Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
”سلگتابلوچستان” بلوچستان کے حساس موضوع پرعزیزسنگھورکے چشم کشا کالمز کامجموعہ اور مصنف کی پہلی تصنیف ہے۔لیکن ان کے قلم کی کاٹ کسی سینئرتجزیہ کاراور دانشورسے کم نہیں ہے۔مشہورادیب،دانشور اورسیاسی تجزیہ نگار سلیم احمد نے اسی کی دہائی میں ”سلگتاسندھ” لکھ کر سندھ کے مسائل کواجاگرکیاتھا۔اسی طرح معروف مصنف اوربلاگراختربلوچ نے ”کراچی والے” کے عنوان سے کراچی کے بارے میں بلاگ کی تین کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن سندھ اورکراچی پربہت سے مصنف ،کالم نگاراوردانشورلکھتے رہتے ہیں۔ عزیزسنگھور” سلگتا بلوچستان” میں بلوچستان کی واحداور موثرآوازبن کرسامنے آئے ہیں۔انگلش اخبارات وجرائد میں تو بلوچستان پر وقتاً فوقتاً لکھاجاتا رہاہے۔لیکن اردو میں اس تواترسے کسی کالم نگاربلوچستان کے رستے ہوئے زخموں کی نقاب کشائی نہیں کی۔
یہ بھی دیکھئے:
عزیزسنگھورکالم نگار،صحافی اورڈاکومینٹری فلم میکرہیں۔انھو ں نے صحافت کاآغاز1994ء میں کیاتھااورمختلف قومی اخبارات میں تحقیقی رپورٹنگ کرتے رہے۔جن میں روزنامہ ”ڈان”،” ڈیلی ٹائمز”،”دی نیشن”،”روزنامہ انتخاب”،”مشرق”،”ہفت روزہ تکبیر” اور”غازی” سمیت کئی اوراخبارات وجرائد شامل ہیں۔عزیزسنگھوراعلیٰ اور معیاری دستاویز فلمیں بنائیں۔یہ دستاویزی فلمیں امریکا،برطانیہ اورفرانس سمیت کئی بیرونی ممالک کے مختلف فلم فیسٹول میں بھی دکھائی اورپسند کی گئیں۔ان دستاویزی فلموں کے موضوعات میں انسانی حقوق کی پاما لی،ماحولیاتی آلودگی،تعلیم اورصحت کے مسائل پرمبنی فلمیں شامل ہیں۔جن میں سے چند Pak Journalist Living on the Edge, Dark World Of Norcotics, Women Behind Bars, Karachi Churches , Inside the Brothel, Gora Qabrustan, Elegy For The Bhuttosہیں۔ ان چند دستاویزی فلموں کے عنوانات سے ہی عزیزسنگھور کے کام کی وسعت اورہمہ گیری کااندازہ کیاجاسکتاہے۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ تین عوامل جو عمران خان حکومت کا دھڑن تختہ کریں گے
چودہ جنوری: آج ممتاز صحافی منہاج برنا کا یوم وفات ہے
عزیزسنگھورکراچی سے تعلق رکھنے والے بلوچ خاندان سے ہے ،جبکہ ان کے آباواجدادگوادر اورلسبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جوتقسیم برصغیرسے قبل کراچی میں آباد ہوگئے تھے۔وہ ایک انتہائی حساس دل رکھتے ہیں جولوگوں کے مسائل پرتڑپ اٹھتاہے۔اسی لیے مختلف حلقوں کی جانب سے انتباہ ملنے کے باوجودحساس موضوعات پرلکھنے سے باز نہیں آتے۔عزیز سنگھورکوکے ای ایس سی کے مینجنگ ڈائرکٹربریگیڈیئر طارق سدوزئی کے حکم پرایک گھنٹے سے زیادہ کسٹڈی میں بھی رکھاگیا۔انگریزی کالمز پر انہیں کئی بار وارننگ دی گئیں۔