Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
قذافی سٹیڈیم میں کرکٹ شائقین کی بڑی تعداد جمع ہوچکی تھی ٹاس کے بعد لاہور قلندرز کی بیٹنگ کا انتظار ہورہا تھا۔ ماحول بتارہا تھا کہ لاہوری کرکٹ کے دلدادہ کی اکثریت قلندرز کی سپورٹر تھی۔ میری اگلی نشست پر ایک پختہ عمر کا شخص بیٹھا تھا جس کے ساتھ بیٹھے نوجوان نے گفتگو کا آغاز کیا اور ان سے پوچھا کس ٹیم کو سپورٹ کررہے ہیں انہوں نے جواب دیا ویسے تو میں لاہوری ہوں لیکن مجھے ملتان سلطان بہتر ٹیم لگتی ہے وہ لاہور کی نسبت اچھا کھیلتی آئی ہے میری ہمدردی اس کے ساتھ ہے۔ میں دونوں کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔
نوجوان نے کہا میں لاہور کا فین ہوں اس کا کپتان کچھ کم تجربے کے باعث ٹیم کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ میری رائے میں محمد حفیظ جیسے بوڑھے گھوڑے کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں بلے بازی میں سست اور بولنگ میں بھی سکور کھاتا ہے کسی نوجوان کو موقع دیتے فائنل میں ہروا دے گا۔
یہ بھی دیکھئے:
وہ شخص نوجوان کو بغور دیکھنے لگا اور بولا جناب کرکٹ کے بارے زیادہ معلومات نہیں وہی واحد تجربے کار کھلاڑی ہے قلندرز کو بہت فائدہ پہنچاتا ہے۔ نوجوان نے استفسار کیا کہ اگر آپ اتنا بھروسا کرتے ہیں اس تجربے کار کھلاڑی پر پھر قلندرز کا ساتھ کیوں نہیں دیتے۔
وہ بولے میری ہمدردی اور سپورٹ حفیظ کے ساتھ ہے اور میں دعاگو ہوں وہ آج آپ سمیت تمام ناقدین کو دکھادے وہ کیا کرسکتا ہے۔ بلکہ اگر وہ کامیاب رہا تو میں وثوق سے کہتا ہوں لاہور پہلی جیت بھی اسی کی وجہ سے حاصل کرے گا۔
نوجوان مسکرایا اور بولا آپ نے حفیظ کی خاطر اپنی ہمدردیاں بھی تبدیل کرلیں۔ ان کا جواب تھا میں اچھی اور درست کرکٹ کو تھوڑا سمجھتا ہوں یہ کون سا پاک بھارت ٹاکرا ہے شہروں کے نام ہیں کھلاڑی سب اپنے دیکھے بھالے ہیں۔ رضوان نے بڑی دانشمندی سے کپتانی کی اگر وہ کہیں غلطی کرگیا تو دوسری بار جیت کا موقع بھی گنوا دے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
گلوکاری تا تحریک عدم اعتماد، عکسی مفتی کے مشورے
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
میں پیچھے بیٹھا یہ دلچسپ مکالمہ بڑے انہماک سے سن رہا تھا۔ اور پھر کچھ ایسا ہوا تین وکٹیں جلد گرنے پر نوجوان بڑا مایوس ہوا اس ملتان کے سپورٹر شخص نے الٹا حوصلہ دینے جے انداز میں کہا فکر نہ کرو ابھی حفیظ کریز پر کھڑا ہے۔ اور جب حفیظ نے جوکے چھکے لگائے تو۔ وہی شخص نوجوان کے ساتھ تالیاں بجانے لگا۔ اس کا جوش وخروش دیکھنے والا اور حیران کردینے والا تھا۔ حفیظ کی اننگز ختم ہونے پر کہنے لگے اگر یہ 180 سے زائد بناگئے تو ملتان کیلئے فائٹنگ ٹارگٹ ہوگا۔ نوجوان نے کہا آپ ملتان کی حمایت سے دستبردار ہوگئے وہ بولے تم نے تجربے کو چیلنج کیا مجھے جیسے لگا میری کرکٹ سے متعلق معلومات کو چیلنج کردیا۔ اب میں توقع کروں گا کہ شاہین آفریدی حفیظ کو دوسرا اوور دے اور اگر وہ پہلے دو کھلاڑیوں میں سے کوئی ایک کی بھی
وکٹ کے گیا تو میری بات درست ثابت ہوجائے گی۔ میچ کا پانسا لاہور کے حق میں پلٹ جائے گا۔
مجھے اس شخص کی باتیں سن کر اور میچ دیکھ کر بڑی خوشگوار حیرت ہورہی تھی۔ دوسری اننگز شروع ہوئی اور خلاف معمول دوسرا اوور حفیظ کو ملا اور وہ رضوان کی وکٹ لے اڑا یہیں سے کھیل نے رخ تبدیل کرلیا۔ لاہور نے میچ پر گرفت مضبوط کرلی۔ پھر دونوں کے درمیان بات چیت کم ہوئی صرف کچھ خیرسگالی اشاروں کا تبادلہ ہوا۔ وہ شخص تجربے کی فتح کو زیادہ انجوائے کررہا تھا نوجوان کے ابتدائی کلمات کے جواب جیسے وہ محمد حفیظ کے پہرے پر بیٹھ گیا۔ اس نے جیسے طے کرلیا تھا کہ حفیظ کے سر پر لاہور کی فتح کا تاج پہنانا ہے۔ اور پھر ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ سب نے یہ منظر دیکھا مسلسل جیتنے والی ملتان کی ٹیم بے بس نظر آئی۔
لاہور قلندرز پہلی بار جیت کا مزہ چکھنے میں کامیاب ہوگیا لاہوری کرکٹ دیوانے جیسے جی اٹھے۔ انہیں قلندرز کی شکست شاید مایوسی میں لے جاتی۔ یہ ایک اچھی خبر تھی۔ لاہور قلندرز پی ایس ایل کا چیمپئن بنا اور یہ کام ایک تجربہ کار کے ہاتھوں ہوا جس کی مخالفت کرکٹ بورڈ کے بڑے بھی کرتے اور وہ نوجوان بھی جسے قلندرز کی حمایت کا بڑا زعم تھا۔ جبکہ اس کھلاڑی پر ایک مخالف بھرم کئے بیٹھا تھا۔ بلاشبہ حفیظ نے نہ صرف بازی الٹا دی بلکہ ناقدین کو پھر خاموش رہنے کا درس دے دیا۔
قذافی سٹیڈیم میں کرکٹ شائقین کی بڑی تعداد جمع ہوچکی تھی ٹاس کے بعد لاہور قلندرز کی بیٹنگ کا انتظار ہورہا تھا۔ ماحول بتارہا تھا کہ لاہوری کرکٹ کے دلدادہ کی اکثریت قلندرز کی سپورٹر تھی۔ میری اگلی نشست پر ایک پختہ عمر کا شخص بیٹھا تھا جس کے ساتھ بیٹھے نوجوان نے گفتگو کا آغاز کیا اور ان سے پوچھا کس ٹیم کو سپورٹ کررہے ہیں انہوں نے جواب دیا ویسے تو میں لاہوری ہوں لیکن مجھے ملتان سلطان بہتر ٹیم لگتی ہے وہ لاہور کی نسبت اچھا کھیلتی آئی ہے میری ہمدردی اس کے ساتھ ہے۔ میں دونوں کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔
نوجوان نے کہا میں لاہور کا فین ہوں اس کا کپتان کچھ کم تجربے کے باعث ٹیم کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ میری رائے میں محمد حفیظ جیسے بوڑھے گھوڑے کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں بلے بازی میں سست اور بولنگ میں بھی سکور کھاتا ہے کسی نوجوان کو موقع دیتے فائنل میں ہروا دے گا۔
یہ بھی دیکھئے:
وہ شخص نوجوان کو بغور دیکھنے لگا اور بولا جناب کرکٹ کے بارے زیادہ معلومات نہیں وہی واحد تجربے کار کھلاڑی ہے قلندرز کو بہت فائدہ پہنچاتا ہے۔ نوجوان نے استفسار کیا کہ اگر آپ اتنا بھروسا کرتے ہیں اس تجربے کار کھلاڑی پر پھر قلندرز کا ساتھ کیوں نہیں دیتے۔
