اگرآپ ان دنوں کسی کمیونسٹ ملک کے بارے میں کچھ پڑھتے پکڑے جاتے توآپ جیل کی ہواکھاسکتے تھے۔”میں ہوں جہاں گرد” ایک ایسی سیاحت کی داستان ہے کہ اگر آج دوبارہ انہی راہوں پرسفرکیاجائے توآج کی دنیااس سے بہت بدل کی ہے۔خمینی کاایران جہاں انقلاب کی حدت ابھی جوبن پرتھی ، ترکی جہاں کنعان ایورن کامارشل لاء عروج پرتھااوربلغاریہ میں کمیونزم۔میں نے اس سیاحت کے دوران جہاں جہاں سفرکیا،وہ قصبے،شہر اورملک آج اڑتیس برس بعدبہت بدل چک ہیں۔
تین دہائیاں بیت جانے کے بعد،اپنے مشاہدات ،واقعات ،روئیدادکواپنی ڈائری پرلکھے چندایک نوٹس اوریادداشتوں سے کریدکرید کررقم کرناخاصادشوارکام تھا،اس کے لیے کروناکی وبانے وہ وقت فراہم کردیاجواس عرق ریزی کے لیے درکارتھا۔مجھے اس کتاب کولکھنے میں دوسال لگے اورمیں نے آج تک جوکچھ بھی تحریرکیا،اس میں یہ مشکل ترین تھا۔تراسی میں استنبو ل کی آبادی پچاس لاکھ تھی تواسے ویساہی لکھنا،یاوہ ایران جہاں ابھی امام خمینی حیات تھے اورایران عراق جنگ اپنے عروج پرتھی اورسب سے بڑھ کرسوشلسٹ بلغاریہ کواسی زمانے میں قیدرہ کرلکھناایک محقق اورسیاح کے طور پرکٹھن کام تھا۔وہ بلغاریہ جومیں نے دیکھا،وہ کمیو نسٹ تھاجبکہ آج کابلغاریہ سرمایہ داردنیاکااہم ملک ہے۔مگراس اولین سفرکوسفرنامے کی صورت دینامیرے لیے یوں ضروری تھاکہ میں اس کے بعددنیاکے مختلف ممالک کی سیاحت کوترتیب سے لکھ سکوں۔”
اس طرح فرخ سہیل گوئندی نے ”میں ہوں جہاں گرد” کوپسندکرنے والے قارئین کومستقبل میں مزیدسفرناموں کی خوش خبری بھی سنائی ہے ۔”میں ہوں جہاں گرد”سات سوچھیاسی صفحات کاضخیم سفرنامہ ہے ۔جس میں آرٹ پیپر کے بتیس اضافی صفحات رنگین تصاویرسے کتاب کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔خوب صورت کمپیوٹرکتابت، بہترجلدبندی،دلکش سرورق سے آراستہ،سرورق اوربیک پیچ کے اندرعمدہ رنگین تصاویرکے ساتھ جمہوری پبلی کیشنز کی بہترین اورمعیاری طباعت کے ساتھ تیرہ سواسی روپے قیمت موجودہ دورکے لحاظ سے کافی کم ہے۔
فرخ سہیل گوئندی کااسلوب سادہ ،دل پذیر اورعام فہم ہے۔وہ جن ملکوں، شہروں اورقصبات سے گزرے ، ان کاذکراس انداز میں کرتے ہیں کہ قاری خود کووہیں محسوس کرنے لگتاہے اورہرچیزاس کی نگاہوں میں پھرجاتی ہے۔یہی نہیں ”میں ہوں جہاں گرد” میں موجودآرٹ پیپر کے بتیس صفحات پرایک سوچوہتردلکش،رنگین تصاویرقاری کے لیے فرخ سہیل گوئندی کادیکھاہرمقام اورعلاقے کوچشم دیدبنادیتے ہیں۔ پھرمصنف جس خطے سے بھی گزرتاہے۔وہاں کی تہذیب،اہم خصوصیات،سیاسی،معاشی اورمعاشرتی صورت حال اورسماج کی تفصیلات بھی بیان کرتے جاتے ہیں۔جس سے قاری کی معلومات میں گراں قدراضافہ ہوتاہے۔
فرخ سہیل کی سیاحت کی بنیادگورنمنٹ کالج لاہور کے استاد مرزامظفرکی بدولت پڑی۔جن کا کہناتھاکہ” گوئندی،تم جنرل ضیاکے خلاف جس قدرمتحرک ہو،اگراس کالج میں داخل ہوئے تو چند ہی روزمیں دھرلیے جاؤ گے۔ان کی یہ نصیحت مجھے ایک نئی دنیا میں لے گئی،جہاں گردی کی دنیا۔تب میں نے مرحوم استاد سے کہا ،تو ٹھیک ہے،میں ہواجہاں گرد۔” اس سیاحت کے لیے وہ بمشکل تین سوڈالرجمع کرسکے۔پھرایران،ترکی اورسب سے بڑھ کرکمیونسٹ بلغاریہ کاویزا لینے کی داستان بھی پر لطف ہے۔خمینی کے ایران اورکنعان ایورن کے ترکی کے ساتھ کمیونسٹ بلغاریہ کے سفرکے مشاہدات قاری کوایک نئی دنیا میں لے جاتے ہیں ۔ ان ممالک کی موجودہ صورتحال میں یہ تذکرے انتہائی دلچسپی کاباعث بنتے ہیں۔
بذریعہ بس ایران جاتے ہوئے راستے میں مصنف کوہپی افرادبھی ملے ۔فرخ سہیل ایک سیاسی کارکن ہیں اس لیے سیاسی تجزیہ کرنے سے خود کوروک نہیں پاتے۔” ہپی دنیامیں یکایک نمودارہو ئے ، کسی شہاب ثاقب کی طرح آئے اوراسی طرح غائب ہوگئے۔مغرب کی مادہ پرستی سے تنگ ہپی،جرمنی سے چلتے،یورپ عبورکرتے ہوئے باسفورس،اناطولیہ،ایشیائے کوچک،ایران ،افغانستان،پاکستان، گنگاجمنا کے دیس اورپھرکھٹمنڈوجاڈیرے لگاتے۔ساگرماتا(ماؤنٹ ایور سٹ) دنیاکے بلندترین پہاڑ کے پہلومیں،نیپال ان ہیپیوںکی جنت اور آخری منزل ہوتی تھی۔سرمایہ داردنیاکے ان باغیوں کی داستان بھی عجب ہے۔
یہ ایسے باغی ہوئے جنہوں نے کبھی کسی کواپنی بغاوت اور باغیانہ طرز زندگی میں تشدد کانشانہ نہیں بنایا۔مال،دولت،سرمایہ دارانہ طرز زندگی کے ان باغیوں نے جہاں جہاں قدم رکھے،وہاں اپنے اثرات چھوڑتے گئے۔باغیوں کی یہ ایک عجیب تحریک تھی،جس کا کوئی رہبرنہیں تھا۔کوئی دفتر،سیکریٹریٹ،چھپامنشور،عہدے دار، لیڈر،رکنیت سازی کاکوئی تصوراور وجود نہیں تھا۔یہ مکمل آزاداور خودمختار تحریک تھی۔سردجنگ کے زمانے میں جنم لینے والے ان باغیوں نے عالمی سیاست اورثقافت پروہ اثرات مرتب کیے کہ عالمی طاقتیںاپنے وسائل اورپراپیگنڈے ے نہ کرپائیں۔ان ہیپیوں میں دنیاکے کئی نامور لوگ بھی شامل ہوئے۔آزادانسانوں کی اس آزادتحریک نے جدید عالمی سیاست پردواہم اثرات مرتب کیے۔جنگ مخالف تحریک اور آلودگی کے خلاف تحریک۔جنگ مخالف ہیپیوں نے امریکی سامراج کوایساجھٹکادیاکہ دنیاکی سیاست ہی بدل گئی۔ان ہیپیوں نے امریکہ میں مظاہروں کے علاوہ ویت نام کے میدان جنگ میں جاکر امریکی فوجیوں کوپھول پیش کرکے،بم کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہتھیار استعمال کرکے ان کے ضمیرکوجھنجھوڑ ڈالا اوریوں امریکہ اپنے ملک کے اندرجاری ویت نام جنگ مخالف تحریک کے نتیجے میں ویت نام چھوڑنے پرمجبورہوا۔
مشہدمیں فرخ سہیل نے تین دن گزارے۔یہیں ایک روزایک بڑا جلوس دیکھا۔جو”مرگ برامریکہ” اور”مرگ برصدام” کے نعرے لگا رہا تھا۔عورتیں سیاہ چادروں میں ملبوس۔فارسی میں پہلی بارانہوںنے یہ نعرے بازی سنی۔جلوس میں چندتابوت بھی شامل تھے،جوعراق کے خلاف لڑتے ہوئے شہداکے تھے اورہاتھوں میں ان کی تصاویر۔امام رضاجب مشہدمیں دفن ہوئے تویہ ایک گاؤں تھا۔اہل تشیع کے آٹھویں امام کی شہادت کے بعداسی مناسبت ہی سے یہ عام سی بستی خاص ہوئی اوراس کانام مشہدپڑگیا،یعنی’جائے شہادت’ ۔آج مشہد،تہران کے بعدایران کادوسرابڑا شہرہے۔امام رضا کے مزارکاکل رقبہ چونسٹھ لاکھ تینتالیس ہزارآٹھ سونوے مربع فٹ ہے ،جس میں صرف مزارکی عمارت کارقبہ دولاکھ سڑسٹھ ہزاراناسی فٹ ہے۔مزارکے اندرمیوزیم،لائبریری،قبرستان،وسیع ہال اورکانفرنس روم ہیں۔کمپلیکس کے اندر مسجدگوہرشاہی رقبے اورنمازیوں کی تعداد کے اعتبارسے دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔مزارسے منسلک ایک یونیورسٹی بھی ہے۔سالانہ جو چندہ اکٹھاہوتاہے،اس سے اس شاندارقیام وطعام کاانتظام اورمتعدد صنعتیں بھی قائم ہیں۔امام رضا ٹرسٹ کے تحت سوسے زائدکارخا نے ہیں اور یہ ایران کاایک بڑا صنعتی ادارہ ہے۔امام رضا کے مزارکی ملکیت میں زرعی زمینیں بھی ہیں۔یہ سب کچھ پلازے اورلاتعدادعمارا ت اکٹھاہونے والے چندے سے قائم کی گئی ہیں۔امام رضا کامزارجس قدرعالی شان ہے،اسی قدراس روضہ مبارک کے تحت چلنے والی صنعتیں،اسکول،یونیورسٹی اورلاتعداد اداروں کاانتظام بھی اپنی مثال آپ ہے۔
ایرانی روٹی شاید دنیا کی طویل ترین روٹی ہوتی ہے۔صبح صبح مردوخواتین اپنے کندھوں پرڈیڑھ دوگزروٹی لٹکائے یوں چل رہے ہوتے ہیں جیسے کپڑے کے تھان اٹھائے ہوں۔ایران میں گھرمیں روٹی پکانے کاتصورشایددیہات میں بھی کم ہے۔ایک اہم ایرانی روایت ‘سرویس’ ہے۔لوگ سڑک کنارے کھڑے ہوکرباآوازبلندانہیں جہاں جانا ہو،پکارتے ہیں۔گزرنے والی گاڑیوں کے مالکان اگر وہاں جارہے ہوں توگاڑی روک کرانہیں بٹھالیتے ہیں اورمسافرگاڑی میں رکھے پیالے میں کرایہ کی رقم ڈال دیتے ہیں۔فرخ سہیل گوئندی نے بھی اس سرویس سے بھرپور استفادہ کیا ۔
