تلخیص
جذبہء حریت و آزادی نہ صرف ترک قوم یا پاکستانی قوم میں بلکہ دنیا کی بڑی چھوٹی تمام قوموں میں پایا جاتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ جذبہ حریت نہ صرف قوموں میں بلکہ تمام فردوں میں حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے پرندوں تک تمام مخلوقات خدا کے اندر موجود ہے۔ظاہر ہے کہ حالات و مجبوریاں کبھی کچھ ایسی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے مخلوقات بھی، افراد بھی اور اقوام بھی محکومی کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ادب انسانی احساسات، جذبات، خواہشات اور تصورات کے بیان کا ایک خوبصورت وسیلہ ہے اور اس وسیلے کی توسط سے ادیب اپنے دل و دماغ میں جنم لینے والے خیالات کو ادب کےسونے کے تاروں سے بُن کر بے نظیر تصویروں کی صورت میں دوسروں کو دکھا دیتے ہیں۔ کبھی اپنے کلام سے لوگوں کے دلوں کو عشق و محبت کی حرارت سے گرماگرم کرتے ہیں، کبھی جدائی کے غم کے اظہار سے لوگوں کو رلادیتے ہیں اور کبھی لوگوں کے دلوں میں آزادی اور حریت اور حب الوطنی کے جذبے کو جگاکر ان کو دشمنوں کے سامنے ایک مضبوط فصیل کی مانند کھڑا کردیتے ہیں۔ یہ خاصیت ترکی، پاکستانی، چینی، ایرانی، عربی، انگریزی مختصر دنیا کے مختلف ادبوں میں مختلف انداز میں پائی جاتی ہے۔
اس مقالے میں ترکوں کی آزادی پسندی کے حوالے سے جدید ترکی شاعری میں جذبہء حریت کا مطالعہ کیا گیا ہے اور جدید ترکی ادب میں نامق کمال، علی بولائیر اور محمد عاکف ایرصوئے جیسے ترک ادباء و شعراء کے کلام میں استقلال، آزادی، حریت اور حب الوطنی کے موضوعات پر روشنی ڈالی جائے گی ۔
٭٭٭٭
حریت جذبہء حریت اور آزادی ، ایک لحاظ سے ترکوں کی قومی شناخت ہے۔ جب سے ترک قوم اس روئے زمین پر اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر چار اطراف عالم میں سفر کرنے لگی ہے ترکوں کے دل و دماغ میں آزادی کا لفظ گونجتا رہا اور یہ لفظ ان کا ورد زبان ہوتا رہا ہے۔ویسے بھی ترک خانہ بدوش لوگ تھے، کھلے آسمان کے نیچے اپنے گھوڑوں پر سوار اپنے خاندان اور خیمے ساتھ لیے آزادی سے زندگی بسر کررہے تھے اور دنیا کی عریض و وسیع زمینوں پر کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں وہ نہ جاسکیں اور کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جو انھیں اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھنے سے روک سکے۔مشرق میں چین سےجنگ لڑرہے تھے تو دوسری جانب ہندوستان میں داخل ہورہے تھے اور پھر بڑے عزم و تسلسل کے ساتھ مغرب یعنی یورپ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ آزادی ، جذبہء حریت اور جد و جہد کی زندگی ترکوں کی رگ رگ میں رچی بسی ہوئی تھی۔ سو انہیں عناصر نے ترکوں کو استقلال و آزادی کے لیے جینے یا مرنے پر تیار کررکھا تھا۔ ہزاروں سال ترک من حیث القوم اپنی تاریخ میں یا آزاد ہی رہی ہے، یا اس نے آزاد رہنے کے لیے مسلسل جنگیں لڑی ہیں اور کبھی طاقتور دشمن کے سامنے شکست بھی کھائی ہو تو اس نے اپنی آزادی کی جنگ کو کسی نہ کسی صورت میں جاری رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کشمیریوں کے حق پر جیسے ڈاکہ ڈالا گیا، کوئی آئین اس کی اجازت نہیں دیتاِ ڈاکٹر خلیل طوقار
مسئلہ کشمیر : علاقائی اور بین الاقوامی وسعتیں, استنبول یونیورسٹی میں عالمی کانفرنس
ہندوتوا: ذہنیت، مقاصد اور حکمت عملی
یہ ترکوں کی تاریخ کے ہر دور میں ایسا ہوا ہے چاہے وہ قبل از مسیح کے زمانے کا زمانہ ہو یا عصر جدید، ترکوں کی قومی زندگی میں آزادی ان کی سب سے قیمتی اور مقدس امانت سمجھی جاتی رہی ہے۔ آزادی کی کہانیاں مختلف ترک قبائل کی اساطیرمیں بھی موجود ہیں اور ان کی جدید ادب میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر ترکوں کے اپنے اولین حروف تہجی یعنی الفبائے گوک ترک {Gokturk Alphabet}سے لکھے گئے کتبوں کو لیجئے یہ کتبے اب منگولیا میں موجود ہیں۔ ۷۳۲ء اور ۷۳۵ء میں پتھروں پر مرقوم یہ کتبے ترکوں کے بڑے خان یعنی قاغان کول تیگین اور بلگے قاغان کے اقوال پر مشتمل ہیں۔ ان کتبوں میں ترکوں کے بادشاہ بلگے قاغان نے اپنی قوم سے مخاطب ہوکر فرمایا :
” چینی قوم کی زبان میٹھی ہوتی ہے اور اس کے ریشمی کپڑے نرم ہوتےہیں، اہل چین اپنی میٹھی باتوں سے اور نرم ریشمی کپڑوں سے فریب دے کر دور دراز علاقوں میں رہنے والی قوموں کو اپنے قریب لاکر آباد کراتے ہیں اور جب یہ قومیں ان کے قریب آکر آباد ہوتی ہیں تو تب چینی قوم اپنی بدنیتی کا مظاہرہ کرنا شروع کرتی ہے ۔ اے ترکو ، تم لوگ چینی قوم کی میٹھی زبان اور ریشمی نرم کپڑوں کے دھوکے میں آکر بہت مارے گئے۔ اگر جنوب میں چوغائے کے پہاڑوں اور طوغولتون کے میدانی علاقوں میں آبادی اختیار کروگے تو مطلق مارے جاؤگے۔ اگر اتوگین کے ملک میں رہ کر یہاں سے وہاں کاروبار کے لیے تجارتی کاروان بھیجوگے تو تمھیں کوئی بھی گزند نہیں پہنچے گی۔ اگر تم اوتوکین کے پہاڑوں میں رہوگے تو تا ابد اپنی سلطنت بر قرار رکھو گے اور حکمرانی کروگے۔” {۱}
عام طور پر اس عہد میں یہ یقین کیا جاتا تھا کہ ترک قوم اتوکین سے پھوٹی ہے یعنی ترک قوم نےاوتوکین میں جنم لیا اور وہاں سے تمام دنیا میں پھیل گئی۔ لہٰذا اوتوکین ان کے لیے ایک مقدس مقام تھا اور ترکوں کو یہ بھروسہ تھا کہ اگر اس پہاڑی علاقہ اور جنگل میں رہیں گے تو انھیں کسی بھی طرح کا نقصان نہیں ہوگا۔
بلگے قاغان کا کہنا یہ تھا کہ اگر مال و دولت اور آرام و سکون کی زندگی کے لیے اپنی آزادی کا سودا نہیں کروگے تو اے میری قوم تُو تا ابد آزاد و خود مختار رہے گی۔
جدید عہد تک پہنچتے پہنچتے مختلف ترک قبائل یا اقوام کی آزادی سے عشق کا اظہاران کی قومی زندگی کے ہر مشکل مرحلے پر دیکھتے ہیں۔چاہے یہ ترکی کی جنگ آزادی کے ادب میں ہو چاہے کریمیا کے تاتاری ترکوں کی جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود من حیث القوم زندہ رہنے کی داستانوں میں۔
اسی طرح جمہوریہ ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کی شہرہ آفاق کتاب نطق کو لیجئے۔ انھوں نے اس کتاب میں ترکی جنگ آزادی کی تاریخ بیان کی ہے جس کے وہ عینی گواہ تھے۔ وہ بھی ترک قوم کے لیے آزادی کی اہمیت کو یوں بیان کرتے ہیں۔
