Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ڈیلمنگ نے بہت گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور مجھے گاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دی۔میں اطمینان سے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا تو گاڑی چلادی۔ وہ ایک دراز قد شخص تھا اور بہت دھیمے لہجے میں اور شائستگی سے بات کرتا تھا۔اس نے نظر کا چشمہ لگایا ہوا تھا اور نیلے رنگ کا پینٹ کوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔ اسے تین زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انگریزی ، جاپانی اور سوئیڈش روانی سے بول سکتا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کا تعلق سوئیڈن سے ہے اور وہ کئی سالوں سے سوئیڈن کے ایک پروٹسٹنٹ چرچ سے وابستہ ھے۔ اسے سوئیڈن کی مشنری آرگنائزیشن نے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے جاپان بھیجا ھے۔ اور آج کل وہ ایک چرچ میں بحیثیت پادری کے فرائض انجام دے رہا ھے۔
یہ بھی پڑھئے:
پھر اخبار کے ایڈیٹر نے مجھے بلا لیا
پھر جاپان پہنچ کر ہم پھنس گئے | محمد اشفاق
ہم ٹوکیو میں تھے اور خوف دامن گیر تھا | محمد اشفاق
۔۔۔ اور میں نے جاپان کی ٹھان لی| محمد اشفاق
اس نے بتایا کہ آج اس کے گھر پارٹی ھے۔ اور وہاں بہت سے غیر ملکی آ رہے ہیں۔ وہ نمازو نامی علاقے میں رہائش پزیر تھا۔ پندرہ سے بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک گھر کے آگے رکی۔ ہم تینوں گاڑی سے اترے تو اس نے گھر کی گھنٹی بجادی۔ایک خاتون نے دروازہ کھولا۔ Delming نے بتایا کہ یہ خاتون اس کی بیوی ھے اور اس کا نام کرسٹینا ہے۔ وہ درمیانے قد کی نیلی آنکھوں اور سنھرے بالوں والی خاتون تھی۔
کرسٹینا مجھ سے بہت گرمجوشی سے ملی۔ ہم لوگ اندر کمرے میں داخل ھو گۓ۔ یہاں کئی غیر ملکی افراد پہلے ہی سے موجود تھے جن کا تعلق برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ سے تھا۔ اور یہ سب جاپان کے مختلف تعلیمی اداروں میں انگریزی پڑھا رہے تھے۔ ان سب کی ماہانہ تنخواہیں ہم مزدور پاکستانیوں سے کہیں زیادہ تھیں۔ میری تنخواہ 1000 ین گھنٹہ تھی جبکہ ان انگلش ٹیچرز کی کم از کم تنخواہ 3000 ین گھنٹہ تھی۔ ان ٹیچرز کا رہن سہن بھی ہم پاکستانیوں سے بالکل مختلف تھا۔ ہم ایشین لوگ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی فیملی کے لیے جیتے ہیں۔ جب کہ انگریز صرف اور صرف اپنے لیے جیتے ہیں۔
ہر ٹیچر علیحدہ اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا۔ جبکہ ہم پاکستانی ایک گھر میں دو سے تین افراد رہتے تھے۔ ہمیں پیسے بچا کر پاکستان بھیجنے ھوتے تھے جبکہ یہ ٹیچرز اپنی ذات کے لیے کما رہے تھے۔
یہاں موجود لوگوں میں ،میں نے Mark، Glenn ، Cathy اور ایک جاپانی فیملی Abe family سے خوب گپ شپ کی۔ Delming نے ان سب سے میرا تفصیلی تعارف کروایا۔ اور مجھے ان سب کے بارے میں بتایا۔ تھوڑی دیر میں ہم سب گھل مل گۓ۔ پاکستان کے بارے میں خوب باتیں ھوئیں۔ پاکستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے بھی بہت سی باتیں ھوئیں۔ میں نے ان کے ذہنوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