ملک کے بڑے انگلش اخبارات ‘ڈان”،”دی نیوز” ،” دی نیشن” اور”ڈیلی ٹائمز” نے ان کی تحریریں شائع کرنے سے انکاربھی کیا۔جبکہ انگلش میڈیا میں اردو کے مقابلے میں زیادہ آزاداور بے باک تحریریں شائع کی جاتی ہیں اورمقتدرہ بھی انہیں اس لیے نظرانداز کردیتی ہیں کہ یہ عام لوگوں تک رسائی نہیں رکھتیں۔اسی لیے اردواخبارات میں توبلوچستان کے مسائل پرکچھ شائع ہوناانہونی سے کم نہیں۔تاہم تسلسل سے عزیزسنگھورکے کالمزکی اشاعت روزنامہ”آزادی” کے مدیران کرام کابڑا کارنامہ ہے اوراب انہی کالمز پرمشتمل کتاب”سلگتابلوچستان” کی اشاعت بھی انہی کے تعاون سے ممکن ہوسکی ہے۔
”سلگتابلوچستان” میں عزیزسنگھور کے سینتالیس منتخب کالم شائع کیے گئے ہیں۔جن کے عنوانات سے ہی موضوع کااندازہ کیاجاسکتاہے۔ کتاب کاانتساب” ان قلم کاروں کے نام! جنھوں نے پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران جام شہادت نوش کیا” بھی دل کوچھولینے والا ہے۔
ڈاکٹرتوصیف احمدخان ”سلگتابلوچستان،معلومات کامجموعہ” میں لکھتے ہیں۔” عزیزسنگھورعملیت پسندمارکسٹ دانشورہیں۔ان کی مادری زبا ن بلوچی ہے مگراردواورانگریزی میں خوب لکھتے ہیں۔عزیزسنگھور تاریخ کے طالب علم ہیں اوربلوچستان کے سیاسی،سماجی،تاریخی اوردورِحا ضرمیں بلوچستان میں رونماہونے والی تبدیلیوں پرصرف نگاہ نہیں رکھتے۔عظیم فلسفی کارل مارکس کے فلسفہ جدلیاتی کے مطابق بلوچستان میں ہونے والی تبدیلیوں کے پس پردہ محرکات کوبھی خوب سمجھتے ہیں اوران محرکات کے مستقبل پرپڑنے والے اثرات کاخوب تجزیہ کرتے ہیں۔ عزیزسنگھور کے بلوچستان سے متعلق آرٹیکلز انگریزی اخبارات میں شائع ہوئے۔پھرنامعلوم وجوہ کی بناپریہ سلسلہ منقطع ہوا اورمظلوم طبقات کے لیے آوازاٹھانے والے بلوچستان کے مسائل کوساری زندگی اجاگرکرنے والے صحافی صدیق بلوچ مرحوم کے جاری کردہ روزنامہ آزادی میں ان کے آرٹیکلزشائع ہونے لگے۔روزنامہ آزادی میں عزیزسنگھورکے خیالات کوتحریری شکل میںشائع کرنے کافیصلہ صدیق بلوچ کے ہونہارصاحبزادہ اورروزنامہ آزادی کے ایڈیٹرعارف بلوچ نے کیا۔عزیزسنگھورکے آرٹیکلزکی بنیادی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ہرموضوع کواس کے تاریخی پس منظر،موجودہ صورتحال اورمستقبل میں اس سے متعلق اثرات کاجائزہ لیاگیاہے۔عزیزسنگھور بنیادی طور پرصحافی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی موضوع پران کے مضامین بلوچستان کے سماجی اورسیاسی حالات کے بارے میں معلومات ہی نہیں بلکہ کچھ نئی خبریں بھی مل جاتی ہیں۔عزیزسنگھور نے کئی اہم موضوعات اس کتاب کے دائرے میں شامل کیے ہیں ان سب کااحاطہ کرنا مشکل ہے۔ہندوستان کے بٹوارہ کے نتیجہ میں پاکستان وجود میں آیا اورپاکستان کے قیام کے ساتھ بلوچستان میں بحران پیداہوااوریہ بحران آج بھی جاری ہے۔گذشتہ باہتر برسوں میں بلوچستان میں پانچ کے قریب فوجی آپریشن ہوئے،جن میں ہزاروں بے گناہ مارے گئے مگرطاقت کے استعمال کے باوجودبلوچستان کی پسماندگی اوراس کابحران جاری ہے۔اس مسلسل بحرانی کیفیت میں عزیز سنگھور کی کتاب معلومات کامجموعہ ہے۔مجھے امید ہے کہ بلوچستان سے دلچسپی رکھنے اوروفاقیت کے مسائل پرآگہی کے خواہشمند طلبہ،صحافیوں اور سیاسی کار کنوں کے لیے یہ معلوماتی کتاب ہوگی۔”
