ADVERTISEMENT
میری خواہش ہے کہ میرے یہ چند ٹوٹے پھوٹے حروف کوئی حکام بالا تک پہنچا دے ورنہ اسلام آباد کو راجہ بازار بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
عمران خان نہ سہی، چیف جسٹس تک ہی پہنچا دے۔چلیے وہ بھی نہ سہی چئیرمین سی ڈی اے تک ہی بات پہنچ جائے۔
اور یہ بھی کہ عین نشانے پر جا کر لگے اور یہ فریاد سنی جائے۔
جو مسئلہ میں بیان کرنے جا رہی ہوں، اس کے حل کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اسلام آباد سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر شاد و آباد ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کا چکر لگا لینا ہی کافی ہے۔ بات سمجھ میں آجائے گی کہ کہاں کوئی وارث ہے اور کون لاوارث۔
یہ بھی دیکھئے:
https://youtu.be/f1vM9MRAsG4
کرسی کی بہار تو چند روزہ ہوتی ہے۔مگر جس دھج پر کوئی کرسی نشین ہوتا ہے وہ سج دھج ہی یاد رہ جاتی ہے۔سی۔ڈی۔اے کے سابق چئیرمین لاشاری کے بعد سے اسلام آباد ایسا یتیم ہوا کہ پھر اس کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔
گزارش یہ ہے کہ خدارا، اسلام آباد کو راجہ بازار بننے سے بچایا جائے۔
یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ہم اپنے گھر کی چاردیواری تک تو سب ہی مالک ہوتے ہیں۔مگر یہاں کے مکینوں کی حرص حوس اور لالچ ملاحظہ فرمائیے۔ ایک شخص نے گلی میں لان بنا کر گلی کا بیشتر حصہ قبضے میں کیا۔ پھر اس میں محافظ کے نام پر کیبن رکھا۔ پھر کیبن کے ارد گرد سبزے کی دیوار بنائی۔ جب سبزے کی دیوار نے کیبن کو ڈھانپ لیا تو کیبن کے ساتھ ٹوائلٹ بھی بن گیا۔ اب وہ کیبن اچھا خاصا سرونٹ کواٹر بن چکا ہے۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
آئی ایٹ سیکٹر جہاں میں رہتی ہوں ہر روز کھلی آنکھوں سے ان سب غیر قانونی معاملات کا مشاہدہ کرتی ہوں۔ کڑھتی ہوں اور پھر اپنی بے بسی کا ماتم کرکے خاموش ہو جاتی ہوں۔ میرے جیسے نہ جانے کتنے لوگ روز ان اعصاب شکن واقعات پر کڑھتے ہونگے؟
مگر کیا کریں، یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اسلام آباد کی ہر گلی میں ہر گھر ایسی تجاوزات کا مرتکب ہے۔ سڑکیں چھوٹی ہو گئی ہیں۔ گھروں کے باہر سڑک کے دونوں اطرف گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں جن کے بیچ سے گزرنے کا کام مشاق ڈرائیور ہی کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں مجھے تو بسا اوقات اپنی گلی کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی گلیوں سے راستہ ڈھونڈ کر اپنے گھر آنا پڑتا ہے۔
سلام آباد کے چھوٹے بڑے سب سیکٹر اسوبائی حرص اور لالچ میں مبتلا ہیں۔ ایف ایٹ کی وہ گلی جس میں بابر اعوان جیسا قانون کا محافظ اور حکومت کا ذمہ دار رہتا ہے، وہاں بھی اسی قسم کی تجاوزات کی انتہا ہے ۔ چار چار کنال کے گھر ہیں مگر گلی میں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ لان کے نام پر جنگلے بنے ہوئے ہیں ۔بعض لوگوں نے تو اپنے ان لان کو پکی اینٹوں کے حصار میں لیا ہوا ہے۔
کوئی ہے برسر اقتدار ماں کا لال پوچھنے والا، سزا دینے والا؟
آئی نائن کی سڑکیں تو بہت تنگ ہیں۔ ان پر بھی یہی کچھ دکھائی دیتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ سیکورٹی کے نام پر ہی جو چاہتا ہے، بیریئر لگا کر سڑک عام لوگوں کے لیئے بند کر لیتا ہے۔
سڑکوں پر شہریوں نے اپنی مرضی کے مطابق سپیڈ بریکر بنوائے ہوئے ہیں ۔سپیڈ بریکرز کی بھی کوئی حد نہیں کہیں کہیں تو وہ جسم بریکر اور کار بریکر ثابت ہوتے ہیں۔ مریضوں کو گاڑی میں بھی ان پر سے گزرتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔ شہر اقتدار میں کوئی پرسان حال نہیں۔ قانون منہ چھپائے پھرتا ہے اور قانون کے محافظ عام لوگوں کی دسترس میں نہیں۔ زندگی مجبور ہے، ایماندار اور شریف لوگ بے بس ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کا شہر راجہ بازار بنتا جا رہا ہے۔