Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
بزرگ شخصیت بلوچ قوم پرست رہنما و بی ایس او کے بانی چیئرمین، نیشنل پارٹی کے سابق سربراہ اور بلوچستان نیشنل موومنٹ کے سابق سربراہ اور حال میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ آج پنجاب میں روڈ حادثہ میں شھید ہوئے ہیں!!! رب العالمین آسانی فرمائیں۔
وہ جدوجھد کی علامت اور استقامت کے پہاڑ تھے، زمانہ طالب علمی میں بی ایس او کی تشکیل سے لے کر موت کے لمحات تک مسلسل جدوجھد و جستجو اور کھوئی ہوئے قومی منزل کی تلاش و حصول میں مصروف عمل رہے۔
یہ بھی دیکھئے:
ان کی جدوجھد و فیصلوں سےاختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کی اخلاص و دانش مندی اور یکسوئی و جستجو منزل میں جت جانے کے عمل سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب مرحوم و مغفور1960ء سے لے کر2022ءتک بلوچ قوم پرستوں اور ملکی سیاست و حکومتوں
کے براہ راست گواہ تھے۔
مجھے وہ لمحات اب تک یاد ہیں جب 1990ءکے عشرے میں جب ہم لورالائی کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے۔ ان دنوں ہم طلبہ سیاست کے انتہائی محدود سیاسی و سماجی شعور کے اسیر تھے۔ تب ڈاکٹر صاحب محترم لورالائی تشریف لائے تھے۔ ملاقات میں انھوں نے میرے دعوت پر گھر آنے اور چائے نوش کرنے کی دعوت قبول فرمائی۔ ہمارے ہر دلعزیز دوست جناب مزمل خان موسی خیل مرحوم اور دیگر نوجوان دوست و طلبہ اس مجلس میں میرے کچے و انتہائی محدود گھر میں ڈاکٹر صاحب مرحوم سے سوالات و مکالمہ کررہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب محترم ان دونوں سردار اختر جان مینگل صاحب کے بلوچستان نیشنل موومنٹ سے اپنا دھڑا علیحدہ کرنے پر دکھی تھے اور طلبہ و نوجوانوں کے لئے وضاحتیں پیش کررہے تھے !!!
یہ بھی پڑھئے:
وہ فتویٰ جس سے بھٹو، مجیب، بھاشانی اور ولی خان کافر قرار پائے
گلوکاری تا تحریک عدم اعتماد، عسکری مفتی کا مشورہ
آئین، جمہوریت اور شہری آزادیوں کے وکیل: عطا الرحمٰن
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب مرحوم سے پہلی ملاقات سے لے کر جنوری2022ء کے آخری ایام میں سول سیکرٹریٹ میں آخری ملاقات پرجوش اور بھرپور ہی رہی!!! وہ انتہائی گہرے خلوص اور سچائی و یکسوئی کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے اور ہم جیسے سیاسی و سماجی طالب علموں کی خصوصی توجہ و معاونت کرتے ہوئے خوشی و مسرت محسوس کرتے تھے!!!
ڈاکٹر صاحب محترم کی زندگی و سیاسی جدوجھد پر لکھنے و تحقیق اور تجزیہ و تبصرہ کی بھرپور ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی کے لئے ان کی قابل قدر خدمات اور محنت شاقہ محفوظ ہو جائے!!! وہ دکھوں اور تکلیفوں کا اسیر ہو کر منزل مراد کے لئے کوچ کر گئے ہیں سردست ایک بلوچ سیاسی کارکن کا تبصرہ ہمارے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔
دوستو!!!