نامورمحقق اوربلاگراختربلوچ نے مختصر تعارفی مضمون کو”عزیز سنگھورگزیٹیرآف بلوچستان” کانام دیاہے۔لکھتے ہیں۔” عزیزسنگھورکواگر گزیٹیرآف بلوچستان کہاجائے تویہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔انہوں نے اپنے دورصحافت میںتقریباًہی ذرائع ابلاغ میں اپنا آپ منوایاہے۔ان کی صحافت کاآغازاخبارات سے ہوا۔انہوں نے انگریزی صحافت میں اپنی شناخت ایک معتبراورمستندصحافی کے طور پرکروائی۔ڈان اور نیشن کی رپورٹنگ کے دوران خود کوایک جیدصحافی تسلیم کروایا۔اس دوران انہیں ذہنی اورجسمانی طور پرہراساں بھی کیاگیا۔لیکن انہوں نے اپنے نظریات پرکبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔وہ بلوچستان اورسندھ کے چپے چپے سے بخوبی واقف ہیں اوریہاں بسنے والی نسلوں،ذاتوں،برادر یوں اورسیاست دانوں کے بارے میں کمال درجہ کی معلومات رکھتے ہیں۔پرنٹ میڈیا سے ہٹ کرجب انہوں نے الیکٹرانک میڈیامیں قدم رکھاتوایسی لاجواب دستاویزی فلمیں بنائیں جنہیں لوگ ہزاروں بار دیکھ چکے ہیں۔عارف بلوچ کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ انہوں نے عزیزسنگھورکے بے باک کالموں کواپنے اخبار ‘آزادی’ میں شائع کیا۔جس کے بعد عزیزسنگھورکی دانشوری کا پہلوسامنے آیا۔ اب اظہارِ رائے کی آزادی روزنامہ آزادی کے ذریعے ان کی شناخت بن گئی ہے۔بلوچستان اوراس کے مسائل جوسیاسی ہوں یاسماجی اس سے دلچسپی رکھنے والے نوجوان انہیں گرو کادرجہ دیتے ہیں۔زیرِ نظرکتاب میں بلوچ قوم کی تاریخ،مسال اورسیاست کانچوڑ موجود ہے۔امید ہے کہ یہ کتاب بلوچوں کی تاریخ کے حوالے سے ایک دستاویزکی حیثیت اختیارکرجائے گی۔”
”سلگتابلوچستان” کے ”پیش لفظ” میں عزیزسنگھورلکھتے ہیں۔”یہ میری پہلی کتاب ہے یہ روزنامہ آزادی کوئٹہ میں چھپنے والے میرے کالموں کا مجموعہ ہے۔ایک صحافی اورڈاکومنٹری فلم میکرکی حیثیت سے کالم لکھنا میری پیشہ ورانہ سرگرمیوں کاحصہ ہے ۔تاہم باقاعدہ کالم لکھنے کاآغاز میں آزادی کے مینجنگ ایڈیٹرعارف بلوچ کے اصرار پرکیا۔موجودہ صورتحال کے پیش نظربلوچستان اورسندھ میں آباد بلوچ اورسندھی عوام کے تاریخی ،معاشی،اقتصادی اورسماجی مسائل کواجاگرکرنانہ صرف مشکل کام تھا۔بلکہ ان کی اشاعت پرادارے کوکافی چیلنجزکاسامناکرنا پڑا ۔ روزنامہ آزاد ی سے قبل ڈان کراچی،نیشن لاہور،ڈیلی ٹائمزلاہورسمیت انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔تاہم بلوچستان کی صورتحال کواجاگرکرنے کے لیے ان پرغیراعلانیہ پابندی عائد کردی گئی۔جس کے باعث ان اداروں نے میرے کالموں کی اشاعت سے معذرت کرلی۔مشرف دور میں پیشہ ورانہ سرگرمیوںکی پاداش میں سابق کے ای ایس سی کے ایم ڈی بریگیڈیئرطارق سدوزئی کے سامنے ان کے دفترمیں مجھ پرتشدد کیاگیا۔ روزنامہ آزادی نے میرے سخت گیرموقف کوبرداشت کرتے ہوئے کالموں کی اشاعت جاری رکھی میں سمجھتاہوں کہ آزادی نے بلوچستان میں مزاحمتی صحافت کی بنیاد رکھی ہے۔کیونکہ حکومتی اداروں کی جانب سے بلوچستان کے اخبارات پر ہمیشہ غیراعلانیہ پابندی عائد رہی ہے۔میڈیا کے خلاف عدم برداشت پرمبنی رویہ روز کامعمول بن چکاہے۔اخبارات شدید دباؤ اورمشکلات کا شکارہیں۔صحافیوں اورمیڈیا کارکنوں کی زندگیوں کوشدید خطرات لاحق ہیں۔ملک کے آئین میں دیے گئے،آزادی صحافت،آزادی اظہار اورمعلومات تک رسائی جیسے بنیادی حقوق کی ضمانتوں کااحترام نہیں کیاجاتا۔ان ہتھکنڈوں کی وجہ سے بلوچستان سے شائع ہونے والے متعدد اخبارات بند بھی ہوچکے ہیں۔ایک ذمہ دارصحافی کی حیثیت سے میں نے اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دائرہ اخلاق میں رہتے ہوئے روزنامہ آزادی میں کالموں کاآغاز کیا اوراپنے کالموں میں الفاظ کے چناؤ کاخیال رکھتے ہوئے مسائل کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔”
عزیزسنگھور کے کالمزکی خوبی ان کے موضوعات کاتنوع،بے باک ،بے لاگ اوراستدلال اوردلائل پر مبنی اسلوب ہے۔وہ بلوچستان کے سماجی،معاشرتی ڈھانچے سے بخوبی واقف ہیں۔بلوچ قوم کی نفسیات،سرداری نظام کی خامیوں اور خوبیوں،پورے صوبے کے ایک ایک ضلع کی جغرافیائی اورقبائلی صورتحال بھی ان کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہے۔وہ مختلف قبائل کی ساخت ،باہمی معاہدوں اوربرسوں کی آویزش اور اس کے عام آدمی پراثرات کوبھی جانتے ہیں۔اسی لیے ان کے کالم بقول ڈاکٹر توصیف احمدخان معلومات کا مجموعہ ہیں جبکہ اختربلوچ نے عزیزسنگھور کو’بلوچستان گزیٹیر’ قراردیاہے۔ میں ”سلگتابلوچستان” کوصوبے کے افراد،اقوام،قبائل اوراضلاع کاانسائیکلوپیڈیا قرار دوں گا۔کتاب کاقاری بلوچستان کے مسائل کے ساتھ ان تمام امورسے بھی بخوبی آگاہ ہوجائے گا۔بلوچستان کے مسئلہ سے آگاہی کے خواہاں افراد کے لیے یہ بہترین کتاب ہے،جسے پڑھنے کی سفارش کی جانی چاہیے۔عزیزسنگھورکاطرزتحریرسادہ اورپراثرہے۔اردوان کی مادری زبان نہیں ،لیکن وہ بہت عمدہ نثرلکھتے ہیں،کتاب کی پروف ریڈنگ کے دوران نے کئی الفاظ اورضرب الامثال کے استعمال پرمجھے بہت حیرت ہوئی۔بلوچ ہونے اورطویل عرصے سے انگریزی میں لکھنے کے باوجود وہ اردومحاورہ بڑی خوبی کے ساتھ اوربرمحل استعمال کرتے ہیں ۔ہاں روایتی غیراہل زبان کی طرح تذکیروتاثیث کی غلطیاں ان سے سرزدہوئیں ۔جنہیں درست کردیا۔