وہ بولے میری ہمدردی اور سپورٹ حفیظ کے ساتھ ہے اور میں دعاگو ہوں وہ آج آپ سمیت تمام ناقدین کو دکھادے وہ کیا کرسکتا ہے۔ بلکہ اگر وہ کامیاب رہا تو میں وثوق سے کہتا ہوں لاہور پہلی جیت بھی اسی کی وجہ سے حاصل کرے گا۔
نوجوان مسکرایا اور بولا آپ نے حفیظ کی خاطر اپنی ہمدردیاں بھی تبدیل کرلیں۔ ان کا جواب تھا میں اچھی اور درست کرکٹ کو تھوڑا سمجھتا ہوں یہ کون سا پاک بھارت ٹاکرا ہے شہروں کے نام ہیں کھلاڑی سب اپنے دیکھے بھالے ہیں۔ رضوان نے بڑی دانشمندی سے کپتانی کی اگر وہ کہیں غلطی کرگیا تو دوسری بار جیت کا موقع بھی گنوا دے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
گلوکاری تا تحریک عدم اعتماد، عکسی مفتی کے مشورے
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
میں پیچھے بیٹھا یہ دلچسپ مکالمہ بڑے انہماک سے سن رہا تھا۔ اور پھر کچھ ایسا ہوا تین وکٹیں جلد گرنے پر نوجوان بڑا مایوس ہوا اس ملتان کے سپورٹر شخص نے الٹا حوصلہ دینے جے انداز میں کہا فکر نہ کرو ابھی حفیظ کریز پر کھڑا ہے۔ اور جب حفیظ نے جوکے چھکے لگائے تو۔ وہی شخص نوجوان کے ساتھ تالیاں بجانے لگا۔ اس کا جوش وخروش دیکھنے والا اور حیران کردینے والا تھا۔ حفیظ کی اننگز ختم ہونے پر کہنے لگے اگر یہ 180 سے زائد بناگئے تو ملتان کیلئے فائٹنگ ٹارگٹ ہوگا۔ نوجوان نے کہا آپ ملتان کی حمایت سے دستبردار ہوگئے وہ بولے تم نے تجربے کو چیلنج کیا مجھے جیسے لگا میری کرکٹ سے متعلق معلومات کو چیلنج کردیا۔ اب میں توقع کروں گا کہ شاہین آفریدی حفیظ کو دوسرا اوور دے اور اگر وہ پہلے دو کھلاڑیوں میں سے کوئی ایک کی بھی
وکٹ کے گیا تو میری بات درست ثابت ہوجائے گی۔ میچ کا پانسا لاہور کے حق میں پلٹ جائے گا۔
مجھے اس شخص کی باتیں سن کر اور میچ دیکھ کر بڑی خوشگوار حیرت ہورہی تھی۔ دوسری اننگز شروع ہوئی اور خلاف معمول دوسرا اوور حفیظ کو ملا اور وہ رضوان کی وکٹ لے اڑا یہیں سے کھیل نے رخ تبدیل کرلیا۔ لاہور نے میچ پر گرفت مضبوط کرلی۔ پھر دونوں کے درمیان بات چیت کم ہوئی صرف کچھ خیرسگالی اشاروں کا تبادلہ ہوا۔ وہ شخص تجربے کی فتح کو زیادہ انجوائے کررہا تھا نوجوان کے ابتدائی کلمات کے جواب جیسے وہ محمد حفیظ کے پہرے پر بیٹھ گیا۔ اس نے جیسے طے کرلیا تھا کہ حفیظ کے سر پر لاہور کی فتح کا تاج پہنانا ہے۔ اور پھر ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ سب نے یہ منظر دیکھا مسلسل جیتنے والی ملتان کی ٹیم بے بس نظر آئی۔
لاہور قلندرز پہلی بار جیت کا مزہ چکھنے میں کامیاب ہوگیا لاہوری کرکٹ دیوانے جیسے جی اٹھے۔ انہیں قلندرز کی شکست شاید مایوسی میں لے جاتی۔ یہ ایک اچھی خبر تھی۔ لاہور قلندرز پی ایس ایل کا چیمپئن بنا اور یہ کام ایک تجربہ کار کے ہاتھوں ہوا جس کی مخالفت کرکٹ بورڈ کے بڑے بھی کرتے اور وہ نوجوان بھی جسے قلندرز کی حمایت کا بڑا زعم تھا۔ جبکہ اس کھلاڑی پر ایک مخالف بھرم کئے بیٹھا تھا۔ بلاشبہ حفیظ نے نہ صرف بازی الٹا دی بلکہ ناقدین کو پھر خاموش رہنے کا درس دے دیا۔
