اردو کے نامور مرثیہ نگار شاعر اور ماہر لسانیات جناب نسیم امروہوی کا اصل نام سید قائم رضا رضوی التقوی تھا اور وہ 24 اگست 1908ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا گھرانہ علمی اور مذہبی حوالے سے امروہہ میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔
نسیم امروہوی نے عربی اور فارسی کے علاوہ منطق، فلسفہ، فقہ، علم الکلام، تفسیر، حدیث اور ادبیات کے تحصیل کی۔
یہ بھی دیکھئے:
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پہلے خیرپور میں اور پھر کراچی میں اقامت اختیار کی۔ نسیم امروہوی غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، گیت اور نظم سبھی اصناف پر عبور رکھتے تھے لیکن ان کی اصل شناخت مرثیہ نگاری ہے۔
انہوں نے اپنا پہلا مرثیہ 1923ء میں کہا تھا۔ ان کے کہے ہوئے مراثی کی تعداد 200 سے زائد ہے۔ وہ لسانیات پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے ۱۵؍مئی ۱۹۵۰ء کو لاہور آگئے۔ اردو کی سب سے بڑی لغت کی تعمیر وتشکیل کے سلسلے میں اپریل ۱۹۶۱ء سے ترقی اردو بورڈ کراچی سے ان کا تعلق قائم ہوا۔
یہ بھی دیکھئے:
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
گلوکاری تا تحریک عدم اعتماد، عکسی مفتی کے مشورے
وہ ایک طویل عرصے تک ترقی اردو بورڈ میں اردو لغت کے مدیر کی حیثیت سے وابستہ رہے اس کے علاوہ انہوں نے نسیم اللغات اور فرہنگ اقبال بھی مرتب کیں۔
28 فروری 1987ء کو جناب نسیم امروہوی کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں مسجد آل عبا کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔
نمونہ کلام
یہ انتظار نہ ٹھہرا کوئی بلا ٹھہری
کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری
نسیم امروہوی کے مرثیے کے چند اشعار
تمام خلق کا خدمت گزار ہے پانی
رگوں میں خون بدن میں نکھار ہے پانی
گلوں میں حسن چمن میں بہار ہے پانی
نمو کی بزم میں پروردگار ہے پانی
نگاہ خلق سے غائب جو ہے فضاؤں میں
امام غیب کا بھرتا ہے دم ہواؤں میں