ڈیلی آزادی کوئٹہ اورعلم وادب پبلشرزاینڈ بک سیلرز نے پیپربیک پر”سلگتابلوچستان ” بہت عمدگی سے شائع کی ہے۔جس کی وجہ سے دوسو تیس صفحات کی کتاب کی قیمت چارسوروپے بہت مناسب ہے۔یہ کوئی ادبی کتاب نہیں ہے،جسے آرٹ پیپر پرمجلد اورڈسٹ کورکے ساتھ شائع کیاجاتا۔”سلگتابلوچستان” عام صحافی،طالب علم اوربلوچستان کے بارے میں معلومات کے خواہاں شخص کی ضرورت ہے جو مہنگی کتاب نہیں خرید سکتا۔اس لیے توقع ہے کہ کتاب حقیقی قارئین میں مقبولیت حاصل کرے گی اوراس کاپہلا ایڈیشن جلد ختم ہوجائے گا۔
جیساکہ میں نے پہلے بھی لکھاہے کہ ”سلگتابلوچستان” کے عنوانات سے ہی ان کی وسعت کااندازہ کیاجاسکتاہے۔لاپتہ افراد کی بات ہو، یابلوچ قبائل کی آویزش، تعلیم ،صحت اور روزگار کے ناکافی سہولیات ہوں یا ماہی گیروں اورکاشت کاروں کے روزگار پر قبضہ ،عزیز سنگھور کا قلم تڑپ اٹھتاہے اوران سب حقائق کوحکمرانوں اور عوام کے سامنے پیش کر دیتاہے۔ چند عنوانات ملاحظہ کریں۔جس سے کتاب کے موضوعات کی ہمہ گیری ، وسعت اوربلوچستان کے بارے میں معلومات کابخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے۔”ریا ست قلات ماضی،حال اورمستقبل”،”خاران ریاست سے ضلع کاسفر”،” پانچ قبروں کا قصہ”،” ریاست لسبیلہ کاعروج وزوال”،” گولڈسمڈ لائن موت کی لکیر”،” گوادرکی مسخ شدہ تاریخ”،” پرتگیزایمپائرسے ملک ریاض ایمپائرتک”،”آئی ایم کریمہ بلوچ”،” ڈیرہ بگٹی وارث سے لاوارث تک” ،”کوہلومزاحمت کاسرچشمہ”،” اس دشت میں اک شہرتھا” ،” نوشکی کانوحہ”،” بلوچ قومی تشخص خطرے میں”،” چاغی کی چیخیں ” ،”جھلستاخضدار”،” بلوچستان میں قلم کاجنازہ” ،” سردارہیروئن زئی کامصنوعی جنم”،”آواران بلوچستان کاتورہ بورہ”،” بگٹی کی افسانوی موت ” ،”مہرگڑھ کے باسیوں کی آہ وزاری”،” جھل مگسی جدید نیشنل ازم کے بانی کی جنم بھومی”،” انڈیجنس لوگوںکی دکھ بھری کہانیاں”،” بلوچ مرکزیت کاخاتمہ”،” بلوچستان میں دربدری کی زندگی”،” گڈانی شپ بریکنگ یارڈموت کاکنواں”،”وائے وطن ہشکیں دار”،”بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کاپیدل مارچ”،” بلوچستان کی خونی شاہراہیں”،” انٹرنیشنل ڈرگ مافیاکی شامت”،”سمندربرائے فروخت”،” سندھ اور بلوچستان کے جائزکاسودا”۔ ان سب میں مظلوم اوربے وسیلہ لوگوں کے حقیقی مسائل کوان کالمزمیں اجاگرکیاگیاہے اوران سے بلوچستان کے عوام کے رہن سہن،بودوباش ،قبائلی نظام،روزگارکے وسائل اورتعلیم سے وابستگی کا بھی پتہ چلتاہے۔