فرخ سہیل لکھتے ہیں۔”ایرانی انقلاب کازمانہ میری چڑھتی جوانی کازمانہ تھا۔جب میں اس انقلاب کے چارسال بعدایران داخل ہواتو انقلابِ ایران بھی اپنے جوبن پرتھا جس کے جوبن میں ایران عراق جنگ نے ایندھن کاکام کیا۔عرب فارس تاریخی وتہذیبی تصادم میں برپاایک اہم جنگ جس کے اثرات آج تک مشرقِ وسطیٰ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ان دنوں پاکستانی سفارت خانے پرایرانی خفیہ والے اور دیگر ادارے کڑی نظررکھتے تھے،اس لیے کہ امام خمینی کاانقلاب’مرگ برامریکہ’ کے پرچم تلے ہواتھا اورجنرل ضیا’امریکی پرچم تلے’ حکمرانی کررہاتھا۔ایرانیوں کوپورایقین تھاکہ پاکستانی سفارت خانہ ،جنرل ضیاکے آقاکے مفادات کی بھرپورنگہبانی کررہاہے۔اسی لیے جب جنرل ضیااپنی سفارت کاری کے جوہردکھانے کچھ عرصہ پہلے تہران پہنچاتوایرانی طلبانے تہران کی سڑکوں پرجگہ جگہ بینرلگادیئے۔”سگِ امریکہ آمداست”۔”
”دانشگاہِ تہران”،”اصفہان نصف جہان”،” اصفہان اندراِک جہان”،”شہررے”،”تہران گشت گیری”،”اجڑاایرانی شاہی محل” اور ”تہرا ن میں شام”ان ابواب میں ایران کی تہذیب،ثقافت،روایات اورعوام کارہن سہن کومصنف نے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ روانگی سے قبل آخری روزفرخ سہیل نے گشت گیری(ٹورسٹ آفس )سے ترکی جانے کے بارے میں معلومات حاصل کیں، وہیں وہ تہرا ن کی یادیں تازہ کرکے قارئین کومعلومات فراہم کرتے ہیں۔”تہران شہرکی عجب سیاسی داستانیں ہیں۔دوسری جنگ عظیم تک ایران میں سابق سوویت یونین اوربرطانوی افواج کاکنٹرول رہا۔ایران کوعملاً غیرجانبدار رہناتھا لیکن شہنشاہ ایران رضاشاہ پہلوی کاجھکاؤجرمنی کی طرف تھا۔اسی خوف کے باعث دونوں ممالک نے تیل سے مالامال اس ملک کوزیرکرلیا اور رضاشاہ پہلوی کواقتدارسے نکال باہرکیااوراس کے بیٹے محمدرضاپہلوی کومسند اقتدار پربٹھادیاگیاتاکہ ایران،اتحادی افواج کے ہاتھوں سے نہ نکل پائے۔
سوویت یونین نے اس دوران شمالی ایران اوربرطانیہ نے جنوبی ایران پرقبضہ کرلیا۔شہنشاہ ایران غیرملکی حملہ آوروں کے خلاف لڑناچاہتاتھالیکن اقتدارکے ایوان میں برطانیہ کے گہری ‘سن’ لگارکھی تھی،اسی لیے رضاشاہ کوہٹاکراس کے بیٹے کوتخت پربٹھادیاگیا۔اس کے بعد تین بڑے اتحادی ممالک سابق سوویت یونین،برطانیہ اورامریکہ نے جرمنی کے خلاف مشہورزمانہ کانفرنس اسی شہر میں رکھی جسے’تہران کانفرنس’ کہاجاتاہے۔کانفرنس سوو یت سفارت خانے کے اندرہوئی۔ہٹلر نے بگ تھری(چرچل،روزویلٹ اوراسٹالن) کوکانفرنس کے دوران قتل کامنصوبہ بنایالیکن سوویت یونین کے جاسوسی نظام نے نازی منصوبہ ناکام بنادیا۔تہران کانفرنس ہی میں بعدازجنگ جرمنی کی تقسیم جیسااہم فیصلہ ہوا۔پولینڈکی سرحدا ت کابھی فیصلہ ہوا ، اور روزویلٹ نے اسی کانفرنس میں اقوام متحدہ کاتصور پیش کیا۔”
فرخ سہیل گوئندی کنعان ایورن کے مارشل لا ء دورمیں ترکی پہنچے۔اس وقت پاکستان میں ضیاالحق کامارشل لاء نافذ تھا لیکن ترک مارشل لاء پاکستان سے کہیں زیادہ سخت تھا۔پہلے ہی روزترک فوجوں کی پریڈاورتوپ کے گولوں کے دھماکوں سے انہیں جنگ کاگمان ہوا۔ایک یورپی سیاح نے انہیں بتایااس روزتیس اگست کوترکی کاقومی دن ہے۔
فرخ سہیل ترک قوم کاتجزیہ کرتے ہیں۔” ارضِ روم پہنچنے تک میں نے یہ راز پالیاکہ ترک کس قدرقوم پرست ہیں۔ترک گھروں،عمارات،ہوٹلوں کے استقبالیوں،دکانوں کے اندر،بینکوں ،غرض ہرجگہ ترکی پرچم لاز می ہے اوراس طرح ہرقصبے میں مصطفی کمال کامجسمہ اوران کے نام پرشاہراہوں کے نام۔ترکی کے مشرق سے مغرب کی طرف میراسفر۔ ترک دیہات سے شہروں اورسماج کی اونچ نیچ اوراس کے اندررچے بسے تضادات کوسمجھنے کاایک نادرتجربہ تھااوراس تجربے میں سونے کاسہا گہ تجربہ ایک جرنیلی حکومت کے دنوں میں سیاحت۔مجھے جنرل کنعان ایورن کی فوجی حکومت کی شکل میں،ترک سیاست کے ایک منفردعوا می اورسماجی جائزے کاموقع مل گیا۔”
اسی طرح فرخ سہیل مختلف خطوں،شہروں اورقصبوں کی سیرکرتے اورنت نئے تہذیبوں،معاشروں اورلوگوں کاجائزہ لیتے قاری کوساتھ لیے چلتے ہیں اورپڑھنے والا ہرصفحہ پرآگے کیاکے تجسس میں مبتلا رہتاہے اورصخیم سفرنامے کی دلچسپی کم نہیں ہوتی۔ترک سیاحت کے دوران مصنف کردتحریک،اس کے بانی عبداللہ اوجلان،ترکی،ایران،عراق،شام میں کردوآبادی اوران کی جدوجہد کے بارے میں بھی آگاہ کرتے جاتے ہیں،انہوں نے ایک غلط فہمی بھی دورکی۔”ہمارے اکثر’ماہرین ترکی’جن الفاظ کواردو۔ترکی زبان کے مشترکہ الفاظ قرار دیتے ہیں،اگروہ تھوڑی سی عقل استعمال کریں تواردواورترکی زبان میں مشترک ایسے الفاظ، درحقیقت عربی اورفارسی کے الفاظ ہیں۔یہی تو زبان کی وہ اصلاحات تھیں جوزوال یافتہ عثمانی سلطنت کے بعد ترکوں نے اپنی زبان سے فارس وعرب سرزمین کے الفاظ نکالنے کی کوشش کی کہ ہم ترک ہیں اوربس،نہ عرب نہ عجم۔جبکہ ہمارے ہاںزبان کی ان اصلاحات کواسلامی رسم الخط سے بغاوت قراردیاجاتاہے۔در حقیقت یہ اصلاحات مشرقِ وسطیٰ میں اپنی شناخت قائم کرنے کی طرف اہم قدم تھا۔”
تاریخی عمارتوں کی سیاحت کرتے ہوئے کہیں فرخ سہیل سلجوق حکمرانوںکے تاریخ اورفتوحات کاذکرکرتے ہیں توکہیں عثمانی سلطنت کے عروج وزوال کے داستان بیان کرتے ہیں۔”تین گنبدوں کی طرف گامزن ہواتودیکھاکہ ہاتھ بلندکیے ایک ترک خاتون کامجسمہ، ایک ہا تھ میں بندوق اورماں پشت پرایک ترک سپوت بندھاہواہے۔یہ للکارتی خاتون،ترکوں کی قومی ہیرو’نانے خاتون’ ہے ،جس نے روس ترکی جنگ میںارض روم میں لڑتے ہوئے اپنی مادروطن کادفاع کرکے ترکوں کی بہادری کی تاریخ کوایک اورفخرعطاکردیا۔’نانے خاتون’ ارض روم کی بیٹی تھی مگروہ ترکوں کی ماں کہلائی۔وہ جدیدترکی تاریخ میں بہادری کانشان ہے۔اسے ماؤں کی ماں بھی کہاجاتاہے۔1952ء میں ایک امریکی جرنیل نانے خاتون کوخاص طور پرملنے گیا۔اس نے پوچھا۔اگرتمہیں آج جنگ لڑناپڑے توکیاتم لڑوں گی؟ پچیانوے سالہ ترک ماں نے کہا،’ہاں بالکل ضرور لڑوں گی’۔نانے خاتون ترکوں کی ماں اورارض روم کی پہچان ہے۔”
ذرافرخ سہیل کی زبانی پاکستان اورترکی کاموازنہ ملاحظہ کریں۔” یہاں آکر معلوم ہواکہ ایک پسماندہ قوم میں ایک جدیدشہر’اسلام آباد’ آباد کرلینے اورایک قوم کی ترقی کے سفرمیں انقرہ جیساجدیدشہرآباد کرنے میں بہت فرق ہے۔اسلام آباد ملک سے کٹاہوایایوں کہہ لیجیے کہ ترقی کاایک مصنوعی جزیرہ ہے جبکہ انقرہ ایک تیزرفتارترقی کرتی قوم کاشہر۔جدیدعمارات اورجدید ہی لوگ۔آزادی کے بعد ہم نے تین اہم قومی ادارے بنائے۔پی آئی اے۔پی ٹی وی اورواپڈا۔پی آئی اے نے ایک شاندار اورکامیاب ایئرلائن کے طور پردنیاسے اپنالوہا منوا لیا۔اس کااشتہارتھا’باکمال لوگ،لاجواب پرواز’۔لیکن اب تینوں ہی اپنی کارکردگی کی مدت پوری کرچکے ہیں۔ایک یہ ترک ہیں ساٹھ سال میںیہ مملکت ترقی کی جانب ہی بڑھتی دکھائی دی۔یہ باکمال لوگ نہیں باکمال قوم ہے۔”
ذراچھپن سپوتوں کے شہرارضِ روم کی داستان ملاحظہ کریں۔” ارضِ روم میں جولائی 1919ء سے 4اگست1919ء تک تیرہ دن چھپن بہادرترک سپوت اکھٹے ہوکراپنی قوم کے متعلق فیصلہ نہ کرتے توترکی آج کچھ یونان،کچھ شام،عراق،بلغاریہ،روس ،آرمینیااورنہ جانے کے کس کس کے حصے بٹاہوتا۔آیاصوفیہ اورنیلی مسجدآج یونانی گرجاہوتے اورہم سیاح لوگ قرطبہ کی مشہورزمانہ ہسپانوی مسجد کی طرح،نیلی مسجد استبول کے سامنے تصاویربناتے کہ کبھی یہ مسجدبھی آباد ہواکرتی تھی۔استنبول کے لیے یونان کاویزالیتے اورارض روم کے لیے روس یا آرمینیاکاویزا درکار ہوتا۔
اسی شہرمیں مدبروں نے فیصلہ کیا’Now or Never’ عثمانی خلیفہ برطانوی دربار کامرہون منت ہوچکاتھا، اس کاحشربہادرشاہ ظفرسے بھی زیادہ بھیانک ہوتا۔ایسے میں اس بستی میں مغربی استعمارمشترکہ یلغارکے خلاف ترکوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ارض ِ روم کانگریس نے ترکوں ایک نئے جنم کے فیصلے پراکٹھاکردیا۔برطانیہ ،فرانس کے یونان کے ساتھ مٹتے ترکی پریلغارکردی اورکانگریس نے فیصلہ کیاہم فتح یاب ہوں گے یالڑتے لڑتے مرجائیں گے۔ارضِ روم کاکورکمانڈرکاظم کارابیکروہ عظیم جرنیل تھاجس نے اتاترک کودعوت دی کہ آپ اپنی قوم کافیصلہ کریں۔آپ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں اوراتحادی افواج کے احکامات ماننے والے سلطان کی قانونی دسترس سے آزادہوکرجنگ آزادی کااعلان اوراس کی قیادت کریں۔ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ترکوںکی قسمت کافیصلہ اسی شہر میں ہوا۔زوال اورشکست کی راکھ سے ،ایک سلطنت کی آزادی اورقیام کی جدوجہدشروع ہوئی۔”
جب ترکوں نے جنگ آزادی کااعلان اورآغاز کیااورہندوستان تک اس کی خبرپہنچی تویہاں تحریک خلافت کااعلان کردیاگیا۔اناطولیہ میں برٹش جہازوں سے لاچارترک سلطان کے احکامات اورملاؤں کے فتوے گرائے گئے کہ مصطفی کمال غدار ہی نہیں بلکہ کافر بھی ہے۔سلطان نے کاظم کارابیکراورغازی مصطفی کمال کوگرفتارکرنے کے حکم دیا۔مگراناطولیہ کے لاکھوں کسانوں نے اتحادی افواج کے پٹھوسلطان کے پمفلٹوں اورفتوؤں کومستردکردیا اورمصطفی کمال کی قیادت میں جنگ آزادی شروع کردی جو چاربرس کی عظیم الشان بہادری سے لڑتے ہو ئے کامیاب ہوئی اورجدید ترکی وجود میں آیا۔
ایک بلاتبصرہ اقتباس۔”غازی مصطفی کمال کے مقبرے انت کبیرکے بڑے ہال سے نکلاتویکایک ٹھپ ٹھپ ،فوجی بوٹوں کی آوازکان میں پڑی۔سارادن تعینات فوجی اپنے قائد اورکمانڈرکی آخری آرام گاہ پرجس طرح بڑے پیشہ ورانہ انداز میں جذبات میں آئے بغیراپنی ڈیوٹی بدلتے ہیں، وہ منظراتاترک کی عظمت بیان کرتاہے۔واہگہ بارڈر پرسرحدکی اس طرف اور اُس طرف مسخروں کی طرح ٹانگیں پیشانیوں تک لے جانے جیسا منظر نہیں بلکہ ایک نیشنل آرمی جس کی تاریخ فتوحات سے عبارت ہے،اس کافخرسے لبریزمنظر۔ایک ایسی فوج جوتیسری دنیامیں قوم پرست یعنی نیشنل آرمی ہے جوکسی کلونیل نظام کی پیداوار نہیں اورنہ کسی کلونیل نظام کی وارث ہے۔ایک ایسی فوج جس نے دنیاکی بڑی طاقتو ں کوبیانات سے نہیں بلکہ عملی طور پرجنگ کے میدانوں میں شکست دی۔”
انت کبیرمیں سویاہواترکوں کاباپ اتاترک،علامہ اقبال اورقائداعظم محمدعلی جناح کا پسندیدہ ہیروتھا۔جس نے مغربی استعماری طاقتوں سے لڑکرترکوں کونئی زندگی دی۔1983ء میں جنرل کنعان ایورن کے مارشل لاء کی دہشت کایہ عالم تھا۔فرخ سہیل گوئندی کوایک صبح گھر سے نکال دیاگیا۔میزبان نے اُلس پہنچ کرفون کرنے کاکہا۔فون کرنے پربتایا۔” بہت معذرت خواہ ہوں،تمہیں معلوم نہیں کیاہوا۔انٹیلی جنس کوبھنک پڑگئی کہ ایک غیرملکی ہمارے ہاں ٹھہرا ہواہے جوہمارے ہاں جرم ہے۔خصوصاً فوجی حکام کوبنااطلاع دیے غیرملکی کورکھنا۔ویسے بھی ہماراگھرسرخ نشان سمجھو۔اس طرح یہ جرم دگناہوجاتاہے۔” جنرل کنعان ایورن کی آمریت میں ساڑھے چھ لاکھ لوگوں کوگرفتارکیاگیا ۔ڈھائی لاکھ کافوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوا۔سات ہزارلوگوںکوسزائے موت سنائی گئی۔ایک لاکھ افراد کوفوجی عدالتوں نے مختلف سزائیں دیں۔ہزاروںکوبے روزگارکیا اورہزاروں جلاوطن اورلاپتہ ہوئے۔
فرخ سہیل گوئندی ترکی کی سیاحت کے دوران وہاں کی سیاسی،سماجی،معاشی صورتحال بیان کرتے ہیں۔اسی کے ساتھ اتاترک کے انقلاب اوربرصغیرکی خلافت تحریک کی حقیقت بھی کھول دیتے ہیں۔وہ سیاحت کے اگلے مرحلے میں ”سرخ جنت”یعنی کمیونسٹ بلغار یہ پہنچے جوان کی اصل منزل تھی۔بلغاریہ کے سفرکی داستان بھی کسی الف لیلہ سے کم نہیں۔
”میں ہوں جہاں گرد” ایک انتہائی دلچسپ،منفرداور قابل مطالعہ سفرنامہ ہے۔جس کے نت نئے واقعات،تجزیوں اوردلچسپیوں میں قاری کو کتاب کے اختتام تک پہنچنے کاعلم ہی نہیں ہوتا۔فرخ سہیل گوئندی کوبہترین سفرنامہ پیش کرنے پرمبارک باد،مزیدسفرناموں کاانتظاررہے گا۔
فرخ سہیل گوئندی معروف پبلشر،سیاسی کارکن ،ادیب اوردانشورہیں۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہوکرقارئین کی بھرپور پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔”میں ہوں جہاں گرد” فرخ سہیل گوئندی کا پہلا سفرنامہ ہے۔کتاب ایک منفردسفرکی داستان ہے جولاہورسے یورپ تک زمینی راستو ں پرسیاحت کرتے مکمل ہوا۔
1983ء میں انہوں نے ایک سیاح کے طور پرسفرکیا اوراس پھراس زمانے کو”میں ہوں جہاں گرد” میں محفوظ کردیا۔ان کے بقول،ایک حقیقی سیاح ہم عصرتاریخ کاگواہ اورمورخ ہوتاہے۔اس کتاب میں فرخ سہیل گوئندی نے ایسے زمانے کومحفوظ کیاہے جواب بیت چکاہے۔ایران اورترکی جوبدلاسوبدلا،سوشلست بلغاریہ توبالکل ہی بدل گیا جسے وہ اپنے سفرمیں سرخ جنت قرار دیتے ہیں ۔
یہ بھی دیکھئے:
”میں ہوں جہاں گرد” اردوکے جدید سفرناموں میں ایک دلچسپ،معلوماتی اورسحرانگیزسفرنامہ ہوگاکہ یہ قاری کواپنے ساتھ ساتھ لے کرچلتاہے۔فرخ سہیل گوئندی نے پچھلے چندبرسوں میں مختلف جرائدمیں اپنے کئی سفروں کولکھا اور پھرقارئین کی دلچسپی اوراصرارکے باعث انہوں نے اپنی یادگارسیاحت کوکتاب کی صورت محفوظ کردیاہے۔یوں”میں ہوں جہاں گرد” ان کا پہلا سفرنامہ ہے۔ یہ ان دیکھے خطو ں،مقامات ،بستیوں،قصبات اور شہروں کی سیاحت اورناقابل یقین واقعات اورداستانوں پرمشتمل اردوادب میں اپنی نوعیت کا پہلاسفر نامہ ہے جوقارئین کوسفرنامہ کے نئے شاندارپہلوؤں سے آشناکرے گا۔
”جہاں نامہ” کے عنوان سے پیش لفظ میں فرخ سہیل گوئندی لکھتے ہیں۔”جنونِ سفراسکول کے زمانے ہی سے تھا۔اسکول کی طرف سے منظم کیے گئے سفروں کے علاوہ میں اسکول کے زمانے میں اپنے شہرسرگودھاکے قریب دریائے جہلم اوردریائے چناب کے کنارے سیاحتی سفرمنظم کیے۔جب کالج پہنچاتوابھرتی جوانی میں گھروالوں سے ‘آزادی سفر’ کاحق لینے میں کامیاب ہوگیا،تب مجھے یہ بے تابی شروع ہوگئی کہ پاسپورٹ حاصل کرنے کی عمرشروع ہوتے ہی سرحدپارکی دنیادیکھناشروع کردوں۔جب پاسپورٹ حاصل کرلیاتوواہگہ کی سرحدپار کر کے ہندوستان چلاگیا۔
ہندوستان کے سفروں نے میری جہاں گردی میں تربیت کاکردار اداکیا۔لیکن میراخواب تھا کہ اپنے قدم مشرق وسطیٰ اور یورپ کی جانب اٹھاؤں۔اور یوں 1983ء میں میں نے اپنی زندگی کی وہ اہم جہاں گردی کی،جس نے مجھے حقیقی معنوں میں جہاں گرد بنادیا۔لاہورسے یورپ تک ٹرینوں،بسوں ،ویگنوں پرسفرکرتے ہوئے میں نے اپنے اس خواب کوحقیقت میں بدلنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
1983ء میں دنیا بہت مختلف تھی۔کسی بھی جگہ کی معلومات حاصل کرناآج کی طرح آسان نہیں تھااورنہ ہی ان ممالک کے حوالے سے زیادہ لٹریچردستیاب تھا۔ایک نوجوان طالب علم ہونے کے ناتے کم وسائل بھی معلومات کے حصول کے لیے کافی نہیں تھے۔اتنے وسائل نہ تھے کہ ڈھیرسی کتابیں خریدتا،اس لیے بڑا ذریعہء معلومات پبلک لائبریری تھی اور وہاں بھی پرانی کتابیں زیادہ تھیں اورنئی کم۔خصو صاً بلغاریہ جیسے سوشلست ممالک کے حوالے سے لٹریچرکی دستیابی مشکل ہی نہیں خطرناک کام تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
یکم اپریل؛ مستنصر حسین تارڑ کی سالگرہ آج منائی جارہی ہے
اٹھائیس فروری: آج معروف مرثیہ نگار نسیم امروہوی کا یوم وفات ہے
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
ہمارے ہاں اگرآپ ان دنوں کسی کمیونسٹ ملک کے بارے میں کچھ پڑھتے پکڑے جاتے توآپ جیل کی ہواکھاسکتے تھے۔”میں ہوں جہاں گرد” ایک ایسی سیاحت کی داستان ہے کہ اگر آج دوبارہ انہی راہوں پرسفرکیاجائے توآج کی دنیااس سے بہت بدل کی ہے۔خمینی کاایران جہاں انقلاب کی حدت ابھی جوبن پرتھی ، ترکی جہاں کنعان ایورن کامارشل لاء عروج پرتھااوربلغاریہ میں کمیونزم۔میں نے اس سیاحت کے دوران جہاں جہاں سفرکیا،وہ قصبے،شہر اورملک آج اڑتیس برس بعدبہت بدل چک ہیں۔
تین دہائیاں بیت جانے کے بعد،اپنے مشاہدات ،واقعات ،روئیدادکواپنی ڈائری پرلکھے چندایک نوٹس اوریادداشتوں سے کریدکرید کررقم کرناخاصادشوارکام تھا،اس کے لیے کروناکی وبانے وہ وقت فراہم کردیاجواس عرق ریزی کے لیے درکارتھا۔مجھے اس کتاب کولکھنے میں دوسال لگے اورمیں نے آج تک جوکچھ بھی تحریرکیا،اس میں یہ مشکل ترین تھا۔تراسی میں استنبو ل کی آبادی پچاس لاکھ تھی تواسے ویساہی لکھنا،یاوہ ایران جہاں ابھی امام خمینی حیات تھے اورایران عراق جنگ اپنے عروج پرتھی اورسب سے بڑھ کرسوشلسٹ بلغاریہ کواسی زمانے میں قیدرہ کرلکھناایک محقق اورسیاح کے طور پرکٹھن کام تھا۔وہ بلغاریہ جومیں نے دیکھا،وہ کمیو نسٹ تھاجبکہ آج کابلغاریہ سرمایہ داردنیاکااہم ملک ہے۔مگراس اولین سفرکوسفرنامے کی صورت دینامیرے لیے یوں ضروری تھاکہ میں اس کے بعددنیاکے مختلف ممالک کی سیاحت کوترتیب سے لکھ سکوں۔”
