میڈیا مالکان کی بے حسی کی وجہ سے خبر دینے والے ہزاروں لوگ سوشل میڈیا پر خود خبر بننے لگے۔ سوشل میڈیا پر کیمرہ مین سفیر احمد کی ویڈیو دیکھی جس میں وہ بےروزگاری میں گزرنے والے دلخراش حالات بتا رہے ہیں۔ انہیں دیکھا تو اس دور کی یاد تازہ ہو گئی جب ہم اکٹھے دنیا ٹی وی پر کام کیاکرتے تھے۔
سفیر بھائی محنتی اور نڈر کیمرہ مین ہیں جو اپنے کام سے انتہائی مخلص تھے۔ فیلڈ میں کرائم رپورٹنگ ہو ۔ فیشن شو ہو کسی مظلوم کی کہانی ہو یا جنرل کوئی بھی اسٹوڈیو ہو ان کا ہر شوٹ اپنے کام سے محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اسکرین پر چلنے والا شاٹ کس کیمرہ مین کے ہاتھ کا ہے فورا پہچان جاتے۔ ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے دور میں خبر ملتے ہی کیمرہ اٹھا کر فورا اسپاٹ پر بھاگتے ہوئے دیکھا کبھی کسی کام کا منع کرتے نہ دیکھا۔ اپنی زندگی کی کئی بہاریں اس فیلڈ کو دی مختلف چینلز میں بہترین کام کیا۔ نہ دن دیکھا نہ رات دیکھی بس محنت اور لگن کے ساتھ کام کیا ۔ ایک تجربہ کار محنتی کیمرہ مین ہونے کے باوجود اداروں نے ایسا منہ موڑا کہ گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ مجبور ہوکر فیلڈ سے ہٹ کر دوسرےاداروں میں کام کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جہاں بھی گئے۔میڈیا سے تعلق کی وجہ سے نہ رکھا گیا۔ در در کی ٹھوکریں کھائیں پر کہیں داد رسی نہ ہوئی۔ گھر کی کفالت کے لیے کچھ تو کرنا تھا۔بس رکشہ چلا کر عزت سے وقت گزار رہے ہیں۔
سفیر بھائی کی اس دکھ بھری کہانی کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا کہ پاکستان کے بڑے چینل اے آر وائی نے اپنے مارننگ شو میں سفیر کو مدعو کیا اور ساتھ ہی جاب کی آفر بھی دے دی۔جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔
مگر سفیر بھائی ایک واحد کیمرہ مین نہیں جنہیں میڈیا مالکان کی ستم ظریفی کا سامنا رہا۔ بلکہ ان جیسے کئی تجربہ کارہونہار قابل کیمرہ مینز جو اس فیلڈ میں آنے والے نئے کیمرہ مین کی مدد کرتے تھے بلکہ نئے رپورٹرز کو اچھی اسٹوری پر کام کرنا اور پی ٹی سی کیسے دینی چاہیے سیکھایا۔رپورٹرز کو بنانے والے آج گمنام زندگی گزار رہے ہیں۔
آج کسی بھی چینل میں خواہ وہ بڑا ہویا چھوٹاوہاں کام کرنے والا ہر ورکرذہنی اذیت میں مبتلا رہتا ہے۔اس کی صبح اور شام اسی کشمکش میں گزر رہی ہے کہ نہ جانے کب کس کی باری آجائے۔اس وبا کے بدترین دور میں اچانک ہی دو چینلز آپ نیوز اور 24 نیوز بند کردئیےگئے۔جس کے باعث ہزاروں افراد بےروزگار ہوگئے۔ دیگر چینلز میں سیلریز 25 سے 50 فیصد کٹوتیاں بھی کی جاری ہیں۔
میڈیا کے مصنوعی بحران میں آئے روز ورکرز کی جبراً برطرفی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوڑ میں اے آر وائی بھی پیچھے نہیں رہا۔ ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا اے آر وائی کو صحافیوں ۔ کیمرہ مینوں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کو جبری رخصت کئے ہوئے۔ اے آر وائی کے ان ورکرز کی حالت بھی سفیر بھائی جیسی ہے۔ اے آر وائی کا بےروزگار کیمرہ مین عدنان بھی رکشہ چلا کر گھر کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ عدنان کی ایک سال کی بیٹی شدید بیمار ہے۔
ایسے حالات میں بے روزگار سفیر بھائی کی سوشل میڈیا پر وائرل کے بعد اے آر وائی انہیں جاب دے کر جس فراخ دلی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ایسے اپنے ہی دیگر تمام بے روزگار ورکرز کی جاب بحال کرکے دوسرے چینلز کے لئے روشن مثال بن جائے ۔ تو کیا ہی بات ہے۔