قذافی سٹیڈیم میں کرکٹ شائقین کی بڑی تعداد جمع ہوچکی تھی ٹاس کے بعد لاہور قلندرز کی بیٹنگ کا انتظار ہورہا تھا۔ ماحول بتارہا تھا کہ لاہوری کرکٹ کے دلدادہ کی اکثریت قلندرز کی سپورٹر تھی۔ میری اگلی نشست پر ایک پختہ عمر کا شخص بیٹھا تھا جس کے ساتھ بیٹھے نوجوان نے گفتگو کا آغاز کیا اور ان سے پوچھا کس ٹیم کو سپورٹ کررہے ہیں انہوں نے جواب دیا ویسے تو میں لاہوری ہوں لیکن مجھے ملتان سلطان بہتر ٹیم لگتی ہے وہ لاہور کی نسبت اچھا کھیلتی آئی ہے میری ہمدردی اس کے ساتھ ہے۔ میں دونوں کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔
نوجوان نے کہا میں لاہور کا فین ہوں اس کا کپتان کچھ کم تجربے کے باعث ٹیم کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ میری رائے میں محمد حفیظ جیسے بوڑھے گھوڑے کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں بلے بازی میں سست اور بولنگ میں بھی سکور کھاتا ہے کسی نوجوان کو موقع دیتے فائنل میں ہروا دے گا۔
یہ بھی دیکھئے:
وہ شخص نوجوان کو بغور دیکھنے لگا اور بولا جناب کرکٹ کے بارے زیادہ معلومات نہیں وہی واحد تجربے کار کھلاڑی ہے قلندرز کو بہت فائدہ پہنچاتا ہے۔ نوجوان نے استفسار کیا کہ اگر آپ اتنا بھروسا کرتے ہیں اس تجربے کار کھلاڑی پر پھر قلندرز کا ساتھ کیوں نہیں دیتے۔
وہ بولے میری ہمدردی اور سپورٹ حفیظ کے ساتھ ہے اور میں دعاگو ہوں وہ آج آپ سمیت تمام ناقدین کو دکھادے وہ کیا کرسکتا ہے۔ بلکہ اگر وہ کامیاب رہا تو میں وثوق سے کہتا ہوں لاہور پہلی جیت بھی اسی کی وجہ سے حاصل کرے گا۔
نوجوان مسکرایا اور بولا آپ نے حفیظ کی خاطر اپنی ہمدردیاں بھی تبدیل کرلیں۔ ان کا جواب تھا میں اچھی اور درست کرکٹ کو تھوڑا سمجھتا ہوں یہ کون سا پاک بھارت ٹاکرا ہے شہروں کے نام ہیں کھلاڑی سب اپنے دیکھے بھالے ہیں۔ رضوان نے بڑی دانشمندی سے کپتانی کی اگر وہ کہیں غلطی کرگیا تو دوسری بار جیت کا موقع بھی گنوا دے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
گلوکاری تا تحریک عدم اعتماد، عکسی مفتی کے مشورے
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
میں پیچھے بیٹھا یہ دلچسپ مکالمہ بڑے انہماک سے سن رہا تھا۔ اور پھر کچھ ایسا ہوا تین وکٹیں جلد گرنے پر نوجوان بڑا مایوس ہوا اس ملتان کے سپورٹر شخص نے الٹا حوصلہ دینے جے انداز میں کہا فکر نہ کرو ابھی حفیظ کریز پر کھڑا ہے۔ اور جب حفیظ نے جوکے چھکے لگائے تو۔ وہی شخص نوجوان کے ساتھ تالیاں بجانے لگا۔ اس کا جوش وخروش دیکھنے والا اور حیران کردینے والا تھا۔ حفیظ کی اننگز ختم ہونے پر کہنے لگے اگر یہ 180 سے زائد بناگئے تو ملتان کیلئے فائٹنگ ٹارگٹ ہوگا۔ نوجوان نے کہا آپ ملتان کی حمایت سے دستبردار ہوگئے وہ بولے تم نے تجربے کو چیلنج کیا مجھے جیسے لگا میری کرکٹ سے متعلق معلومات کو چیلنج کردیا۔ اب میں توقع کروں گا کہ شاہین آفریدی حفیظ کو دوسرا اوور دے اور اگر وہ پہلے دو کھلاڑیوں میں سے کوئی ایک کی بھی