بلوچستان کے متحرک سیاسی رہنما اور کارکن ڈاکٹر عبدالحئی صاحب بھی بلوچستان اور بلوچ عوام کے لئے اپنے دل میں چھپائے سارے ارمان اور دکھ درد سمیٹ کر داغ مفارقت دے گئے۔
وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اول چئیرمین منتخب ہوئے۔ 1970/۱۹۷۰ کے انتخابات میں پاکستان کے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۰ کے آئین پر دستخط نہ کرنے والے اراکین قومی اسمبلی کے اراکین میں سے تھے۔
اللہ تعالی کی رحمت ان پر ہو۔
ان کے خاندان اور ہمارے جیسے سارے رفقاء کار کو
اس عظیم نقصان اور غم کو سہنے کی توفیق ادا کرے
بزرگ شخصیت بلوچ قوم پرست رہنما و بی ایس او کے بانی چیئرمین، نیشنل پارٹی کے سابق سربراہ اور بلوچستان نیشنل موومنٹ کے سابق سربراہ اور حال میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ آج پنجاب میں روڈ حادثہ میں شھید ہوئے ہیں!!! رب العالمین آسانی فرمائیں۔
وہ جدوجھد کی علامت اور استقامت کے پہاڑ تھے، زمانہ طالب علمی میں بی ایس او کی تشکیل سے لے کر موت کے لمحات تک مسلسل جدوجھد و جستجو اور کھوئی ہوئے قومی منزل کی تلاش و حصول میں مصروف عمل رہے۔
یہ بھی دیکھئے:
ان کی جدوجھد و فیصلوں سےاختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کی اخلاص و دانش مندی اور یکسوئی و جستجو منزل میں جت جانے کے عمل سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب مرحوم و مغفور1960ء سے لے کر2022ءتک بلوچ قوم پرستوں اور ملکی سیاست و حکومتوں
کے براہ راست گواہ تھے۔
مجھے وہ لمحات اب تک یاد ہیں جب 1990ءکے عشرے میں جب ہم لورالائی کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے۔ ان دنوں ہم طلبہ سیاست کے انتہائی محدود سیاسی و سماجی شعور کے اسیر تھے۔ تب ڈاکٹر صاحب محترم لورالائی تشریف لائے تھے۔ ملاقات میں انھوں نے میرے دعوت پر گھر آنے اور چائے نوش کرنے کی دعوت قبول فرمائی۔ ہمارے ہر دلعزیز دوست جناب مزمل خان موسی خیل مرحوم اور دیگر نوجوان دوست و طلبہ اس مجلس میں میرے کچے و انتہائی محدود گھر میں ڈاکٹر صاحب مرحوم سے سوالات و مکالمہ کررہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب محترم ان دونوں سردار اختر جان مینگل صاحب کے بلوچستان نیشنل موومنٹ سے اپنا دھڑا علیحدہ کرنے پر دکھی تھے اور طلبہ و نوجوانوں کے لئے وضاحتیں پیش کررہے تھے !!!
یہ بھی پڑھئے:
وہ فتویٰ جس سے بھٹو، مجیب، بھاشانی اور ولی خان کافر قرار پائے
گلوکاری تا تحریک عدم اعتماد، عسکری مفتی کا مشورہ
آئین، جمہوریت اور شہری آزادیوں کے وکیل: عطا الرحمٰن
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب مرحوم سے پہلی ملاقات سے لے کر جنوری2022ء کے آخری ایام میں سول سیکرٹریٹ میں آخری ملاقات پرجوش اور بھرپور ہی رہی!!! وہ انتہائی گہرے خلوص اور سچائی و یکسوئی کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے اور ہم جیسے سیاسی و سماجی طالب علموں کی خصوصی توجہ و معاونت کرتے ہوئے خوشی و مسرت محسوس کرتے تھے!!!
ڈاکٹر صاحب محترم کی زندگی و سیاسی جدوجھد پر لکھنے و تحقیق اور تجزیہ و تبصرہ کی بھرپور ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی کے لئے ان کی قابل قدر خدمات اور محنت شاقہ محفوظ ہو جائے!!! وہ دکھوں اور تکلیفوں کا اسیر ہو کر منزل مراد کے لئے کوچ کر گئے ہیں سردست ایک بلوچ سیاسی کارکن کا تبصرہ ہمارے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔
دوستو!!!
