انیسویں صدی کے فرانس کے نامورادیب ہنری ڈی بالزاک کے دوناولزکے تراجم معروف صحافی اورمترجم رؤف کلاسرا نے کیے ہیں ۔جو بک کارنرجہلم نے اپنی روایتی خوبصورت طباعت کے ساتھ شائع کیاہے۔بالزاک کی قلمی تصاویر بھی بہت عمدہ ہیں۔دلکش اوردیدہ زیب پرنٹنگ نے کتب کاحسن دوبالاکردیاہے اور انہیں پڑھ کرقاری کودگنالطف ملتاہے۔دونوں تراجم اُردوادب میں بہترین اضافہ ہیں۔جن کے ذریعے اٹھارویں صدی میں فرانس کا سماج اورمعاشرت قاری کے سامنے عیاں ہوجاتی ہے۔
ہنری ڈی بالزاک 1799ءمیں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں ایک سرکاری ملازم کے گھرپیداہوئے۔بڑے ہوکربالزاک پیرس منتقل ہو گئے،جہاں اس نے ایک وکیل کے ہاں کلرک کی ملازمت کرلی۔اٹھارہ سوبیس سے چوبیس کے دوران انہوں نے قلمی ناموں سے کئی ناول تحریرکیے۔بات نہ بنی توپبلشنگ اورپرنٹنگ کی طرف دھیان دیا۔تیس سال کی عمرمیں بہت مقروض ہوگیاتو دوبارہ ادب کی طرف لوٹ آیا اورپہلا ناول اپنے نام سے لکھا۔اگلے بیس برس میں بالزاک نے نوے کے قریب ناول اورشارٹ اسٹوریز لکھیں،جن میں ”بڈھا گوریو“ سمیت کئی شاہکارناولز شامل تھے۔اپنی ان سب تحریروں کواس نے ہیومن کامیڈی کانام دیا۔بالزاک کے اٹھارہ برس تک پولینڈ کی ایک نواب زادی سے تعلقات رہے،اس سے شادی کے چند ماہ بعد وہ 1850ءمیں اکیاون برس کی عمرمیں چل بسا۔
مترجم رؤ ف کلاسرا پاکستان کے صف اول کے کالم نگار،انویسٹی گیٹیو جرنلسٹ ،ٹی وی اینکراورکئی کتابوں کے مصنف ہیں۔انہوں نے اپنا سفر دور درازب ستی جیسل کلاسرا کے ٹاٹ کے اسکول سے شروع کیا۔ لیہ کالج سے انگریزی لٹریچرمیں بی اے کی ڈگری لی۔ایم اے انگریزی بہا الدین یونیورسٹی ملتان سے کیا۔گولڈاسمتھ کالج،لندن یونیورسٹی سے پولیٹکل کمیونیکیشن میں ماسٹرزکیا۔1993ءمیں صحافت کاآغازفرنٹیر پوسٹ ملتان سے اپرنٹس رپورٹر کے طورپرکیا۔پاکستان کے بڑے اخبارات ڈان،دی نیوز،ایکسپریس ٹریبیون میں بطور رپورٹرپندرہ سال خدمات انجام دیں۔اس دوران انہیں مسلسل تین سال اے پی این ایس کے بہترین رپورٹر کااعزاز بھی ملا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کے منکشف پانچ اسکینڈلزپرازخود نوٹس لیے اورذمہ داروںکے خلاف ایکشن بھی لیاگیا۔پرنٹ کے بعدٹی وی جرنلزم کارُخ کیا۔جیو، اے آروائی اورایکسپریس ٹی وی میں کام کیا۔92نیوزسے عامرمتین کے ساتھ پروگرام”مقابل“ شروع کیاجوبہت مقبول ہوا۔یہ پروگرام آپ اوردوسرے چینلز پربھی ہوا۔لیکن اسے بندکرادیاگیا۔2007ءمیں انہوں نے جنگ سے کالم نگاری شروع کی۔اب دنیااخبارمیں یہ کالم لکھ رہے ہیں۔ ان کے کالموں کا مجموعہ”آخر کیوں“ کے نام سے شائع ہوا۔انٹرویوز پرمبنی کتاب”ایک سیاست کئی کہانیاں“ بہت مقبول ہوئی۔جس کی دوسری جلدبھی شائع ہونے والی ہے۔سیاست پررؤف کلاسرا کی منفردتحقیقی کتاب”ایک قتل جوہونہ سکا“ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔جس کی وضاحت آج کئی برس بعد بھی متعلقہ افراد کی جانب سے نہیں کی گئی۔جس کامطلب یہ ہے کہ کتاب میں بیان کردہ واقعات سچ پرمبنی ہیں۔رؤف کلاسرا نے ماریوپوزوکے مشہورناول”گاڈفادر“ کابھی بہت عمدہ ترجمہ کیاہے۔انہوں نے بالزاک کے دوناولوں کے تراجم ”تاریک راہوں کے مسافر“ اور”سنہری آنکھوں والی لڑکی“ کے نام سے کیے ہیں ،اوردونوں تراجم بہت عمدہ ہیں۔ اور رؤف کلاسرا نے خود کومستند مترجمین میں شامل کروالیاہے۔مستقبل قریب میں وہ مزید تراجم کرنے کابھی ارادہ رکھتے ہیں۔
”مترجم نوٹ“ میں رؤف کلاسرا نے لکھا ہے۔”جیسے ماریوپوزو نے لکھاہے کہ اگردوستوفسکی کاشہرہ آفاق ناول”برادرکرامازوف“ نہ پڑھتا تووہ کبھی ادیب نہ بنتا۔اس طرح میں بھی کہہ سکتاہوں اگرمیں ایڈی پس کاڈرامانہ پڑھتاتومیں بھی مترجم بننے کانہ سوچتا۔لیہ کالج کے دنوں میں سڈنی شیلڈن کے ناول کاترجمہ شروع کیا جولیہ کے ہفتہ واراخبار میں چھپنے لگا۔یوں ترجمے کی ٹھرک پیداہوگئی۔جوچیزپڑھ کراچھی لگتی دل چاہتااس کاترجمہ کروں۔نعیم بھائی کی محفلوں میں مجھے فرنچ اورروسی ادیبوں کوپڑھنے کاموقع ملا۔نعیم بھائی خوداچھے لکھاری اورمترجم تھے۔نعیم بھائی کوجن دوادیبوں نے بہت متاثرکیا۔ان میں بالزاک کے بعد گبریل گارشیامارکیزتھے۔انہوں نے بالزاک کی کہانیوں کا سرائیکی زبان میں بھی ترجمہ کیا۔گارشیاکے مشہورناول”تنہائی کے سوسال “ کااردوترجمہ کیا۔میں نے ان کی خواہش پرجب امریکاسے بالزاک کاسیٹ لاکردیاتوان کاچہرہ کھِل اٹھا۔تب میں نے بالزاک کوپڑھناشروع کیاتواندازہ ہواکہ نعیم بھائی اس کے رومانس میں کیوں پاگل تھے۔میں نے بالزاک کے دوناولز کاترجمہ کرنے کی ٹھان لی۔”یوجین گرینڈ“ اور”سنہری آنکھوں والی لڑکی“۔بالزاک کوترجمہ کرنا آسان نہیں۔وہ لمبے فقرے لکھتاہے اورایک سین میں بہت تفصیل ہوتی ہے۔بالزاک ایک بڑا ادیب اوربڑا لکھاری جس نے صرف اکاون سال عمرپائی،لیکن وہ کچھ لکھ دیاکہ آج اس کی موت کے ایک سوسترسال بعد بھی اس کانام دنیاکے بڑے ادیبوں میں شمارکیاجاتاہے۔ بالزاک نے اپنی یہ بات پوری کردکھائی کہ جوکام نپولین اپنی تلوارسے نہیں کرسکاوہ میں اپنے قلم سے کروں گا۔بالزاک نے فرانسیسی لٹریچر میں نیارُحجان دیااورانسانوں کابے رحمی سے پوسٹ مارٹم کیا۔اس نے ایسے کردارتخلیق کیے جوآج بھی آپ کوچلتے پھرتے نظرآتے ہیں۔وہ کردارصرف انیسویں صدی کے فرانسیسی معاشرے میں موجود نہیں تھے بلکہ وہ ہمیں آج کے معاشرے میں بھی ملیں گے۔جب آپ ناول ” یوجین گرینڈ“ ختم کریں گے توآپ کواحساس ہوگاکہ یہ ناول فرنسیسی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے کرداروں پرلکھاگیاہے۔کسی بھی ادیب کی یہی عظمت ہوتی ہے کہ وہ ہردوراورمعاشرے میں پڑھاجاتاہے اورہرکسی کولگتاہے وہ ناول ان پرہی لکھاگیاہے۔“
”یوجین گرینڈ“ نپولین کے فرانس میں محبت کی لازوال داستان ہے،خوبصورت یوجین کی کہانی جسے کزن سے محبت ہوگئی تھی۔دنیائے ادب کے عظیم فرانسیسی ناول نگارہنری ڈی بالزاک کی ایک عظیم تخلیق جوانقلابِ فرانس کے بعد فرانسیسی معاشرے میں ابھرنے والے نئے رحجانا ت کے پس منظرمیں لکھی گئی ہے۔بالزاک اس وجہ سے بھی خوش قسمت ادیب کہلاسکتاہے کہ وہ اپنی آنکھوں میں انقلاب کی سرخی لیے پیدا اورجوان ہوا۔اگرنپولین ایک عام سپاہی سے ترقی کرکے فرانس کامالک بن سکتاہے توپھرہرشخص کچھ بھی کرکے ترقی کرسکتاہے۔اس سوچ نے فرانسیسی معاشرے کی شکل اورروح بھی بدل کردکھ دی اوراسی انقلاب نے ایک بڑی ٹریجڈی کوجنم دیا۔ایک خوبصورت،حسین،شرمیلی اوردیہاتی دوشیزہ یوجین کے عشق لاحاصل کی داستان جسے ایک روز پیرس سے آئے اپنے لٹے پٹے کنگال کزن سے محبت ہوگئی۔یوجین نے ایک ایسی اذیت بھری زندگی کاانتخاب کیاجوہرعاشق کی قسمت میں ہوتی ہے۔ایک لڑک کی کہانی جوبرسوں اپنے گاو¿ں کی حویلی میں اپنے محبوب کاانتظارکرتی رہی۔ہرشخص کی کڑوی باتیں برداشت کرتی رہی۔سات برس بعد جب یہ جان لیواانتظارختم ہواتوایک ٹریجڈی یوجین کی منتظرتھی۔اس ناول میں جہاں آپ کوفرانسیسی معاشرے کے غلیظ ،لالچی اورکنجوس کردارملیں گے جن سے آپ نفرت محسوس کریں گے وہیں مادام گرینڈ،یوجین گرینڈ اورنائے نن جیسے خوبصورت کردار بھی ملیں گے۔جن کے لیے آپ کی آنکھوں سے آنسونہیں رک سکیں گے۔ اس ناول کوپڑھ کے آپ بالزاک کے اس دعوے کومان لیں گے کہ جوکام نپولین اپنی تلوارسے نہ کرسکاوہ میں اپنے قلم سے کروں گا۔
”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردارنگاری عروج پرہے۔ کہانی چند کرداروں کے گردگھومتی ہے،جو بہت دلچسپ اوریادگار ہیں۔جزئیات نگاری بھی کمال کی ہے۔ذراساؤ میرقصبے کاذکرملاحظہ کریں۔” ساؤ میرقصبہ کے سامنے ایک ایساہی اداس گھر ہے ۔جوگاؤں کے بالائی سرے پرمحل کی طرف جانے والی پہاڑی گلی کے آخری سرے پرواقع ہے جومحل کی طرف جانے والی وہ گلی ہے جو آج کل بہت کم استعمال ہوتی ہے اوریہ گرمیوں میں بہت گرم اورسردیوں میں سخت سردہوتی ہے۔چندجگہوں پرتاریک گہرے سائے اسے لپیٹے رہتے ہیں ۔ کسی کے قدم گلی کے ان چمکیلے جڑے پتھروں پربڑے پراسراراندازمیں بول پڑتے ہیں۔یہ پتھرہمیشہ صاف اورخشک رہتے ہیں ۔ تنگ گلی میں واقع ایسے خاموش گھر،پرانے قصبے کے قدیم محلوں اورفصیلوں پرسے نظرآتے ہیں اورسوچوں پرعجیب وغریب تاثرچھوڑ تے ہیں۔ وہاں چندگھرایسے بھی ہیں جن کی عمریں تین سوسال کے لگ بھگ ہہے۔یہ گھرلکڑی سے تعمیرہوئے لیکن ان کی پائیداری ابھی بھی قائم ہے۔ ہرگھرکی اپنی ایک ندرت ہے اوریہی ندرت اس جگہ کی اجنبیت بڑھاتی ہے جوآثارقدیمہ کے ماہرین اورمصوروں کواپنی طرف کھینچتی ہے۔ فرانس کی تاریخ ان گھروں میں رقم ہے۔“
علاقے کے لوگوں کے رویے کی تصویرکشی دیکھیں۔”ساومیرقصبے کے لوگ گھروں کے نچلے حصے میں کاروبارکرتے ہیں۔دیوارایسی جگہ کاکام دیتی ہے جس پرہرچیزرکھی جاتی ہے۔اگرآپ اندر جائیں توایک خوبصورت لڑکی ،گردن میں سفید رومال ڈالے،سرخ بازوں سے سلائی کرتی ملے گی۔وہ ماں یاباپ کوبلانے اندرچلی جاتی ہے جوباہرآکر،آپ کوضرورت کی چیزیں دیتے ہیں۔سوداوالاچاہے مردہویا عورت، وہ بڑی بے حسی سے آپ کوسودادے گا اوران کے تاثرات تبدیل نہ ہوں گے چاہے آپ دوٹکے کی خریداری کریں یابیس ہزار فرانکس کی۔آپ ہرکاروباری شخص کواپنے دروازے کے قریب ایک لکڑی کے پھٹے پربیٹھاہواپائیں گے۔جواپنے انگوٹھے کوخوامخواہ گھماتارہتاہے اورساتھ ہی اپنے قریبی دکاندارسے کپیں بھی ہانکتارہے گا۔“
ناول کے مرکزی کردارموسیوگرینڈ،ان کی بیوی مادام گرینڈ،بیٹی یوجین گرینڈ اورملازمہ نائے نن ہیں۔موسیوگرینڈکا1819ءتک ”ایماندارگرینڈ“ کے نام سے پکاراجاتاتھا۔اگرچہ اس نام سے اسے پکارنے والوں کی تعداد میں قابلِ ذکرحدتک نمایاں کمی آتی جارہی تھی ۔وہ ایک طرح کاکاروبای ’کوپر‘ کہلاتاجوحساب کتاب لکھ پڑھ سکتاتھا۔جب فرانسیسی ری پبلک نے ضلع میں چرچ کی ضبط شدہ زمینیں فروخت کرناشروع کیں توکوپرگرینڈجس کی عمراس وقت چالیس برس کے قریب تھی اورحال ہی میں اس نے فرنیچر بنانے والے تاجرکی بیٹی سے شادی کی تھی۔اپنی ساری جمع پونجی اوربیوی کاجہیزہاتھ پررکھ کرجودوہزارلوئیس کے قریب مالیت کاتھا،ضلعی آفیسرکے پاس گیااور وہاں اس کے سسرنے اس کی مدد کی جس نے اسے دوسوگنالوئیس کی پیشکش کی۔یوں گرینڈ کوکم قیمت پربہت کچھ مل گیا۔وہاں اردگرد انگورکے بہترین باغ تھے جبکہ ساتھ میں ایک پراناگرجا گھر اورچندچھوٹے فارم تھے۔وہ ضلعی انتظامیہ کارکن بن گیااوراس نے سیاست اورکاروبار میں اپنااثرورسوخ استعمال کیا۔کونسلیٹ کے ماتحت گرینڈ میئربن گیا۔نپولین بادشاہ بناتواس کااسٹیٹس قائم ہوگیا۔1806ءمیں اسے لیجن آف آنرکااعزازبھی مل گیا۔گاؤں کے صرف چھ لوگ موسیوگرینڈ کے گھرمیں داخل ہونے کی سعادت رکھتے تھے اوروہ دوگروہوں میں تقسیم تھے۔