اردوادب میں مزاح نگاری کاسنہری دورتورخصت ہوا۔ مایہ نازمزاح نگار مشتاق احمدیوسفی، شفیق الرحمٰن، کرنل محمدخان، محمد خالد اختربھارت میں مجتبیٰ حسین، یوسف ناظم اردو کوبے مثال ادبی مزاح پاروں سے مالامال کرکے جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کوچلے گئے۔سیدضمیر جعفر ی، سیدمحمدجعفری، دلاورفگارجیسے مزاحیہ شعراء بھی رخصت ہوئے۔اب خالدمسعود، انعام الحق جاوید، انورمسعود، عطاالحق قاسمی، ڈاکٹر محسن مگھیانہ جیسے چندمزاح نگارہی اردوادب میں طنزومزاح کے غنچے کھلارہے ہیں۔ اللہ ان تمام کوعمر خضرعطاکرے۔
ایسے میں شاہدظہیرسید”حدِادب“ کے ذریعے اردومزاح نگاری کے دورِ نوکے نقیب کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ان کے لہجے میں شگفتگی، اسلوب میں لطافت اورطنزمیں کاٹ اورزبان بہت شستہ ہے۔پہلی ہی کتاب سے شاہدظہیرنے قارئین اورماہرین کوچونکادیاہے۔دو سو چالیس صفحات کی کتاب کو روشن پبلی کیشنزنے عمدہ کاغذپربہترین طباعت سے مرصع کیاہے، اوراس کی قیمت آٹھ سو روپے بھی مناسب ہے۔ مصنف بنیادی طور پر وکیل ہیں۔”حدِ ادب“ طنزومزاح اورخاکوں کی انتہائی دلچسپ کتاب ہے۔اوراسے بجاطور پراردو مزاح نگاری کے دورِ نوکاآغازقراردیاجاسکتاہے۔
مشہورکالم نگار،شاعر،دانشورعطاالحق قاسمی نے کتاب کاتعارف”مزاح نگاری ایک سنجیدہ کام ہے“میں لکھاہے۔”طنزومزاح بچوں کا کھیل نہیں ہے۔زندگی سے اگرطنزومزاح کونکال دیاجائے تو باقی ٹی وی چینلزکے سیاسی تجزیے اور اخبارات کے مثبت اداریے رہ جاتے ہیں۔ جن پر آپ ہنسنا چاہیں تو بے شک ہنستے رہیں۔چنانچہ مزاح نگاروں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں سے زیادہ نہیں۔ انگلیاں تو خیر اور بھی بہت ساری ہیں جوہم ایک دوسرے پر اٹھاتے رہتے ہیں اوراس کے علاوہ صرف ایک انگلی سے فتنہ وفسادکا کام بھی لیا جاتا ہے مگر طنز و مزاح ان سب فتنوں کا قلع قمع کرنے میں بہت موثرکرداراداکرتاہے۔
یہ بھی پڑھئے:
نایاب لوگوں کا نایاب تذکرہ| نعیم الرحمٰن
بولتے اوراق ،قاری سے بات کرتی کتاب | نعیم الرحمٰن
آپ کڑوی سے کڑوی بات بہت میٹھے اندازمیں کرسکتے ہیں۔مزاح نگاری ایک سنجیدہ کام ہے جسے اکثرلوگ غیرسنجیدگی سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگریہ کہاجائے کہ ادب کی تمام اصناف میں سب سے مشکل مزاح لکھناہے تواس میں ہرگزمبالغہ نہیں ہوگا۔مزاح نگاری ایسانازک فن ہے جس میں ذراسی چوک سے مزاح اورمذاق کاتوازن بگڑنے کا مسلسل اندیشہ رہتاہے۔کسی کا ٹھٹھا اُڑانا اور کسی کی پگڑی اچھالنا ہرگز مزاح نگاری نہیں ہے۔یہ کام اس وقت اوربھی مشکل ہوجاتاہے جب اسے اپنی اقداروروایات کے مطابق ادب کی حدکے اندررہ کرکیاجائے۔’حدِادب‘شاہدظہیرسیدکامزاحیہ خاکوں اورفکاہیہ مضامین کا ایساہی مجموعہ ہے جس میں انہوں نے اپنے ہرمضمون اورخاکے کے ساتھ متانت اورتہذیب کوبرقرار رکھتے ہوئے ایک شائستہ اورشستہ انداز اپنایاہے۔’حدِادب‘ شاہد ظہیر سید کا طنز و مزاح کا پہلا مجموعہ ہے لیکن مزاح نگاری میں اس کی سنجیدگی دیکھ کرمجھے پورا یقین ہے کہ اپنے قلم سے یہ آئندہ بھی اردوادب میں مزاح نگاری کے پھول کھلاتارہے گا۔“