وکٹ کے گیا تو میری بات درست ثابت ہوجائے گی۔ میچ کا پانسا لاہور کے حق میں پلٹ جائے گا۔
مجھے اس شخص کی باتیں سن کر اور میچ دیکھ کر بڑی خوشگوار حیرت ہورہی تھی۔ دوسری اننگز شروع ہوئی اور خلاف معمول دوسرا اوور حفیظ کو ملا اور وہ رضوان کی وکٹ لے اڑا یہیں سے کھیل نے رخ تبدیل کرلیا۔ لاہور نے میچ پر گرفت مضبوط کرلی۔ پھر دونوں کے درمیان بات چیت کم ہوئی صرف کچھ خیرسگالی اشاروں کا تبادلہ ہوا۔ وہ شخص تجربے کی فتح کو زیادہ انجوائے کررہا تھا نوجوان کے ابتدائی کلمات کے جواب جیسے وہ محمد حفیظ کے پہرے پر بیٹھ گیا۔ اس نے جیسے طے کرلیا تھا کہ حفیظ کے سر پر لاہور کی فتح کا تاج پہنانا ہے۔ اور پھر ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ سب نے یہ منظر دیکھا مسلسل جیتنے والی ملتان کی ٹیم بے بس نظر آئی۔
لاہور قلندرز پہلی بار جیت کا مزہ چکھنے میں کامیاب ہوگیا لاہوری کرکٹ دیوانے جیسے جی اٹھے۔ انہیں قلندرز کی شکست شاید مایوسی میں لے جاتی۔ یہ ایک اچھی خبر تھی۔ لاہور قلندرز پی ایس ایل کا چیمپئن بنا اور یہ کام ایک تجربہ کار کے ہاتھوں ہوا جس کی مخالفت کرکٹ بورڈ کے بڑے بھی کرتے اور وہ نوجوان بھی جسے قلندرز کی حمایت کا بڑا زعم تھا۔ جبکہ اس کھلاڑی پر ایک مخالف بھرم کئے بیٹھا تھا۔ بلاشبہ حفیظ نے نہ صرف بازی الٹا دی بلکہ ناقدین کو پھر خاموش رہنے کا درس دے دیا۔
قذافی سٹیڈیم میں کرکٹ شائقین کی بڑی تعداد جمع ہوچکی تھی ٹاس کے بعد لاہور قلندرز کی بیٹنگ کا انتظار ہورہا تھا۔ ماحول بتارہا تھا کہ لاہوری کرکٹ کے دلدادہ کی اکثریت قلندرز کی سپورٹر تھی۔ میری اگلی نشست پر ایک پختہ عمر کا شخص بیٹھا تھا جس کے ساتھ بیٹھے نوجوان نے گفتگو کا آغاز کیا اور ان سے پوچھا کس ٹیم کو سپورٹ کررہے ہیں انہوں نے جواب دیا ویسے تو میں لاہوری ہوں لیکن مجھے ملتان سلطان بہتر ٹیم لگتی ہے وہ لاہور کی نسبت اچھا کھیلتی آئی ہے میری ہمدردی اس کے ساتھ ہے۔ میں دونوں کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔
نوجوان نے کہا میں لاہور کا فین ہوں اس کا کپتان کچھ کم تجربے کے باعث ٹیم کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ میری رائے میں محمد حفیظ جیسے بوڑھے گھوڑے کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں بلے بازی میں سست اور بولنگ میں بھی سکور کھاتا ہے کسی نوجوان کو موقع دیتے فائنل میں ہروا دے گا۔
یہ بھی دیکھئے:
وہ شخص نوجوان کو بغور دیکھنے لگا اور بولا جناب کرکٹ کے بارے زیادہ معلومات نہیں وہی واحد تجربے کار کھلاڑی ہے قلندرز کو بہت فائدہ پہنچاتا ہے۔ نوجوان نے استفسار کیا کہ اگر آپ اتنا بھروسا کرتے ہیں اس تجربے کار کھلاڑی پر پھر قلندرز کا ساتھ کیوں نہیں دیتے۔
وہ بولے میری ہمدردی اور سپورٹ حفیظ کے ساتھ ہے اور میں دعاگو ہوں وہ آج آپ سمیت تمام ناقدین کو دکھادے وہ کیا کرسکتا ہے۔ بلکہ اگر وہ کامیاب رہا تو میں وثوق سے کہتا ہوں لاہور پہلی جیت بھی اسی کی وجہ سے حاصل کرے گا۔
