ارشد شریف سے یک طرفہ نوعیت کا تعلق تھا۔ وہ اپنے سیاسی عقیدے کے مطابق بات کرتے تھے۔ ٹیلی ویژن پروپیگنڈے کا یہ ہے کہ جی چاہے تو دیکھ لیجیے ورنہ ریموٹ کنٹرول تو آپ کے ہاتھ میں ہے ہی۔ بس، بھولا بھالا دکھنے والے اس خوش شکل اینکر سے اتنا ہی تعلق تھا لیکن موت، وہ بھی بے بسی کی، یہ ہمیشہ دکھی کر دیتی ہے۔ اس موت نے بھی دل گرفتہ کر دیا ہے۔
لوگ باگ ارشد شریف کی موت پر سوالات اٹھا رہے ہیں، یہ سوالات بھی برحق ہیں کہ ان کے جوابات میں ہی اس پراسرار موت کے اسباب و وجوہات پوشیدہ ہیں اور ان ہی سوالات کے ذریعے اس موت کے ذمے دار ہاتھ کا تعین ممکن ہو سکے گا لیکن ہمارے پیش نظر چند سوالات اور بھی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان نا اہل: یہ فیصلہ کیوں اٹل تھا؟
شیر، شیرو، بندر، گدھے، اونٹ وغیرہ اور ہماری سیاست
پاکستان میں پیناڈول کی پیداوار بند کرنے کی تیاریاں
ممکن ہے کہ یہ سوالات ان سوالات کے جوابات دستیاب ہونے کے بعد بھی برقرار رہیں کیونکہ ان کا تعلق ہمارے معاشرتی چال چلن اور مزاج کے ساتھ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارا سماج کسی طرح ان سوالات کے جواب تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائے تو شاید ایسے صدمات کا کسی قدر سدباب ہو جائے جن کا سامنا ارشد شریف کی موت سمیت اس سے ملتے جلتے صدمات کی صورت میں کرنا پڑتا ہے ۔
نہیں معلوم کہ کینیا میں ہونے والی اس مظلومانہ موت کا سبب کیا ہے لیکن ایسے پیچیدہ واقعات کے اسرار کھولنے کا طریقہ ایک یہی ہے کہ تحقیق کا آغاز حادثے کے مقام سے کیا جائے۔ ارشد شریف کے معاملے میں یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس موت کے تانے بانے سیاست سے ملائے جا رہے ہیں۔ اس قتل کا سیاست سے کوئی تعلق ہے یا نہیں، ان کی صحافت ضرور زیر بحث آئے گی۔
اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ ارشد شریف سیاست میں ایک خاص رائے رکھتے تھے ۔ بعض لوگوں کے خیال میں یہ معاملہ رائے سے بڑھ کر جانب داری تک جا پہنچا تھا۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد تشکیل پانے والی حکومت کو پی ٹی آئی کی طرف سے امپورٹڈ حکومت کا نام دیا گیا تھا۔ سیاسی اخلاقیات کا پاس کیا جائے تو یہ نام بھی مناسب نہیں لیکن موجودہ سیاسی ماحول کے پیش نظر یہ وقت اس بحث کا نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحافی کے لیے یہ روا ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا بیانیہ اپنے مؤقف کے طور پر اپنی پیشہ دارانہ ذمے داری کے طور پر اختیار کرے؟ اس سوال کا جواب بہر صورت نفی میں ہی ہونا چاہیے۔
موجودہ سیاسی اور صحافتی ماحول میں صرف ارشد شریف نہیں تھے جنھوں نے یہ طرز عمل اختیار کیا۔ بہت سے دیگر صحافی اور اینکر یہی کچھ کر رہے تھے۔ اس پس منظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بہت سے دوسرے اس مؤقف اور طرز عمل کے ساتھ آج بھی پاکستان میں موجود ہیں اور انھیں کوئی خطرہ نہیں تو کیا وجہ تھی کہ ارشد شریف نے ملک چھوڑ دیا یا انھیں ملک چھوڑنا پڑا؟ ارشد شریف کی موت کا معمہ سلجھانے کے لیے ہمیں سوال کا جواب بھی درکار ہو گا۔
اس سوال کی طرح ایک اور سوال بھی اہم ہے۔ اس سوال کا تعلق برداشت کے معاملات سے ہے۔عمومی خیال ہے کہ سماج ہو یا ریاست، اس کی برداشت محدود ہے۔ کچھ مکاتب فکر کے مطابق یہی سبب ہے جس کی وجہ سے ہمارے یہاں بے چینی محسوس کی جاتی ہے۔
ارشد شریف کی موت نے ان سوالات کی اہمیت ایک بار پھر اجاگر کر دی ہے۔ اگر ہم اپنے سماج کو حادثات بچانے کے سلسلے میں سنجیدہ ہیں تو ان دونوں سوالات ہمیں بہت صورت حاصل کرنے ہوں گے۔