ان میں سب سے اہم موسیوکروچاٹ کابھتیجاتھاجوساومیرکورٹ کاصدرتھا۔وہ بان فانزکی جائدادکامالک تھا۔اسے اپنے چچاجوسرکار ی تصدیق کنندہ تھے سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔اسکا دوسرا چچاایبے کروچاٹ پادری تھا۔جسے غیرمعمولی کرنزکی حمایت حاصل تھی اور قصبے کے بیس خاندانوں سے وہ شادی کی رسم کی وجہ سے جڑاہواتھا۔
مادام ڈیس گراسنزستائیس سالہ ایڈولف کی ماں تھی اورباقاعدگی سے اس امید میں گرینڈ کے گھرجاتی تھی کہ کسی دن بیٹے کے لیے یوجین کا رشتہ لینے میں کامیاب ہوجائے گی۔کروچاٹ فیملی کے ساتھ اس رشتے کے لیے ان کے ڈوئیل کوسارا گاو¿ں جانتاتھا۔کچھ لوگوں کاخیال تھا کہ مادام ڈیس گراسنزدراصل مادام گرینڈکے بہت قریب ہیں،اس لیے وہ یوجین کارشتہ حاصل کرلیں گی۔جب کہ کچھ لوگوں کاکہناتھاکہ دنیامیں کوئی بھی شخص چاپلوسی میں ایببے کروچاٹ کامقابلہ نہیں کرسکتا۔ جبکہ کچھ لوگ کہتے تھے کہ یوجین گرینڈ کی شادی اس کے کزن سے ہوگی جوموسیوگرینڈ کے پیرس میں رہنے والے بھائی کابیٹاتھا۔جس کاجواب یہ دیاجاتاکہ دونوں بھائی تیس برس میں ایک دوبارسے زیادہ نہیں ملے۔اس کابھائی نپولین کے نوابوں میں سے کسی کی بیٹی سے رشتہ کرنا چاہتاہے۔
شومی قسمت سے موسیوگرینڈکابھائی مالی مشکلات کاشکارہوگیا۔اوراس کابیٹاپیرس چھوڑ کربے سروسانی کے عالم میں ساومیرآگیا۔جہاں یوجین گرینڈکواس سے محبت ہوگئی ۔اس لاحاصل محبت نے دلچسپ ناول”تاریک راہوں کے مسافر“ کوجنم دیا۔
”سنہری آنکھوں والی لڑکی“ بالزاک کادوسرا ناول ہے،جس کاترجمہ رو¿ف کلاسرانے کیا۔یہ فرانس کے ایک امیرزادے کی کہانی ہے جسے ایک سنہری آنکھوں والی لڑکی سے محبت ہوگئی تھی،حسد،لالچ اورشک کیسے انسان کی محبت کوتباہ کرسکتے ہیں۔یہی اس ناول کاموضوع ہے۔
”سنہری آنکھوں والی لڑکی “ کاانتساب ”اپنی بستی کے جناب شبراقصائی(مرحوم)کے نام ہے جوگرمیوں کی ہردوپہراپنی ہٹی پرہم گاؤ ں کے بچوں کواپنے مسحورکن اوردل فریب انداز میں جنوں ،پریوں،شہزادے اورشہزادیوں کے قصے کہانیاں سناتے تھے۔“
اس بارے میں رؤف کلاسرا”مترجم کانوٹ“ میں لکھتے ہیں۔”قصے کہانیاں سننااورسناناایک ایسانشہ ہے جواتناہی قدیم ہے جتناانسان خود۔ قصہ گوئی کاکام ہمیشہ سے نانیاں،دادیاں یامائیں کرتی آئی ہیں۔اب نہ وہ روایتی مائیں رہیں،نہ دادی،نہ نانی اورنہ کہانیاں سننے کے لیے بے چین بچے۔اب تومائیں طویل ٹی وی ڈراموں میں مصروف ہیں توبچے کارٹون اورگیمزکھیلنے میں بزی اوریوں جن پریوں کی کہانیاں کہیں گم ہوکررہ گئیں۔1980ءکی دہائی میں ہمارے اپنے گاؤں میں شبیر قصائی صاحب کی دکان تھی۔سب انہیں شبراکہتے تھے۔