Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
”سویرا“چھہترسال سے مسلسل شائع ہونے والاپاکستان کااردوکا ادبی جریدہ ہے۔حال ہی میں سویراکا سوواں شمارہ شائع ہوا ہے ۔اور ”سویرا“ نے سنچری مکمل کرلی ہے۔ یہ اعزازنقوش،فنون،ادب لطیف ،شاعرسمیت برصغیرکے بہت کم اردوادبی جرائدکو حاصل ہواہے ۔ ”سویرا“کے بانی ادارہ نیا دور پبلشرچودھری نذیراحمدتھے،اورپہلے شمارے کے مدیراردوکے نامورشاعر اورافسانہ نگاراحمدندیم قاسمی تھے ۔احمدندیم قاسمی پھول،تہذیب نسواں،نقوش کے مدیر بھی رہے۔1963میں انہوں نے اپناادبی جریدہ ”فنون “ جاری کیا جوناصرف ان کے انتقال تک شائع ہوتارہا بلکہ اب بھی ان کا نواسہ نیرحیات قاسمی اسے جاری رکھے ہوئے ہے۔ڈیڑھ سال قبل فنون کا”احمدندیم قاسمی نمبرشائع ہواتھا۔
سویراکاپہلاشمارہ1946ءمیں شائع ہوا۔مرتبین میں فکرتونسوی بھی شامل تھے۔ سنچری تک سویرا کی ادارتی ٹیم میں ساحر لدھیانوی، پیر دستگیر ظہیرکاشمیری ، غلام احمدعرف احمد راہی ، احمد مشتاق، صلاح الدین محموداورحنیف رامے جیسے بڑے ادیب وشاعرشامل رہے۔ ’سویرا‘ اب ” القا پبلیکیشنز “کے زیرِ اہتمام شائع ہورہاہے اوراس کے مدیران کرام محمدسلیم الرحمٰن اورریاظ احمد ہیں۔القاسے وابستگی کے بعد سے جریدے کی اشاعت میں باقاعدگی آگئی ہے اورسال میں اس کے دوشمارے شائع ہوتے ہیں۔
سویراکے اولین شمارے کاتعارف ”بات چیت“کے عنوان سے کراتے ہوئے ادارے نے بتایا۔”سویراہندوستان کے نوجوان فنکاروں کے معجزات کا دوماہی انتخاب ہے،اس لیے کسی متعین منزل کی طرف اشارا نہیں کرتا،بلکہ زندگی اورکائنات کی بیکراں وسعتوںکے نشیب و فراز اس کی جولا نگا ہ ہیں۔ہرسویرا ایک نئے سویرے کاپیامی ہے۔’سویرا‘ادیبوں کے کسی گروپ کانمائندہ نہیں ہے اوران تمام ادیبوں کی نگارشات کومسرت اورفخرسے پیش کرے گا،جوایشیائی زندگی کے نباض ہیں۔چھپنے والی ہرچیزایک امتیازکی مالک ہو۔جوخواص کوجھنجھوڑے اور عوام کوچونکا دے۔“سویراکے ابتدائی چند شماروں کاسرورق پاکستان کے نامورمصورعبدالرحمٰن چغتائی نے بنائے۔جس کے بعد معروف مصور،ادیب اورسیاست دان حنیف رامے اس کاٹائٹل بنانے لگے۔حنیف رامے طویل عرصے تک سویرا کے مدیر بھی رہے۔
سویرامیں ابتدا ہی سے اردوکے صف ِ اول کے ادیب وشعراءکی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔جن میں سعادت حسن منٹو،باری علیگ،ممتاز مفتی، راجندرسنگھ بیدی،کرشن چندر،دیوندرستھیارتی،قرة العین حیدر،عصمت چغتائی، جیلانی بانو،پطرس بخاری،شوکت صدیقی، شوکت تھانوی،اخترحسین رائے پوری،شفیق الرحمٰن، ،مرزاادیب،کنہیالال کپور،مجیدامجد،اخترالایمان ،شادعارفی،اوپندرناتھ اشک،محمدخالداختر ، جاوید اقبال ، سلیم احمد، فراق گورکھپوری،طفیل احمد،عندلیب شادانی،احسان دانش ، ساحر لدھیانوی،ظہیرکاشمیری، احمدفراز، منیر نیازی ، احمدندیم قاسمی، فیض احمدفیض ، سردارجعفری،کیفی اعظمی،جوش ملیح آبادی،کشورناہید،پروین شاکر،اداجعفری،فہمیدہ ریاض اوربے شمار دوسرے ادیبوں اور شعراءکاتعاون سویرا کوحاصل رہا۔دورِ حاضر کے کئی عمدہ لکھاریوں نے سویرا سے آغاز کیا۔یااس میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔
سویراکاشمارہ نمبرچھیانوے ”افسانہ نمبر“ تھا۔جس کی انفرادیت یہ تھی کہ یہ نمبر اکیسویں صدی کے افسانہ نگاروں کی تخلیقات پرمشتمل تھا۔ اس طرح یہ نمبرنئے دورکے افسانہ نگاروں کاتعارفی شمارہ بھی قرار دیاجاسکتاہے۔اس میں جہاں آدم شیر،آباداحمدخان،اعجاز،اقبال خورشید ،محمد اقبال دیوان، بی بی حلیمہ بشریٰ،زیف سید،صادقہ نواب سحر،عرفان جاوید،مافات رضاجیسے ابھرتے ہوئے تخلیق کاروں کوجگہ دی گئی ہے ۔ وہیںاسد محمد خان،حسن منظر،اخلاق احمد،خالدفتح محمد،ذکیہ مشہدی،سلمیٰ اعوان،شموئل احمد،عبدالصمد،مبین مرزا،محمدحامدسراج،یونس جاوید اورمستنصرحسین تارڑ جیسے پاکستان اورہندوستان کے معروف اورمستندایسے افسانہ نگاروں کی تخلیقات نے بھی شامل کی گئیں۔جواب تک قلمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سویراسنچری نمبرکاسرورق بھی عبدالرحمٰن چغتائی کابنایاہواہے۔تین سوباون ضخامت کے اس شمارے کی قیمت چھ سوروپے ہے۔ ادارے نے ’بات چیت ‘میں تحریرکیا۔” آخر کارسویرا نے اپنی سنچری مکمل کرلی۔اس سوویں منزل تک ہم کسی لفٹ کی مددسے نہیں پہنچے۔آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھے ہیں۔کبھی تھوڑی دیر دم لیاہے۔ابھی کتنی منزلیں اورباقی ہیں، خداجانے۔جب تک ہمت سلامت ہے قدم آگے بڑھتے رہیں گے۔انشاءاللہ۔ ہم سویرا کے طویل سفرکے بارے میں بڑے بڑے دعوے نہیں کرناچاہتے۔تاہم اپنے پچھہترسالہ وجودمیں سویراکے مدیروں نے،تابہ مقدور،ادب کے طیف کے تمام رنگوں کومنعکس کرنے کی کوشش کی ہے۔پرانے ہوں یا نئے،اس کے دروازے کسی پر بند نہیں رہے۔کسی کوجانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں،جس نے بھی ،ہراعتبارسے اچھالکھاہے اسے بلاتامل سویراکے صفحات میں جگہ دی ہے۔نہ ہمیں کوئی سفارش قبول ہے نہ ایسے خط چھاپتے ہیں جن میں ہماری کاوشوںکوسراہاگیاہو۔ اگرسویرانے ادبی رسائل میں کوئی مقام حاصل کیا ہے تواس کے لیے ہم ان تمام فکشن نویسوں،شاعروں،نقادوں،نثرنگاروں اورمصوروں کے شکرگزارہیںجن کی کشادہ دلی اورمعاونت سے ہم رسالے کوکامیابی سے شائع کرتے رہے ہیں۔امید کرتے ہیں کہ وہ آیندہ بھی ہم سے تعاون جاری رکھیں گے۔“
سویراسنچری نمبرکی ابتدامیں بھارت کے نامورادیب،شاعر،نقاداورمدیرمرحوم شب خون شمس الرحمٰن فاروقی کی فارسی نعت ہے۔جس کا ترجمہ معین نظامی نے کیاہے۔کرامت بخاری کی نعت کے دواشعارپیش ہیں۔
یہ سحر ، سورج ، اُجالے ، روشنی
پارہے ہیں پانے والے روشنی
بڑھتے جاتے ہیں اندھیرے چارسُو
روشنی! اے کملی والے، روشنی !