”ریاست قلات،ماضی،حال اورمستقبل” میں عزیزبلوچ نے بتایاہے۔”بلوچستان قیام پاکستان کے وقت مشرقی بنگال،سندھ،پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخواکی طرح برطانوی راج کاباقاعدہ حصہ نہیں تھابلکہ سن سینتالیس تک بلوچستان،قلات،خاران،مکران اورلسبیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا۔جن پربرطانوی ایجنٹ نگران تھا، ریاست قلات کے حکمران خان قلات میر احمدیارخان نے قیام پاکستان سے دوروزقبل اپنی ریاست کی مکمل آزادی کا اعلان کیاتھا اور پاکستان کے ساتھ خصوصی تعلقات پرمذاکرت کی پیشکش کی تھی۔خان قلات کے اس اقدام کی دوسرے تمام بلوچ سرداروںنے حمایت کی تھی اوربلوچستان کی علیحدہ حیثیت برقراررکھنے پرزور دیاتھا۔ لیکن پاکستان نے خان آف قلات کے اس اقدام کوبغاوت سے تعبیرکیا اورپاکستانی افواج نے خان قلات اوران کی ریاست کے خلاف کارروائی کی۔آخرکارمئی سن اڑتالیس میں ریاست قلات اورخان آف قلات پاکستان میں شمولیت پرمجبورہوگئے۔البتہ ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میرعبدالکریم نے قلات کی پاکستان میں شمولیت کے خلاف مسلح بغاون کی اورآخرکارانہیں افغانستان فرارہونا پڑا۔یہ پاکستان میں بلوچوں کے خلاف پہلی فوجی کارروائی تھی اوریوں بلوچوں اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بنیادکی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی۔”
اس کالم میں عزیزسنگھورنے بتایاکہ بلوچ ریاستوں کے سوسال بعد افغانستان ریاست قائم ہوئی۔نصیرخان نوری نے درانی سلطنت کے بانی احمدشاہ ابدالی کی سلطنت کوتوسیع دینے میںاہم کرداراداکیا۔بلوچ معاشرے میں موجودہ خان آف قلات میر سلیمان داؤد،بلوچ مرکز یت کی علامت اورنشانی ہیں۔بزرگ سیاستدان نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت کے بعدسلیمان داؤد ناراض ہوکرلندن چلے گئے ۔جہاں وہ ریاست قلات اورخان قلات کی بحالی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔مختلف اوقات میں خان صاحب کوواپس لانے کی باتیںہوئیں اور پیشرفت کی خبریں آتی رہیں۔بلوچستان اسمبلی میں اتفاق رائے سے اراکینِ اسمبلی پرمشتمل جرگہ تشکیل دینے کی قرار دادبھی منظورہوئی تھی۔جرگہ مذاکرات کے ذریعے لندن میں مقیم بلوچ رہنماخان آف قلات میرسلیمان داؤد کی باعزت طور پر پاکستان واپسی کابندوبست کرے تاکہ وہ بلوچستان میں جاری جنگ کے خاتمے میں اپنا کردارادا کریں۔تاہم ان ساری کوششوں کواسلام آباد کی آشیروادحاصل نہیں تھی اس لیے یہ کوششیں کارآمدنہ ہوسکیں۔
”سلگتابلوچستان” سے ہی ہمیںعلم ہوتاہے ۔” قیام پاکستان کے بعدبلوچوں کی تمام ریاستوں کاخاتمہ کردیاگیا۔ان کے سربراہان کی تمام مراعات کومسنوخ کردیاگیا۔ان کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں۔ریاس قلات کی رائل فیملی کی اراضی پرقبضے کاسلسلہ آج بھی جاری ہے۔ حکو مت کوچاہیے کہ رائل فیملی کی قانونی حیثیت بحال کریں۔ ان کوعزت دی۔بلوچ معاشرے میں سلیمان داؤدکی اپنی ایک پہچان اورشناخت ہے،ان کی تاریخی اورقانونی حیثیت ہے۔