یہ پارٹی دراصل ملنے ملانے کا ایک بہانہ تھا۔کرسٹینا نے پارٹی کے لیے خصوصی طور پر سوئیڈش کیک تیار کیے تھے۔ پارٹی میں مہمانوں کی تواضع جاپانی، سوئیڈش اور انگریزی کھانوں سے کی گئ۔ پارٹی میں ایک چھوٹا سا میوزیکل پروگرام بھی رکھا گیا تھا۔ اور کئ لوگوں نے اس میں نغمہ سرائ کی کوشش کی۔ پارٹی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں خاصے پڑھے لکھے انگریز موجود تھے۔ مہمانوں کے جانے کے بعد Delming اور Christina نے اپنے بارے میں بہت تفصیل سے بتایا۔ وہ دونوں میاں بیوی بہت مذہبی تھے۔ انھوں نے مجھ سے جاپان آنے اور قیام کا مقصد پوچھا۔ وہ یہ سن کر حیران ھو گۓ کہ میں اپنی فیملی کے لیے پیسہ کمانے آیا ھوں۔
کرسٹینا نے مجھ سے کہا “تم یقینی طور پر اپنی والدہ کو بہت miss کرتے ھو گے۔ اس نے مجھے گلے لگاتے ھوۓ کہا” آج سے میں تمہاری والدہ ھوں ، سوئیڈش والدہ۔” جاپان میں جب کبھی تمھیں کسی بھی چیز کی ضرورت ھو تو مجھے یاد رکھنا ”
کرسٹینا نے مزید کہا ” ہر جمعہ یا ھفتہ کی رات ہمارے گھر آ جایا کرو۔” ان دونوں کی گفتگو نے مجھے پاکستان بھلا ہی دیا۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ھے۔ ان کی بیٹی نے ایک جاپانی سے شادی کی ھوئی ھے۔ ان کی ایک پوتی بھی ھے۔ دونوں بیٹے سوئیڈن کی کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں اور ہر سال اپنی چھٹیاں جاپان میں گزارتے ہیں۔
شام کو Delming نے مجھے اس وعدے کے ساتھ میرے اپارٹمنٹ تک چھوڑاکہ میں آئندہ بھی ان کے گھر آتا جاتا رھوں گا۔
میرے لیے آج کا دن بہت دلچسپ اور بہت ہی یادگار تھا۔ گھر آکر وہی صفائی ستھرائی اور کپڑے دھوۓ۔ اخبار پڑھا۔
اگلے دن صبح میں نے چاۓ بنانے کے لیے چولھا جلایا۔ اور سنک میں رکھے ھوۓ گلاس دھونے لگا۔ میں نے جیسے ہی گلاس کو اندر سے دھونا چاہا اس میں دراڑ آ گئ اور میری دو انگلیوں کو زخمی کر دیا اور ان میں سے خون جاری ھو گیا۔پاکستانی ٹوٹکا آزماتے ھوۓ میں نے ہلدی لگا کر اس پر رومال باندھ دیا۔ لیکن خون نہ رکا۔اور پورا رومال خون سے لت پت ھو گیا۔
ہمارے قریبی دوست کی بیوی جاپانی تھی۔ ہم نے اسے کال کی۔ دس منٹ میں وہ لوگ آگئےاور ہم ہسپتال روانہ ھو گۓ۔
ہسپتال جاتے ھوۓ میں کافی خوف زدہ تھا کہ کہیں مجھے گرفتار نہ کر لیا جاۓ کیونکہ میرے ویزے کی میعاد ختم ھوۓ ایک سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔لیکن ہسپتال کے اندر ہم سے کسی بھی قسم کا کوئی سوال نہیں کیا گیا۔میرا زخم دیکھ کر ٹانکے لگا دیے گۓ۔ اور کچھ گولیاں دے دی گئیں۔ مجھے بتا دیا گیا کہ مجھے پانچ دن پٹی کروانی ھو گی۔ہسپتال کا بل میری فیکٹری نے ادا کیا۔انگلیوں میں ٹانکوں کی وجہ سے مجھے سات دن گھر رہنا پڑا۔یہ سات دن میری زندگی کے بور ترین دن تھے۔
چند دنوں بعد مجھے Glenn نے کال کی اور مجھ سے آنے والے اتوار کا پروگرام پوچھا۔ ہم دونوں نے طے کیا کہ آنے والے اتوار کو ہم کسی پارک اور شاپنگ پر جائیں گے۔ Glenn بھی نمازو Numazu ہی میں رہائش پذیر تھا۔(جاری ھے۔۔۔۔۔۔۔۔)