مضامین کاآغاز خورشیدرضوی کے”عربی ادب قبل ازاسلام“کی ستائیسویں قسط سے ہواہے۔یہ سلسلہ مضامین کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکاہے۔معلوماتی سلسلے کی موجودہ قسط میں اَوس بن حَجَر کے کلام پرسیرحاصل تبصرہ اورنمونہ کلام پرمبنی ہے۔امین راحت چغتائی”بیدل اورچہارعُنصُر“ کے عنوان سے معلوت افزا مضمون پیش کیاہے۔جس میں ابوالمعانی میزراعبدالقادربیدل کی چھہترسالہ زندگی اورفن کاعمدہ محاکمہ کیا گیا ہے ۔ بھارتی ادیب ،نقاد،شاعراورخاکہ نگارشمیم حنفی نے کرکٹرسیدمشتاق علی کی یادیں”ایک شخص جوکہانی بن گیاتھا“ میں تازہ کی ہیں۔آخرمیں شاعراورنقاد ڈاکٹرتحسین فراقی کامجلس فروغِ اردوادب،دوحہ قطرکے تئیسویں عالمی فروغِ اردوادب ایوارڈ کی تقریب میں بطور مہمانِ اعزاز خطاب کوپیش کیاگیا۔
مستنصرحسین تارڑکابیاسی صفحات پرمشتمل طویل ناولٹ”روپ بہروپ“ سویراسنچری نمبرکی خاص تحریرہے۔ مدیرمحمدسلیم الرحمٰن نے ناولٹ کے بارے میں لکھاہے۔”اس ناولٹ میں مستنصرحسین تارڑکاقلم کسی بگولے کی طرح ماضی،حال اورمستقبل میں سرگرداں ہے۔روپ بہروپ میں ہماری ساری پرانی اورنئی تاریخ،باری باری،کٹہرے میں کھڑی نظرآتی ہے۔دریائے خون جس میں ہم ڈوبتے اورابھرتے ہیں اورنَومیدی کے کسی ساحل پرجانکلتے ہیں۔ہماراماضی پیرتسمہ کی طرح،اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتا۔ہماری سترسالہ آزادی کی روداد،جوکہیں کابوس ہے کہیںفریاد،ہم اس سے،جسے یادبھی نہیں رکھناچاہتے اوربھلابھی نہیں سکتے،آبادبھی ہیں بربادبھی۔ خوں چکاں اورناانصافی پرمبنی یہ ہماری کہانی ہے۔کمزوروں کوستانے،قانون کواپنے ہاتھ میں لینے کے قصے،دہشت گردی کے واقعات جوپشاوراسکول کے بچوں اور استانیوں کے قتلِ عام پرختم ہوتے ہیں۔ہم لوریاں سناکراپنے ضمیرکوسلاناچاہتے ہیں لیکن یہ لوریاں وقتاً فوقتاً عفریتوں کے قہقہوں میں بدل جاتی ہیں۔یہ فردِجرم ہے جومستنصرنے دکھی ہوکرلکھی ہے۔یہ ناولٹ آئینہ ہے۔اس میں اگراپنی صورت ٹیڑھی میڑھی نظرآتی ہے توسوچنا چاہیے کہ ہمیں اپناآپ بدلنے کی کتنی ضرورت ہے۔آئینہ اٹھاکرپھینک دینے سے حقائق نہیں بدلا کرتے۔“
حصہ غزل میں سات شعراءکی اکیس غزلیں شامل ہیں۔جن میںامین راحت چغتائی،امجداسلام امجد،صابرظفر،تحسین فراقی،محمودناصرملک ، کاشف حسین غائر اورفیاض سالک شامل ہیں۔چنداشعار
بتائیں کیا کہ سب اچھا نہیں ہے
کہیں دنیا کہیں عقبیٰ نہیں ہے
مسافر دم بخود ، منزل صدا دے
یہاں تو کوئی بھی ٹھہرا نہیں ہے امین راحت چغتائی
کیسی گہری بات ملی ہے ہم کو اک دیوانے سے
ساری گِرہیں کھُل جاتی ہیں،ایک گِرہ کھُل جانے سے
آخر آخر سارے رستے ایک ہی جیسے ہو جاتے ہیں
ملتی ہے ہر ایک حقیقت جاکر اک افسانے سے امجداسلام امجد
ایک دن یہ کاسہِ حرفِ دعا بھر جائے گا
یا اچانک ہی دعا سے دل مرابھر جائے گا
وہ اسی رستے سے آئے گا عیادت کو مری
اور پھولوں سے یہ سارا راستہ بھرجائے گا کاشف حسین غائر
سنچری نمبرکے افسانوی حصے میں تیرہ نئے پرانے افسانہ نگاروں کی تیرہ تخلیقات شامل کی گئی ہیں۔ان میں اٹھائیس صفحات کاسب سے طویل افسانہ بھارت کے صدیق عالم کا”بایواسکوپ“ ہے۔محمود احمدقاضی”ناگ پھنی“، اخلاق احمد”سلطانہ کی کھڑکی“، فاروق خالد”شادی“لے کر آئے ہیں۔شاعر،نقاد اورافسانہ نگارناصرعباس نیرکے افسانے کاعنوان”ہرآدمی ہرکام کرسکتاہے“ ہے۔مسعودمیاں ”محسن محلے کاماسٹر“ ظہیر عباس”اعمال نامہ“قاضی ظفراقبال”بزدلوں کی خوشی“ رفاقت حیات”ایک وڈیرے کی کہانی“ آدم شیر” دھندلی تصویر“، محمدنصراللہ ” بند آنکھوں سے“ عمانوایل اقبال”کہانی کی کہانی اورعینی علی افسانہ ” ہزاروں خواہشیں ایسی“ کے ساتھ شریک ہیں۔
شمارے کاآخری حصہ نظموں پرمشتمل ہے۔جس میں پانچ نظم نگاروں دس نظمیں شامل ہیں۔امین راحت چغتائی،امجداسلام امجد،تحسین فراقی،سعید احمد اورتوقیرعباس کی خوبصورت نظوں نے اس حصہ کوجگمگایاہے۔مجموعی طور پر”سویرا“ کاسنچری نمبرجریدے کی عظیم روایات کو قائم رکھے ہوئے ہے۔امید ہے اس کایہ ادبی سفراسی آب وتاب سے جاری رہے گا۔
”سویرا“چھہترسال سے مسلسل شائع ہونے والاپاکستان کااردوکا ادبی جریدہ ہے۔حال ہی میں سویراکا سوواں شمارہ شائع ہوا ہے ۔اور ”سویرا“ نے سنچری مکمل کرلی ہے۔ یہ اعزازنقوش،فنون،ادب لطیف ،شاعرسمیت برصغیرکے بہت کم اردوادبی جرائدکو حاصل ہواہے ۔ ”سویرا“کے بانی ادارہ نیا دور پبلشرچودھری نذیراحمدتھے،اورپہلے شمارے کے مدیراردوکے نامورشاعر اورافسانہ نگاراحمدندیم قاسمی تھے ۔احمدندیم قاسمی پھول،تہذیب نسواں،نقوش کے مدیر بھی رہے۔1963میں انہوں نے اپناادبی جریدہ ”فنون “ جاری کیا جوناصرف ان کے انتقال تک شائع ہوتارہا بلکہ اب بھی ان کا نواسہ نیرحیات قاسمی اسے جاری رکھے ہوئے ہے۔ڈیڑھ سال قبل فنون کا”احمدندیم قاسمی نمبرشائع ہواتھا۔
سویراکاپہلاشمارہ1946ءمیں شائع ہوا۔مرتبین میں فکرتونسوی بھی شامل تھے۔ سنچری تک سویرا کی ادارتی ٹیم میں ساحر لدھیانوی، پیر دستگیر ظہیرکاشمیری ، غلام احمدعرف احمد راہی ، احمد مشتاق، صلاح الدین محموداورحنیف رامے جیسے بڑے ادیب وشاعرشامل رہے۔ ’سویرا‘ اب ” القا پبلیکیشنز “کے زیرِ اہتمام شائع ہورہاہے اوراس کے مدیران کرام محمدسلیم الرحمٰن اورریاظ احمد ہیں۔القاسے وابستگی کے بعد سے جریدے کی اشاعت میں باقاعدگی آگئی ہے اورسال میں اس کے دوشمارے شائع ہوتے ہیں۔
سویراکے اولین شمارے کاتعارف ”بات چیت“کے عنوان سے کراتے ہوئے ادارے نے بتایا۔”سویراہندوستان کے نوجوان فنکاروں کے معجزات کا دوماہی انتخاب ہے،اس لیے کسی متعین منزل کی طرف اشارا نہیں کرتا،بلکہ زندگی اورکائنات کی بیکراں وسعتوںکے نشیب و فراز اس کی جولا نگا ہ ہیں۔ہرسویرا ایک نئے سویرے کاپیامی ہے۔’سویرا‘ادیبوں کے کسی گروپ کانمائندہ نہیں ہے اوران تمام ادیبوں کی نگارشات کومسرت اورفخرسے پیش کرے گا،جوایشیائی زندگی کے نباض ہیں۔چھپنے والی ہرچیزایک امتیازکی مالک ہو۔جوخواص کوجھنجھوڑے اور عوام کوچونکا دے۔“سویراکے ابتدائی چند شماروں کاسرورق پاکستان کے نامورمصورعبدالرحمٰن چغتائی نے بنائے۔جس کے بعد معروف مصور،ادیب اورسیاست دان حنیف رامے اس کاٹائٹل بنانے لگے۔حنیف رامے طویل عرصے تک سویرا کے مدیر بھی رہے۔
سویرامیں ابتدا ہی سے اردوکے صف ِ اول کے ادیب وشعراءکی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔جن میں سعادت حسن منٹو،باری علیگ،ممتاز مفتی، راجندرسنگھ بیدی،کرشن چندر،دیوندرستھیارتی،قرة العین حیدر،عصمت چغتائی، جیلانی بانو،پطرس بخاری،شوکت صدیقی، شوکت تھانوی،اخترحسین رائے پوری،شفیق الرحمٰن، ،مرزاادیب،کنہیالال کپور،مجیدامجد،اخترالایمان ،شادعارفی،اوپندرناتھ اشک،محمدخالداختر ، جاوید اقبال ، سلیم احمد، فراق گورکھپوری،طفیل احمد،عندلیب شادانی،احسان دانش ، ساحر لدھیانوی،ظہیرکاشمیری، احمدفراز، منیر نیازی ، احمدندیم قاسمی، فیض احمدفیض ، سردارجعفری،کیفی اعظمی،جوش ملیح آبادی،کشورناہید،پروین شاکر،اداجعفری،فہمیدہ ریاض اوربے شمار دوسرے ادیبوں اور شعراءکاتعاون سویرا کوحاصل رہا۔دورِ حاضر کے کئی عمدہ لکھاریوں نے سویرا سے آغاز کیا۔یااس میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔
سویراکاشمارہ نمبرچھیانوے ”افسانہ نمبر“ تھا۔جس کی انفرادیت یہ تھی کہ یہ نمبر اکیسویں صدی کے افسانہ نگاروں کی تخلیقات پرمشتمل تھا۔ اس طرح یہ نمبرنئے دورکے افسانہ نگاروں کاتعارفی شمارہ بھی قرار دیاجاسکتاہے۔اس میں جہاں آدم شیر،آباداحمدخان،اعجاز،اقبال خورشید ،محمد اقبال دیوان، بی بی حلیمہ بشریٰ،زیف سید،صادقہ نواب سحر،عرفان جاوید،مافات رضاجیسے ابھرتے ہوئے تخلیق کاروں کوجگہ دی گئی ہے ۔ وہیںاسد محمد خان،حسن منظر،اخلاق احمد،خالدفتح محمد،ذکیہ مشہدی،سلمیٰ اعوان،شموئل احمد،عبدالصمد،مبین مرزا،محمدحامدسراج،یونس جاوید اورمستنصرحسین تارڑ جیسے پاکستان اورہندوستان کے معروف اورمستندایسے افسانہ نگاروں کی تخلیقات نے بھی شامل کی گئیں۔جواب تک قلمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سویراسنچری نمبرکاسرورق بھی عبدالرحمٰن چغتائی کابنایاہواہے۔تین سوباون ضخامت کے اس شمارے کی قیمت چھ سوروپے ہے۔ ادارے نے ’بات چیت ‘میں تحریرکیا۔” آخر کارسویرا نے اپنی سنچری مکمل کرلی۔اس سوویں منزل تک ہم کسی لفٹ کی مددسے نہیں پہنچے۔آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھے ہیں۔کبھی تھوڑی دیر دم لیاہے۔ابھی کتنی منزلیں اورباقی ہیں، خداجانے۔جب تک ہمت سلامت ہے قدم آگے بڑھتے رہیں گے۔انشاءاللہ۔ ہم سویرا کے طویل سفرکے بارے میں بڑے بڑے دعوے نہیں کرناچاہتے۔تاہم اپنے پچھہترسالہ وجودمیں سویراکے مدیروں نے،تابہ مقدور،ادب کے طیف کے تمام رنگوں کومنعکس کرنے کی کوشش کی ہے۔پرانے ہوں یا نئے،اس کے دروازے کسی پر بند نہیں رہے۔کسی کوجانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں،جس نے بھی ،ہراعتبارسے اچھالکھاہے اسے بلاتامل سویراکے صفحات میں جگہ دی ہے۔نہ ہمیں کوئی سفارش قبول ہے نہ ایسے خط چھاپتے ہیں جن میں ہماری کاوشوںکوسراہاگیاہو۔ اگرسویرانے ادبی رسائل میں کوئی مقام حاصل کیا ہے تواس کے لیے ہم ان تمام فکشن نویسوں،شاعروں،نقادوں،نثرنگاروں اورمصوروں کے شکرگزارہیںجن کی کشادہ دلی اورمعاونت سے ہم رسالے کوکامیابی سے شائع کرتے رہے ہیں۔امید کرتے ہیں کہ وہ آیندہ بھی ہم سے تعاون جاری رکھیں گے۔“
سویراسنچری نمبرکی ابتدامیں بھارت کے نامورادیب،شاعر،نقاداورمدیرمرحوم شب خون شمس الرحمٰن فاروقی کی فارسی نعت ہے۔جس کا ترجمہ معین نظامی نے کیاہے۔کرامت بخاری کی نعت کے دواشعارپیش ہیں۔
یہ سحر ، سورج ، اُجالے ، روشنی
پارہے ہیں پانے والے روشنی
بڑھتے جاتے ہیں اندھیرے چارسُو
روشنی! اے کملی والے، روشنی !