“ہمارا بنیادی اصول، ترکوں کا اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ اپنی زندگی بسرکرنا ہے۔ اس کا حصول صرف اور صرف آزادی سے ممکن ہوسکتا ہے۔ ایک قوم چاہے جتنی امیر ہو اور دولت مند ہو، اگر اسے آزادی کی نعمت حاصل نہیں تو تہذیب یافتہ لوگوں کے سامنے اس کی حیثیت ایک نوکر سے بڑھ کر اورکچھ نہیں ہوسکتی۔ ایک اجنبی ملک کی حمایت کی طلبگاری اس امر کا مظہر ہے کہ وہ قوم انسانیت سے محروم ہے، کمزور ہےاور نااہل ہے ۔ غلامی کے مرحلےسے دوچار نہ ہونے والی ایک قوم کے افراد کی ایک اجنبی طاقت کو اپنے اوپر مسلط کرنے کی خواہش رکھنا ناقابل فہم و ادراک ہے۔ ترک قوم بہت اعلیٰ قومی خصائص اور صلاحیتوں کی مالک ہے۔ ایک ایسی قوم کے لیے غلام بن کر زندگی بسر کرنے سے نیست و نابود ہونا ہزار درجہ بہتر ہے۔ پھر یا آزادی یا موت۔”{۲}
الغرض انھوں نے بھی ترک قوم کے سامنے دو آپشن رکھے تھے یا وہ آزادی کی جنگ لڑکر کامیابی حاصل کرے یا آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے وہ موت کو گلے لگے۔
اس میں شک نہیں کہ جذبہء حریت صرف ترک قوم کی خاصیت نہیں بلکہ یہ جذبہ دنیا کی بڑی چھوٹی تمام قوموں میں پایا جاتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ جذبہ حریت نہ صرف قوموں میں بلکہ تمام فردوں میں حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے پرندوں تک تمام مخلوقات خدا کے اندر موجود ہے۔ظاہر ہے کہ حالات و مجبوریاں کبھی کچھ ایسی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے مخلوقات بھی، افراد بھی اور اقوام بھی محکومی کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اسی تذلیل و تحقیر کی زندگی پر لبیک کہتے ہیں بلکہ ان کے اندر غم و غصے کا طوفان امنڈرہا ہوتا ہے لیکن وہ خاموش رہتے ہیں کیونکہ بے چارگی کا عالم کچھ اور ہوتا ہے۔
ادب انسانی احساسات، جذبات، خواہشات اور تصورات کے بیان کا ایک خوبصورت وسیلہ ہے اور اس وسیلے کی توسط سے ادیب اپنے دل و دماغ میں جنم لینے والے خیالات کو ادب کےسونے کے تاروں سے بُن کر بے نظیر تصویروں کی صورت میں دوسروں کو دکھا دیتے ہیں۔ کبھی اپنے کلام سے لوگوں کے دلوں کو عشق و محبت کی حرارت سے گرماگرم کرتے ہیں، کبھی جدائی کے غم کے اظہار سے لوگوں کو رلادیتے ہیں اور کبھی لوگوں کے دلوں میں آزادی اور حریت اور حب الوطنی کے جذبے کو جگاکر ان کو دشمنوں کے سامنے ایک مضبوط فصیل کی مانند کھڑا کردیتے ہیں۔ یہ خاصیت ترکی، پاکستانی، چینی، ایرانی، عربی، انگریزی مختصر دنیا کے مختلف ادبوں میں مختلف انداز میں پائی جاتی ہے۔
اگر ہم جدید ترکی ادب یا شاعری کی بات کریں گے تو سب سے پہلے ہمارے سامنے معروف ترک شاعر نامق کمال اور ان کا “قصیدہء حریت” ہے۔ نامق کمال کا “قصیدہ حریت” ترکی ادب میں جذبہ ء آزادی کا بہترین مثالوں میں سے ایک ہے اور نامق کمال کی شاعری اپنے عہد میں ترکی شعر و ادب میں ایک دبستان کی حیثیت رکھتی ہے۔ نامق کمال انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے شاعر ہیں یعنی جدید ترکی ادب کے ابتدائی دنوں کے شاعر ہیں۔{۳}