اس طرح فرخ سہیل گوئندی نے ”میں ہوں جہاں گرد” کوپسندکرنے والے قارئین کومستقبل میں مزیدسفرناموں کی خوش خبری بھی سنائی ہے ۔”میں ہوں جہاں گرد”سات سوچھیاسی صفحات کاضخیم سفرنامہ ہے ۔جس میں آرٹ پیپر کے بتیس اضافی صفحات رنگین تصاویرسے کتاب کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔خوب صورت کمپیوٹرکتابت، بہترجلدبندی،دلکش سرورق سے آراستہ،سرورق اوربیک پیچ کے اندرعمدہ رنگین تصاویرکے ساتھ جمہوری پبلی کیشنز کی بہترین اورمعیاری طباعت کے ساتھ تیرہ سواسی روپے قیمت موجودہ دورکے لحاظ سے کافی کم ہے۔
فرخ سہیل گوئندی کااسلوب سادہ ،دل پذیر اورعام فہم ہے۔وہ جن ملکوں، شہروں اورقصبات سے گزرے ، ان کاذکراس انداز میں کرتے ہیں کہ قاری خود کووہیں محسوس کرنے لگتاہے اورہرچیزاس کی نگاہوں میں پھرجاتی ہے۔یہی نہیں ”میں ہوں جہاں گرد” میں موجودآرٹ پیپر کے بتیس صفحات پرایک سوچوہتردلکش،رنگین تصاویرقاری کے لیے فرخ سہیل گوئندی کادیکھاہرمقام اورعلاقے کوچشم دیدبنادیتے ہیں۔ پھرمصنف جس خطے سے بھی گزرتاہے۔وہاں کی تہذیب،اہم خصوصیات،سیاسی،معاشی اورمعاشرتی صورت حال اورسماج کی تفصیلات بھی بیان کرتے جاتے ہیں۔جس سے قاری کی معلومات میں گراں قدراضافہ ہوتاہے۔
فرخ سہیل کی سیاحت کی بنیادگورنمنٹ کالج لاہور کے استاد مرزامظفرکی بدولت پڑی۔جن کا کہناتھاکہ” گوئندی،تم جنرل ضیاکے خلاف جس قدرمتحرک ہو،اگراس کالج میں داخل ہوئے تو چند ہی روزمیں دھرلیے جاؤ گے۔ان کی یہ نصیحت مجھے ایک نئی دنیا میں لے گئی،جہاں گردی کی دنیا۔تب میں نے مرحوم استاد سے کہا ،تو ٹھیک ہے،میں ہواجہاں گرد۔” اس سیاحت کے لیے وہ بمشکل تین سوڈالرجمع کرسکے۔پھرایران،ترکی اورسب سے بڑھ کرکمیونسٹ بلغاریہ کاویزا لینے کی داستان بھی پر لطف ہے۔خمینی کے ایران اورکنعان ایورن کے ترکی کے ساتھ کمیونسٹ بلغاریہ کے سفرکے مشاہدات قاری کوایک نئی دنیا میں لے جاتے ہیں ۔ ان ممالک کی موجودہ صورتحال میں یہ تذکرے انتہائی دلچسپی کاباعث بنتے ہیں۔
بذریعہ بس ایران جاتے ہوئے راستے میں مصنف کوہپی افرادبھی ملے ۔فرخ سہیل ایک سیاسی کارکن ہیں اس لیے سیاسی تجزیہ کرنے سے خود کوروک نہیں پاتے۔” ہپی دنیامیں یکایک نمودارہو ئے ، کسی شہاب ثاقب کی طرح آئے اوراسی طرح غائب ہوگئے۔مغرب کی مادہ پرستی سے تنگ ہپی،جرمنی سے چلتے،یورپ عبورکرتے ہوئے باسفورس،اناطولیہ،ایشیائے کوچک،ایران ،افغانستان،پاکستان، گنگاجمنا کے دیس اورپھرکھٹمنڈوجاڈیرے لگاتے۔ساگرماتا(ماؤنٹ ایور سٹ) دنیاکے بلندترین پہاڑ کے پہلومیں،نیپال ان ہیپیوںکی جنت اور آخری منزل ہوتی تھی۔سرمایہ داردنیاکے ان باغیوں کی داستان بھی عجب ہے۔
یہ ایسے باغی ہوئے جنہوں نے کبھی کسی کواپنی بغاوت اور باغیانہ طرز زندگی میں تشدد کانشانہ نہیں بنایا۔مال،دولت،سرمایہ دارانہ طرز زندگی کے ان باغیوں نے جہاں جہاں قدم رکھے،وہاں اپنے اثرات چھوڑتے گئے۔باغیوں کی یہ ایک عجیب تحریک تھی،جس کا کوئی رہبرنہیں تھا۔کوئی دفتر،سیکریٹریٹ،چھپامنشور،عہدے دار، لیڈر،رکنیت سازی کاکوئی تصوراور وجود نہیں تھا۔یہ مکمل آزاداور خودمختار تحریک تھی۔سردجنگ کے زمانے میں جنم لینے والے ان باغیوں نے عالمی سیاست اورثقافت پروہ اثرات مرتب کیے کہ عالمی طاقتیںاپنے وسائل اورپراپیگنڈے ے نہ کرپائیں۔ان ہیپیوں میں دنیاکے کئی نامور لوگ بھی شامل ہوئے۔آزادانسانوں کی اس آزادتحریک نے جدید عالمی سیاست پردواہم اثرات مرتب کیے۔جنگ مخالف تحریک اور آلودگی کے خلاف تحریک۔جنگ مخالف ہیپیوں نے امریکی سامراج کوایساجھٹکادیاکہ دنیاکی سیاست ہی بدل گئی۔ان ہیپیوں نے امریکہ میں مظاہروں کے علاوہ ویت نام کے میدان جنگ میں جاکر امریکی فوجیوں کوپھول پیش کرکے،بم کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہتھیار استعمال کرکے ان کے ضمیرکوجھنجھوڑ ڈالا اوریوں امریکہ اپنے ملک کے اندرجاری ویت نام جنگ مخالف تحریک کے نتیجے میں ویت نام چھوڑنے پرمجبورہوا۔
مشہدمیں فرخ سہیل نے تین دن گزارے۔یہیں ایک روزایک بڑا جلوس دیکھا۔جو”مرگ برامریکہ” اور”مرگ برصدام” کے نعرے لگا رہا تھا۔عورتیں سیاہ چادروں میں ملبوس۔فارسی میں پہلی بارانہوںنے یہ نعرے بازی سنی۔جلوس میں چندتابوت بھی شامل تھے،جوعراق کے خلاف لڑتے ہوئے شہداکے تھے اورہاتھوں میں ان کی تصاویر۔امام رضاجب مشہدمیں دفن ہوئے تویہ ایک گاؤں تھا۔اہل تشیع کے آٹھویں امام کی شہادت کے بعداسی مناسبت ہی سے یہ عام سی بستی خاص ہوئی اوراس کانام مشہدپڑگیا،یعنی’جائے شہادت’ ۔آج مشہد،تہران کے بعدایران کادوسرابڑا شہرہے۔امام رضا کے مزارکاکل رقبہ چونسٹھ لاکھ تینتالیس ہزارآٹھ سونوے مربع فٹ ہے ،جس میں صرف مزارکی عمارت کارقبہ دولاکھ سڑسٹھ ہزاراناسی فٹ ہے۔مزارکے اندرمیوزیم،لائبریری،قبرستان،وسیع ہال اورکانفرنس روم ہیں۔کمپلیکس کے اندر مسجدگوہرشاہی رقبے اورنمازیوں کی تعداد کے اعتبارسے دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔مزارسے منسلک ایک یونیورسٹی بھی ہے۔سالانہ جو چندہ اکٹھاہوتاہے،اس سے اس شاندارقیام وطعام کاانتظام اورمتعدد صنعتیں بھی قائم ہیں۔امام رضا ٹرسٹ کے تحت سوسے زائدکارخا نے ہیں اور یہ ایران کاایک بڑا صنعتی ادارہ ہے۔امام رضا کے مزارکی ملکیت میں زرعی زمینیں بھی ہیں۔یہ سب کچھ پلازے اورلاتعدادعمارا ت اکٹھاہونے والے چندے سے قائم کی گئی ہیں۔امام رضا کامزارجس قدرعالی شان ہے،اسی قدراس روضہ مبارک کے تحت چلنے والی صنعتیں،اسکول،یونیورسٹی اورلاتعداد اداروں کاانتظام بھی اپنی مثال آپ ہے۔
ایرانی روٹی شاید دنیا کی طویل ترین روٹی ہوتی ہے۔صبح صبح مردوخواتین اپنے کندھوں پرڈیڑھ دوگزروٹی لٹکائے یوں چل رہے ہوتے ہیں جیسے کپڑے کے تھان اٹھائے ہوں۔ایران میں گھرمیں روٹی پکانے کاتصورشایددیہات میں بھی کم ہے۔ایک اہم ایرانی روایت ‘سرویس’ ہے۔لوگ سڑک کنارے کھڑے ہوکرباآوازبلندانہیں جہاں جانا ہو،پکارتے ہیں۔گزرنے والی گاڑیوں کے مالکان اگر وہاں جارہے ہوں توگاڑی روک کرانہیں بٹھالیتے ہیں اورمسافرگاڑی میں رکھے پیالے میں کرایہ کی رقم ڈال دیتے ہیں۔فرخ سہیل گوئندی نے بھی اس سرویس سے بھرپور استفادہ کیا ۔
فرخ سہیل لکھتے ہیں۔”ایرانی انقلاب کازمانہ میری چڑھتی جوانی کازمانہ تھا۔جب میں اس انقلاب کے چارسال بعدایران داخل ہواتو انقلابِ ایران بھی اپنے جوبن پرتھا جس کے جوبن میں ایران عراق جنگ نے ایندھن کاکام کیا۔عرب فارس تاریخی وتہذیبی تصادم میں برپاایک اہم جنگ جس کے اثرات آج تک مشرقِ وسطیٰ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ان دنوں پاکستانی سفارت خانے پرایرانی خفیہ والے اور دیگر ادارے کڑی نظررکھتے تھے،اس لیے کہ امام خمینی کاانقلاب’مرگ برامریکہ’ کے پرچم تلے ہواتھا اورجنرل ضیا’امریکی پرچم تلے’ حکمرانی کررہاتھا۔ایرانیوں کوپورایقین تھاکہ پاکستانی سفارت خانہ ،جنرل ضیاکے آقاکے مفادات کی بھرپورنگہبانی کررہاہے۔اسی لیے جب جنرل ضیااپنی سفارت کاری کے جوہردکھانے کچھ عرصہ پہلے تہران پہنچاتوایرانی طلبانے تہران کی سڑکوں پرجگہ جگہ بینرلگادیئے۔”سگِ امریکہ آمداست”۔”
”دانشگاہِ تہران”،”اصفہان نصف جہان”،” اصفہان اندراِک جہان”،”شہررے”،”تہران گشت گیری”،”اجڑاایرانی شاہی محل” اور ”تہرا ن میں شام”ان ابواب میں ایران کی تہذیب،ثقافت،روایات اورعوام کارہن سہن کومصنف نے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ روانگی سے قبل آخری روزفرخ سہیل نے گشت گیری(ٹورسٹ آفس )سے ترکی جانے کے بارے میں معلومات حاصل کیں، وہیں وہ تہرا ن کی یادیں تازہ کرکے قارئین کومعلومات فراہم کرتے ہیں۔”تہران شہرکی عجب سیاسی داستانیں ہیں۔دوسری جنگ عظیم تک ایران میں سابق سوویت یونین اوربرطانوی افواج کاکنٹرول رہا۔ایران کوعملاً غیرجانبدار رہناتھا لیکن شہنشاہ ایران رضاشاہ پہلوی کاجھکاؤجرمنی کی طرف تھا۔اسی خوف کے باعث دونوں ممالک نے تیل سے مالامال اس ملک کوزیرکرلیا اور رضاشاہ پہلوی کواقتدارسے نکال باہرکیااوراس کے بیٹے محمدرضاپہلوی کومسند اقتدار پربٹھادیاگیاتاکہ ایران،اتحادی افواج کے ہاتھوں سے نہ نکل پائے۔
