یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاست‘ پاک سرزمین کی سیاست جہاں ہمیں ہر طرف جانور ہی نظر آتے ہیں‘ اور جانور بھی وہ جن کی اکثریت اسلام میں حرام ہے۔ ہر طرف جانور ہی جانورہیں جمہوریت کہیں نہیں-جمہوریت کا مطلب برداشت ہے لیکن اس پاک سرزمین میں برداشت کہاں ہے؟ سیاسی رہنما جنہیں رواداری کا رول ماڈل ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے تاکہ ان کے کارکن بھی اچھے سیاسی کارکن بن سکیں لیکن صورت حال کیا ہے؟ لیڈر دوسرے لیڈروں کو جانوروں کے نام سے پکارتے ہیں – وہ مخالفین کو ناپسندیدہ جانوروں کے نام دیتے ہیں اور خود پسندیدہ جانوروں کے نام اپناتے ہیں ۔
ہم نے ماضی میں ہماری سیاست میں مختلف جانوروں کے نام پکارے جانے پر کالم لکھے ہیں۔ مثال کے طور پرشیر، شیرو،کتا، بلا، گدھا، بندر، بھیڑیا،اب ایک اور جانور اونٹ پاکستانی سیاست کے خیمے میں داخل ہو گیا ہے جو خود پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنماوں نےداخل کیا ہے۔ لہذا اگر اب ہم انہیں ان کے نئے جانور کا دوسرا رخ دکھائیں تو انہیں پاگل نہیں ہونا چاہئے – بولیں تو “گھبرانا نہیں”۔
تو آئیے اس نئے اضافے پر بھی بات کریں۔ کہاوتیں وہ باتیں ہوتی ہیں جو بزرگ برسوں کے تجربات کے بعد کہہ جاتے ہیں اور وہ زبان زد عام ہو جاتی ہیں – پی ٹی آئی والے آج کل اونٹ کو بہت یاد کر رہے ہیں – مثال – عربی کہاوت ہے اونٹ بیٹھ بھی جائے تو کتوں سے اونچا ہی رہتا ہے- ان کو کوئی جا کر بتائے اپنے لیڈر کو انسان رہنے دو – اس کی 2 جانوروں سے مشابہت پہلے ہی عام ہو چکی – اب آپ خود ایک تیسرا جانور لے آئے ہیں-اور اپنے لیڈر کا توا خود ہی لگوانے پر تلے بیٹھے ہیں – نادان دوست ایسے ہی ہوتے ہیں اور ان کے سر پر سینگ تھوڑی ہوتے ہیں-
یہ بھی پڑھئے:
پاکستان میں پیناڈول کی پیداوار بند کرنے کی تیاریاں
عمران خان نا اہل: یہ فیصلہ کیوں اٹل تھا؟
وہ شہر جہاں عمران خان کی حمایت میں صرف سات افراد نکلے
پی ٹی آئی والوں کا چونکہ پڑھنے لکھنے سے تعلق بہت کم ہے اس لیے بتائے دیتے ہیں آپ کے پسندیدہ جانور اونٹ کے بارے میں بہت منفی کہاوتیں محاورے بھی موجود ہیں۔ جیسے کہ (اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی ) یہ اردو کہاوت ہے – ویسے اگر آپ اپنے اونٹ کے یوٹرن اور کہہ مکرنیاں یاد کر یں تو یہ اردو کہاوت اس پر 100 فیصد فٹ نظر آتی ہے-
اور اونٹ کی دشمنی بھی بہت مشہور ہے – یہ جس کا دشمن بن جائے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا – پی ٹی آئی کے اونٹ کی دشمنی پی ایم ایل این ، پی پی پی ، جے یوآئی سے ہو چکی ہے – پی ٹی آئی کا اونٹ ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا -اب تو نوبت بہ ایں جا رسید کہ ہم جب کسی اونٹ کو جگالی کرتے دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کہہ رہا ہو “نہیں چھوڑوں گا نہیں چھوڑوں گا”-لیکن اگر ہم اس کی حکومت کے حالات دیکھیں تو وہ ان کا بال بھی بیکا نہیں کر پایا ۔ جب کہ اسے فوج کی مکمل حمایت حاصل تھی اور وہ ریکارڈ پر بھی اس حوالے سے شیخیاں مارتا اور مخالفین کو دھمکاتا رہتا تھا۔ یہ اونٹ چونکہ ان کا کچھ نہیں کر سکا تو اب یہ ملک کے پیچھے پڑ گیا ہے – اب یہ ملک کو نہیں چھوڑے گا – اللہ خیر ہی کرے – لگدا تے نئی پر شاید ……
ایک اور کہاوت ہے (اونٹ کا خیمے میں گھس جانا) یہ عام طور پر تب کہا جاتا ہے جب کوئی بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے جس کو سنبھالنا نا ممکن ہو اور جو تباہی مچا دے۔یہ بھی پی ٹی آئی کے لیڈر پر فٹ آتی ہے کیوں کہ حکومت ملنے سے پہلے بھی ملک کے اندر ہنگامی صورت حال پیدا کئے رکھی اور اب حکومت سے جانے کے بعد کا منظر نامہ بھی سب کے سامنے ہے – حکومت کے اندر رہتے ہو ئے بھی وہی حال تھا جیسا کہ یہ کہاوت ہے کہ اونٹ خیمے میں گھسا ہوا تھا اور پھر خیمے کا جو حشر نشر ہونا تھا وہ تو ہونا ہی تھا
پچھلے دنوں پی ٹی آئی والوں نے مائزہ حمید کے متعلق ایک ٹرینڈ چلایا جس میں مائزہ کو ایک جا نور کے نام سے پکارا گیا -وہ جانور ایسا ہے کہ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ اس جانور کا نام پکارنے سے زبان 40 دن پلید رہتی ہے۔ یہ بھی پی ٹی آئی والوں نے خود کیا – پی ٹی آئی والوں کی زبان جو پہلے ہی بد نام ہے اب خود ہی پلید بھی کر لی – اس طرح نادان دوستوں نے پی ٹی آئی کو وہاں پہنچا دیا اب بدزبانی بہت پیچھے رہ گئی اب تو پاکی پلیدی والا معاملہ ہو گیا ہے۔اللہ پاک اس ملک کو پاک ہی رکھے – برائی اور پلیدی سے محفوظ رکھے – آمین