سابق ڈائریکٹر نیشنل بک فاؤنڈیشن، شاعراورمزاح نگار پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا کہناہے۔”شاہد ظہیر سید پیشے کے اعتبار سے ایڈوکیٹ ہیں اورملک کی اعلیٰ عدلیہ میں بطوروکیل کام کررہے ہیں۔یوں ان کاتعلق معاشرے کے بیدارمغزطبقے سے ہے۔ عملی زندگی میں اتنے سنجیدہ میدان عمل میں رہتے ہوئے ان کی قلم سے شگفتگی اورحسِ لطافت کابے ساختہ اظہار ایک لطف سے سرشارکرتاہے جس کی واضح مثال ان کی یہ کتاب’حدِادب‘ ہے۔ان کااندازِ بیان ایساہے کہ جسٹس کیانی کی یادتازہ ہوگئی۔یہ کتاب مصنف کی آپ بیتی نما تحریر پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے زندگی کے چند واردات و واقعات کوشستہ، شگفتہ اوردلچسپ اندازمیں لکھا ہے۔واقعاتی تسلسل ایک بہاؤکی طرح گزرتا چلا جاتا ہے،ایک دفعہ کتاب پڑھناشروع کریں تو ختم ہونے سے پہلے رکنے کانام نہ لیں۔کہیں کہیں تحریرمصنف کی زندگی کا سفرنامچہ بھی لگتی ہے جس میں اساتذہ، دوستوں اور اپنے حوالے سے کسی تصنع کے بغیر احوال دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے،اشعارکا انتخا ب عمدہ اور استعمال برمحل ہے۔کتاب پڑھتے ہوئے احساس ہوتاہے کہ مصنف علمِ تاریخ اورعلمِ سیاسیات وقانون کاوسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔“
مشہورکارٹونسٹ پروفیسر ڈاکٹر شوکت محمود جو میکسم کی عرفیت سے جانے جاتے ہیں۔انہوں نے ’حدِادب‘ کے مضامین کواپنے کارٹونوں سے سجایا ہے۔وہ ”راگ مالا“ کے عنوان سے لکھتے ہیں۔”مزاح نگاری مشکل فن ہے۔اردوادب میں اگر مزاح نگاروں کی لسٹ پرنظر ڈالیں توان کی تعداد زیادہ نظرنہیں آتی۔میرے ذہن میں جوچندنام ابھرتے ہیں ان میں پطرس بخاری،شفیق الرحمٰن،ابن انشاء، مشتاق احمد یوسفی، کرنل محمدخان، انورمقصود، محسن مگھیانہ اور عطاالحق قاسمی کے نام شامل ہیں۔ کرنل شفیق الرحمٰن کو تو مارک ٹوین، اسٹیفن لی کاک اورپی جی ووڈ ہاؤس کاجانشین بھی مانا جاتا ہے۔ مشتاق یوسفی فقط مزاح اور طنزنگارہ ی نہیں تھے بلکہ علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ اورپاکستان بینکنگ کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ انہوں نے اس فن کونئی بلندیاں عطاک یں۔بسا اوقات مزاح کسی کے مزاج کے لیے ناگوار بھی ہوسکتا ہے۔اچھا مزاح وہی ہے جو اپنے آپ میں طنز تو رکھتا ہو لیکن تہذیب اورشگفتگی کا دامن نہ چھوڑے، یہی ہر بڑے مزاح نگارکے فن کاخاصہ ہو تاہے۔ شاہد ظہیر کی تحریرکی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اس میں مزاح کی چاشنی،طنز کی کاٹ اوریادوں کی شیرینی توہے مگرکہیں بھی کسی کی تضحیک یاتذلیل دکھائی نہیں دیتی۔شایداسی لیے انہوں نے اپنی کتاب کو’حدِ ادب‘ کانام دیاہے۔قاری کویہی محسوس ہوتاہے کہ وہ یادوں کی بارات کاایک باراتی ہے جوپنجاب یونیورسٹی کیمپس سے عدالتِ عالیہ تک مصنف کے ساتھ ساتھ چلتاہے۔ظہیرصاحب نے جس مہارت سے اپنی یادداشتوں کوایک سلسلے میں پرویاہے اسے پڑھ کرتوکہناپڑتاہے یہ ایسی’راگ مالا‘ ہے جویونیورسٹی لا کالج کی یادداشتوں کی مرہون منت ہے۔توقع کرتاہوں کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیتوں کے باوجودلکھنے کے اس سلسلے کوجاری رکھیں گے۔“
مزاح نگار،ادیب اوراردومزاح نگاری پرڈاکٹریٹ کرنے والے پروفیسرڈاکٹراشفاق احمدورک نے تعارفی تحریرکو’حدِادب،سرحدادب‘ کا عنوان دیاہے۔”اگرہم اپنی عدالتوں اورکچہریوں پرنظرکریں حسِ مزاح توایک طرف،یہاں توجملہ احساسات کابھی دم گھنٹے لگتاہے۔اس لیے حیرت ہوتی ہے جب اس شعبے سے اکبرالہٰ آبادی،فرحت اللہ بیگ اوررستم کیانی جیسے زندہ دلوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔یہ تمام وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی منصفی کی نسبت،تیزدھارطنزاوردھاری دارمزاح سے زیادہ انصاف کیا۔شاہدظہیرسید،ویسے توقانون کے آدمی ہیں لیکن اس وقت وہ تمام قانونی ضابطوں کوبالائے طاق رکھ کرادب کی سرحدپہ کھڑے ہیں۔طبقہ ء وکلاکہنے توبے ادبی کے لیے مشہورہے اور کسی بھی شعبے میں دندناتے ہوئے داخل ہوجانے سے انہیں دنیاکی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ادب وہ واحدشعبہ ہے جس میں قدوم میمنت لزوم کے بغیردم نہیں ماراجاسکتا۔بالخصوص مزاح اورظرافت تووہ نگری ہے جہاں شستگی وشائستگی کے ساتھ عجزوانکساربنیادی شرائط کا درجہ رکھتے ہیں۔شاہدظہیرخاکہ نگاری میں جملہ بازی کی بجائے جملہ سازی سے کام چلالیتے ہیں۔وہ خاکے کی روایت سے فائدہ اٹھاکر، دامن کواس حریفانہ یاباغیانہ کھینچنے کی بجائے،شریفانہ اسلوب کادامن تھامنے کوترجیح دیتے ہیں۔شستہ مزاجی اوروضع داری کے ساتھ ساتھ نکتہ سنجی ونکتہ رسی قدم قدم پران کی تحریرکی بلائیں لیتی نظرآتی ہے اورتاریخ وادب کاوسیع مطالعہ ان کی تحریرکی سطرسطرسے جھانکتاہے۔وہ اپنی تخلیقات میں برمحل اقوال واشعاراورحسبِ ذائقہ مصرعوں کونگینوں کی طرح ٹانکنے کاہنربھی بخوبی جانتے ہیں۔کہیں کہیں چلبلی تحریف سے بھی تحریرکھلکھلااٹھتی ہے۔ان کابے پناہ مشاہدہ،جزئیات نگاری،منظرنگاری اوررمزوایمائیت کامسلسل استعمال بعض اوقات ان کے خاکوں اور مضامین کوافسانوں کے قریب لے جاتاہے۔“