سوویت یونین نے اس دوران شمالی ایران اوربرطانیہ نے جنوبی ایران پرقبضہ کرلیا۔شہنشاہ ایران غیرملکی حملہ آوروں کے خلاف لڑناچاہتاتھالیکن اقتدارکے ایوان میں برطانیہ کے گہری ‘سن’ لگارکھی تھی،اسی لیے رضاشاہ کوہٹاکراس کے بیٹے کوتخت پربٹھادیاگیا۔اس کے بعد تین بڑے اتحادی ممالک سابق سوویت یونین،برطانیہ اورامریکہ نے جرمنی کے خلاف مشہورزمانہ کانفرنس اسی شہر میں رکھی جسے’تہران کانفرنس’ کہاجاتاہے۔کانفرنس سوو یت سفارت خانے کے اندرہوئی۔ہٹلر نے بگ تھری(چرچل،روزویلٹ اوراسٹالن) کوکانفرنس کے دوران قتل کامنصوبہ بنایالیکن سوویت یونین کے جاسوسی نظام نے نازی منصوبہ ناکام بنادیا۔تہران کانفرنس ہی میں بعدازجنگ جرمنی کی تقسیم جیسااہم فیصلہ ہوا۔پولینڈکی سرحدا ت کابھی فیصلہ ہوا ، اور روزویلٹ نے اسی کانفرنس میں اقوام متحدہ کاتصور پیش کیا۔”
فرخ سہیل گوئندی کنعان ایورن کے مارشل لا ء دورمیں ترکی پہنچے۔اس وقت پاکستان میں ضیاالحق کامارشل لاء نافذ تھا لیکن ترک مارشل لاء پاکستان سے کہیں زیادہ سخت تھا۔پہلے ہی روزترک فوجوں کی پریڈاورتوپ کے گولوں کے دھماکوں سے انہیں جنگ کاگمان ہوا۔ایک یورپی سیاح نے انہیں بتایااس روزتیس اگست کوترکی کاقومی دن ہے۔
فرخ سہیل ترک قوم کاتجزیہ کرتے ہیں۔” ارضِ روم پہنچنے تک میں نے یہ راز پالیاکہ ترک کس قدرقوم پرست ہیں۔ترک گھروں،عمارات،ہوٹلوں کے استقبالیوں،دکانوں کے اندر،بینکوں ،غرض ہرجگہ ترکی پرچم لاز می ہے اوراس طرح ہرقصبے میں مصطفی کمال کامجسمہ اوران کے نام پرشاہراہوں کے نام۔ترکی کے مشرق سے مغرب کی طرف میراسفر۔ ترک دیہات سے شہروں اورسماج کی اونچ نیچ اوراس کے اندررچے بسے تضادات کوسمجھنے کاایک نادرتجربہ تھااوراس تجربے میں سونے کاسہا گہ تجربہ ایک جرنیلی حکومت کے دنوں میں سیاحت۔مجھے جنرل کنعان ایورن کی فوجی حکومت کی شکل میں،ترک سیاست کے ایک منفردعوا می اورسماجی جائزے کاموقع مل گیا۔”
اسی طرح فرخ سہیل مختلف خطوں،شہروں اورقصبوں کی سیرکرتے اورنت نئے تہذیبوں،معاشروں اورلوگوں کاجائزہ لیتے قاری کوساتھ لیے چلتے ہیں اورپڑھنے والا ہرصفحہ پرآگے کیاکے تجسس میں مبتلا رہتاہے اورصخیم سفرنامے کی دلچسپی کم نہیں ہوتی۔ترک سیاحت کے دوران مصنف کردتحریک،اس کے بانی عبداللہ اوجلان،ترکی،ایران،عراق،شام میں کردوآبادی اوران کی جدوجہد کے بارے میں بھی آگاہ کرتے جاتے ہیں،انہوں نے ایک غلط فہمی بھی دورکی۔”ہمارے اکثر’ماہرین ترکی’جن الفاظ کواردو۔ترکی زبان کے مشترکہ الفاظ قرار دیتے ہیں،اگروہ تھوڑی سی عقل استعمال کریں تواردواورترکی زبان میں مشترک ایسے الفاظ، درحقیقت عربی اورفارسی کے الفاظ ہیں۔یہی تو زبان کی وہ اصلاحات تھیں جوزوال یافتہ عثمانی سلطنت کے بعد ترکوں نے اپنی زبان سے فارس وعرب سرزمین کے الفاظ نکالنے کی کوشش کی کہ ہم ترک ہیں اوربس،نہ عرب نہ عجم۔جبکہ ہمارے ہاںزبان کی ان اصلاحات کواسلامی رسم الخط سے بغاوت قراردیاجاتاہے۔در حقیقت یہ اصلاحات مشرقِ وسطیٰ میں اپنی شناخت قائم کرنے کی طرف اہم قدم تھا۔”
تاریخی عمارتوں کی سیاحت کرتے ہوئے کہیں فرخ سہیل سلجوق حکمرانوںکے تاریخ اورفتوحات کاذکرکرتے ہیں توکہیں عثمانی سلطنت کے عروج وزوال کے داستان بیان کرتے ہیں۔”تین گنبدوں کی طرف گامزن ہواتودیکھاکہ ہاتھ بلندکیے ایک ترک خاتون کامجسمہ، ایک ہا تھ میں بندوق اورماں پشت پرایک ترک سپوت بندھاہواہے۔یہ للکارتی خاتون،ترکوں کی قومی ہیرو’نانے خاتون’ ہے ،جس نے روس ترکی جنگ میںارض روم میں لڑتے ہوئے اپنی مادروطن کادفاع کرکے ترکوں کی بہادری کی تاریخ کوایک اورفخرعطاکردیا۔’نانے خاتون’ ارض روم کی بیٹی تھی مگروہ ترکوں کی ماں کہلائی۔وہ جدیدترکی تاریخ میں بہادری کانشان ہے۔اسے ماؤں کی ماں بھی کہاجاتاہے۔1952ء میں ایک امریکی جرنیل نانے خاتون کوخاص طور پرملنے گیا۔اس نے پوچھا۔اگرتمہیں آج جنگ لڑناپڑے توکیاتم لڑوں گی؟ پچیانوے سالہ ترک ماں نے کہا،’ہاں بالکل ضرور لڑوں گی’۔نانے خاتون ترکوں کی ماں اورارض روم کی پہچان ہے۔”
ذرافرخ سہیل کی زبانی پاکستان اورترکی کاموازنہ ملاحظہ کریں۔” یہاں آکر معلوم ہواکہ ایک پسماندہ قوم میں ایک جدیدشہر’اسلام آباد’ آباد کرلینے اورایک قوم کی ترقی کے سفرمیں انقرہ جیساجدیدشہرآباد کرنے میں بہت فرق ہے۔اسلام آباد ملک سے کٹاہوایایوں کہہ لیجیے کہ ترقی کاایک مصنوعی جزیرہ ہے جبکہ انقرہ ایک تیزرفتارترقی کرتی قوم کاشہر۔جدیدعمارات اورجدید ہی لوگ۔آزادی کے بعد ہم نے تین اہم قومی ادارے بنائے۔پی آئی اے۔پی ٹی وی اورواپڈا۔پی آئی اے نے ایک شاندار اورکامیاب ایئرلائن کے طور پردنیاسے اپنالوہا منوا لیا۔اس کااشتہارتھا’باکمال لوگ،لاجواب پرواز’۔لیکن اب تینوں ہی اپنی کارکردگی کی مدت پوری کرچکے ہیں۔ایک یہ ترک ہیں ساٹھ سال میںیہ مملکت ترقی کی جانب ہی بڑھتی دکھائی دی۔یہ باکمال لوگ نہیں باکمال قوم ہے۔”
ذراچھپن سپوتوں کے شہرارضِ روم کی داستان ملاحظہ کریں۔” ارضِ روم میں جولائی 1919ء سے 4اگست1919ء تک تیرہ دن چھپن بہادرترک سپوت اکھٹے ہوکراپنی قوم کے متعلق فیصلہ نہ کرتے توترکی آج کچھ یونان،کچھ شام،عراق،بلغاریہ،روس ،آرمینیااورنہ جانے کے کس کس کے حصے بٹاہوتا۔آیاصوفیہ اورنیلی مسجدآج یونانی گرجاہوتے اورہم سیاح لوگ قرطبہ کی مشہورزمانہ ہسپانوی مسجد کی طرح،نیلی مسجد استبول کے سامنے تصاویربناتے کہ کبھی یہ مسجدبھی آباد ہواکرتی تھی۔استنبول کے لیے یونان کاویزالیتے اورارض روم کے لیے روس یا آرمینیاکاویزا درکار ہوتا۔
اسی شہرمیں مدبروں نے فیصلہ کیا’Now or Never’ عثمانی خلیفہ برطانوی دربار کامرہون منت ہوچکاتھا، اس کاحشربہادرشاہ ظفرسے بھی زیادہ بھیانک ہوتا۔ایسے میں اس بستی میں مغربی استعمارمشترکہ یلغارکے خلاف ترکوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ارض ِ روم کانگریس نے ترکوں ایک نئے جنم کے فیصلے پراکٹھاکردیا۔برطانیہ ،فرانس کے یونان کے ساتھ مٹتے ترکی پریلغارکردی اورکانگریس نے فیصلہ کیاہم فتح یاب ہوں گے یالڑتے لڑتے مرجائیں گے۔ارضِ روم کاکورکمانڈرکاظم کارابیکروہ عظیم جرنیل تھاجس نے اتاترک کودعوت دی کہ آپ اپنی قوم کافیصلہ کریں۔آپ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں اوراتحادی افواج کے احکامات ماننے والے سلطان کی قانونی دسترس سے آزادہوکرجنگ آزادی کااعلان اوراس کی قیادت کریں۔ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ترکوںکی قسمت کافیصلہ اسی شہر میں ہوا۔زوال اورشکست کی راکھ سے ،ایک سلطنت کی آزادی اورقیام کی جدوجہدشروع ہوئی۔”
جب ترکوں نے جنگ آزادی کااعلان اورآغاز کیااورہندوستان تک اس کی خبرپہنچی تویہاں تحریک خلافت کااعلان کردیاگیا۔اناطولیہ میں برٹش جہازوں سے لاچارترک سلطان کے احکامات اورملاؤں کے فتوے گرائے گئے کہ مصطفی کمال غدار ہی نہیں بلکہ کافر بھی ہے۔سلطان نے کاظم کارابیکراورغازی مصطفی کمال کوگرفتارکرنے کے حکم دیا۔مگراناطولیہ کے لاکھوں کسانوں نے اتحادی افواج کے پٹھوسلطان کے پمفلٹوں اورفتوؤں کومستردکردیا اورمصطفی کمال کی قیادت میں جنگ آزادی شروع کردی جو چاربرس کی عظیم الشان بہادری سے لڑتے ہو ئے کامیاب ہوئی اورجدید ترکی وجود میں آیا۔
ایک بلاتبصرہ اقتباس۔”غازی مصطفی کمال کے مقبرے انت کبیرکے بڑے ہال سے نکلاتویکایک ٹھپ ٹھپ ،فوجی بوٹوں کی آوازکان میں پڑی۔سارادن تعینات فوجی اپنے قائد اورکمانڈرکی آخری آرام گاہ پرجس طرح بڑے پیشہ ورانہ انداز میں جذبات میں آئے بغیراپنی ڈیوٹی بدلتے ہیں، وہ منظراتاترک کی عظمت بیان کرتاہے۔واہگہ بارڈر پرسرحدکی اس طرف اور اُس طرف مسخروں کی طرح ٹانگیں پیشانیوں تک لے جانے جیسا منظر نہیں بلکہ ایک نیشنل آرمی جس کی تاریخ فتوحات سے عبارت ہے،اس کافخرسے لبریزمنظر۔ایک ایسی فوج جوتیسری دنیامیں قوم پرست یعنی نیشنل آرمی ہے جوکسی کلونیل نظام کی پیداوار نہیں اورنہ کسی کلونیل نظام کی وارث ہے۔ایک ایسی فوج جس نے دنیاکی بڑی طاقتو ں کوبیانات سے نہیں بلکہ عملی طور پرجنگ کے میدانوں میں شکست دی۔”