بھارت نے حیدرآباد اورجوناگڑھ ریاست کے نوابوں کی مراعات کوبرقرار رکھاہواہے۔ان کو تمام سرکاری مراعات ملتی ہیں۔وہ ریاست کے سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں اوربیرون ملک سرکاری وفود کاحصہ ہوتے ہیں۔لیکن ہماری سرکا رلکڑ ہضم پتھر ہضم کی پالیسی پرعمل پیراہے۔ریاست قلات کی رائل فیملی کی جائیدادیں ضبط کرلی گئی ہیں کوئٹہ سے لیکر قلات تک ان کی اراضی کو سرکاری تحویل میں لے لیاگیا اوران پرشہر اورکالونیاں بسائی گئی ہیں۔یہی نہیں قلات کے عوام کوبھی نہیں چھوڑا گیا۔ان کے معاشی اورسماجی حقوق پرڈاکہ ڈالاگیا۔آج بھی قلات کے عوام پانی،بجلی،گیس اورتعلیم جیسی اہم بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
ایسے بے شمارحقائق کاعلم عزیزسنگھورہی اپنے کالمزمیں دیتے ہیں۔”خاران ریاست سے ضلع کاسفر” میں انہوں نے بتایاہے۔” ریاست خاران بلوچستان کی دیگرریاستوں کی طرح ایک مستحکم اورمضبوط ریاست ہواکرتی تھی۔جہاں ریاستی ستون صحیح طریقے سے فنکشنل تھے۔ جن میںقاضی عدالتیں فوج سمیت دیگرادارے فعال تھے۔یہ خوشحال ریاست پانچ صدیوں سے چلتی رہی۔جب ریاست کاپاکستان سے الحاق کروایاگیاتویہ بلوچستان کے دیگراضلاع کی طرح سکڑ کرایک ضلع میں تبدیل ہوگیا۔تاہم حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ضلع میں معاشی وسماجی مسائل نے جنم لیناشروع کردیا۔موجودہ صورتحال میں خاران ایک سیاسی انتقام کے دورسے گزررہاہے۔انتظامی اورپسماند گی کے بجائے سیاسی پسندوناپسندد پرفیصلے کیے جارہے ہیں۔انتقام کاسلسلہ اس وقت شروع ہواجب حکمراں جماعت،بلوچستان عوامی پار ٹی کے امیدوارعبدالکریم نوشیروانی کوبی این پی مینگل کے امیدوارثنابلوچ نے شکست دیدی۔اس شکست کابدلہ عوام سے لیاجارہاہے ان کے معاشی اورسماجی بہتری کے منصوبوں کوسردخانے کی نذرکردیاگیاہے۔ضلع کی منظورشدہ چارڈیمز پرکام آج تک شروع نہ ہوسکا۔”
”پانچ گمشدہ قبروں کاقصہ” میں عزیزسنگھورنے لکھاہے۔” پنجگورکے لفظی معنی پانچ قبریں ہے۔پنجگورکانام اس طرح پڑاکہاجاتاہے کہ یہ پانچ مقبرے صحابہ کرام کے ہیں تاہم یہ قبریں کہاں واقع ہیں۔ان کی نشاندہی بھی ایک معمہ بن چکاہے۔جس طرح پنجگورکی تاریخی قبریں لاپتہ ہیں۔اسی طرح شہرکی آدھی آبادی کوحالیہ مردم شماری میں لاپتہ کردیا۔جبکہ اس کی آبادی کئی گنازیادہ ہے۔ضلع پنجگورمیں دوصوبائی نشستیں ہواکرتی تھیں ان کوکم کرکے ایک کردیاگیاجبکہ دوسری صوبائی نشست ضلع آواران میں ڈال دیاگیا۔جس سے پنجگورضلع انتظامی اور مالی طور پرکمزور اور غیرمستحکم ہوگیا۔اس کے ترقیاتی فنڈز میں کمی سے ضلع مزید پسماندگی کاشکار ہوگیا۔سڑک ،تعلیم ،صحت،بجلی ،پانی سمیت دیگربنیادی سہولیات کی عدم فراہمی نے سونامی کی شکل اختیارکرلی ہے۔”