شاہدظہیرسید”کہی سنی،سنی سنائی!“ کے زیرعنوان لکھتے ہیں۔”کوئی وکیل اگرقانون سے ہٹ کربات کرے توقانون کی نظرمیں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ایسی باتیں اگرضبط تحریر میں لائی جائیں توانہیں غیرسنجیدہ سمجھاجاتاہے اورمحض مزاح کے طورپرلیاجاتاہے۔ایک فاضل دوست نے پوچھا۔’سنا ہے کسی کتاب پرکام کررہے ہو، کاملنابندہوگیاہے؟‘دوسرے مخلص بولے۔’وکیل اگرکتابیں لکھنے لگے توکہاجاتاہے کہ وہ توبس کتابیں وغیرہ ہی لکھتاہے اور اگر کتاب کامیاب قرار پائے توبطور وکیل اس کی ناکامی یقینی ہے۔‘تاریخ بتاتی ہے کہ انگریز گورنر نے آنجہانی چیف جسٹس پنجاب جسٹس شادی لعل سے جب اقبالؒ ک اذکر کیاتو وہ بولے۔’ہم جس اقبالؒ کوجانتے ہیں وہ توایک شاعرہے۔‘ ایک تازہ بہ تازہ پی ایچ ڈی نے آگاہ فرمایاکہ ’حدِ ادب‘ کاتعین کرلیجیے!قانونی حلقوں میں آپ کی اٹھائیس سالہ محنت مٹی میں مل جائے گی اور ادب والے اسے سرزمینِ ادب میں مداخلتِ بے جا سمجھیں گے اوراگرپولیس آفیسراورپراسکیوٹرکی ایماء بھی سامنے آگئی توآپ کی اس کتاب کوجیل مینوئل میں شامل کرکے بطورمشقت قیدیوں پڑھائی جانے کے قابل قرار دیں گے۔بارے اس کتاب کی یہ چند سنی سنائی باتیں ہیں اوربہت سی اَن کہی ہیں انہیں ان کہی ہی رہناچاہیے۔“
”حدِادب“ بنیادی طور پرپنجاب یونیورسٹی ہوسٹل میں شاہدظہیرسیدکے قانون کی تعلیم کے دوران قیام مختلف ساتھیوں،اساتذہ کے خاکوں اورمضامین پرمبنی ان کی آپ بیتی ہے۔جن کومیکسم نے کارٹوں سے مرصع کرنے کتاب کی دلچسپی میں اضافہ کیاہے۔پہلاخاکہ”استادِ گرامی“ ڈگری لینے کے بعدوکالت کے شعبے کے رہنماو استادکادلچسپ کیری کیچرہے۔ملاقات کااحوال ہی دلچسپ ہے۔”سامنے لمبے قدکے ایک شخص دھوتی اوربنیان پہنے،جسے ملبوس نہیں کہہ سکتے کہ لغت میں ملبوس کے جومعنی لکھے ہیں،تنگ دامن بنیان اس معنی پرپوری نہیں اترتی تھی اوردھوتی اس مقصد میں قطعی طورپرناکام نامرادتھی جس کیلیے باندھی گئی گئی تھی۔لکڑی کے صوفے پرآلتی پالتی مارے بیٹھے تھے اورایک بڑے برتن میں برتن سے بھی بڑے سائز کاتربوزرکھے بغیرکسی دیگرمحتاجی کے نوشِ جاں فرمارہے تھے۔تربوزچاہ عمیق تھاکہ ہرنوالے سے قبل ڈبکی لگا کرگوہرِ مقصودتلاش کرناپڑتا۔انہوں نے دھوتی ایک سراجسے کتنابھی مہذب بنالیں،پلونہیں کہہ سکتے۔وہاں سے اٹھاکرمنہ صاف کیا۔جہاں سے ’پردہ جواٹھ گیاتوبھیدکھل جائے گا‘کی وارننگ دی جاتی ہے۔“
اس ملاقات کے نتیجے میں شاہدظہیراستادگرامی کے ’چھچھرچیمبرز‘ سے منسلک ہوگئے۔جس کانظام اے ڈی صاحب چیف سیکریٹری عرف ہیڈ منشی ووزیرخزانہ کے ہاتھ میں تھا۔باقی اسٹاف میں ہمیشہ حرکت میں رہنے والے منشی محمداسلم اوربغیرحرکت کامیاب غفوراحمدشامل تھے ان تمام کرداروں کاتعارف بھی دلچسپی سے بھرپورہے۔استادگرامی کے دوستوں کاخیال تھاکہ چودھری صاحب اوراے ڈی صاحب ایک دوسرے کے بغیرنہیں چل سکتے۔چودھری صاحب کسی مقدمے کی فائل ہمیشہ عنوان بتائے بغیرطلب کرتے یہ نشاندہی بھی نہ ہوتی کہ مقدمہ کس عدالت میں ہے۔پھربھی وہ فائل کسی انجانی جگہ سے نکل کرفوراً سامنے آجاتی۔