یہ کچھ تصاویر اور ویڈیوز ہیں جو کل سے وائرل ہو رہی ہیں ہیں ان ویڈیوز میں خیر پور کی ایک تحصیل ٹھری میروا میں استاد کی حیثیت سے پہچانا جانے والا ایک درندہ بچوں کو زندگی کا جو سبق دے رہا ہے اس پر انسانیت کا سر شرم سے جھک چکا ہے ۔ ان ویڈیوز میں وہ ساری غلاظت موجود ہے جو کسی بھی باشعور معاشرے میں طوفان اٹھا دے لیکن یہ پاکستان ہے جناب ، یہاں کچھ بھی ہو جائے کچھ نہیں رکتا،نہ بدلتا، سب کچھ ویسے ہی چلتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات جتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ تیزی سے اجتماعی بے حسی بڑھ رہی ہے ۔ہر واقعہ لاتعداد سوالات کو جنم دے تو دیتا ہے لیکن یہ سوال اونچی اڑان نہیں بھر پاتے بلکہ دھول کی طرح بیٹھ جاتے ہیں ۔ ویڈیو دیکھنے والوں کو تو شاید یہی لگے کہ ایک استاد کا حکم بجا لاتے ہوئے بچے اس کی کٹھ پتلیاں بنے ہوے ہیں لیکن سچ پوچھیے تو یہ بچے اجتماعی بے حسی کی بساط پر ہوس کی چالوں پر چلاٸے جانے والے مُہرے ہیں۔
ان ویڈیوز کے بارے میں جو سنے گا اس کے ذہن میں پہلا سوال یہی اٹھے گا کہ بھلا ان میں ایسا کیا ہے؟ لیکن میں کہوں گی کہ ان میں آخر کیا نہیں ہے ؟ دنیا جہاں کی سفاکی، تلخی اور دہشت ہے ۔ ننگے جسموں سے زیادہ نمایاں وہ چمکتی بےخوف آنکھیں ہیں جنہیں یقین ہے کہ جنگل جیسے اس معاشرے میں ان کی کوئی پکڑ ہوبھی گئی تو زیادہ سے زیادہ زیادہ کیاہوگا ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔قانون کی اسی بے خوفی نے صرف اسے گناہ گار ہی نہیں بنایا بلکہ دماغ میں وہ اکڑ بھی بھری کہ اس جانور نے اپنے ایک ایک شوق کو ویڈیو کی صورت میں محفوظ کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ یہ خدا ہی جانے کہ اس شوق میں اس نے مزید کتنے لوگوں کو حصہ دار بنایا ہوگا۔
استاد کہلائے جانے والے اس درندے سے زیادہ حیرت ان بچوں کے والدین پر ہے جنہوں نے جانوروں کی طرح لائن سے بچے پیدا کرنے سے زیادہ اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھی۔ سمجھی ہوتی تواس حادثے کا شکار بچوں کے بدلتے رویوں اور ان کے اندر پنپتے منفی جذبات اور سرگرمیاں ان کی نظروں سے چھپ نہ پاتیں ۔ ان کے بچےکسی کی سفلی خواہشات کی تسکین کا ذریعہ بنتے رہے اور انہیں کانوں کان خبر بھی نہ ہوسکی ۔گھروں میں بری طرح نظر انداز ہونے والے یہ بچے اکثر آسانی سے مجرموں کا ہدف بن جاتے ہیں ۔
پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد گاؤں اور گوٹھوں میں مقیم ہے ۔ ان کی زندگی کی ترجیحات میں بچوں کا بہترین مستقبل اکثر شامل ہی نہیں ہوتا ۔ یہ بچے جانوروں کی طرح پیدا ہوتے اور انہی کی طرح پل بڑھ جاتے ہیں ۔ عقل و شعور سے عاری یہ والدین اپنے بچوں کو بھی زندگی کا کوئی شعور نہیں دے پاتے ۔ والدین کی اسی بے پروائی کا فائدہ اٹھا کر مجرم ذہنیت کے لوگ ان کی اولاد کے بچپن پر دن دہاڑے ڈاکا ڈالنے لگتے ہیں ۔
اس المیے کا قصوروارصرف والدین کو ٹھہرا کر آنکھیں بند کر لینا کافی نہیں بلکہ اگلا سوال ریاست پر اٹھتا ہے کہ ریاست نے ان بچوں کو کیا دیا؟ پاکستان خاص طور پر صوبہ سندھ میں میں سرکاری اسکولوں کی قابل رحم حالت نے بڑی تعداد میں بچوں کو اسکولوں سے باہر لا پھینکا ہے ۔ کرپشن سے لتھڑے اس تعلیمی نظام میں ہر وہ شخص آرام سے سرکاری ٹیچر بن جاتا ہے جو کچھ بھی کرنے کے قابل نہ ہو۔ استاد کہلائے جانے والے یہ نااہل افراد بچوں کا قیمتی وقت ضایع کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے ۔ یوں ان بچوں کے لیے تعلیم تبدیلی کا آلہ نہیں بلکہ بربادی کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔
پر شکایت کس سے کریں ؟ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ جعلی ڈگریوں سے صاحب منصب بننے والوں سے بھلا کس تبدیلی کی امید کی جائے ۔سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا ریاستی نظام تشکیل دیا گیا ہے جس کے حمام میں سب ننگے ہیں ۔ کوئی کسی پر انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کرتا ۔اداروں سے لے کر ایوانوں تک کی جانے والی ہر التجا بے کار جاتی ہے ۔
ٹھری میر واہ کے اسی واقعے کو دیکھا جاے تو مجرم اس سے پہلے فیض گنج میں بچوں کے ساتھ بدفعلی کر چکا تھا جس کی سزا کے طور پر لوگوں نے اسے گاؤں بدر کرنا کافی سمجھا ۔ نہ تو قانون نے اس کی کوئی گرفت کی اور نہ ہی اس کی سرکاری نوکری پر ہی کوئی آنچ آئ ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے ٹھری میر واہ میں مزید بے خوفی کا مظاہرہ کرتے ہوے سو سے اوپر بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنایا اور ان کی ویڈیوز بنائیں ۔ یہاں سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایسے مجرموں کو صرف علاقہ بدر کردینا ہی کافی ہے ؟ کیا اس جرم کے مرتکب شیطان کی اسکول میں نوکری بحال رکھنا بچوں کو بڑے خطرے میں دھکیلنے کے مترادف نہیں؟ کیا کسی طاقت ور کی سرپرستی کے بنا فرد واحد اتنے دھڑلے سے اس جرم کا مسلسل ارتکاب کرسکتا ہے ؟ کیا ان مجرموں کی شناخت اور انہیں بچوں سے دور رکھنے کے لیے اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت نہیں ہیں؟
بچوں کے ساتھ زیادتی ان کی رضا سے ہو یا زبردستی دونوں صورتوں میں ایک بڑا جرم ہے ۔ یہ واقعات صرف گفتگو کے لیے نہیں بلکہ سنجیدہ حل کے متقاضی ہیں ۔ مختلف تحقیقات کے مطابق پاکستان میں روزانہ 12 سے 15 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے ۔ گزشتہ پانچ سال میں زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں کی تعداد 70 ہزار سے زائد ہے ۔ یہ تعداد تو صرف ان بچوں کی ہے جن کے ساتھ ہونے والی زیادتی چُھپ نہ سکی ۔ ورنہ اس سطحی سوچ کے حامل معاشرے میں کتنے ہی کیسز تو مارے شرم اور خوف کے دبا دیے جاتے ہیں اور سامنے نہیں آپاتے ۔
پاکستان میں بچوں کے ساتھ درندگی اور جنسی زیادتی کے واقعات کے پس پردہ انٹرنیشنل پورن مارکیٹ اور ڈارک ویب پر فروخت کی جانے والی ویڈیوز بھی ہیں جو جنسی جرائم میں ملوث افراد کی کمائی کا بڑا ذریعہ بنتی جا رہی ہیں ۔ پکڑے جانے والے بے شمار مجرم اس کاروبار میں ملوث ہونے کا خود اعتراف بھی کر چکے ہیں ۔جنسی زیادتی میں ملوث کئ گروہ تو ایسے بھی پکڑے گئے جو کئی سال سے یہ مکروہ دھندا کر رہے تھے لیکن پاکستان کا قانون کیونکہ اصلا اور نسلا دونوں طرح اندھا ہے اس لیے یہ سب کچھ ہوتے وقت دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔
اس بات سے بھلا کون انکار کرے گا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کو سزا اور جزا کے مضبوط نظام کے بغیر روکنا ممکن نہیں ، لیکن یہاں تو الٹامجرموں کی حمایت اورپشت پناہی کے لیے کئ خفیہ ہاتھ نمودار ہو جاتے ہیں ۔ ٹھری میر واہ ویڈیو اسکینڈل میں بھی بچوں کو شیطانیت کا سبق پڑھاتے اس استاد کی کئ مقامی حکومتی نمائندوں کے ساتھ تصاویر سامنے آٸی ہیں ، جن کے ساتھ اس کے گہرے مراسم کا اندازہ لگانا ذرا مشکل نہیں ۔ پاکستان کے کم زور قانونی نظام کو دیکھتے ہوئے یہ خطرہ اپنی جگہ موجود ہے کہ جب اس درندے کی گرفتاری عمل میں آئے گی تو یہی خفیہ ہاتھ اس کی سرپرستی کے لیے ظاہر ہو جائیں گے اور یہ سوال ہمیشہ کی طرح ہوا میں معلق رہ جائے گا کہ کیا پاکستان میں بچوں کے تحفظ کی کوئی جامع پالیسی ہے بھی یا نہیں ؟ اس اہم ترین سوال کا غیرحل شدہ جواب چھوڑ کر ہمیشہ کی طرح ہم آگے بڑھ بھی گئے تو ایک اور سانحہ کا سامنا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں مل پاٸے گا ۔