ان حقائق سے عام قاری عزیزسنگھورکے کالمز سے پہلے یکسرلاعلم تھا۔بلوچ قبائل جاموٹ،گنگو،برفت،ہمالانی،ساسولی، سنگھور،گچکی اور دیگر بے شمارقبائل اوران کی زبانوں کے بارے میں معلومات بھی ان کالموں سے ہی ملتی ہیں۔سینکڑوں سال پہلے کی جنگوں سے لیکر آج تک جاری قبائلی آویزش اوران کے نتائج کاعلم بھی یہیں سے ہوتاہے۔جدگال بلوچوں کی ریاست دشتیار(ایران) سے کوٹری تک پھیلی ہوئی تھی۔اس کی آخری والی مائی چاہ گلی تھی۔جس نے ریاست کوبیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لیے ریاست کاتخت بیلہ سے کوٹری منتقل کردیا۔مائی چاہ گلی کے دورمیں دشتیارسے کوٹری تک عدم وانصاف کابول بالاتھا۔ہرطرف خوشحالی تھی۔وہ آخری ایام تک کوٹری میں رہی اس کی قبربھی کوٹری میں ہے۔ایسی معلومات اور کہاں مل سکتی ہیں۔
برطانوی سامراج کی کھینچی ہوئی بلوچستان گولڈسمڈ لائن کیوں ایک متنازع لکیر ہے؟ گوادرکی تاریخ کوکیسے مسخ کیاجارہاہے؟ سینیٹراسحاق بلوچ کے نام سے منسوب اسٹیڈیم کوگوادر اسٹیڈیم کانام کیسے دیاگیا؟پرتگیزایمپائرسے ملک ریاض ایمپائرتک بلوچستان کی سرزمین پرکس کس طرح قبضہ کیاگیا؟ میں کریمہ بلوچ ہوں میری باری کب آئے گی؟جیسے بہت سے سوالوں کاجواب ”سلگتابلوچستان” میں دیاگیاہے۔
”ڈیڑہ بگٹی وارث سے لاوارث تک” ایک چشم کشاکالم ہے۔جس میں بتایاگیاہے۔”ڈیرہ بگٹی بلوچستان کاواحدضلع ہے جوسیاسی طور پریتیم ضلع بن چکاہے۔ یہ یتیمی سیاسی اورسماجی قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہوئی ہے۔جس سے ضلع میں سیاسی،سماجی اورمعاشرتی مسئلوں نے جنم لیناشروع کردیا۔یہ سیاسی خلاف بزرگ سیاستدان نواب اکبربگٹی کی شہادت کے بعدشروع ہوا۔کسی زمانے میں یہیں سے بلوچستان اور وفاقی حکومتیں بنتی اورگرتی تھیں۔جہاں وزیراعظم،صدرمملکت،وزیراعلیٰ سمیت وزراکی قطاریں لگتی تھیں ان کی حاضریاں ہوتی تھیں سیاسی ہمدردیاں اور حمایتیں لی جاتی تھیں۔جماعتوں کی نظریں ڈیرہ بگٹی پرجمی ہوتی تھیں۔یہ ضلع ملکی سیاست کاسرچشمہ ہواکرتاتھا۔ نواب صاحب کی شخصیت کاسب سے اہم پہلواس کی سوچ تھی سوچ کبھی نہیں مرسکتی۔سوچ ایک سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی ہے۔سیاسی خلاکی وجہ سے ضلع ڈیرہ بگٹی آج مسائلستان بن چکاہے۔
بلوچستان کی سیاست کوسمجھنے ،یہاں کے قبائلی نظام سے آگہی،لوگوں کارہن سہن، روایات، کلچر،ذرائع آمدنی،ماہی گیری، زراعت، بارڈر پر اجناس کے تبادلہ پرمبنی روزگارکے وسائل کے لیے عزیز سنگھورکی ”سلگتابلوچستان” سے بہتر کوئی کتاب نہیں۔میں تمام صحافی برادری،طالب علم اورذوقِ مطالعہ رکھنے والوں سے کتاب کوپڑھنے کی بھرپورسفارش کرتاہوں۔کیونکہ اس کتاب کے بغیران کاعلم اورلائبریری نامکمل ہے۔بلوچستان اوربلوچوں کوجاننے کے لیے اس کامطالعہ لازمی ہے۔عزیز سنگھور کوکتاب کی اشاعت پربھرپورمبارکباد۔ان کی دوسری کتاب کاانتظار رہے گا۔