ہونی بالآخر ہو گزری۔ عمران خان نا اہل ہو گئے یعنی قومی اسمبلی کی ہر اس نشست سے بھی محروم ہو گئے جس سے انھوں نے استعفیٰ دے رکھا تھا یا مستعفی ہونے کے بعد دوبارہ منتخب ہو ہے تھے۔ قانونی چارہ جوئی کے بعد حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ اٹل تھا اور نا اہلی خان صاحب کی قسمت۔
اب سوال یہ ہے کہ فیصلہ تو ہو گیا، اب اس کے بعد کیا ہو گا۔ سیاسی نقطہ نظر سے اس قسم کے فیصلوں کا خیر مقدم مشکل ہونا چاہیے ۔ یہ سبق وہ تھا جو کئی دہائیوں کی دانتا کل کل کے بعد پاکستان کی سیاسی قوتوں نے سیکھا۔ یہی سبق تھا جس کے نتیجے میں میثاق جمہوریت وجود میں آیا۔ میثاق جمہوریت کیا تھا، عمران خان کا اس سلسلے میں کہنا جو بھی ہو، حقیقت یہ تھی کہ یہ ایک سنگ میل تھا۔ ایک ایسا سنگ میل جس کی مثال کسی جرگے کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اس صلح سے دی جا سکتی ہے جس کے نتیجے میں صدیوں سے جاری کشت و خون کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
کیا نجم سیٹھی کے مطابق عمران خان واپس آ رہے ہیں؟
مزاحمت اور علی اکبر عباس کی شاعری
ضمنی انتخابات کیا جلد انتخابات کی راہ ہموار کریں گے؟
یہ بدقسمتی تھی کہ میثاق جمہوریت کے بعد عمران خان پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر طلوع ہوئے اور انھوں نے اس تاریخی میثاق کو مک مکا کا نام دے کر میدان سیاست کو جس میں بلوغت اور سنجیدگی پیدا ہو گئی تھی، ثبوتاز کر دیا۔ عمران خان کی یہ ایسی عظیم غلطی تھی جس کا پچھتاوا انھیں عمر بھر رہے گا۔ وہ ایسا طرز عمل اختیار نہ کرتے تو وہ اس گڑھے میں نہ گرتے جو انھوں نے دوسروں کے لیے کھودا تھا۔
ان کی دوسری غلطی ان کے مزاج کے نہاں خانوں سے ابھری اور اس نے خان صاحب کے اس عظیم اخلاقی پیڈسٹل کو زمیں بوس کر دیا جس پر کھڑے ہو کر وہ اپنے مخالفین پر انگشت نمائی کیا کرتے تھے۔ اپنے مخالفین کو چور،ڈاکو اور بدکردار قرار دیتے ہوئے انھوں نے ایک دعویٰ کیا۔
دو نہیں ایک پاکستان۔ اپنے اسی نعرے کی تفصیل میں وہ کہا کرتے تھے کہ وہ طاقت ور لوگوں کو قانون کے تحت لائیں گے۔ اصولی طور پر ان نعروں سے کسے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان نعروں میں وزن اسی صورت میں پیدا ہو سکتا تھا اگر عمران خان اگر ویسے نہ نکلتے جیسے وہ اس فیصلے کے بعد نکلے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ تو توشہ خانہ کے معاملات سے متعلق ہے لیکن عمران خان کے خلاف فرد جرم صرف یہیں تک محدود نہیں۔ وہ اپنے مخالفین کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ سارا ٹبر چور ہے۔ ان کے اقتدار کا زمانہ ہو یا اس کے بعد سامنے آنے والے حقائق، عمران خان اور ان کے خاندان پر اتنے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں، ماضی میں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی، گزشتہ شوہر سے ان کی اولاد اور فرح خان ایسی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جن کا جواز وہ کبھی پیش نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ان کے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی سنگین الزامات کی زد میں ہیں۔ ان کے وزیر صحت عامر کیانی ایک غیر معمولی اسکینڈل میں ملوث پائے گئے۔ تحقیقات کے نتیجے میں الزامات ثابت ہو گئے لیکن عمران خان نے انھیں اپنی جماعت کا سیکرٹری جنرل بنا دیا۔ چینی کا اسکینڈل اتنا سنگین تھا کہ خود حکومتی حلقوں کا کہنا تھا کہ یہ اتنی بڑی غلطی ہے جس کے نتیجے میں خود عمران خان کو ہتھ کڑی لگ سکتی ہے۔ یہی خوف تھا جس کے نتیجے میں قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کر دی گئی۔ مقصد یہی تھا کہ چینی اسکینڈل کے نتیجے میں متوقع قانونی کارروائی سے بچا جاسکے۔
اس قسم کے واقعات کی فہرست مرتب کرنا مقصود نہیں، کہنا یہ ہے کہ صرف عمران خان توشہ خانہ کیس میں ماخوذ نہیں ہیں اور نہ ان کی جماعت فارن یا ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ملوث ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ، ان کا خاندان، سیاسی جماعت اور سیاسی رفقائے کار ان تمام جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ عمران خان اور ان کے سیاسی قبیلے کا یہ طرز عمل ایسا ہے جس انھیں اسی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے جس میں وہ اپنے مخالفین کو کھڑا کیا کرتے تھے۔ ان کے مخالفین مجرم تھے یا نہیں لیکن خود ان پر یہ تمام جرائم ثابت ہو گئے ہیں۔ فیصلے بتا رہے ہیں کہ وہ خود بھی بدعنوان ثابت ہو چکے ہیں اور ان کا ٹبر بھی۔