مضامین کاآغاز خورشیدرضوی کے”عربی ادب قبل ازاسلام“کی ستائیسویں قسط سے ہواہے۔یہ سلسلہ مضامین کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکاہے۔معلوماتی سلسلے کی موجودہ قسط میں اَوس بن حَجَر کے کلام پرسیرحاصل تبصرہ اورنمونہ کلام پرمبنی ہے۔امین راحت چغتائی”بیدل اورچہارعُنصُر“ کے عنوان سے معلوت افزا مضمون پیش کیاہے۔جس میں ابوالمعانی میزراعبدالقادربیدل کی چھہترسالہ زندگی اورفن کاعمدہ محاکمہ کیا گیا ہے ۔ بھارتی ادیب ،نقاد،شاعراورخاکہ نگارشمیم حنفی نے کرکٹرسیدمشتاق علی کی یادیں”ایک شخص جوکہانی بن گیاتھا“ میں تازہ کی ہیں۔آخرمیں شاعراورنقاد ڈاکٹرتحسین فراقی کامجلس فروغِ اردوادب،دوحہ قطرکے تئیسویں عالمی فروغِ اردوادب ایوارڈ کی تقریب میں بطور مہمانِ اعزاز خطاب کوپیش کیاگیا۔
مستنصرحسین تارڑکابیاسی صفحات پرمشتمل طویل ناولٹ”روپ بہروپ“ سویراسنچری نمبرکی خاص تحریرہے۔ مدیرمحمدسلیم الرحمٰن نے ناولٹ کے بارے میں لکھاہے۔”اس ناولٹ میں مستنصرحسین تارڑکاقلم کسی بگولے کی طرح ماضی،حال اورمستقبل میں سرگرداں ہے۔روپ بہروپ میں ہماری ساری پرانی اورنئی تاریخ،باری باری،کٹہرے میں کھڑی نظرآتی ہے۔دریائے خون جس میں ہم ڈوبتے اورابھرتے ہیں اورنَومیدی کے کسی ساحل پرجانکلتے ہیں۔ہماراماضی پیرتسمہ کی طرح،اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتا۔ہماری سترسالہ آزادی کی روداد،جوکہیں کابوس ہے کہیںفریاد،ہم اس سے،جسے یادبھی نہیں رکھناچاہتے اوربھلابھی نہیں سکتے،آبادبھی ہیں بربادبھی۔ خوں چکاں اورناانصافی پرمبنی یہ ہماری کہانی ہے۔کمزوروں کوستانے،قانون کواپنے ہاتھ میں لینے کے قصے،دہشت گردی کے واقعات جوپشاوراسکول کے بچوں اور استانیوں کے قتلِ عام پرختم ہوتے ہیں۔ہم لوریاں سناکراپنے ضمیرکوسلاناچاہتے ہیں لیکن یہ لوریاں وقتاً فوقتاً عفریتوں کے قہقہوں میں بدل جاتی ہیں۔یہ فردِجرم ہے جومستنصرنے دکھی ہوکرلکھی ہے۔یہ ناولٹ آئینہ ہے۔اس میں اگراپنی صورت ٹیڑھی میڑھی نظرآتی ہے توسوچنا چاہیے کہ ہمیں اپناآپ بدلنے کی کتنی ضرورت ہے۔آئینہ اٹھاکرپھینک دینے سے حقائق نہیں بدلا کرتے۔“
حصہ غزل میں سات شعراءکی اکیس غزلیں شامل ہیں۔جن میںامین راحت چغتائی،امجداسلام امجد،صابرظفر،تحسین فراقی،محمودناصرملک ، کاشف حسین غائر اورفیاض سالک شامل ہیں۔چنداشعار
بتائیں کیا کہ سب اچھا نہیں ہے
کہیں دنیا کہیں عقبیٰ نہیں ہے
مسافر دم بخود ، منزل صدا دے
یہاں تو کوئی بھی ٹھہرا نہیں ہے امین راحت چغتائی
کیسی گہری بات ملی ہے ہم کو اک دیوانے سے
ساری گِرہیں کھُل جاتی ہیں،ایک گِرہ کھُل جانے سے
آخر آخر سارے رستے ایک ہی جیسے ہو جاتے ہیں
ملتی ہے ہر ایک حقیقت جاکر اک افسانے سے امجداسلام امجد
ایک دن یہ کاسہِ حرفِ دعا بھر جائے گا
یا اچانک ہی دعا سے دل مرابھر جائے گا
وہ اسی رستے سے آئے گا عیادت کو مری
اور پھولوں سے یہ سارا راستہ بھرجائے گا کاشف حسین غائر
سنچری نمبرکے افسانوی حصے میں تیرہ نئے پرانے افسانہ نگاروں کی تیرہ تخلیقات شامل کی گئی ہیں۔ان میں اٹھائیس صفحات کاسب سے طویل افسانہ بھارت کے صدیق عالم کا”بایواسکوپ“ ہے۔محمود احمدقاضی”ناگ پھنی“، اخلاق احمد”سلطانہ کی کھڑکی“، فاروق خالد”شادی“لے کر آئے ہیں۔شاعر،نقاد اورافسانہ نگارناصرعباس نیرکے افسانے کاعنوان”ہرآدمی ہرکام کرسکتاہے“ ہے۔مسعودمیاں ”محسن محلے کاماسٹر“ ظہیر عباس”اعمال نامہ“قاضی ظفراقبال”بزدلوں کی خوشی“ رفاقت حیات”ایک وڈیرے کی کہانی“ آدم شیر” دھندلی تصویر“، محمدنصراللہ ” بند آنکھوں سے“ عمانوایل اقبال”کہانی کی کہانی اورعینی علی افسانہ ” ہزاروں خواہشیں ایسی“ کے ساتھ شریک ہیں۔
شمارے کاآخری حصہ نظموں پرمشتمل ہے۔جس میں پانچ نظم نگاروں دس نظمیں شامل ہیں۔امین راحت چغتائی،امجداسلام امجد،تحسین فراقی،سعید احمد اورتوقیرعباس کی خوبصورت نظوں نے اس حصہ کوجگمگایاہے۔مجموعی طور پر”سویرا“ کاسنچری نمبرجریدے کی عظیم روایات کو قائم رکھے ہوئے ہے۔امید ہے اس کایہ ادبی سفراسی آب وتاب سے جاری رہے گا۔
”سویرا“چھہترسال سے مسلسل شائع ہونے والاپاکستان کااردوکا ادبی جریدہ ہے۔حال ہی میں سویراکا سوواں شمارہ شائع ہوا ہے ۔اور ”سویرا“ نے سنچری مکمل کرلی ہے۔ یہ اعزازنقوش،فنون،ادب لطیف ،شاعرسمیت برصغیرکے بہت کم اردوادبی جرائدکو حاصل ہواہے ۔ ”سویرا“کے بانی ادارہ نیا دور پبلشرچودھری نذیراحمدتھے،اورپہلے شمارے کے مدیراردوکے نامورشاعر اورافسانہ نگاراحمدندیم قاسمی تھے ۔احمدندیم قاسمی پھول،تہذیب نسواں،نقوش کے مدیر بھی رہے۔1963میں انہوں نے اپناادبی جریدہ ”فنون “ جاری کیا جوناصرف ان کے انتقال تک شائع ہوتارہا بلکہ اب بھی ان کا نواسہ نیرحیات قاسمی اسے جاری رکھے ہوئے ہے۔ڈیڑھ سال قبل فنون کا”احمدندیم قاسمی نمبرشائع ہواتھا۔
سویراکاپہلاشمارہ1946ءمیں شائع ہوا۔مرتبین میں فکرتونسوی بھی شامل تھے۔ سنچری تک سویرا کی ادارتی ٹیم میں ساحر لدھیانوی، پیر دستگیر ظہیرکاشمیری ، غلام احمدعرف احمد راہی ، احمد مشتاق، صلاح الدین محموداورحنیف رامے جیسے بڑے ادیب وشاعرشامل رہے۔ ’سویرا‘ اب ” القا پبلیکیشنز “کے زیرِ اہتمام شائع ہورہاہے اوراس کے مدیران کرام محمدسلیم الرحمٰن اورریاظ احمد ہیں۔القاسے وابستگی کے بعد سے جریدے کی اشاعت میں باقاعدگی آگئی ہے اورسال میں اس کے دوشمارے شائع ہوتے ہیں۔
سویراکے اولین شمارے کاتعارف ”بات چیت“کے عنوان سے کراتے ہوئے ادارے نے بتایا۔”سویراہندوستان کے نوجوان فنکاروں کے معجزات کا دوماہی انتخاب ہے،اس لیے کسی متعین منزل کی طرف اشارا نہیں کرتا،بلکہ زندگی اورکائنات کی بیکراں وسعتوںکے نشیب و فراز اس کی جولا نگا ہ ہیں۔ہرسویرا ایک نئے سویرے کاپیامی ہے۔’سویرا‘ادیبوں کے کسی گروپ کانمائندہ نہیں ہے اوران تمام ادیبوں کی نگارشات کومسرت اورفخرسے پیش کرے گا،جوایشیائی زندگی کے نباض ہیں۔چھپنے والی ہرچیزایک امتیازکی مالک ہو۔جوخواص کوجھنجھوڑے اور عوام کوچونکا دے۔“سویراکے ابتدائی چند شماروں کاسرورق پاکستان کے نامورمصورعبدالرحمٰن چغتائی نے بنائے۔جس کے بعد معروف مصور،ادیب اورسیاست دان حنیف رامے اس کاٹائٹل بنانے لگے۔حنیف رامے طویل عرصے تک سویرا کے مدیر بھی رہے۔
سویرامیں ابتدا ہی سے اردوکے صف ِ اول کے ادیب وشعراءکی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔جن میں سعادت حسن منٹو،باری علیگ،ممتاز مفتی، راجندرسنگھ بیدی،کرشن چندر،دیوندرستھیارتی،قرة العین حیدر،عصمت چغتائی، جیلانی بانو،پطرس بخاری،شوکت صدیقی، شوکت تھانوی،اخترحسین رائے پوری،شفیق الرحمٰن، ،مرزاادیب،کنہیالال کپور،مجیدامجد،اخترالایمان ،شادعارفی،اوپندرناتھ اشک،محمدخالداختر ، جاوید اقبال ، سلیم احمد، فراق گورکھپوری،طفیل احمد،عندلیب شادانی،احسان دانش ، ساحر لدھیانوی،ظہیرکاشمیری، احمدفراز، منیر نیازی ، احمدندیم قاسمی، فیض احمدفیض ، سردارجعفری،کیفی اعظمی،جوش ملیح آبادی،کشورناہید،پروین شاکر،اداجعفری،فہمیدہ ریاض اوربے شمار دوسرے ادیبوں اور شعراءکاتعاون سویرا کوحاصل رہا۔دورِ حاضر کے کئی عمدہ لکھاریوں نے سویرا سے آغاز کیا۔یااس میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔
سویراکاشمارہ نمبرچھیانوے ”افسانہ نمبر“ تھا۔جس کی انفرادیت یہ تھی کہ یہ نمبر اکیسویں صدی کے افسانہ نگاروں کی تخلیقات پرمشتمل تھا۔ اس طرح یہ نمبرنئے دورکے افسانہ نگاروں کاتعارفی شمارہ بھی قرار دیاجاسکتاہے۔اس میں جہاں آدم شیر،آباداحمدخان،اعجاز،اقبال خورشید ،محمد اقبال دیوان، بی بی حلیمہ بشریٰ،زیف سید،صادقہ نواب سحر،عرفان جاوید،مافات رضاجیسے ابھرتے ہوئے تخلیق کاروں کوجگہ دی گئی ہے ۔ وہیںاسد محمد خان،حسن منظر،اخلاق احمد،خالدفتح محمد،ذکیہ مشہدی،سلمیٰ اعوان،شموئل احمد،عبدالصمد،مبین مرزا،محمدحامدسراج،یونس جاوید اورمستنصرحسین تارڑ جیسے پاکستان اورہندوستان کے معروف اورمستندایسے افسانہ نگاروں کی تخلیقات نے بھی شامل کی گئیں۔جواب تک قلمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سویراسنچری نمبرکاسرورق بھی عبدالرحمٰن چغتائی کابنایاہواہے۔تین سوباون ضخامت کے اس شمارے کی قیمت چھ سوروپے ہے۔ ادارے نے ’بات چیت ‘میں تحریرکیا۔” آخر کارسویرا نے اپنی سنچری مکمل کرلی۔اس سوویں منزل تک ہم کسی لفٹ کی مددسے نہیں پہنچے۔آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھے ہیں۔کبھی تھوڑی دیر دم لیاہے۔ابھی کتنی منزلیں اورباقی ہیں، خداجانے۔جب تک ہمت سلامت ہے قدم آگے بڑھتے رہیں گے۔انشاءاللہ۔ ہم سویرا کے طویل سفرکے بارے میں بڑے بڑے دعوے نہیں کرناچاہتے۔تاہم اپنے پچھہترسالہ وجودمیں سویراکے مدیروں نے،تابہ مقدور،ادب کے طیف کے تمام رنگوں کومنعکس کرنے کی کوشش کی ہے۔پرانے ہوں یا نئے،اس کے دروازے کسی پر بند نہیں رہے۔کسی کوجانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں،جس نے بھی ،ہراعتبارسے اچھالکھاہے اسے بلاتامل سویراکے صفحات میں جگہ دی ہے۔نہ ہمیں کوئی سفارش قبول ہے نہ ایسے خط چھاپتے ہیں جن میں ہماری کاوشوںکوسراہاگیاہو۔ اگرسویرانے ادبی رسائل میں کوئی مقام حاصل کیا ہے تواس کے لیے ہم ان تمام فکشن نویسوں،شاعروں،نقادوں،نثرنگاروں اورمصوروں کے شکرگزارہیںجن کی کشادہ دلی اورمعاونت سے ہم رسالے کوکامیابی سے شائع کرتے رہے ہیں۔امید کرتے ہیں کہ وہ آیندہ بھی ہم سے تعاون جاری رکھیں گے۔“
سویراسنچری نمبرکی ابتدامیں بھارت کے نامورادیب،شاعر،نقاداورمدیرمرحوم شب خون شمس الرحمٰن فاروقی کی فارسی نعت ہے۔جس کا ترجمہ معین نظامی نے کیاہے۔کرامت بخاری کی نعت کے دواشعارپیش ہیں۔
یہ سحر ، سورج ، اُجالے ، روشنی
پارہے ہیں پانے والے روشنی
بڑھتے جاتے ہیں اندھیرے چارسُو
روشنی! اے کملی والے، روشنی !