ان کی دکان پرسبزی ،کھجور،آم،برف کے رنگ برنگے میٹھے گولے سویوں والے فالودے بنتے تھے جوہم سب بچے خریدتے تھے۔ہم سب بچے ان کی دکان ہی سے چیزیں خریدتے کیونکہ شبراصاحب کوقصہ گوئی کافن آتاتھا۔ان کی زبان میں عجب مزہ تھااورہم شام تک وہیں بیٹھے ان کے قصوں میں محورہتے۔گرمیوں کی دوپہرمیں شبرے کی دکان پرگاو¿ں کے چھوٹے بڑے اکھٹے ہوتے اورشبراسب کوکہانیاں سناتا۔میں آج تک حیران ہوں کہ شبرے صاحب کواتنی کہانیاں اورقصے یادکیسے تھے حالانکہ وہ کبھی اسکول میں نہیں پڑھے تھے،انہوں نے کبھی کہانیو ںکی کتابیں نہیں پڑھیں تھیں۔دھیرے دھیرے روسی،فرانسیسی اورانگریزی ادیبوں سے تعارف ہوا۔فرانس اورروسی ادیبوں کویہ کریڈٹ جاتاہے کہ انہوں نے انیسویں صدی میں جوادب تخلیق کیاوہ آج دوسوبرس بعد بھی دُنیاکواپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ بالزاک کے اس ناول”سنہری آنکھوں والی لڑکی“ کوہی دیکھ لیں۔ناول میں بالزاک نے جس بے رحمانہ طریقے سے پیرس کاپوسٹ مارٹم کیاہے وہ اپنی جگہ کلاسیک ہے۔کیاچندسکوں کے عوض ایک ماں سے اس کی مامتااوراس کے جذبات خریدے جاسکتے ہیں؟ پیرس میں ہرکوئی برائے فروخت ہے،
جہاں وفاکی کوئی قدروقیمت نہیں، جہاں محبت بھی بکتی ہے۔انسانی جذبات کے سوداگرجیب میں سونے کے سکے لیے پھرتے ہیں اورمزے کی بات ہے کہ اس سودے کے گاہک بھی میسرہیں۔پیرس کے بے رحم لوگوں کاجونقشہ بالزاک نے کھینچاہے اس سے آپ کوخوف آنے لگتاہے۔آج کے جدید دورکاانسان لرز جاتا ہے کہ دوسوسال پہلے پیرس واقعی ایساتھاجہاں غربت،لالچ ،حسد،اس سطح پرپہنچے ہوئے تھے کہ بالزاک نے پیرس کوجہنم قراردے دیا۔ بالزاک کی ایک اورخوبی دیکھیں وہ اپنی تحریروں میں جج،جیوری یاجلادبننے کافیصلہ نہیں کرتا۔بعض اوقات تومحسوس ہوتاہے کہ بالزاک خود ایک تماشائی کی طرح اپنی کہانی کے کرداروں کو چپ چاپ بیٹھاانجوائے کررہاہے۔وہ کردارخود ہی اپنی کہانی لکھتے ہیں،خود ہی سازشیں کرتے ہیں،آپس میں لڑتے جھگڑتے یامحبت کر تے ہیں ۔بالزاک صرف اپنے ہاتھ استعمال کرتاہے، باقی سب کچھ کردارخود ہی کرتے ہیں۔یہ ناول انسانی جذبات،حسد،شک،فریب اور محبت کی کہانی ہے ،جس میں فرانس کے ایک امیرزادے ہنری کوایک سنہری آنکھوں والی لڑکی ’پاکٹویا‘ سے محبت ہوجاتی ہے لیکن درمیان میں وہی شک اورحسد،نفرت کے بیج بودیتے ہیں اورایک المیہ جنم لیتاہے یہ ناول اسی ٹریجڈی کی کہانی ہے۔“
اور رؤف کلاسرا نے ان تراجم کے ذریعے اُردوقارئین کوبھی دوبہت خوبصورت ناولزسے متعارف کرایاہے۔گاڈفادرکے بعد انہوں نے جس عمدگی سے یہ تراجم کیے ہیں۔ان کے مزیدتراجم کاقارئین کوانتظاررہے گا۔