نامق کمال ایک ایسے عہد سے تعلق رکھتے ہیں جس میں سلطنت عثمانیہ کا آفتاب اپنے غروب کی طرف جارہا ہے۔ مملکت کی مشرق میں روس کے مسلسل حملے، یونان، بلغاریہ، سربیا، البانیا جیسے مقبوضات میں بغاوتیں اور جنگیں، مغربی طاقتوں کی مملکت کےاندرونی اور بیرونی معاملات میں دخل اندازیاں، ارکان دولت کی آپس میں چپقلشیں اور ناکامیاں، ان سب نے مل کر اس عہد کے نوجوانوں کو جذباتی لحاظ سےایک ہچلل میں مبتلا کردیا تھا اور ان کے سامنے واحد نجات کا راستہ اپنی قوم سے، اپنے وطن سے اور حریت سے پیار تھا۔ اس عہد کے نوجوان ترکوں میں یہ جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ اور نامق کمال وہ شاعر اور ادیب ہیں جنھوں نے ان خیالات اور جذبات کو اپنے فن کے ذریعے بلا خوف و تردید بلند آواز سے بیان کیا۔ ان کی شاعری میں قومی شناخت پر فخریہ بھی ہے، قوم پرستی بھی ہے۔ وطن کی مٹی پر جان قربان کرنے کا ارادہ بھی۔
وہ فرماتے ہیں:
ہم وہ عالٰی ہمت جدّ امجد کی نسل سے ہیں جس نے
ایک عظیم عالمگیر سلطنت قائم کی ایک مختصر قبیلے سے {۴}
یعنی یہاں ارطغرل غازی اور عثمانی سلطنت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ شروع میں عثمانی سلطنت کو قائم کرنے والا کائی قبیلہ چند ہزار لوگوں پر مشتمل ایک قبیلہ تھا۔ یہ ایک لحاظ سے قومی فخریہ ہے۔ مزید بر آن وہ اپنی قوم کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے کہتے ہیں:
قوم شکست کھائے تو یہ مت سوچو اس کی آن و شان میں فرق آئے گا
جوہر زمین پر گر ے گا اگر تو اس کی قدر و قیمت کم ہوگی بھلا؟ {۵}
یعنی نامق کمال کا کہنا ہے کہ جن صعوبتوں سے قوم گزرتی ہے اور مشکلات سے دوچار ہے ان حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اور ان مصیبتوں کی وجہ سےاگر قوم شکست خوردہ ہو بھی جائے تو یہ اس قوم کی اہمیت میں کبھی فرق نہیں آئے گا۔یہ اس طرح ہے جس طرح گراں قیمت جوہر زمین پر گرے اور گرد و غبار سے آلودہ ہو مگر اس کی قیمت وہی رہتی ہے اور کبھی کم نہیں ہوتی۔
مزید بر آں نامق کمال کا جگہ جگہ کہنا ہے کہ ہم اس مملکت کی حفاظت اپنے خون سے اور اپنی جان سے کریں گے ۔ باہر سے جو بھی آئے کوئی خوف نہیں۔ یا وہ استعماری طاقت ہماری سرحدوں پر شکست کھائے گی یا ہمارے وطن میں داخل ہونے کے لیے اس طاقت کو اس دو کروڑ کی ترک قوم کی لاشوں پر سے پاوں رکھ کر گزرنا پڑے گا۔ پھر ملک کے اندر سے جو بھی مخالف طاقت سامنے آئے گی اگر اس کا قول بر حق ہے وہ مقبول ہوگا اور اگر ناحق ہے اس کے سامنے اسباطِ حق یعنی سچائی کا ثبوت دینے کے لیے باہمت افراد کھڑے ہوں گے۔ آگے چل کر وہ کہتے ہیں:
جس جسم کا خمیر بنا ہو خاکِ وطن سے
وطن کے لیے پھر سے خاک بن جائے تو کیا غم ہے {۶}
نامق کمال اس شعر میں شہادت کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔نامق کمال شاعرِ وطن ہے ان کے نزدیک وطن کی مٹی انسان کے جسم کا مایہ ہے اور وطن انسان کی اپنی جان سے بھی کہیں زیادہ قیمتی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں: جس وطن کی مٹی سے انسان بنا ہوا ہو اور اگر وہ اِس وطن کی راہ میں اپنی جان بھی قربان کرے تو اس میں کوئی غم و الم کی بات نہیں ہے بلکہ فخر کی بات ہے کیونکہ جوجسم وطن کی مٹی سے بنا ہو اس کو اسی مٹی میں مل کر روحانی سکون حاصل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح وہ رقمطراز ہیں:
ہم عالٰی مقام عثمانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں
لبریز ہے ہمارا خمیر خونِ شہادت سے {۷}
پھر وہ آزادی کے سلسلے میں کہتے ہیں:
ہماری فطرت اس قدر ارفع اور اس قدر بلند پایہ ہے
کہ ہمارے لیے قبر کی مٹی بہتر ہے ذلت کی زندگی سے {۸}
اور
اگر ہمارے جلاد کے ہاتھ پھانسی کی رسی جان گداز اژدہا ہو کیا غم
یہ قبول ہے ہمیں غلامی کی زنجیر سے جکڑنے سے {۹}
یعنی ان کا کہنا ہے کہ ہمارے نزدیک ترک قوم کے لیے موت غلامی سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
پھر کہتے ہیں:
تیرے چہرے پر اے حریت یہ کیا جادو ہے
تیرے عشق کے اسیر بن کر حاصل کی آزادی ہم نے {۱۰}
نامق کمال کے قصیدہ حریت سے لے کر ان کی دیگر تمام تصانیف میں قومی اور ملی نصب العین،تاریخی شعور بلند حوصلگی اور بہادری آزادی سے عشق ،قوم پرستی اور وطن کی مٹی سے محبت کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ اور اُن کے اِن خیالات کے جدید ترکی ادب پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔
نامق کمال کے عہد میں بھی بعد میں بھی جدید ترکی ادب کے بہت سے ادیب اور شعراء نے اپنے اپنے انداز میں جذبہء حریت، استقلال، آزادی، قوم پرستی اور وطن دوستی کے خیالات کو اپنے کلام میں خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ علی اکرم بولائیر، محمد اشرف، محمد عاکف ایرصوئے، رضا پولات آق قویونلو اور ایم۔ اولوغ تورانلی اوغلو جیسے بہت سے شعراء کے کلام اس امر کا ثبوت ہے۔
مثال کے طور پر رضا پولات آق قویونلو کی نظم “الوداع” کویہاں پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس نظم میں شاعر اپنی عزیز از جان بیوی سے جدا ہوتے ہوئے یہ عرض کرتے ہیں کہ استقلال، حریت، آزادی اور وطن میرے لیے تم سے بھی، میرے اپنے بچوں سے بھی اور میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں اور میں اپنے وطن کی خاطر تمھیں اور اپنے بچوں کو چھوڑ کر شہادت کے لیے جاتا ہوں۔ تم میرے دس مہینے کے بیٹے کو میرے تکیے پر سلانا اور اسے اپنے نام سے قبل استقلال کے ترانے کو یاد کرانا۔ نظم کا ترجمہ ملاحظہ ہو: {۱۱}
الوداع
الوداع میری پیاری بیوی
یہ سودا
کوئی اور سودا ہے
اسے کہتے ہیں عشق وطن کا
یقین کرو
تم سے پہلے اسی کا ہے جو کچھ میرے پاس ہے
اب، ایک روشن مستقبل کے لیے گانا گائیں میرے بچے
اور اس کے بعد
میرے خالی پڑے تکیے پر
میرا دس ماہ کا بیٹا رکھے اپنا سر
اور تم
یاد کراؤ اسے میری پیاری بیوی
اپنے نام سے پہلے
ترانہء آزادی
ایم۔ اولوغ تورانلی اوغلو کی اس احساسات سے بھرپور اس نظم کے بعد ایم۔ اولوغ تورانلی اوغلو کی قومی جوش و جذبہ اور جرات، حوصلہ سے مالامال اور نڈر انداز کی نظم ترکوں میں موجود جنگ و جدال، مسلسل جد و جہد اور سر توڑ مقابلہ کرنے کی عادت کو ہمیں دکھاتی ہے۔نظم کا نام: “آزادی کی راہ پر چلیں گے چاہے مر جائیں”۔ وہ نظم کچھ یوں ہے: {۱۲}