بلوچستان کے متحرک سیاسی رہنما اور کارکن ڈاکٹر عبدالحئی صاحب بھی بلوچستان اور بلوچ عوام کے لئے اپنے دل میں چھپائے سارے ارمان اور دکھ درد سمیٹ کر داغ مفارقت دے گئے۔
وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اول چئیرمین منتخب ہوئے۔ 1970/۱۹۷۰ کے انتخابات میں پاکستان کے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۰ کے آئین پر دستخط نہ کرنے والے اراکین قومی اسمبلی کے اراکین میں سے تھے۔
اللہ تعالی کی رحمت ان پر ہو۔
ان کے خاندان اور ہمارے جیسے سارے رفقاء کار کو
اس عظیم نقصان اور غم کو سہنے کی توفیق ادا کرے
بزرگ شخصیت بلوچ قوم پرست رہنما و بی ایس او کے بانی چیئرمین، نیشنل پارٹی کے سابق سربراہ اور بلوچستان نیشنل موومنٹ کے سابق سربراہ اور حال میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ آج پنجاب میں روڈ حادثہ میں شھید ہوئے ہیں!!! رب العالمین آسانی فرمائیں۔
وہ جدوجھد کی علامت اور استقامت کے پہاڑ تھے، زمانہ طالب علمی میں بی ایس او کی تشکیل سے لے کر موت کے لمحات تک مسلسل جدوجھد و جستجو اور کھوئی ہوئے قومی منزل کی تلاش و حصول میں مصروف عمل رہے۔
یہ بھی دیکھئے:
ان کی جدوجھد و فیصلوں سےاختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کی اخلاص و دانش مندی اور یکسوئی و جستجو منزل میں جت جانے کے عمل سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب مرحوم و مغفور1960ء سے لے کر2022ءتک بلوچ قوم پرستوں اور ملکی سیاست و حکومتوں
کے براہ راست گواہ تھے۔
مجھے وہ لمحات اب تک یاد ہیں جب 1990ءکے عشرے میں جب ہم لورالائی کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے۔ ان دنوں ہم طلبہ سیاست کے انتہائی محدود سیاسی و سماجی شعور کے اسیر تھے۔ تب ڈاکٹر صاحب محترم لورالائی تشریف لائے تھے۔ ملاقات میں انھوں نے میرے دعوت پر گھر آنے اور چائے نوش کرنے کی دعوت قبول فرمائی۔ ہمارے ہر دلعزیز دوست جناب مزمل خان موسی خیل مرحوم اور دیگر نوجوان دوست و طلبہ اس مجلس میں میرے کچے و انتہائی محدود گھر میں ڈاکٹر صاحب مرحوم سے سوالات و مکالمہ کررہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب محترم ان دونوں سردار اختر جان مینگل صاحب کے بلوچستان نیشنل موومنٹ سے اپنا دھڑا علیحدہ کرنے پر دکھی تھے اور طلبہ و نوجوانوں کے لئے وضاحتیں پیش کررہے تھے !!!
یہ بھی پڑھئے:
وہ فتویٰ جس سے بھٹو، مجیب، بھاشانی اور ولی خان کافر قرار پائے
گلوکاری تا تحریک عدم اعتماد، عسکری مفتی کا مشورہ
آئین، جمہوریت اور شہری آزادیوں کے وکیل: عطا الرحمٰن
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب مرحوم سے پہلی ملاقات سے لے کر جنوری2022ء کے آخری ایام میں سول سیکرٹریٹ میں آخری ملاقات پرجوش اور بھرپور ہی رہی!!! وہ انتہائی گہرے خلوص اور سچائی و یکسوئی کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے اور ہم جیسے سیاسی و سماجی طالب علموں کی خصوصی توجہ و معاونت کرتے ہوئے خوشی و مسرت محسوس کرتے تھے!!!
ڈاکٹر صاحب محترم کی زندگی و سیاسی جدوجھد پر لکھنے و تحقیق اور تجزیہ و تبصرہ کی بھرپور ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی کے لئے ان کی قابل قدر خدمات اور محنت شاقہ محفوظ ہو جائے!!! وہ دکھوں اور تکلیفوں کا اسیر ہو کر منزل مراد کے لئے کوچ کر گئے ہیں سردست ایک بلوچ سیاسی کارکن کا تبصرہ ہمارے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔
دوستو!!!