ڈیلمنگ نے بہت گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور مجھے گاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دی۔میں اطمینان سے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا تو گاڑی چلادی۔ وہ ایک دراز قد شخص تھا اور بہت دھیمے لہجے میں اور شائستگی سے بات کرتا تھا۔اس نے نظر کا چشمہ لگایا ہوا تھا اور نیلے رنگ کا پینٹ کوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔ اسے تین زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انگریزی ، جاپانی اور سوئیڈش روانی سے بول سکتا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کا تعلق سوئیڈن سے ہے اور وہ کئی سالوں سے سوئیڈن کے ایک پروٹسٹنٹ چرچ سے وابستہ ھے۔ اسے سوئیڈن کی مشنری آرگنائزیشن نے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے جاپان بھیجا ھے۔ اور آج کل وہ ایک چرچ میں بحیثیت پادری کے فرائض انجام دے رہا ھے۔
یہ بھی پڑھئے:
پھر اخبار کے ایڈیٹر نے مجھے بلا لیا
پھر جاپان پہنچ کر ہم پھنس گئے | محمد اشفاق
ہم ٹوکیو میں تھے اور خوف دامن گیر تھا | محمد اشفاق
۔۔۔ اور میں نے جاپان کی ٹھان لی| محمد اشفاق
اس نے بتایا کہ آج اس کے گھر پارٹی ھے۔ اور وہاں بہت سے غیر ملکی آ رہے ہیں۔ وہ نمازو نامی علاقے میں رہائش پزیر تھا۔ پندرہ سے بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک گھر کے آگے رکی۔ ہم تینوں گاڑی سے اترے تو اس نے گھر کی گھنٹی بجادی۔ایک خاتون نے دروازہ کھولا۔ Delming نے بتایا کہ یہ خاتون اس کی بیوی ھے اور اس کا نام کرسٹینا ہے۔ وہ درمیانے قد کی نیلی آنکھوں اور سنھرے بالوں والی خاتون تھی۔
کرسٹینا مجھ سے بہت گرمجوشی سے ملی۔ ہم لوگ اندر کمرے میں داخل ھو گۓ۔ یہاں کئی غیر ملکی افراد پہلے ہی سے موجود تھے جن کا تعلق برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ سے تھا۔ اور یہ سب جاپان کے مختلف تعلیمی اداروں میں انگریزی پڑھا رہے تھے۔ ان سب کی ماہانہ تنخواہیں ہم مزدور پاکستانیوں سے کہیں زیادہ تھیں۔ میری تنخواہ 1000 ین گھنٹہ تھی جبکہ ان انگلش ٹیچرز کی کم از کم تنخواہ 3000 ین گھنٹہ تھی۔ ان ٹیچرز کا رہن سہن بھی ہم پاکستانیوں سے بالکل مختلف تھا۔ ہم ایشین لوگ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی فیملی کے لیے جیتے ہیں۔ جب کہ انگریز صرف اور صرف اپنے لیے جیتے ہیں۔
ہر ٹیچر علیحدہ اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا۔ جبکہ ہم پاکستانی ایک گھر میں دو سے تین افراد رہتے تھے۔ ہمیں پیسے بچا کر پاکستان بھیجنے ھوتے تھے جبکہ یہ ٹیچرز اپنی ذات کے لیے کما رہے تھے۔
یہاں موجود لوگوں میں ،میں نے Mark، Glenn ، Cathy اور ایک جاپانی فیملی Abe family سے خوب گپ شپ کی۔ Delming نے ان سب سے میرا تفصیلی تعارف کروایا۔ اور مجھے ان سب کے بارے میں بتایا۔ تھوڑی دیر میں ہم سب گھل مل گۓ۔ پاکستان کے بارے میں خوب باتیں ھوئیں۔ پاکستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے بھی بہت سی باتیں ھوئیں۔ میں نے ان کے ذہنوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