نوجوان مسکرایا اور بولا آپ نے حفیظ کی خاطر اپنی ہمدردیاں بھی تبدیل کرلیں۔ ان کا جواب تھا میں اچھی اور درست کرکٹ کو تھوڑا سمجھتا ہوں یہ کون سا پاک بھارت ٹاکرا ہے شہروں کے نام ہیں کھلاڑی سب اپنے دیکھے بھالے ہیں۔ رضوان نے بڑی دانشمندی سے کپتانی کی اگر وہ کہیں غلطی کرگیا تو دوسری بار جیت کا موقع بھی گنوا دے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ فتویٰ جس پر بھٹو چیخ اٹھے اور کہا، ہمیں کافر کہنے والے خود کافر ہیں
گلوکاری تا تحریک عدم اعتماد، عکسی مفتی کے مشورے
عبد الحئی بلوچ کی جدوجہد اور خدمات
میں پیچھے بیٹھا یہ دلچسپ مکالمہ بڑے انہماک سے سن رہا تھا۔ اور پھر کچھ ایسا ہوا تین وکٹیں جلد گرنے پر نوجوان بڑا مایوس ہوا اس ملتان کے سپورٹر شخص نے الٹا حوصلہ دینے جے انداز میں کہا فکر نہ کرو ابھی حفیظ کریز پر کھڑا ہے۔ اور جب حفیظ نے جوکے چھکے لگائے تو۔ وہی شخص نوجوان کے ساتھ تالیاں بجانے لگا۔ اس کا جوش وخروش دیکھنے والا اور حیران کردینے والا تھا۔ حفیظ کی اننگز ختم ہونے پر کہنے لگے اگر یہ 180 سے زائد بناگئے تو ملتان کیلئے فائٹنگ ٹارگٹ ہوگا۔ نوجوان نے کہا آپ ملتان کی حمایت سے دستبردار ہوگئے وہ بولے تم نے تجربے کو چیلنج کیا مجھے جیسے لگا میری کرکٹ سے متعلق معلومات کو چیلنج کردیا۔ اب میں توقع کروں گا کہ شاہین آفریدی حفیظ کو دوسرا اوور دے اور اگر وہ پہلے دو کھلاڑیوں میں سے کوئی ایک کی بھی
وکٹ کے گیا تو میری بات درست ثابت ہوجائے گی۔ میچ کا پانسا لاہور کے حق میں پلٹ جائے گا۔
مجھے اس شخص کی باتیں سن کر اور میچ دیکھ کر بڑی خوشگوار حیرت ہورہی تھی۔ دوسری اننگز شروع ہوئی اور خلاف معمول دوسرا اوور حفیظ کو ملا اور وہ رضوان کی وکٹ لے اڑا یہیں سے کھیل نے رخ تبدیل کرلیا۔ لاہور نے میچ پر گرفت مضبوط کرلی۔ پھر دونوں کے درمیان بات چیت کم ہوئی صرف کچھ خیرسگالی اشاروں کا تبادلہ ہوا۔ وہ شخص تجربے کی فتح کو زیادہ انجوائے کررہا تھا نوجوان کے ابتدائی کلمات کے جواب جیسے وہ محمد حفیظ کے پہرے پر بیٹھ گیا۔ اس نے جیسے طے کرلیا تھا کہ حفیظ کے سر پر لاہور کی فتح کا تاج پہنانا ہے۔ اور پھر ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ سب نے یہ منظر دیکھا مسلسل جیتنے والی ملتان کی ٹیم بے بس نظر آئی۔
لاہور قلندرز پہلی بار جیت کا مزہ چکھنے میں کامیاب ہوگیا لاہوری کرکٹ دیوانے جیسے جی اٹھے۔ انہیں قلندرز کی شکست شاید مایوسی میں لے جاتی۔ یہ ایک اچھی خبر تھی۔ لاہور قلندرز پی ایس ایل کا چیمپئن بنا اور یہ کام ایک تجربہ کار کے ہاتھوں ہوا جس کی مخالفت کرکٹ بورڈ کے بڑے بھی کرتے اور وہ نوجوان بھی جسے قلندرز کی حمایت کا بڑا زعم تھا۔ جبکہ اس کھلاڑی پر ایک مخالف بھرم کئے بیٹھا تھا۔ بلاشبہ حفیظ نے نہ صرف بازی الٹا دی بلکہ ناقدین کو پھر خاموش رہنے کا درس دے دیا۔