مضامین کاآغاز خورشیدرضوی کے”عربی ادب قبل ازاسلام“کی ستائیسویں قسط سے ہواہے۔یہ سلسلہ مضامین کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکاہے۔معلوماتی سلسلے کی موجودہ قسط میں اَوس بن حَجَر کے کلام پرسیرحاصل تبصرہ اورنمونہ کلام پرمبنی ہے۔امین راحت چغتائی”بیدل اورچہارعُنصُر“ کے عنوان سے معلوت افزا مضمون پیش کیاہے۔جس میں ابوالمعانی میزراعبدالقادربیدل کی چھہترسالہ زندگی اورفن کاعمدہ محاکمہ کیا گیا ہے ۔ بھارتی ادیب ،نقاد،شاعراورخاکہ نگارشمیم حنفی نے کرکٹرسیدمشتاق علی کی یادیں”ایک شخص جوکہانی بن گیاتھا“ میں تازہ کی ہیں۔آخرمیں شاعراورنقاد ڈاکٹرتحسین فراقی کامجلس فروغِ اردوادب،دوحہ قطرکے تئیسویں عالمی فروغِ اردوادب ایوارڈ کی تقریب میں بطور مہمانِ اعزاز خطاب کوپیش کیاگیا۔
مستنصرحسین تارڑکابیاسی صفحات پرمشتمل طویل ناولٹ”روپ بہروپ“ سویراسنچری نمبرکی خاص تحریرہے۔ مدیرمحمدسلیم الرحمٰن نے ناولٹ کے بارے میں لکھاہے۔”اس ناولٹ میں مستنصرحسین تارڑکاقلم کسی بگولے کی طرح ماضی،حال اورمستقبل میں سرگرداں ہے۔روپ بہروپ میں ہماری ساری پرانی اورنئی تاریخ،باری باری،کٹہرے میں کھڑی نظرآتی ہے۔دریائے خون جس میں ہم ڈوبتے اورابھرتے ہیں اورنَومیدی کے کسی ساحل پرجانکلتے ہیں۔ہماراماضی پیرتسمہ کی طرح،اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتا۔ہماری سترسالہ آزادی کی روداد،جوکہیں کابوس ہے کہیںفریاد،ہم اس سے،جسے یادبھی نہیں رکھناچاہتے اوربھلابھی نہیں سکتے،آبادبھی ہیں بربادبھی۔ خوں چکاں اورناانصافی پرمبنی یہ ہماری کہانی ہے۔کمزوروں کوستانے،قانون کواپنے ہاتھ میں لینے کے قصے،دہشت گردی کے واقعات جوپشاوراسکول کے بچوں اور استانیوں کے قتلِ عام پرختم ہوتے ہیں۔ہم لوریاں سناکراپنے ضمیرکوسلاناچاہتے ہیں لیکن یہ لوریاں وقتاً فوقتاً عفریتوں کے قہقہوں میں بدل جاتی ہیں۔یہ فردِجرم ہے جومستنصرنے دکھی ہوکرلکھی ہے۔یہ ناولٹ آئینہ ہے۔اس میں اگراپنی صورت ٹیڑھی میڑھی نظرآتی ہے توسوچنا چاہیے کہ ہمیں اپناآپ بدلنے کی کتنی ضرورت ہے۔آئینہ اٹھاکرپھینک دینے سے حقائق نہیں بدلا کرتے۔“
حصہ غزل میں سات شعراءکی اکیس غزلیں شامل ہیں۔جن میںامین راحت چغتائی،امجداسلام امجد،صابرظفر،تحسین فراقی،محمودناصرملک ، کاشف حسین غائر اورفیاض سالک شامل ہیں۔چنداشعار
بتائیں کیا کہ سب اچھا نہیں ہے
کہیں دنیا کہیں عقبیٰ نہیں ہے
مسافر دم بخود ، منزل صدا دے
یہاں تو کوئی بھی ٹھہرا نہیں ہے امین راحت چغتائی
کیسی گہری بات ملی ہے ہم کو اک دیوانے سے
ساری گِرہیں کھُل جاتی ہیں،ایک گِرہ کھُل جانے سے
آخر آخر سارے رستے ایک ہی جیسے ہو جاتے ہیں
ملتی ہے ہر ایک حقیقت جاکر اک افسانے سے امجداسلام امجد
ایک دن یہ کاسہِ حرفِ دعا بھر جائے گا
یا اچانک ہی دعا سے دل مرابھر جائے گا
وہ اسی رستے سے آئے گا عیادت کو مری
اور پھولوں سے یہ سارا راستہ بھرجائے گا کاشف حسین غائر
سنچری نمبرکے افسانوی حصے میں تیرہ نئے پرانے افسانہ نگاروں کی تیرہ تخلیقات شامل کی گئی ہیں۔ان میں اٹھائیس صفحات کاسب سے طویل افسانہ بھارت کے صدیق عالم کا”بایواسکوپ“ ہے۔محمود احمدقاضی”ناگ پھنی“، اخلاق احمد”سلطانہ کی کھڑکی“، فاروق خالد”شادی“لے کر آئے ہیں۔شاعر،نقاد اورافسانہ نگارناصرعباس نیرکے افسانے کاعنوان”ہرآدمی ہرکام کرسکتاہے“ ہے۔مسعودمیاں ”محسن محلے کاماسٹر“ ظہیر عباس”اعمال نامہ“قاضی ظفراقبال”بزدلوں کی خوشی“ رفاقت حیات”ایک وڈیرے کی کہانی“ آدم شیر” دھندلی تصویر“، محمدنصراللہ ” بند آنکھوں سے“ عمانوایل اقبال”کہانی کی کہانی اورعینی علی افسانہ ” ہزاروں خواہشیں ایسی“ کے ساتھ شریک ہیں۔
شمارے کاآخری حصہ نظموں پرمشتمل ہے۔جس میں پانچ نظم نگاروں دس نظمیں شامل ہیں۔امین راحت چغتائی،امجداسلام امجد،تحسین فراقی،سعید احمد اورتوقیرعباس کی خوبصورت نظوں نے اس حصہ کوجگمگایاہے۔مجموعی طور پر”سویرا“ کاسنچری نمبرجریدے کی عظیم روایات کو قائم رکھے ہوئے ہے۔امید ہے اس کایہ ادبی سفراسی آب وتاب سے جاری رہے گا۔
”سویرا“چھہترسال سے مسلسل شائع ہونے والاپاکستان کااردوکا ادبی جریدہ ہے۔حال ہی میں سویراکا سوواں شمارہ شائع ہوا ہے ۔اور ”سویرا“ نے سنچری مکمل کرلی ہے۔ یہ اعزازنقوش،فنون،ادب لطیف ،شاعرسمیت برصغیرکے بہت کم اردوادبی جرائدکو حاصل ہواہے ۔ ”سویرا“کے بانی ادارہ نیا دور پبلشرچودھری نذیراحمدتھے،اورپہلے شمارے کے مدیراردوکے نامورشاعر اورافسانہ نگاراحمدندیم قاسمی تھے ۔احمدندیم قاسمی پھول،تہذیب نسواں،نقوش کے مدیر بھی رہے۔1963میں انہوں نے اپناادبی جریدہ ”فنون “ جاری کیا جوناصرف ان کے انتقال تک شائع ہوتارہا بلکہ اب بھی ان کا نواسہ نیرحیات قاسمی اسے جاری رکھے ہوئے ہے۔ڈیڑھ سال قبل فنون کا”احمدندیم قاسمی نمبرشائع ہواتھا۔