منشی صاحبان اوران کاڈرائیورجوپائلٹ اشرف کہلاتا تھا۔کافی ہیرپھیرکرتے۔شاہدظہیرکاخیال تھاکہ استاد کواس کی کوئی خبرنہیں۔لیکن انہوں نے ایک عجیب فلسفہ بیان کیا۔ ’یہ منشی صاحبان اور پائلٹ جوکچھ کرتے ہیں مجھے سب خبرہے۔۔اگرزیورکاکام ہوتوسنارہی کرے گانا؟ وہ کام ہم اس وجہ سے لوہارکونہیں دے سکتے کہ وہ بہت ایماندارہے۔اے ڈی اپنے کام کاسنارہے کاٹ توکٹے گی۔‘ دلچسپ خاکوں میں ”اترسکتے ہیں کیمپس میں قطاراندرقطاراب بھی“،”نواب آف نولینڈ“،”مجومیاں“،”گھگوبھائی“،”چ سے چودھری“، ”پیرمغاں“ ایک سے بڑھ کرایک شگفتہ انداز میں ہیں کہ پڑھتے ہوئے قاری بے ساختہ مسکراہٹ اورکبھی کبھی قہقہہ پرقابونہیں پاسکتا۔ایک دلچسپ خاکہ”غلمان جی“ ہے۔ ”حضرت شیکسپئرکہہ گئے ہیں کہ نام میں کیارکھاہے۔گلاب کوجس نام سے بھی پکارو،وہ گلاب ہی رہے گا۔ جبکہ ادھرکتنے گمنام ہیں جواس بات سے اختلاف ہی نہیں کرتے،چیلنج بھی کرتے ہیں کہ آج کاکوئی دانشوراپنے لیے وہ نام منتخب کرے جو ان کے بزرگوں نے چنااورتقدیرکے لکھے پران کے لیے فارم ب پرلکھاگیاتووہ اُسے شیکسپئرمان کرفامن پرسردھنیں گے۔ورنہ شیکسپئرمل جا ئے تواسے بھی دھن دیں گے۔اے ڈی،ایم ڈی،این ڈی اوراے آرجیسے انگریزی حروف کے بعد اصغر،اکبرجیسے لاحقوں سے سجے نام عام ہیں۔اللہ رکھااسلم،اے آرکے پیچھے چھپاہے۔اللہ دتہ،اے ڈی بن گیا۔دویادوسے زیادہ غیرمستندلوگ کسی بات پرمتفق ہوجائیں تووہ مستندکہلاتی ہے۔فیس بک غیرمستندباتوں کومستندبنانے کی تیزترین مشین ہے جہاں لغوسے لغوبات بھی خوبصورت چہرے پرسجادی جائے تو لوگ پڑھے بغیرہی لائک کرنے لگتے ہیں اوربات منٹوں میں مستندبن جاتی ہے۔“
اسی حوالے سے جسٹس رستم کیانی کاواقعہ شاہدظہیربیان کرتے ہیں۔”ایک مرتبہ جسٹس ایم آرکیانی کوکسی نے لکھاکہ آپ کااصل نام کیاہے؟ توانہوں نے جواب دیا،میرانام رستم کیانی ہے جواس کے بعدشک کرے،وہ کافی ہے نیزواضح ہوکہ میں خودبال سے زیادہ باریک ہوں مگر میری ہڈیاں تلوارسے زیادہ تیزہیں۔جن پرسے دوغلی باتوں کے ٹرک گزرنہیں سکتے۔“ مرحوم جسٹس منحنی جسامت کے باوجود ارادے کے رستم الزماں تھے جوبغیرکسی خوف کے مارشل لاکے خلاف ڈٹے رہے۔اُن کے بعد آنے والے ہررستم وسہراب نے پی سی اوپرحلف لیا اور آمروں کوآئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی تحریری اجازت دی حالانکہ وہ کسی اجازت کے محتاج بھی نہیں تھے۔
”کم یاب خان“،”بے ہدایت ڈاٹ کام“،”میرے فاضل دوست“،”ہرچندکہ ہے نہیں ہے“،”دانشور،دانشورہوتاہے“،”حدِادب“،”حُسن دُکھنے والی آنکھ میں ہوتاہے“،”عینک لگواؤ ایمان تمہیں چانددکھے گا“،”بڑے حاجی صاحب“،”کرکٹیریا“،”ایک محبت سوبہانے“، ”پختون لیکس“،”زوجہ برحق“ اور”بے ربط یادیں“ چند قابل ِ توجہ اوردلچسپ مضامین ہیں۔جوبہت ریڈایبل ہیں۔مجموعی طور پر”حدِ ادب“ ایک نئے مزاح نگارکی آمدکامژدہ سناتی ہے۔