یہ پارٹی دراصل ملنے ملانے کا ایک بہانہ تھا۔کرسٹینا نے پارٹی کے لیے خصوصی طور پر سوئیڈش کیک تیار کیے تھے۔ پارٹی میں مہمانوں کی تواضع جاپانی، سوئیڈش اور انگریزی کھانوں سے کی گئ۔ پارٹی میں ایک چھوٹا سا میوزیکل پروگرام بھی رکھا گیا تھا۔ اور کئ لوگوں نے اس میں نغمہ سرائ کی کوشش کی۔ پارٹی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں خاصے پڑھے لکھے انگریز موجود تھے۔ مہمانوں کے جانے کے بعد Delming اور Christina نے اپنے بارے میں بہت تفصیل سے بتایا۔ وہ دونوں میاں بیوی بہت مذہبی تھے۔ انھوں نے مجھ سے جاپان آنے اور قیام کا مقصد پوچھا۔ وہ یہ سن کر حیران ھو گۓ کہ میں اپنی فیملی کے لیے پیسہ کمانے آیا ھوں۔
کرسٹینا نے مجھ سے کہا “تم یقینی طور پر اپنی والدہ کو بہت miss کرتے ھو گے۔ اس نے مجھے گلے لگاتے ھوۓ کہا” آج سے میں تمہاری والدہ ھوں ، سوئیڈش والدہ۔” جاپان میں جب کبھی تمھیں کسی بھی چیز کی ضرورت ھو تو مجھے یاد رکھنا ”
کرسٹینا نے مزید کہا ” ہر جمعہ یا ھفتہ کی رات ہمارے گھر آ جایا کرو۔” ان دونوں کی گفتگو نے مجھے پاکستان بھلا ہی دیا۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ھے۔ ان کی بیٹی نے ایک جاپانی سے شادی کی ھوئی ھے۔ ان کی ایک پوتی بھی ھے۔ دونوں بیٹے سوئیڈن کی کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں اور ہر سال اپنی چھٹیاں جاپان میں گزارتے ہیں۔
شام کو Delming نے مجھے اس وعدے کے ساتھ میرے اپارٹمنٹ تک چھوڑاکہ میں آئندہ بھی ان کے گھر آتا جاتا رھوں گا۔
میرے لیے آج کا دن بہت دلچسپ اور بہت ہی یادگار تھا۔ گھر آکر وہی صفائی ستھرائی اور کپڑے دھوۓ۔ اخبار پڑھا۔
اگلے دن صبح میں نے چاۓ بنانے کے لیے چولھا جلایا۔ اور سنک میں رکھے ھوۓ گلاس دھونے لگا۔ میں نے جیسے ہی گلاس کو اندر سے دھونا چاہا اس میں دراڑ آ گئ اور میری دو انگلیوں کو زخمی کر دیا اور ان میں سے خون جاری ھو گیا۔پاکستانی ٹوٹکا آزماتے ھوۓ میں نے ہلدی لگا کر اس پر رومال باندھ دیا۔ لیکن خون نہ رکا۔اور پورا رومال خون سے لت پت ھو گیا۔
ہمارے قریبی دوست کی بیوی جاپانی تھی۔ ہم نے اسے کال کی۔ دس منٹ میں وہ لوگ آگئےاور ہم ہسپتال روانہ ھو گۓ۔
ہسپتال جاتے ھوۓ میں کافی خوف زدہ تھا کہ کہیں مجھے گرفتار نہ کر لیا جاۓ کیونکہ میرے ویزے کی میعاد ختم ھوۓ ایک سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔لیکن ہسپتال کے اندر ہم سے کسی بھی قسم کا کوئی سوال نہیں کیا گیا۔میرا زخم دیکھ کر ٹانکے لگا دیے گۓ۔ اور کچھ گولیاں دے دی گئیں۔ مجھے بتا دیا گیا کہ مجھے پانچ دن پٹی کروانی ھو گی۔ہسپتال کا بل میری فیکٹری نے ادا کیا۔انگلیوں میں ٹانکوں کی وجہ سے مجھے سات دن گھر رہنا پڑا۔یہ سات دن میری زندگی کے بور ترین دن تھے۔
چند دنوں بعد مجھے Glenn نے کال کی اور مجھ سے آنے والے اتوار کا پروگرام پوچھا۔ ہم دونوں نے طے کیا کہ آنے والے اتوار کو ہم کسی پارک اور شاپنگ پر جائیں گے۔ Glenn بھی نمازو Numazu ہی میں رہائش پذیر تھا۔(جاری ھے۔۔۔۔۔۔۔۔)