سویراکاپہلاشمارہ1946ءمیں شائع ہوا۔مرتبین میں فکرتونسوی بھی شامل تھے۔ سنچری تک سویرا کی ادارتی ٹیم میں ساحر لدھیانوی، پیر دستگیر ظہیرکاشمیری ، غلام احمدعرف احمد راہی ، احمد مشتاق، صلاح الدین محموداورحنیف رامے جیسے بڑے ادیب وشاعرشامل رہے۔ ’سویرا‘ اب ” القا پبلیکیشنز “کے زیرِ اہتمام شائع ہورہاہے اوراس کے مدیران کرام محمدسلیم الرحمٰن اورریاظ احمد ہیں۔القاسے وابستگی کے بعد سے جریدے کی اشاعت میں باقاعدگی آگئی ہے اورسال میں اس کے دوشمارے شائع ہوتے ہیں۔
سویراکے اولین شمارے کاتعارف ”بات چیت“کے عنوان سے کراتے ہوئے ادارے نے بتایا۔”سویراہندوستان کے نوجوان فنکاروں کے معجزات کا دوماہی انتخاب ہے،اس لیے کسی متعین منزل کی طرف اشارا نہیں کرتا،بلکہ زندگی اورکائنات کی بیکراں وسعتوںکے نشیب و فراز اس کی جولا نگا ہ ہیں۔ہرسویرا ایک نئے سویرے کاپیامی ہے۔’سویرا‘ادیبوں کے کسی گروپ کانمائندہ نہیں ہے اوران تمام ادیبوں کی نگارشات کومسرت اورفخرسے پیش کرے گا،جوایشیائی زندگی کے نباض ہیں۔چھپنے والی ہرچیزایک امتیازکی مالک ہو۔جوخواص کوجھنجھوڑے اور عوام کوچونکا دے۔“سویراکے ابتدائی چند شماروں کاسرورق پاکستان کے نامورمصورعبدالرحمٰن چغتائی نے بنائے۔جس کے بعد معروف مصور،ادیب اورسیاست دان حنیف رامے اس کاٹائٹل بنانے لگے۔حنیف رامے طویل عرصے تک سویرا کے مدیر بھی رہے۔
سویرامیں ابتدا ہی سے اردوکے صف ِ اول کے ادیب وشعراءکی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔جن میں سعادت حسن منٹو،باری علیگ،ممتاز مفتی، راجندرسنگھ بیدی،کرشن چندر،دیوندرستھیارتی،قرة العین حیدر،عصمت چغتائی، جیلانی بانو،پطرس بخاری،شوکت صدیقی، شوکت تھانوی،اخترحسین رائے پوری،شفیق الرحمٰن، ،مرزاادیب،کنہیالال کپور،مجیدامجد،اخترالایمان ،شادعارفی،اوپندرناتھ اشک،محمدخالداختر ، جاوید اقبال ، سلیم احمد، فراق گورکھپوری،طفیل احمد،عندلیب شادانی،احسان دانش ، ساحر لدھیانوی،ظہیرکاشمیری، احمدفراز، منیر نیازی ، احمدندیم قاسمی، فیض احمدفیض ، سردارجعفری،کیفی اعظمی،جوش ملیح آبادی،کشورناہید،پروین شاکر،اداجعفری،فہمیدہ ریاض اوربے شمار دوسرے ادیبوں اور شعراءکاتعاون سویرا کوحاصل رہا۔دورِ حاضر کے کئی عمدہ لکھاریوں نے سویرا سے آغاز کیا۔یااس میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔
سویراکاشمارہ نمبرچھیانوے ”افسانہ نمبر“ تھا۔جس کی انفرادیت یہ تھی کہ یہ نمبر اکیسویں صدی کے افسانہ نگاروں کی تخلیقات پرمشتمل تھا۔ اس طرح یہ نمبرنئے دورکے افسانہ نگاروں کاتعارفی شمارہ بھی قرار دیاجاسکتاہے۔اس میں جہاں آدم شیر،آباداحمدخان،اعجاز،اقبال خورشید ،محمد اقبال دیوان، بی بی حلیمہ بشریٰ،زیف سید،صادقہ نواب سحر،عرفان جاوید،مافات رضاجیسے ابھرتے ہوئے تخلیق کاروں کوجگہ دی گئی ہے ۔ وہیںاسد محمد خان،حسن منظر،اخلاق احمد،خالدفتح محمد،ذکیہ مشہدی،سلمیٰ اعوان،شموئل احمد،عبدالصمد،مبین مرزا،محمدحامدسراج،یونس جاوید اورمستنصرحسین تارڑ جیسے پاکستان اورہندوستان کے معروف اورمستندایسے افسانہ نگاروں کی تخلیقات نے بھی شامل کی گئیں۔جواب تک قلمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سویراسنچری نمبرکاسرورق بھی عبدالرحمٰن چغتائی کابنایاہواہے۔تین سوباون ضخامت کے اس شمارے کی قیمت چھ سوروپے ہے۔ ادارے نے ’بات چیت ‘میں تحریرکیا۔” آخر کارسویرا نے اپنی سنچری مکمل کرلی۔اس سوویں منزل تک ہم کسی لفٹ کی مددسے نہیں پہنچے۔آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھے ہیں۔کبھی تھوڑی دیر دم لیاہے۔ابھی کتنی منزلیں اورباقی ہیں، خداجانے۔جب تک ہمت سلامت ہے قدم آگے بڑھتے رہیں گے۔انشاءاللہ۔ ہم سویرا کے طویل سفرکے بارے میں بڑے بڑے دعوے نہیں کرناچاہتے۔تاہم اپنے پچھہترسالہ وجودمیں سویراکے مدیروں نے،تابہ مقدور،ادب کے طیف کے تمام رنگوں کومنعکس کرنے کی کوشش کی ہے۔پرانے ہوں یا نئے،اس کے دروازے کسی پر بند نہیں رہے۔کسی کوجانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں،جس نے بھی ،ہراعتبارسے اچھالکھاہے اسے بلاتامل سویراکے صفحات میں جگہ دی ہے۔نہ ہمیں کوئی سفارش قبول ہے نہ ایسے خط چھاپتے ہیں جن میں ہماری کاوشوںکوسراہاگیاہو۔ اگرسویرانے ادبی رسائل میں کوئی مقام حاصل کیا ہے تواس کے لیے ہم ان تمام فکشن نویسوں،شاعروں،نقادوں،نثرنگاروں اورمصوروں کے شکرگزارہیںجن کی کشادہ دلی اورمعاونت سے ہم رسالے کوکامیابی سے شائع کرتے رہے ہیں۔امید کرتے ہیں کہ وہ آیندہ بھی ہم سے تعاون جاری رکھیں گے۔“
سویراسنچری نمبرکی ابتدامیں بھارت کے نامورادیب،شاعر،نقاداورمدیرمرحوم شب خون شمس الرحمٰن فاروقی کی فارسی نعت ہے۔جس کا ترجمہ معین نظامی نے کیاہے۔کرامت بخاری کی نعت کے دواشعارپیش ہیں۔
یہ سحر ، سورج ، اُجالے ، روشنی
پارہے ہیں پانے والے روشنی
بڑھتے جاتے ہیں اندھیرے چارسُو
روشنی! اے کملی والے، روشنی !