انت کبیرمیں سویاہواترکوں کاباپ اتاترک،علامہ اقبال اورقائداعظم محمدعلی جناح کا پسندیدہ ہیروتھا۔جس نے مغربی استعماری طاقتوں سے لڑکرترکوں کونئی زندگی دی۔1983ء میں جنرل کنعان ایورن کے مارشل لاء کی دہشت کایہ عالم تھا۔فرخ سہیل گوئندی کوایک صبح گھر سے نکال دیاگیا۔میزبان نے اُلس پہنچ کرفون کرنے کاکہا۔فون کرنے پربتایا۔” بہت معذرت خواہ ہوں،تمہیں معلوم نہیں کیاہوا۔انٹیلی جنس کوبھنک پڑگئی کہ ایک غیرملکی ہمارے ہاں ٹھہرا ہواہے جوہمارے ہاں جرم ہے۔خصوصاً فوجی حکام کوبنااطلاع دیے غیرملکی کورکھنا۔ویسے بھی ہماراگھرسرخ نشان سمجھو۔اس طرح یہ جرم دگناہوجاتاہے۔” جنرل کنعان ایورن کی آمریت میں ساڑھے چھ لاکھ لوگوں کوگرفتارکیاگیا ۔ڈھائی لاکھ کافوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوا۔سات ہزارلوگوںکوسزائے موت سنائی گئی۔ایک لاکھ افراد کوفوجی عدالتوں نے مختلف سزائیں دیں۔ہزاروںکوبے روزگارکیا اورہزاروں جلاوطن اورلاپتہ ہوئے۔
فرخ سہیل گوئندی ترکی کی سیاحت کے دوران وہاں کی سیاسی،سماجی،معاشی صورتحال بیان کرتے ہیں۔اسی کے ساتھ اتاترک کے انقلاب اوربرصغیرکی خلافت تحریک کی حقیقت بھی کھول دیتے ہیں۔وہ سیاحت کے اگلے مرحلے میں ”سرخ جنت”یعنی کمیونسٹ بلغار یہ پہنچے جوان کی اصل منزل تھی۔بلغاریہ کے سفرکی داستان بھی کسی الف لیلہ سے کم نہیں۔
”میں ہوں جہاں گرد” ایک انتہائی دلچسپ،منفرداور قابل مطالعہ سفرنامہ ہے۔جس کے نت نئے واقعات،تجزیوں اوردلچسپیوں میں قاری کو کتاب کے اختتام تک پہنچنے کاعلم ہی نہیں ہوتا۔فرخ سہیل گوئندی کوبہترین سفرنامہ پیش کرنے پرمبارک باد،مزیدسفرناموں کاانتظاررہے گا۔
فرخ سہیل گوئندی معروف پبلشر،سیاسی کارکن ،ادیب اوردانشورہیں۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہوکرقارئین کی بھرپور پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔”میں ہوں جہاں گرد” فرخ سہیل گوئندی کا پہلا سفرنامہ ہے۔کتاب ایک منفردسفرکی داستان ہے جولاہورسے یورپ تک زمینی راستو ں پرسیاحت کرتے مکمل ہوا۔
1983ء میں انہوں نے ایک سیاح کے طور پرسفرکیا اوراس پھراس زمانے کو”میں ہوں جہاں گرد” میں محفوظ کردیا۔ان کے بقول،ایک حقیقی سیاح ہم عصرتاریخ کاگواہ اورمورخ ہوتاہے۔اس کتاب میں فرخ سہیل گوئندی نے ایسے زمانے کومحفوظ کیاہے جواب بیت چکاہے۔ایران اورترکی جوبدلاسوبدلا،سوشلست بلغاریہ توبالکل ہی بدل گیا جسے وہ اپنے سفرمیں سرخ جنت قرار دیتے ہیں ۔
یہ بھی دیکھئے:
”میں ہوں جہاں گرد” اردوکے جدید سفرناموں میں ایک دلچسپ،معلوماتی اورسحرانگیزسفرنامہ ہوگاکہ یہ قاری کواپنے ساتھ ساتھ لے کرچلتاہے۔فرخ سہیل گوئندی نے پچھلے چندبرسوں میں مختلف جرائدمیں اپنے کئی سفروں کولکھا اور پھرقارئین کی دلچسپی اوراصرارکے باعث انہوں نے اپنی یادگارسیاحت کوکتاب کی صورت محفوظ کردیاہے۔یوں”میں ہوں جہاں گرد” ان کا پہلا سفرنامہ ہے۔ یہ ان دیکھے خطو ں،مقامات ،بستیوں،قصبات اور شہروں کی سیاحت اورناقابل یقین واقعات اورداستانوں پرمشتمل اردوادب میں اپنی نوعیت کا پہلاسفر نامہ ہے جوقارئین کوسفرنامہ کے نئے شاندارپہلوؤں سے آشناکرے گا۔
”جہاں نامہ” کے عنوان سے پیش لفظ میں فرخ سہیل گوئندی لکھتے ہیں۔”جنونِ سفراسکول کے زمانے ہی سے تھا۔اسکول کی طرف سے منظم کیے گئے سفروں کے علاوہ میں اسکول کے زمانے میں اپنے شہرسرگودھاکے قریب دریائے جہلم اوردریائے چناب کے کنارے سیاحتی سفرمنظم کیے۔جب کالج پہنچاتوابھرتی جوانی میں گھروالوں سے ‘آزادی سفر’ کاحق لینے میں کامیاب ہوگیا،تب مجھے یہ بے تابی شروع ہوگئی کہ پاسپورٹ حاصل کرنے کی عمرشروع ہوتے ہی سرحدپارکی دنیادیکھناشروع کردوں۔جب پاسپورٹ حاصل کرلیاتوواہگہ کی سرحدپار کر کے ہندوستان چلاگیا۔
ہندوستان کے سفروں نے میری جہاں گردی میں تربیت کاکردار اداکیا۔لیکن میراخواب تھا کہ اپنے قدم مشرق وسطیٰ اور یورپ کی جانب اٹھاؤں۔اور یوں 1983ء میں میں نے اپنی زندگی کی وہ اہم جہاں گردی کی،جس نے مجھے حقیقی معنوں میں جہاں گرد بنادیا۔لاہورسے یورپ تک ٹرینوں،بسوں ،ویگنوں پرسفرکرتے ہوئے میں نے اپنے اس خواب کوحقیقت میں بدلنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
1983ء میں دنیا بہت مختلف تھی۔کسی بھی جگہ کی معلومات حاصل کرناآج کی طرح آسان نہیں تھااورنہ ہی ان ممالک کے حوالے سے زیادہ لٹریچردستیاب تھا۔ایک نوجوان طالب علم ہونے کے ناتے کم وسائل بھی معلومات کے حصول کے لیے کافی نہیں تھے۔اتنے وسائل نہ تھے کہ ڈھیرسی کتابیں خریدتا،اس لیے بڑا ذریعہء معلومات پبلک لائبریری تھی اور وہاں بھی پرانی کتابیں زیادہ تھیں اورنئی کم۔خصو صاً بلغاریہ جیسے سوشلست ممالک کے حوالے سے لٹریچرکی دستیابی مشکل ہی نہیں خطرناک کام تھا۔
یہ بھی پڑھئے:
یکم اپریل؛ مستنصر حسین تارڑ کی سالگرہ آج منائی جارہی ہے
اٹھائیس فروری: آج معروف مرثیہ نگار نسیم امروہوی کا یوم وفات ہے
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
ہمارے ہاں اگرآپ ان دنوں کسی کمیونسٹ ملک کے بارے میں کچھ پڑھتے پکڑے جاتے توآپ جیل کی ہواکھاسکتے تھے۔”میں ہوں جہاں گرد” ایک ایسی سیاحت کی داستان ہے کہ اگر آج دوبارہ انہی راہوں پرسفرکیاجائے توآج کی دنیااس سے بہت بدل کی ہے۔خمینی کاایران جہاں انقلاب کی حدت ابھی جوبن پرتھی ، ترکی جہاں کنعان ایورن کامارشل لاء عروج پرتھااوربلغاریہ میں کمیونزم۔میں نے اس سیاحت کے دوران جہاں جہاں سفرکیا،وہ قصبے،شہر اورملک آج اڑتیس برس بعدبہت بدل چک ہیں۔
تین دہائیاں بیت جانے کے بعد،اپنے مشاہدات ،واقعات ،روئیدادکواپنی ڈائری پرلکھے چندایک نوٹس اوریادداشتوں سے کریدکرید کررقم کرناخاصادشوارکام تھا،اس کے لیے کروناکی وبانے وہ وقت فراہم کردیاجواس عرق ریزی کے لیے درکارتھا۔مجھے اس کتاب کولکھنے میں دوسال لگے اورمیں نے آج تک جوکچھ بھی تحریرکیا،اس میں یہ مشکل ترین تھا۔تراسی میں استنبو ل کی آبادی پچاس لاکھ تھی تواسے ویساہی لکھنا،یاوہ ایران جہاں ابھی امام خمینی حیات تھے اورایران عراق جنگ اپنے عروج پرتھی اورسب سے بڑھ کرسوشلسٹ بلغاریہ کواسی زمانے میں قیدرہ کرلکھناایک محقق اورسیاح کے طور پرکٹھن کام تھا۔وہ بلغاریہ جومیں نے دیکھا،وہ کمیو نسٹ تھاجبکہ آج کابلغاریہ سرمایہ داردنیاکااہم ملک ہے۔مگراس اولین سفرکوسفرنامے کی صورت دینامیرے لیے یوں ضروری تھاکہ میں اس کے بعددنیاکے مختلف ممالک کی سیاحت کوترتیب سے لکھ سکوں۔”
اس طرح فرخ سہیل گوئندی نے ”میں ہوں جہاں گرد” کوپسندکرنے والے قارئین کومستقبل میں مزیدسفرناموں کی خوش خبری بھی سنائی ہے ۔”میں ہوں جہاں گرد”سات سوچھیاسی صفحات کاضخیم سفرنامہ ہے ۔جس میں آرٹ پیپر کے بتیس اضافی صفحات رنگین تصاویرسے کتاب کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔خوب صورت کمپیوٹرکتابت، بہترجلدبندی،دلکش سرورق سے آراستہ،سرورق اوربیک پیچ کے اندرعمدہ رنگین تصاویرکے ساتھ جمہوری پبلی کیشنز کی بہترین اورمعیاری طباعت کے ساتھ تیرہ سواسی روپے قیمت موجودہ دورکے لحاظ سے کافی کم ہے۔
فرخ سہیل گوئندی کااسلوب سادہ ،دل پذیر اورعام فہم ہے۔وہ جن ملکوں، شہروں اورقصبات سے گزرے ، ان کاذکراس انداز میں کرتے ہیں کہ قاری خود کووہیں محسوس کرنے لگتاہے اورہرچیزاس کی نگاہوں میں پھرجاتی ہے۔یہی نہیں ”میں ہوں جہاں گرد” میں موجودآرٹ پیپر کے بتیس صفحات پرایک سوچوہتردلکش،رنگین تصاویرقاری کے لیے فرخ سہیل گوئندی کادیکھاہرمقام اورعلاقے کوچشم دیدبنادیتے ہیں۔ پھرمصنف جس خطے سے بھی گزرتاہے۔وہاں کی تہذیب،اہم خصوصیات،سیاسی،معاشی اورمعاشرتی صورت حال اورسماج کی تفصیلات بھی بیان کرتے جاتے ہیں۔جس سے قاری کی معلومات میں گراں قدراضافہ ہوتاہے۔
فرخ سہیل کی سیاحت کی بنیادگورنمنٹ کالج لاہور کے استاد مرزامظفرکی بدولت پڑی۔جن کا کہناتھاکہ” گوئندی،تم جنرل ضیاکے خلاف جس قدرمتحرک ہو،اگراس کالج میں داخل ہوئے تو چند ہی روزمیں دھرلیے جاؤ گے۔ان کی یہ نصیحت مجھے ایک نئی دنیا میں لے گئی،جہاں گردی کی دنیا۔تب میں نے مرحوم استاد سے کہا ،تو ٹھیک ہے،میں ہواجہاں گرد۔” اس سیاحت کے لیے وہ بمشکل تین سوڈالرجمع کرسکے۔پھرایران،ترکی اورسب سے بڑھ کرکمیونسٹ بلغاریہ کاویزا لینے کی داستان بھی پر لطف ہے۔خمینی کے ایران اورکنعان ایورن کے ترکی کے ساتھ کمیونسٹ بلغاریہ کے سفرکے مشاہدات قاری کوایک نئی دنیا میں لے جاتے ہیں ۔ ان ممالک کی موجودہ صورتحال میں یہ تذکرے انتہائی دلچسپی کاباعث بنتے ہیں۔
