‘بعض باتیں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے’ یہ ایک ایسا جملہ ہے جو ہم اکثر بولتےابولتے سنتے ہیں۔ خاص طور پر یہ جملہ فلموں اور ڈراموں میں کثرت سے استعمال ہوتا ہے اور اسے ایسے مواقع پر استعمال کیا جاتا ہے جب بات کرنے والے کو اپنی کوئی بات بتانی بھی ہوتی ہے لیکن الفاظ میں اس کی ادائیگی بھی مشکل ہوتی ہے۔ دورِ حاضر میں اس کا حل نکل آیا ہے جس کا نام ہے ‘ایموجی’. ایموجیز آج کل سوشل میڈیا اور میسجز میں استعمال ہونے والی چھوٹی رنگ برنگی کارٹونک شکلیں ہیں۔
17 جولائی کو دنیا میں بھر میں ایموجی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن پہلی دفعہ جیریمی برج نامی بلاگر نے 2014 میں منایا تھا اور اس کے بعد ہر سال اس دن ایموجی کے اعزاز میں عوام, کئی کمپنیز اور سوشل میڈیا سائٹز کچھ نہ کچھ خاص ضرور کرتے ہیں۔ 17 جولائی کو ورلڈ ایموجی ڈے منانے کی وجہ یہ ہے کہ ایپل کمپنی نے جو ایموجی اپنے فیچر میں شامل کیا ہے اگر اس کو غور سے دیکھیں تواس میں 17 جولائی ہی درج ہے لہٰذا ادارہ ایموجی پیڈیا کے بانی جیریمی برج نے اسی تاریخ کو ایموجی کے عالمی دن کے طور پر مخصوص کر دیا۔
ایموجی کی ابتداء 90 کی دہائی میں ہوئی جب شیگی تاکا کوریتا نے ڈوکومو کمپنی کے لیے 180 ایموجیز بنائے۔ یہ انسانی شکل کے تاثرات پر بنائے گئے تھے۔ شیگی تاکا نے ان ایموجیز کو بناتے ہوئے ویدرفارکاسٹنگ کے سیمبلز، چائنیز کریکٹرز اور اسٹریٹ سائن سے رہنمائی لی تھی۔
یہ کارٹونک خاکے دنیا بھر میں اپنی جگہ بنانے میں تب کامیاب ہوئے جب ایپل کمپنی نے 2010 میں انھیں آئی فون میں شامل کر لیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے فیس بک، ٹویٹر، گوگل اور دیگر سماجی رابطے کی ویب سائٹز نے بھی انھیں اپنے فیچرز میں شامل کر لیا اور یوں یہ لوگوں میں مقبول ہوتے چلے گئے۔
ایموجی ایک ایسی اشارتی زبان ہے جس کے ذریعے ہم اپنی دلی کیفیست طویل تحریر کے بجائے ان کے استعمال سے بآسانی مختصر میسج میں دوسروں تک پہنچا پاتے ہیں۔ یہ آپ کی گفتگو کو دلچسپ اور معنی خیز بنانے میں مدد دیتے ہیں یعنی جس طرح کی بات کی جا رہی ہوتی ہے ہم اس کی مناسبت سے ایموجی کا استعمال کر کے پڑھنے والے کو اپنے تاثرات اور احساسات سے بھی آگاہ کر دیتے ہیں جبکہ میسیجز میں اگر اب لوگ ایموجی کا استعمال نہ کریں تو سامنے والے کو ناراضگی کا گماں ہوتا ہے۔ یوں تو ہر ایک ایموجی کے اپنے معنی ہوتے ہیں جو ایموجی پیڈیا کی سائٹ پہ بھی ملتے ہیں لیکن روزمرّہ آپس میں میسجز پر باتیں کرنے والے افراد نے ایموجی کے اصل معنی کے علاوہ اپنے اپنے معنی بھی بنا لیے ہیں جو وہ اپنی مخصوص بات کے لیے استعمال کرتے ہیں.
ہم جہاں پہلے اپنی بات بیان کرنے کے لیے طویل تحریریں لکھا کرتے تھے وہاں اب ایموجی کے ایجاد نے زندگی میں کافی آسانی پیدا کر دی ہے کہ ہم اب بس ان خاکوں کے ذریعے اپنی بات بیان کر دیتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ محبت کا اظہار کرنے کے لیے پہلے انھیں طویل تحریریں لکھنی پڑتی تھیں، فلموں کے ڈائیلاگز اور شعر و شاعری کا بھی سہارا لینا پڑتا تھا، اس کے باوجودکباوجود دلی کیفیت کا بیان مشکل ہوتاڈہوتا تھااتھا لیکن اب ایموجی کی مدد سے وہ اپنی محبت کا اظہار زیادہ موثر طریقے سے کر پاتے ہیں۔
لیکن ہوشیار رہیں بعض اوقات یہی ایموجیز آپکو بڑے مسئلے میں بھی پھنسا دیتی ہیں کہ جب آپ دورانِ گفتگو کسی غلط ایموجی کا استعمال کرلیں. ایک غلط ایموجی آپ کی تمام گفتگو کے معنی تبدیل کر کے آپکو ذہنی کوفت میں مبتلا کر دیتی ہے.جیسے کسی نے آپکو غم کی بات بتائی اور آپ نے اسکو ہنسنے والا ایموجی بھیج دیا یا کسی کو دل والا ایموجی غلطی سے بھیج دیا غیرہ. لہٰذا ایموجی کا استعمال کرتے ہوئے بے حد محتاط رہنا چاہیے.
موجودہ دور میں ہم الفاظ سے زیادہ ایموجی کا استعمال کرتے ہیں کیوںکہ یہ ہماری ٹائپنگ گفتگو کا ایک ایسا حصّہ بن گیا ہے کہ اس کے بغیر میسجز پھیکے اور بےمعنی لگتے ہیں. لوگ ایک ہی میسج میں ایک ساتھ کئی ایموجی لگا دیتے ہیں جیساکہ ہنسنے کی بات پہ چار پانچ ہنسنے والے ایموجی لگا کر ہنسنے کی نوعیت کا بھی اظہار کر دیتے ہیں.
سوشل میڈیا صارفین میں 90 فیصد سے زائد افراد ایموجی کا استعمال کرتے ہیں. حال میں کی جانے والی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا کی آمد کے بعد سے چہرے پہ ماسک پہنا ایموجی اور غصّے کا ایموجی کا استعمال سب سے زیادہ کیا جا رہا ہے جبکہ اس سے پہلے ہنستے ہوئے خوشی کے آنسو نکلنے والا ایموجی سب سے زیادہ استعمال ہورہا تھا. اس ریسرچ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایموجی دنیا میں انسانوں پر گزرنے والے حالات کا آئینہ دار بھی ہیں.
عوام میں ایموجی کے استعمال کا بڑھتا رجحان دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے دور میں لفظی گفتگو کی جگہ یہ ہی ایموجی لے لیں گے. جیساکہ قدیم زمانے میں مصر اور دیگر تہذیبوں میں سائن لینگویج کے آثار ملتے ہیں.