بھارت میں انصاف کا جنازہ نکال دیا گیا، بابری مسجد کے فیصلے نے سیکولر بھارت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ عدالت کو بابری مسجد کے انہدام میں کوئی منظم سازش نظر نہیں آئی، 28 سال پہلے پورے ملک کے ہندو انتہا پسندوں کا لشکر لیکر ایودھیا آنیوالے 48 رہنما بری قرار پائے۔ ان 48 میں سے 16 تو مر چکے ہیں اور جو 32 بچے ان کو بری کر دیا گیا، لال کشن ایڈوانی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت درجنوں قائدین رتھ یاترا، یہ 6 دسمبر 1992 کا واقعہ ہے، جب یاترا سے پہلے اڈوانی نے بھارتی سپریم کورٹ کو بیان حلفی بھی دیا کہ لشکر کشی کے دوران مسجد کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائیگا۔ یہ کانگریس کا دور تھا، اس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی پہلی حکومت میں یہی ایل کے اڈوانی نائب وزیر اعظم بھی بنے، اڈوانی بابری مسجد کو بھارت کیلئے کلنک کا ٹیکہ قرار دیتے رہے۔ لشکر کشی میں مسجد شہید کرنے، آگ لگانے اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے کے مناظر پوری دنیا میں دکھائے گئے اور آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں، مگر عدالت ہندووتوا کے دبائو میں سورج جیسے روشن ثبوت نہ دیکھ سکی، مودی سرکار کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے، مگر ٹہرئیے عدالت نے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ سیکولر ازم نے ٹیکے ہیں، وہی سیکولر ازم جو بھارت کو جوڑتا ہے، وہی سیکولر ازم جو درجنوں مذاھب، ثقافتوں، زبانوں کے درمیان اتحاد کی علامت رہا، وہی سیکولر ازم جو گاندھی، نہرو اور امبیڈکر کی روشن خیالی کا مظہر ہے۔ بھارتی عدالتیں جو کسی حد تک انصاف کی واحد امید تھیں اب نہ رہیں، یقین مانیں بابری مسجد کا اندھا فیصلہ بھارتی سیکولر ازم کو موت اور ہندو انتہا پسندی کا عروج ثابت ہو گا، ایسا عروج جس کے بعد زوال مقدر ہے۔ ہندو انتہا پسندی کے پرچارک نریندر مودی بالاخر بھارت کیلئے گوباچوف ثابت ہونگے۔ آئیے دیکھتے ہیں بابری مسجد کی شہادت پر مکالمہ معصوم رضوی کیساتھ