بذریعہ بس ایران جاتے ہوئے راستے میں مصنف کوہپی افرادبھی ملے ۔فرخ سہیل ایک سیاسی کارکن ہیں اس لیے سیاسی تجزیہ کرنے سے خود کوروک نہیں پاتے۔” ہپی دنیامیں یکایک نمودارہو ئے ، کسی شہاب ثاقب کی طرح آئے اوراسی طرح غائب ہوگئے۔مغرب کی مادہ پرستی سے تنگ ہپی،جرمنی سے چلتے،یورپ عبورکرتے ہوئے باسفورس،اناطولیہ،ایشیائے کوچک،ایران ،افغانستان،پاکستان، گنگاجمنا کے دیس اورپھرکھٹمنڈوجاڈیرے لگاتے۔ساگرماتا(ماؤنٹ ایور سٹ) دنیاکے بلندترین پہاڑ کے پہلومیں،نیپال ان ہیپیوںکی جنت اور آخری منزل ہوتی تھی۔سرمایہ داردنیاکے ان باغیوں کی داستان بھی عجب ہے۔
یہ ایسے باغی ہوئے جنہوں نے کبھی کسی کواپنی بغاوت اور باغیانہ طرز زندگی میں تشدد کانشانہ نہیں بنایا۔مال،دولت،سرمایہ دارانہ طرز زندگی کے ان باغیوں نے جہاں جہاں قدم رکھے،وہاں اپنے اثرات چھوڑتے گئے۔باغیوں کی یہ ایک عجیب تحریک تھی،جس کا کوئی رہبرنہیں تھا۔کوئی دفتر،سیکریٹریٹ،چھپامنشور،عہدے دار، لیڈر،رکنیت سازی کاکوئی تصوراور وجود نہیں تھا۔یہ مکمل آزاداور خودمختار تحریک تھی۔سردجنگ کے زمانے میں جنم لینے والے ان باغیوں نے عالمی سیاست اورثقافت پروہ اثرات مرتب کیے کہ عالمی طاقتیںاپنے وسائل اورپراپیگنڈے ے نہ کرپائیں۔ان ہیپیوں میں دنیاکے کئی نامور لوگ بھی شامل ہوئے۔آزادانسانوں کی اس آزادتحریک نے جدید عالمی سیاست پردواہم اثرات مرتب کیے۔جنگ مخالف تحریک اور آلودگی کے خلاف تحریک۔جنگ مخالف ہیپیوں نے امریکی سامراج کوایساجھٹکادیاکہ دنیاکی سیاست ہی بدل گئی۔ان ہیپیوں نے امریکہ میں مظاہروں کے علاوہ ویت نام کے میدان جنگ میں جاکر امریکی فوجیوں کوپھول پیش کرکے،بم کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہتھیار استعمال کرکے ان کے ضمیرکوجھنجھوڑ ڈالا اوریوں امریکہ اپنے ملک کے اندرجاری ویت نام جنگ مخالف تحریک کے نتیجے میں ویت نام چھوڑنے پرمجبورہوا۔
مشہدمیں فرخ سہیل نے تین دن گزارے۔یہیں ایک روزایک بڑا جلوس دیکھا۔جو”مرگ برامریکہ” اور”مرگ برصدام” کے نعرے لگا رہا تھا۔عورتیں سیاہ چادروں میں ملبوس۔فارسی میں پہلی بارانہوںنے یہ نعرے بازی سنی۔جلوس میں چندتابوت بھی شامل تھے،جوعراق کے خلاف لڑتے ہوئے شہداکے تھے اورہاتھوں میں ان کی تصاویر۔امام رضاجب مشہدمیں دفن ہوئے تویہ ایک گاؤں تھا۔اہل تشیع کے آٹھویں امام کی شہادت کے بعداسی مناسبت ہی سے یہ عام سی بستی خاص ہوئی اوراس کانام مشہدپڑگیا،یعنی’جائے شہادت’ ۔آج مشہد،تہران کے بعدایران کادوسرابڑا شہرہے۔امام رضا کے مزارکاکل رقبہ چونسٹھ لاکھ تینتالیس ہزارآٹھ سونوے مربع فٹ ہے ،جس میں صرف مزارکی عمارت کارقبہ دولاکھ سڑسٹھ ہزاراناسی فٹ ہے۔مزارکے اندرمیوزیم،لائبریری،قبرستان،وسیع ہال اورکانفرنس روم ہیں۔کمپلیکس کے اندر مسجدگوہرشاہی رقبے اورنمازیوں کی تعداد کے اعتبارسے دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔مزارسے منسلک ایک یونیورسٹی بھی ہے۔سالانہ جو چندہ اکٹھاہوتاہے،اس سے اس شاندارقیام وطعام کاانتظام اورمتعدد صنعتیں بھی قائم ہیں۔امام رضا ٹرسٹ کے تحت سوسے زائدکارخا نے ہیں اور یہ ایران کاایک بڑا صنعتی ادارہ ہے۔امام رضا کے مزارکی ملکیت میں زرعی زمینیں بھی ہیں۔یہ سب کچھ پلازے اورلاتعدادعمارا ت اکٹھاہونے والے چندے سے قائم کی گئی ہیں۔امام رضا کامزارجس قدرعالی شان ہے،اسی قدراس روضہ مبارک کے تحت چلنے والی صنعتیں،اسکول،یونیورسٹی اورلاتعداد اداروں کاانتظام بھی اپنی مثال آپ ہے۔
ایرانی روٹی شاید دنیا کی طویل ترین روٹی ہوتی ہے۔صبح صبح مردوخواتین اپنے کندھوں پرڈیڑھ دوگزروٹی لٹکائے یوں چل رہے ہوتے ہیں جیسے کپڑے کے تھان اٹھائے ہوں۔ایران میں گھرمیں روٹی پکانے کاتصورشایددیہات میں بھی کم ہے۔ایک اہم ایرانی روایت ‘سرویس’ ہے۔لوگ سڑک کنارے کھڑے ہوکرباآوازبلندانہیں جہاں جانا ہو،پکارتے ہیں۔گزرنے والی گاڑیوں کے مالکان اگر وہاں جارہے ہوں توگاڑی روک کرانہیں بٹھالیتے ہیں اورمسافرگاڑی میں رکھے پیالے میں کرایہ کی رقم ڈال دیتے ہیں۔فرخ سہیل گوئندی نے بھی اس سرویس سے بھرپور استفادہ کیا ۔
فرخ سہیل لکھتے ہیں۔”ایرانی انقلاب کازمانہ میری چڑھتی جوانی کازمانہ تھا۔جب میں اس انقلاب کے چارسال بعدایران داخل ہواتو انقلابِ ایران بھی اپنے جوبن پرتھا جس کے جوبن میں ایران عراق جنگ نے ایندھن کاکام کیا۔عرب فارس تاریخی وتہذیبی تصادم میں برپاایک اہم جنگ جس کے اثرات آج تک مشرقِ وسطیٰ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ان دنوں پاکستانی سفارت خانے پرایرانی خفیہ والے اور دیگر ادارے کڑی نظررکھتے تھے،اس لیے کہ امام خمینی کاانقلاب’مرگ برامریکہ’ کے پرچم تلے ہواتھا اورجنرل ضیا’امریکی پرچم تلے’ حکمرانی کررہاتھا۔ایرانیوں کوپورایقین تھاکہ پاکستانی سفارت خانہ ،جنرل ضیاکے آقاکے مفادات کی بھرپورنگہبانی کررہاہے۔اسی لیے جب جنرل ضیااپنی سفارت کاری کے جوہردکھانے کچھ عرصہ پہلے تہران پہنچاتوایرانی طلبانے تہران کی سڑکوں پرجگہ جگہ بینرلگادیئے۔”سگِ امریکہ آمداست”۔”
”دانشگاہِ تہران”،”اصفہان نصف جہان”،” اصفہان اندراِک جہان”،”شہررے”،”تہران گشت گیری”،”اجڑاایرانی شاہی محل” اور ”تہرا ن میں شام”ان ابواب میں ایران کی تہذیب،ثقافت،روایات اورعوام کارہن سہن کومصنف نے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ روانگی سے قبل آخری روزفرخ سہیل نے گشت گیری(ٹورسٹ آفس )سے ترکی جانے کے بارے میں معلومات حاصل کیں، وہیں وہ تہرا ن کی یادیں تازہ کرکے قارئین کومعلومات فراہم کرتے ہیں۔”تہران شہرکی عجب سیاسی داستانیں ہیں۔دوسری جنگ عظیم تک ایران میں سابق سوویت یونین اوربرطانوی افواج کاکنٹرول رہا۔ایران کوعملاً غیرجانبدار رہناتھا لیکن شہنشاہ ایران رضاشاہ پہلوی کاجھکاؤجرمنی کی طرف تھا۔اسی خوف کے باعث دونوں ممالک نے تیل سے مالامال اس ملک کوزیرکرلیا اور رضاشاہ پہلوی کواقتدارسے نکال باہرکیااوراس کے بیٹے محمدرضاپہلوی کومسند اقتدار پربٹھادیاگیاتاکہ ایران،اتحادی افواج کے ہاتھوں سے نہ نکل پائے۔
سوویت یونین نے اس دوران شمالی ایران اوربرطانیہ نے جنوبی ایران پرقبضہ کرلیا۔شہنشاہ ایران غیرملکی حملہ آوروں کے خلاف لڑناچاہتاتھالیکن اقتدارکے ایوان میں برطانیہ کے گہری ‘سن’ لگارکھی تھی،اسی لیے رضاشاہ کوہٹاکراس کے بیٹے کوتخت پربٹھادیاگیا۔اس کے بعد تین بڑے اتحادی ممالک سابق سوویت یونین،برطانیہ اورامریکہ نے جرمنی کے خلاف مشہورزمانہ کانفرنس اسی شہر میں رکھی جسے’تہران کانفرنس’ کہاجاتاہے۔کانفرنس سوو یت سفارت خانے کے اندرہوئی۔ہٹلر نے بگ تھری(چرچل،روزویلٹ اوراسٹالن) کوکانفرنس کے دوران قتل کامنصوبہ بنایالیکن سوویت یونین کے جاسوسی نظام نے نازی منصوبہ ناکام بنادیا۔تہران کانفرنس ہی میں بعدازجنگ جرمنی کی تقسیم جیسااہم فیصلہ ہوا۔پولینڈکی سرحدا ت کابھی فیصلہ ہوا ، اور روزویلٹ نے اسی کانفرنس میں اقوام متحدہ کاتصور پیش کیا۔”
فرخ سہیل گوئندی کنعان ایورن کے مارشل لا ء دورمیں ترکی پہنچے۔اس وقت پاکستان میں ضیاالحق کامارشل لاء نافذ تھا لیکن ترک مارشل لاء پاکستان سے کہیں زیادہ سخت تھا۔پہلے ہی روزترک فوجوں کی پریڈاورتوپ کے گولوں کے دھماکوں سے انہیں جنگ کاگمان ہوا۔ایک یورپی سیاح نے انہیں بتایااس روزتیس اگست کوترکی کاقومی دن ہے۔
فرخ سہیل ترک قوم کاتجزیہ کرتے ہیں۔” ارضِ روم پہنچنے تک میں نے یہ راز پالیاکہ ترک کس قدرقوم پرست ہیں۔ترک گھروں،عمارات،ہوٹلوں کے استقبالیوں،دکانوں کے اندر،بینکوں ،غرض ہرجگہ ترکی پرچم لاز می ہے اوراس طرح ہرقصبے میں مصطفی کمال کامجسمہ اوران کے نام پرشاہراہوں کے نام۔ترکی کے مشرق سے مغرب کی طرف میراسفر۔ ترک دیہات سے شہروں اورسماج کی اونچ نیچ اوراس کے اندررچے بسے تضادات کوسمجھنے کاایک نادرتجربہ تھااوراس تجربے میں سونے کاسہا گہ تجربہ ایک جرنیلی حکومت کے دنوں میں سیاحت۔مجھے جنرل کنعان ایورن کی فوجی حکومت کی شکل میں،ترک سیاست کے ایک منفردعوا می اورسماجی جائزے کاموقع مل گیا۔”
