آج نامور شاعر جناب محسن نقوی کی برسی ہے۔ محسن نقوی کا اصل نام سید غلام عباس نقوی تھا اور وہ 5 مئی 1947ء کو محلہ سادات، ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے بہائو الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو میں ایم اے کیااور کم و بیش اسی زمانے میں ان کی شاعری اور ذاکری کا آغاز ہوا۔
یہ بھی دیکھئے:
عمران خان حکومت: خاتمے کی راہ میں حائل ایک اور رکاوٹ دور
اسلام آباد، تجاوزات کا راجہ بازار
سلگتا بلوچستان: حساس موضوع پر چشم کشا کالمز کا مجموعہ
محسن نقوی کا شمار اردو کے خوش گو شعرا میں ہوتا ہے ان کے شعری مجموعوں میں بندقبا، ردائے خواب، برگ صحرا، موج ادراک، ریزہ حرف، عذاب دید، طلوع اشک، رخت شب، فرات فکر، خیمہ جاں اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی شامل ہے۔ 1994ء میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
15 جنوری 1996ء کو محسن نقوی لاہور میں نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ وہ ڈیرہ غازی خان میں آسودۂ خاک ہیں۔
محسن نقوی کی ایک غزل
بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں
پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تری آنکھیں
اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں
ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تری آنکھیں
میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں
یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں