تعلیمی اداروں کے لئے تیار ایس او پیز سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا اور والدین کے ساتھ مذاق جبکہ پرائیوٹ اسکولز میں پڑھانے والے والدین کی جیب پر مزید بوجھ ہے۔
ایس او پیز کے نام پر طلبا اور والدین کے ساتھ مذاق کون کررہا ہے۔ وزیر تعلیم سندھ یا وزیر صحت سندھ؟
اسکولز کھولنے کے معاملے پر دونوں وزراء ایک پیج پر ہی نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
میڈیا مالکان: دکھاوے کی نیکی نہیں چلے گی | شازیہ فرقان
آن لائن کلاسز کا سیاپا | ڈاکٹر طارق کلیم
کیا نظام تعلیم عبقری پیدا کر سکتا ہے؟
وزیر صحت سندھ عذرا پیچو ہو کہتی ہیں کہ کورونا کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، موجودہ صورت حال میں اسکول کھولنا درست عمل نہیں ہے، پرائمری اسکولوں کو کھولنے میں جلدی نہ کی جائے، پرائمری اسکولوں کو کم سے کم ایک سے ڈیڑھ ماہ کا وقت دینا ضروری ہے۔
وزیر صحت سندھ کی مخالفت کے باوجود اسکول کھولنے کےساتھ وزیر تعلیم سعید غنی نے کہا جو والدین مطمئن نہیں وہ بچوں کو اسکول نہ بھیجے۔
سندھ میں اسکول کھولنے کے معاملے پر وزراء کے متضاد بیان نے طلبا اور والدین کو پریشان کردیا ہے۔ کیا ہمارے سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے ایس او پیز کے ساتھ نصابی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئےتیار ہیں؟ صرف کراچی کے اسکولوں کی بات کریں تو شہر میں سرکاری اسکولوں کی کل تعداد تقریبا 3 ہزار ہے جبکہ پرائیوٹ رجسٹرڈ اسکولوں کی تعداد 12 ہزار سے زائد ہے۔
سرکاری اسکولوں کی حالت زار سے کون واقف نہیں۔ بیشتر سرکاری اسکول کی عمارتیں کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ کلاس روم میں فرنیچر ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پینے کا صاف پانی تو دور کی بات ہے بیت الخلاء میں استعمال کے لئے پانی تک دستیاب نہیں۔ بعض کلاس روم میں پنکھے تک موجود نہیں۔بنیادی سہولتوں سے محروم ایسے سرکاری اسکول کیسے ایس او پیز پر عمل سر آمد کرانے کے متحمل ہوسکے گے۔تعلیمی ادارے کھولنے کے بعد سے وزیر تعلیم ایسے اسکولوں کا دورہ کر رہے ہیں جہاں ایس او پیز پر عمل ہورہا ہے لیکن شہر میں بنیادی سہولتوں سے محروم ایک بھی اسکول کا تاحال دورہ ہی نہیں کیا۔
اب ذرا نجی اسکولوں کی بات کرتے ہیں۔ جو تقریبا شہر کی ہر گلی میں کھلا ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سندھ کے بیشتر نجی اسکول 80 سے 200 گز پر قائم ہیں۔ اب آپ خود ان اسکول میں کلاس روم کے سائز کا اندازہ کرلیں کتنا ہوگا۔ گرمی کے موسم میں ان کوٹھری نما کلاس روم میں معصوم بچے ماسک پہن کر بیٹھ سکیں گے۔
چھوٹے نجی اسکول کی نسبت شہر کے چند بڑے اسکولز میں وسائل کے لحاظ سے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔چونکہ وہ تمام سہولیات کے خرچ کا بوجھ والدین کی جیبوں پر ڈالیں گے۔ ایس او پیز کے تحت ایک کلاس میں بچوں کی آدھی تعداد کو بٹھایا جائے گا۔ یعنی اگر ایک کلاس میں 40 طلباء ہیں تو 20ایک دن اور 20 دوسرے دن جائیں گے۔
ایسی صورتحال میں کورس پورا کرنے کے لئے ایک ہی دن میں بچے کو اتنا زیادہ پڑھایا اور ہوم ورک دیا جائے گا کہ بچہ کورونا کا نہیں ڈپریشن کا ضرور شکار ہوجائے گا۔ ان ساری باتوں کی نشاندہی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ تعلیمی ادارے بند کر دئیے جائیں۔ تعلیمی ادارے کھلنے چاہییں لیکن بغیر وسائل اسکولز کھول دینا سراسر بچوں کے معاملے میں خطرہ مول لینے کے مترادف ہے۔ وزیر تعلیم سندھ تعلیمی اداروں کی حالت کو بہتر بنانے کے ساتھ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ والدین کا اعتماد بحال ہوتا اور وہ بچوں کو اسکول بھیجے نا کہ انہیں یہ مشورہ دیں جو والدین مطمئین نہیں بچوں کو اسکول نہ بھیجیں۔