مضامین کاآغاز خورشیدرضوی کے”عربی ادب قبل ازاسلام“کی ستائیسویں قسط سے ہواہے۔یہ سلسلہ مضامین کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکاہے۔معلوماتی سلسلے کی موجودہ قسط میں اَوس بن حَجَر کے کلام پرسیرحاصل تبصرہ اورنمونہ کلام پرمبنی ہے۔امین راحت چغتائی”بیدل اورچہارعُنصُر“ کے عنوان سے معلوت افزا مضمون پیش کیاہے۔جس میں ابوالمعانی میزراعبدالقادربیدل کی چھہترسالہ زندگی اورفن کاعمدہ محاکمہ کیا گیا ہے ۔ بھارتی ادیب ،نقاد،شاعراورخاکہ نگارشمیم حنفی نے کرکٹرسیدمشتاق علی کی یادیں”ایک شخص جوکہانی بن گیاتھا“ میں تازہ کی ہیں۔آخرمیں شاعراورنقاد ڈاکٹرتحسین فراقی کامجلس فروغِ اردوادب،دوحہ قطرکے تئیسویں عالمی فروغِ اردوادب ایوارڈ کی تقریب میں بطور مہمانِ اعزاز خطاب کوپیش کیاگیا۔
مستنصرحسین تارڑکابیاسی صفحات پرمشتمل طویل ناولٹ”روپ بہروپ“ سویراسنچری نمبرکی خاص تحریرہے۔ مدیرمحمدسلیم الرحمٰن نے ناولٹ کے بارے میں لکھاہے۔”اس ناولٹ میں مستنصرحسین تارڑکاقلم کسی بگولے کی طرح ماضی،حال اورمستقبل میں سرگرداں ہے۔روپ بہروپ میں ہماری ساری پرانی اورنئی تاریخ،باری باری،کٹہرے میں کھڑی نظرآتی ہے۔دریائے خون جس میں ہم ڈوبتے اورابھرتے ہیں اورنَومیدی کے کسی ساحل پرجانکلتے ہیں۔ہماراماضی پیرتسمہ کی طرح،اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتا۔ہماری سترسالہ آزادی کی روداد،جوکہیں کابوس ہے کہیںفریاد،ہم اس سے،جسے یادبھی نہیں رکھناچاہتے اوربھلابھی نہیں سکتے،آبادبھی ہیں بربادبھی۔ خوں چکاں اورناانصافی پرمبنی یہ ہماری کہانی ہے۔کمزوروں کوستانے،قانون کواپنے ہاتھ میں لینے کے قصے،دہشت گردی کے واقعات جوپشاوراسکول کے بچوں اور استانیوں کے قتلِ عام پرختم ہوتے ہیں۔ہم لوریاں سناکراپنے ضمیرکوسلاناچاہتے ہیں لیکن یہ لوریاں وقتاً فوقتاً عفریتوں کے قہقہوں میں بدل جاتی ہیں۔یہ فردِجرم ہے جومستنصرنے دکھی ہوکرلکھی ہے۔یہ ناولٹ آئینہ ہے۔اس میں اگراپنی صورت ٹیڑھی میڑھی نظرآتی ہے توسوچنا چاہیے کہ ہمیں اپناآپ بدلنے کی کتنی ضرورت ہے۔آئینہ اٹھاکرپھینک دینے سے حقائق نہیں بدلا کرتے۔“
حصہ غزل میں سات شعراءکی اکیس غزلیں شامل ہیں۔جن میںامین راحت چغتائی،امجداسلام امجد،صابرظفر،تحسین فراقی،محمودناصرملک ، کاشف حسین غائر اورفیاض سالک شامل ہیں۔چنداشعار
بتائیں کیا کہ سب اچھا نہیں ہے
کہیں دنیا کہیں عقبیٰ نہیں ہے
مسافر دم بخود ، منزل صدا دے
یہاں تو کوئی بھی ٹھہرا نہیں ہے امین راحت چغتائی
کیسی گہری بات ملی ہے ہم کو اک دیوانے سے
ساری گِرہیں کھُل جاتی ہیں،ایک گِرہ کھُل جانے سے
آخر آخر سارے رستے ایک ہی جیسے ہو جاتے ہیں
ملتی ہے ہر ایک حقیقت جاکر اک افسانے سے امجداسلام امجد
ایک دن یہ کاسہِ حرفِ دعا بھر جائے گا
یا اچانک ہی دعا سے دل مرابھر جائے گا
وہ اسی رستے سے آئے گا عیادت کو مری
اور پھولوں سے یہ سارا راستہ بھرجائے گا کاشف حسین غائر
سنچری نمبرکے افسانوی حصے میں تیرہ نئے پرانے افسانہ نگاروں کی تیرہ تخلیقات شامل کی گئی ہیں۔ان میں اٹھائیس صفحات کاسب سے طویل افسانہ بھارت کے صدیق عالم کا”بایواسکوپ“ ہے۔محمود احمدقاضی”ناگ پھنی“، اخلاق احمد”سلطانہ کی کھڑکی“، فاروق خالد”شادی“لے کر آئے ہیں۔شاعر،نقاد اورافسانہ نگارناصرعباس نیرکے افسانے کاعنوان”ہرآدمی ہرکام کرسکتاہے“ ہے۔مسعودمیاں ”محسن محلے کاماسٹر“ ظہیر عباس”اعمال نامہ“قاضی ظفراقبال”بزدلوں کی خوشی“ رفاقت حیات”ایک وڈیرے کی کہانی“ آدم شیر” دھندلی تصویر“، محمدنصراللہ ” بند آنکھوں سے“ عمانوایل اقبال”کہانی کی کہانی اورعینی علی افسانہ ” ہزاروں خواہشیں ایسی“ کے ساتھ شریک ہیں۔
شمارے کاآخری حصہ نظموں پرمشتمل ہے۔جس میں پانچ نظم نگاروں دس نظمیں شامل ہیں۔امین راحت چغتائی،امجداسلام امجد،تحسین فراقی،سعید احمد اورتوقیرعباس کی خوبصورت نظوں نے اس حصہ کوجگمگایاہے۔مجموعی طور پر”سویرا“ کاسنچری نمبرجریدے کی عظیم روایات کو قائم رکھے ہوئے ہے۔امید ہے اس کایہ ادبی سفراسی آب وتاب سے جاری رہے گا۔