ڈیلمنگ نے بہت گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور مجھے گاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دی۔میں اطمینان سے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا تو گاڑی چلادی۔ وہ ایک دراز قد شخص تھا اور بہت دھیمے لہجے میں اور شائستگی سے بات کرتا تھا۔اس نے نظر کا چشمہ لگایا ہوا تھا اور نیلے رنگ کا پینٹ کوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔ اسے تین زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انگریزی ، جاپانی اور سوئیڈش روانی سے بول سکتا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کا تعلق سوئیڈن سے ہے اور وہ کئی سالوں سے سوئیڈن کے ایک پروٹسٹنٹ چرچ سے وابستہ ھے۔ اسے سوئیڈن کی مشنری آرگنائزیشن نے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے جاپان بھیجا ھے۔ اور آج کل وہ ایک چرچ میں بحیثیت پادری کے فرائض انجام دے رہا ھے۔
یہ بھی پڑھئے:
پھر اخبار کے ایڈیٹر نے مجھے بلا لیا
پھر جاپان پہنچ کر ہم پھنس گئے | محمد اشفاق
ہم ٹوکیو میں تھے اور خوف دامن گیر تھا | محمد اشفاق
۔۔۔ اور میں نے جاپان کی ٹھان لی| محمد اشفاق
اس نے بتایا کہ آج اس کے گھر پارٹی ھے۔ اور وہاں بہت سے غیر ملکی آ رہے ہیں۔ وہ نمازو نامی علاقے میں رہائش پزیر تھا۔ پندرہ سے بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک گھر کے آگے رکی۔ ہم تینوں گاڑی سے اترے تو اس نے گھر کی گھنٹی بجادی۔ایک خاتون نے دروازہ کھولا۔ Delming نے بتایا کہ یہ خاتون اس کی بیوی ھے اور اس کا نام کرسٹینا ہے۔ وہ درمیانے قد کی نیلی آنکھوں اور سنھرے بالوں والی خاتون تھی۔
کرسٹینا مجھ سے بہت گرمجوشی سے ملی۔ ہم لوگ اندر کمرے میں داخل ھو گۓ۔ یہاں کئی غیر ملکی افراد پہلے ہی سے موجود تھے جن کا تعلق برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ سے تھا۔ اور یہ سب جاپان کے مختلف تعلیمی اداروں میں انگریزی پڑھا رہے تھے۔ ان سب کی ماہانہ تنخواہیں ہم مزدور پاکستانیوں سے کہیں زیادہ تھیں۔ میری تنخواہ 1000 ین گھنٹہ تھی جبکہ ان انگلش ٹیچرز کی کم از کم تنخواہ 3000 ین گھنٹہ تھی۔ ان ٹیچرز کا رہن سہن بھی ہم پاکستانیوں سے بالکل مختلف تھا۔ ہم ایشین لوگ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی فیملی کے لیے جیتے ہیں۔ جب کہ انگریز صرف اور صرف اپنے لیے جیتے ہیں۔
ہر ٹیچر علیحدہ اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا۔ جبکہ ہم پاکستانی ایک گھر میں دو سے تین افراد رہتے تھے۔ ہمیں پیسے بچا کر پاکستان بھیجنے ھوتے تھے جبکہ یہ ٹیچرز اپنی ذات کے لیے کما رہے تھے۔
یہاں موجود لوگوں میں ،میں نے Mark، Glenn ، Cathy اور ایک جاپانی فیملی Abe family سے خوب گپ شپ کی۔ Delming نے ان سب سے میرا تفصیلی تعارف کروایا۔ اور مجھے ان سب کے بارے میں بتایا۔ تھوڑی دیر میں ہم سب گھل مل گۓ۔ پاکستان کے بارے میں خوب باتیں ھوئیں۔ پاکستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے بھی بہت سی باتیں ھوئیں۔ میں نے ان کے ذہنوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