بلوچستان کے متحرک سیاسی رہنما اور کارکن ڈاکٹر عبدالحئی صاحب بھی بلوچستان اور بلوچ عوام کے لئے اپنے دل میں چھپائے سارے ارمان اور دکھ درد سمیٹ کر داغ مفارقت دے گئے۔
وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اول چئیرمین منتخب ہوئے۔ 1970/۱۹۷۰ کے انتخابات میں پاکستان کے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۰ کے آئین پر دستخط نہ کرنے والے اراکین قومی اسمبلی کے اراکین میں سے تھے۔
اللہ تعالی کی رحمت ان پر ہو۔
ان کے خاندان اور ہمارے جیسے سارے رفقاء کار کو
اس عظیم نقصان اور غم کو سہنے کی توفیق ادا کرے
بزرگ شخصیت بلوچ قوم پرست رہنما و بی ایس او کے بانی چیئرمین، نیشنل پارٹی کے سابق سربراہ اور بلوچستان نیشنل موومنٹ کے سابق سربراہ اور حال میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ آج پنجاب میں روڈ حادثہ میں شھید ہوئے ہیں!!! رب العالمین آسانی فرمائیں۔
وہ جدوجھد کی علامت اور استقامت کے پہاڑ تھے، زمانہ طالب علمی میں بی ایس او کی تشکیل سے لے کر موت کے لمحات تک مسلسل جدوجھد و جستجو اور کھوئی ہوئے قومی منزل کی تلاش و حصول میں مصروف عمل رہے۔
یہ بھی دیکھئے:
ان کی جدوجھد و فیصلوں سےاختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کی اخلاص و دانش مندی اور یکسوئی و جستجو منزل میں جت جانے کے عمل سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب مرحوم و مغفور1960ء سے لے کر2022ءتک بلوچ قوم پرستوں اور ملکی سیاست و حکومتوں
کے براہ راست گواہ تھے۔
مجھے وہ لمحات اب تک یاد ہیں جب 1990ءکے عشرے میں جب ہم لورالائی کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے۔ ان دنوں ہم طلبہ سیاست کے انتہائی محدود سیاسی و سماجی شعور کے اسیر تھے۔ تب ڈاکٹر صاحب محترم لورالائی تشریف لائے تھے۔ ملاقات میں انھوں نے میرے دعوت پر گھر آنے اور چائے نوش کرنے کی دعوت قبول فرمائی۔ ہمارے ہر دلعزیز دوست جناب مزمل خان موسی خیل مرحوم اور دیگر نوجوان دوست و طلبہ اس مجلس میں میرے کچے و انتہائی محدود گھر میں ڈاکٹر صاحب مرحوم سے سوالات و مکالمہ کررہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب محترم ان دونوں سردار اختر جان مینگل صاحب کے بلوچستان نیشنل موومنٹ سے اپنا دھڑا علیحدہ کرنے پر دکھی تھے اور طلبہ و نوجوانوں کے لئے وضاحتیں پیش کررہے تھے !!!
یہ بھی پڑھئے:
وہ فتویٰ جس سے بھٹو، مجیب، بھاشانی اور ولی خان کافر قرار پائے
گلوکاری تا تحریک عدم اعتماد، عسکری مفتی کا مشورہ
آئین، جمہوریت اور شہری آزادیوں کے وکیل: عطا الرحمٰن
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب مرحوم سے پہلی ملاقات سے لے کر جنوری2022ء کے آخری ایام میں سول سیکرٹریٹ میں آخری ملاقات پرجوش اور بھرپور ہی رہی!!! وہ انتہائی گہرے خلوص اور سچائی و یکسوئی کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے اور ہم جیسے سیاسی و سماجی طالب علموں کی خصوصی توجہ و معاونت کرتے ہوئے خوشی و مسرت محسوس کرتے تھے!!!
ڈاکٹر صاحب محترم کی زندگی و سیاسی جدوجھد پر لکھنے و تحقیق اور تجزیہ و تبصرہ کی بھرپور ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی کے لئے ان کی قابل قدر خدمات اور محنت شاقہ محفوظ ہو جائے!!! وہ دکھوں اور تکلیفوں کا اسیر ہو کر منزل مراد کے لئے کوچ کر گئے ہیں سردست ایک بلوچ سیاسی کارکن کا تبصرہ ہمارے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔
دوستو!!!
بلوچستان کے متحرک سیاسی رہنما اور کارکن ڈاکٹر عبدالحئی صاحب بھی بلوچستان اور بلوچ عوام کے لئے اپنے دل میں چھپائے سارے ارمان اور دکھ درد سمیٹ کر داغ مفارقت دے گئے۔
وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اول چئیرمین منتخب ہوئے۔ 1970/۱۹۷۰ کے انتخابات میں پاکستان کے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۰ کے آئین پر دستخط نہ کرنے والے اراکین قومی اسمبلی کے اراکین میں سے تھے۔
اللہ تعالی کی رحمت ان پر ہو۔
ان کے خاندان اور ہمارے جیسے سارے رفقاء کار کو
اس عظیم نقصان اور غم کو سہنے کی توفیق ادا کرے