اسی طرح فرخ سہیل مختلف خطوں،شہروں اورقصبوں کی سیرکرتے اورنت نئے تہذیبوں،معاشروں اورلوگوں کاجائزہ لیتے قاری کوساتھ لیے چلتے ہیں اورپڑھنے والا ہرصفحہ پرآگے کیاکے تجسس میں مبتلا رہتاہے اورصخیم سفرنامے کی دلچسپی کم نہیں ہوتی۔ترک سیاحت کے دوران مصنف کردتحریک،اس کے بانی عبداللہ اوجلان،ترکی،ایران،عراق،شام میں کردوآبادی اوران کی جدوجہد کے بارے میں بھی آگاہ کرتے جاتے ہیں،انہوں نے ایک غلط فہمی بھی دورکی۔”ہمارے اکثر’ماہرین ترکی’جن الفاظ کواردو۔ترکی زبان کے مشترکہ الفاظ قرار دیتے ہیں،اگروہ تھوڑی سی عقل استعمال کریں تواردواورترکی زبان میں مشترک ایسے الفاظ، درحقیقت عربی اورفارسی کے الفاظ ہیں۔یہی تو زبان کی وہ اصلاحات تھیں جوزوال یافتہ عثمانی سلطنت کے بعد ترکوں نے اپنی زبان سے فارس وعرب سرزمین کے الفاظ نکالنے کی کوشش کی کہ ہم ترک ہیں اوربس،نہ عرب نہ عجم۔جبکہ ہمارے ہاںزبان کی ان اصلاحات کواسلامی رسم الخط سے بغاوت قراردیاجاتاہے۔در حقیقت یہ اصلاحات مشرقِ وسطیٰ میں اپنی شناخت قائم کرنے کی طرف اہم قدم تھا۔”
تاریخی عمارتوں کی سیاحت کرتے ہوئے کہیں فرخ سہیل سلجوق حکمرانوںکے تاریخ اورفتوحات کاذکرکرتے ہیں توکہیں عثمانی سلطنت کے عروج وزوال کے داستان بیان کرتے ہیں۔”تین گنبدوں کی طرف گامزن ہواتودیکھاکہ ہاتھ بلندکیے ایک ترک خاتون کامجسمہ، ایک ہا تھ میں بندوق اورماں پشت پرایک ترک سپوت بندھاہواہے۔یہ للکارتی خاتون،ترکوں کی قومی ہیرو’نانے خاتون’ ہے ،جس نے روس ترکی جنگ میںارض روم میں لڑتے ہوئے اپنی مادروطن کادفاع کرکے ترکوں کی بہادری کی تاریخ کوایک اورفخرعطاکردیا۔’نانے خاتون’ ارض روم کی بیٹی تھی مگروہ ترکوں کی ماں کہلائی۔وہ جدیدترکی تاریخ میں بہادری کانشان ہے۔اسے ماؤں کی ماں بھی کہاجاتاہے۔1952ء میں ایک امریکی جرنیل نانے خاتون کوخاص طور پرملنے گیا۔اس نے پوچھا۔اگرتمہیں آج جنگ لڑناپڑے توکیاتم لڑوں گی؟ پچیانوے سالہ ترک ماں نے کہا،’ہاں بالکل ضرور لڑوں گی’۔نانے خاتون ترکوں کی ماں اورارض روم کی پہچان ہے۔”
ذرافرخ سہیل کی زبانی پاکستان اورترکی کاموازنہ ملاحظہ کریں۔” یہاں آکر معلوم ہواکہ ایک پسماندہ قوم میں ایک جدیدشہر’اسلام آباد’ آباد کرلینے اورایک قوم کی ترقی کے سفرمیں انقرہ جیساجدیدشہرآباد کرنے میں بہت فرق ہے۔اسلام آباد ملک سے کٹاہوایایوں کہہ لیجیے کہ ترقی کاایک مصنوعی جزیرہ ہے جبکہ انقرہ ایک تیزرفتارترقی کرتی قوم کاشہر۔جدیدعمارات اورجدید ہی لوگ۔آزادی کے بعد ہم نے تین اہم قومی ادارے بنائے۔پی آئی اے۔پی ٹی وی اورواپڈا۔پی آئی اے نے ایک شاندار اورکامیاب ایئرلائن کے طور پردنیاسے اپنالوہا منوا لیا۔اس کااشتہارتھا’باکمال لوگ،لاجواب پرواز’۔لیکن اب تینوں ہی اپنی کارکردگی کی مدت پوری کرچکے ہیں۔ایک یہ ترک ہیں ساٹھ سال میںیہ مملکت ترقی کی جانب ہی بڑھتی دکھائی دی۔یہ باکمال لوگ نہیں باکمال قوم ہے۔”
ذراچھپن سپوتوں کے شہرارضِ روم کی داستان ملاحظہ کریں۔” ارضِ روم میں جولائی 1919ء سے 4اگست1919ء تک تیرہ دن چھپن بہادرترک سپوت اکھٹے ہوکراپنی قوم کے متعلق فیصلہ نہ کرتے توترکی آج کچھ یونان،کچھ شام،عراق،بلغاریہ،روس ،آرمینیااورنہ جانے کے کس کس کے حصے بٹاہوتا۔آیاصوفیہ اورنیلی مسجدآج یونانی گرجاہوتے اورہم سیاح لوگ قرطبہ کی مشہورزمانہ ہسپانوی مسجد کی طرح،نیلی مسجد استبول کے سامنے تصاویربناتے کہ کبھی یہ مسجدبھی آباد ہواکرتی تھی۔استنبول کے لیے یونان کاویزالیتے اورارض روم کے لیے روس یا آرمینیاکاویزا درکار ہوتا۔
اسی شہرمیں مدبروں نے فیصلہ کیا’Now or Never’ عثمانی خلیفہ برطانوی دربار کامرہون منت ہوچکاتھا، اس کاحشربہادرشاہ ظفرسے بھی زیادہ بھیانک ہوتا۔ایسے میں اس بستی میں مغربی استعمارمشترکہ یلغارکے خلاف ترکوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ارض ِ روم کانگریس نے ترکوں ایک نئے جنم کے فیصلے پراکٹھاکردیا۔برطانیہ ،فرانس کے یونان کے ساتھ مٹتے ترکی پریلغارکردی اورکانگریس نے فیصلہ کیاہم فتح یاب ہوں گے یالڑتے لڑتے مرجائیں گے۔ارضِ روم کاکورکمانڈرکاظم کارابیکروہ عظیم جرنیل تھاجس نے اتاترک کودعوت دی کہ آپ اپنی قوم کافیصلہ کریں۔آپ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں اوراتحادی افواج کے احکامات ماننے والے سلطان کی قانونی دسترس سے آزادہوکرجنگ آزادی کااعلان اوراس کی قیادت کریں۔ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ترکوںکی قسمت کافیصلہ اسی شہر میں ہوا۔زوال اورشکست کی راکھ سے ،ایک سلطنت کی آزادی اورقیام کی جدوجہدشروع ہوئی۔”
جب ترکوں نے جنگ آزادی کااعلان اورآغاز کیااورہندوستان تک اس کی خبرپہنچی تویہاں تحریک خلافت کااعلان کردیاگیا۔اناطولیہ میں برٹش جہازوں سے لاچارترک سلطان کے احکامات اورملاؤں کے فتوے گرائے گئے کہ مصطفی کمال غدار ہی نہیں بلکہ کافر بھی ہے۔سلطان نے کاظم کارابیکراورغازی مصطفی کمال کوگرفتارکرنے کے حکم دیا۔مگراناطولیہ کے لاکھوں کسانوں نے اتحادی افواج کے پٹھوسلطان کے پمفلٹوں اورفتوؤں کومستردکردیا اورمصطفی کمال کی قیادت میں جنگ آزادی شروع کردی جو چاربرس کی عظیم الشان بہادری سے لڑتے ہو ئے کامیاب ہوئی اورجدید ترکی وجود میں آیا۔
ایک بلاتبصرہ اقتباس۔”غازی مصطفی کمال کے مقبرے انت کبیرکے بڑے ہال سے نکلاتویکایک ٹھپ ٹھپ ،فوجی بوٹوں کی آوازکان میں پڑی۔سارادن تعینات فوجی اپنے قائد اورکمانڈرکی آخری آرام گاہ پرجس طرح بڑے پیشہ ورانہ انداز میں جذبات میں آئے بغیراپنی ڈیوٹی بدلتے ہیں، وہ منظراتاترک کی عظمت بیان کرتاہے۔واہگہ بارڈر پرسرحدکی اس طرف اور اُس طرف مسخروں کی طرح ٹانگیں پیشانیوں تک لے جانے جیسا منظر نہیں بلکہ ایک نیشنل آرمی جس کی تاریخ فتوحات سے عبارت ہے،اس کافخرسے لبریزمنظر۔ایک ایسی فوج جوتیسری دنیامیں قوم پرست یعنی نیشنل آرمی ہے جوکسی کلونیل نظام کی پیداوار نہیں اورنہ کسی کلونیل نظام کی وارث ہے۔ایک ایسی فوج جس نے دنیاکی بڑی طاقتو ں کوبیانات سے نہیں بلکہ عملی طور پرجنگ کے میدانوں میں شکست دی۔”
انت کبیرمیں سویاہواترکوں کاباپ اتاترک،علامہ اقبال اورقائداعظم محمدعلی جناح کا پسندیدہ ہیروتھا۔جس نے مغربی استعماری طاقتوں سے لڑکرترکوں کونئی زندگی دی۔1983ء میں جنرل کنعان ایورن کے مارشل لاء کی دہشت کایہ عالم تھا۔فرخ سہیل گوئندی کوایک صبح گھر سے نکال دیاگیا۔میزبان نے اُلس پہنچ کرفون کرنے کاکہا۔فون کرنے پربتایا۔” بہت معذرت خواہ ہوں،تمہیں معلوم نہیں کیاہوا۔انٹیلی جنس کوبھنک پڑگئی کہ ایک غیرملکی ہمارے ہاں ٹھہرا ہواہے جوہمارے ہاں جرم ہے۔خصوصاً فوجی حکام کوبنااطلاع دیے غیرملکی کورکھنا۔ویسے بھی ہماراگھرسرخ نشان سمجھو۔اس طرح یہ جرم دگناہوجاتاہے۔” جنرل کنعان ایورن کی آمریت میں ساڑھے چھ لاکھ لوگوں کوگرفتارکیاگیا ۔ڈھائی لاکھ کافوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوا۔سات ہزارلوگوںکوسزائے موت سنائی گئی۔ایک لاکھ افراد کوفوجی عدالتوں نے مختلف سزائیں دیں۔ہزاروںکوبے روزگارکیا اورہزاروں جلاوطن اورلاپتہ ہوئے۔
فرخ سہیل گوئندی ترکی کی سیاحت کے دوران وہاں کی سیاسی،سماجی،معاشی صورتحال بیان کرتے ہیں۔اسی کے ساتھ اتاترک کے انقلاب اوربرصغیرکی خلافت تحریک کی حقیقت بھی کھول دیتے ہیں۔وہ سیاحت کے اگلے مرحلے میں ”سرخ جنت”یعنی کمیونسٹ بلغار یہ پہنچے جوان کی اصل منزل تھی۔بلغاریہ کے سفرکی داستان بھی کسی الف لیلہ سے کم نہیں۔
”میں ہوں جہاں گرد” ایک انتہائی دلچسپ،منفرداور قابل مطالعہ سفرنامہ ہے۔جس کے نت نئے واقعات،تجزیوں اوردلچسپیوں میں قاری کو کتاب کے اختتام تک پہنچنے کاعلم ہی نہیں ہوتا۔فرخ سہیل گوئندی کوبہترین سفرنامہ پیش کرنے پرمبارک باد،مزیدسفرناموں کاانتظاررہے گا۔