یہ پارٹی دراصل ملنے ملانے کا ایک بہانہ تھا۔کرسٹینا نے پارٹی کے لیے خصوصی طور پر سوئیڈش کیک تیار کیے تھے۔ پارٹی میں مہمانوں کی تواضع جاپانی، سوئیڈش اور انگریزی کھانوں سے کی گئ۔ پارٹی میں ایک چھوٹا سا میوزیکل پروگرام بھی رکھا گیا تھا۔ اور کئ لوگوں نے اس میں نغمہ سرائ کی کوشش کی۔ پارٹی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں خاصے پڑھے لکھے انگریز موجود تھے۔ مہمانوں کے جانے کے بعد Delming اور Christina نے اپنے بارے میں بہت تفصیل سے بتایا۔ وہ دونوں میاں بیوی بہت مذہبی تھے۔ انھوں نے مجھ سے جاپان آنے اور قیام کا مقصد پوچھا۔ وہ یہ سن کر حیران ھو گۓ کہ میں اپنی فیملی کے لیے پیسہ کمانے آیا ھوں۔
کرسٹینا نے مجھ سے کہا “تم یقینی طور پر اپنی والدہ کو بہت miss کرتے ھو گے۔ اس نے مجھے گلے لگاتے ھوۓ کہا” آج سے میں تمہاری والدہ ھوں ، سوئیڈش والدہ۔” جاپان میں جب کبھی تمھیں کسی بھی چیز کی ضرورت ھو تو مجھے یاد رکھنا ”
کرسٹینا نے مزید کہا ” ہر جمعہ یا ھفتہ کی رات ہمارے گھر آ جایا کرو۔” ان دونوں کی گفتگو نے مجھے پاکستان بھلا ہی دیا۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ھے۔ ان کی بیٹی نے ایک جاپانی سے شادی کی ھوئی ھے۔ ان کی ایک پوتی بھی ھے۔ دونوں بیٹے سوئیڈن کی کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں اور ہر سال اپنی چھٹیاں جاپان میں گزارتے ہیں۔
شام کو Delming نے مجھے اس وعدے کے ساتھ میرے اپارٹمنٹ تک چھوڑاکہ میں آئندہ بھی ان کے گھر آتا جاتا رھوں گا۔
میرے لیے آج کا دن بہت دلچسپ اور بہت ہی یادگار تھا۔ گھر آکر وہی صفائی ستھرائی اور کپڑے دھوۓ۔ اخبار پڑھا۔
اگلے دن صبح میں نے چاۓ بنانے کے لیے چولھا جلایا۔ اور سنک میں رکھے ھوۓ گلاس دھونے لگا۔ میں نے جیسے ہی گلاس کو اندر سے دھونا چاہا اس میں دراڑ آ گئ اور میری دو انگلیوں کو زخمی کر دیا اور ان میں سے خون جاری ھو گیا۔پاکستانی ٹوٹکا آزماتے ھوۓ میں نے ہلدی لگا کر اس پر رومال باندھ دیا۔ لیکن خون نہ رکا۔اور پورا رومال خون سے لت پت ھو گیا۔
ہمارے قریبی دوست کی بیوی جاپانی تھی۔ ہم نے اسے کال کی۔ دس منٹ میں وہ لوگ آگئےاور ہم ہسپتال روانہ ھو گۓ۔
ہسپتال جاتے ھوۓ میں کافی خوف زدہ تھا کہ کہیں مجھے گرفتار نہ کر لیا جاۓ کیونکہ میرے ویزے کی میعاد ختم ھوۓ ایک سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔لیکن ہسپتال کے اندر ہم سے کسی بھی قسم کا کوئی سوال نہیں کیا گیا۔میرا زخم دیکھ کر ٹانکے لگا دیے گۓ۔ اور کچھ گولیاں دے دی گئیں۔ مجھے بتا دیا گیا کہ مجھے پانچ دن پٹی کروانی ھو گی۔ہسپتال کا بل میری فیکٹری نے ادا کیا۔انگلیوں میں ٹانکوں کی وجہ سے مجھے سات دن گھر رہنا پڑا۔یہ سات دن میری زندگی کے بور ترین دن تھے۔
چند دنوں بعد مجھے Glenn نے کال کی اور مجھ سے آنے والے اتوار کا پروگرام پوچھا۔ ہم دونوں نے طے کیا کہ آنے والے اتوار کو ہم کسی پارک اور شاپنگ پر جائیں گے۔ Glenn بھی نمازو Numazu ہی میں رہائش پذیر تھا۔(جاری ھے۔۔۔۔۔۔۔۔)
ڈیلمنگ نے بہت گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور مجھے گاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دی۔میں اطمینان سے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا تو گاڑی چلادی۔ وہ ایک دراز قد شخص تھا اور بہت دھیمے لہجے میں اور شائستگی سے بات کرتا تھا۔اس نے نظر کا چشمہ لگایا ہوا تھا اور نیلے رنگ کا پینٹ کوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔ اسے تین زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انگریزی ، جاپانی اور سوئیڈش روانی سے بول سکتا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کا تعلق سوئیڈن سے ہے اور وہ کئی سالوں سے سوئیڈن کے ایک پروٹسٹنٹ چرچ سے وابستہ ھے۔ اسے سوئیڈن کی مشنری آرگنائزیشن نے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے جاپان بھیجا ھے۔ اور آج کل وہ ایک چرچ میں بحیثیت پادری کے فرائض انجام دے رہا ھے۔
یہ بھی پڑھئے:
پھر اخبار کے ایڈیٹر نے مجھے بلا لیا
پھر جاپان پہنچ کر ہم پھنس گئے | محمد اشفاق
ہم ٹوکیو میں تھے اور خوف دامن گیر تھا | محمد اشفاق
۔۔۔ اور میں نے جاپان کی ٹھان لی| محمد اشفاق
اس نے بتایا کہ آج اس کے گھر پارٹی ھے۔ اور وہاں بہت سے غیر ملکی آ رہے ہیں۔ وہ نمازو نامی علاقے میں رہائش پزیر تھا۔ پندرہ سے بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک گھر کے آگے رکی۔ ہم تینوں گاڑی سے اترے تو اس نے گھر کی گھنٹی بجادی۔ایک خاتون نے دروازہ کھولا۔ Delming نے بتایا کہ یہ خاتون اس کی بیوی ھے اور اس کا نام کرسٹینا ہے۔ وہ درمیانے قد کی نیلی آنکھوں اور سنھرے بالوں والی خاتون تھی۔
کرسٹینا مجھ سے بہت گرمجوشی سے ملی۔ ہم لوگ اندر کمرے میں داخل ھو گۓ۔ یہاں کئی غیر ملکی افراد پہلے ہی سے موجود تھے جن کا تعلق برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ سے تھا۔ اور یہ سب جاپان کے مختلف تعلیمی اداروں میں انگریزی پڑھا رہے تھے۔ ان سب کی ماہانہ تنخواہیں ہم مزدور پاکستانیوں سے کہیں زیادہ تھیں۔ میری تنخواہ 1000 ین گھنٹہ تھی جبکہ ان انگلش ٹیچرز کی کم از کم تنخواہ 3000 ین گھنٹہ تھی۔ ان ٹیچرز کا رہن سہن بھی ہم پاکستانیوں سے بالکل مختلف تھا۔ ہم ایشین لوگ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی فیملی کے لیے جیتے ہیں۔ جب کہ انگریز صرف اور صرف اپنے لیے جیتے ہیں۔
ہر ٹیچر علیحدہ اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا۔ جبکہ ہم پاکستانی ایک گھر میں دو سے تین افراد رہتے تھے۔ ہمیں پیسے بچا کر پاکستان بھیجنے ھوتے تھے جبکہ یہ ٹیچرز اپنی ذات کے لیے کما رہے تھے۔
یہاں موجود لوگوں میں ،میں نے Mark، Glenn ، Cathy اور ایک جاپانی فیملی Abe family سے خوب گپ شپ کی۔ Delming نے ان سب سے میرا تفصیلی تعارف کروایا۔ اور مجھے ان سب کے بارے میں بتایا۔ تھوڑی دیر میں ہم سب گھل مل گۓ۔ پاکستان کے بارے میں خوب باتیں ھوئیں۔ پاکستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے بھی بہت سی باتیں ھوئیں۔ میں نے ان کے ذہنوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
یہ پارٹی دراصل ملنے ملانے کا ایک بہانہ تھا۔کرسٹینا نے پارٹی کے لیے خصوصی طور پر سوئیڈش کیک تیار کیے تھے۔ پارٹی میں مہمانوں کی تواضع جاپانی، سوئیڈش اور انگریزی کھانوں سے کی گئ۔ پارٹی میں ایک چھوٹا سا میوزیکل پروگرام بھی رکھا گیا تھا۔ اور کئ لوگوں نے اس میں نغمہ سرائ کی کوشش کی۔ پارٹی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں خاصے پڑھے لکھے انگریز موجود تھے۔ مہمانوں کے جانے کے بعد Delming اور Christina نے اپنے بارے میں بہت تفصیل سے بتایا۔ وہ دونوں میاں بیوی بہت مذہبی تھے۔ انھوں نے مجھ سے جاپان آنے اور قیام کا مقصد پوچھا۔ وہ یہ سن کر حیران ھو گۓ کہ میں اپنی فیملی کے لیے پیسہ کمانے آیا ھوں۔
کرسٹینا نے مجھ سے کہا “تم یقینی طور پر اپنی والدہ کو بہت miss کرتے ھو گے۔ اس نے مجھے گلے لگاتے ھوۓ کہا” آج سے میں تمہاری والدہ ھوں ، سوئیڈش والدہ۔” جاپان میں جب کبھی تمھیں کسی بھی چیز کی ضرورت ھو تو مجھے یاد رکھنا ”
کرسٹینا نے مزید کہا ” ہر جمعہ یا ھفتہ کی رات ہمارے گھر آ جایا کرو۔” ان دونوں کی گفتگو نے مجھے پاکستان بھلا ہی دیا۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ھے۔ ان کی بیٹی نے ایک جاپانی سے شادی کی ھوئی ھے۔ ان کی ایک پوتی بھی ھے۔ دونوں بیٹے سوئیڈن کی کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں اور ہر سال اپنی چھٹیاں جاپان میں گزارتے ہیں۔
شام کو Delming نے مجھے اس وعدے کے ساتھ میرے اپارٹمنٹ تک چھوڑاکہ میں آئندہ بھی ان کے گھر آتا جاتا رھوں گا۔
میرے لیے آج کا دن بہت دلچسپ اور بہت ہی یادگار تھا۔ گھر آکر وہی صفائی ستھرائی اور کپڑے دھوۓ۔ اخبار پڑھا۔
اگلے دن صبح میں نے چاۓ بنانے کے لیے چولھا جلایا۔ اور سنک میں رکھے ھوۓ گلاس دھونے لگا۔ میں نے جیسے ہی گلاس کو اندر سے دھونا چاہا اس میں دراڑ آ گئ اور میری دو انگلیوں کو زخمی کر دیا اور ان میں سے خون جاری ھو گیا۔پاکستانی ٹوٹکا آزماتے ھوۓ میں نے ہلدی لگا کر اس پر رومال باندھ دیا۔ لیکن خون نہ رکا۔اور پورا رومال خون سے لت پت ھو گیا۔
ہمارے قریبی دوست کی بیوی جاپانی تھی۔ ہم نے اسے کال کی۔ دس منٹ میں وہ لوگ آگئےاور ہم ہسپتال روانہ ھو گۓ۔
ہسپتال جاتے ھوۓ میں کافی خوف زدہ تھا کہ کہیں مجھے گرفتار نہ کر لیا جاۓ کیونکہ میرے ویزے کی میعاد ختم ھوۓ ایک سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔لیکن ہسپتال کے اندر ہم سے کسی بھی قسم کا کوئی سوال نہیں کیا گیا۔میرا زخم دیکھ کر ٹانکے لگا دیے گۓ۔ اور کچھ گولیاں دے دی گئیں۔ مجھے بتا دیا گیا کہ مجھے پانچ دن پٹی کروانی ھو گی۔ہسپتال کا بل میری فیکٹری نے ادا کیا۔انگلیوں میں ٹانکوں کی وجہ سے مجھے سات دن گھر رہنا پڑا۔یہ سات دن میری زندگی کے بور ترین دن تھے۔
چند دنوں بعد مجھے Glenn نے کال کی اور مجھ سے آنے والے اتوار کا پروگرام پوچھا۔ ہم دونوں نے طے کیا کہ آنے والے اتوار کو ہم کسی پارک اور شاپنگ پر جائیں گے۔ Glenn بھی نمازو Numazu ہی میں رہائش پذیر تھا۔(جاری ھے۔۔۔۔۔۔۔۔)