کروڑوں باولہ پاگلوں سے ڈریں گے نہیں
آزادی کی راہ پر چلیں گے چاہے مرجائیں
فخر ہماری زندگی روح کی غذا ہے
آزادی کی راہ پر چلیں گے چاہے مر جائیں
٭٭٭
نہ شہرت نہ پیسے نہ عشرت و یار
نہ سرابوں میں نہاتی خوبصورت بہار
دل سے گزرتے نہیں فانی مکدر
آزادی کی راہ پر چلیں گے چاہے مرجائیں
٭٭٭
مہم سے نہ ڈرنے والا بھورا رنگ گھوڑا پاس ہے
کبھی نہ بھولنے والا ہمارا فن جنگ و جدال ہے
ہماری زندگی لاکھ شان سے مالامال ہے
آزادی کی راہ پر چلیں گے چاہے مرجائیں
٭٭٭
ہر شہید کی قبر پر ظفر پھولوں کا ہار ہے
سرخ و سفید رنگ پرچم فضاؤں کے لیے فخر ہے
ہمارے جد امجد ہر قدم پر ہمارے رہبر ہیں
آزادی کی راہ پر چلیں گے چاہے مر جائیں
٭٭٭
ظفر: پاک خون سے پھوٹا نیا پھول ہے
زندگی: مسلسل جاری جنگ و جدال ہے
ذمہ داری: وطن کے لیے جان نثاری ہے
آزادی کی راہ پر چلیں گے چاہے مرجائیں
اب ترکی زبان کے دیگر شعرائے کرام کے بعد ترکی ادب میں جذبہ آزادی کا درخشاں نمایندہ محمد عاکف ایرصوئے اور ان کی لاجواب نظم ترکی کے قومی ترانہ یعنی ترانہ آزادی کی طرف آتے ہیں۔ در اصل ترکی ادب میں جذبہ آزادی کے اظہار کے لیے کوئی اور نظم یا تحریر نہ بھی ہوتی تو ترکوں کے آزادی کے جذبے کی تشریح کے لئے ترکی قومی ترانہ کافی و شافی تھا۔ اب وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں ترکی کے ترانہ آزادی کے چند قطاعت پیش کرنا چاہوں گا جن کے لیے کسی تشریح کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ وہ اشعار اپنی تشریح بھی آپ ہیں: وہ فرماتے ہیں:{۱۳}
تُو مت ڈر! یہ ہمارا لال پرچم جو ہے وہ اِس شفق رنگ فضاء پر لہراتا رہے گا
جب تک اِس وطن کےآخری خاندان کا چراغِ حیات گل نہ ہوجائے گا
وہ پرچم میری قوم کا چمکتا ستارہ ہے وہ چمکتا ہی رہے گا
وہ میرا ہے اور میری قوم کا ہے اور یوں ہی رہے گا
٭٭٭
مت ہو خفا مجھ سے اے نخرے والے ہلال ! تجھ پہ قربان ہو، یہ جان میری
اِس غصہ اور جلال کا سبب کیا ہے؟میری بہادر قوم کے لیے مسکرا،ایک دفعہ ہی سہی
ور نہ اِس قوم کا لہو تیرے آزادی سے لہرانے کی خاطر جو بہہ گیا اس کی بخشش نہیں ہوگی
اللہ ذوالجلال کی ہی عبادت کرتی ہے میری قوم،میری قوم کا حق ہے مطلق آزادی
٭٭٭
از ل سے ابد تک آزاد تھامَیں، آزاد ہوں اور آزاد ہی رہوں گا
کہاں ہے وہ پاگل جو مجھے زنجیروں سے جکڑکر غلام بناسکے گا؟
دیوانہ وار بہنے والا سیلاب ہوں مَیں، تمام دیواریں توڑ کر رہوں گا
ٹکڑے ٹکڑے کرڈالوں گا پہاڑوں کو اور فضاؤں میں نہیں سمٹ پاؤں گا
٭٭٭
عام مٹی مت سمجھ جہاں بھی تُو قدم رکھتا ہے، اُس مٹی کی قدر بخوبی سمجھ لے
اُس کے تلے بے کفن سونے والے ہزاروں اولاد وطن کے بارے میں سوچ لے
تُو شہیدوں کی اولاد ہے، کبھی اپنے جدّ امجد کی روح کو مجروح نہ کردے
اِس جنت نظیر وطن کا سودا کبھی نہ کر ! چاہے دنیا جہان تجھے پیش کیا جائے
٭٭٭
کون ہے جو اِس جنت نظیر وطن پر قربان نہ جائے ! ایک ذرا بتادے
مُٹھی میں زور سے دبا تو دیکھ خاکِ وطن! اُس سے شہداء نکل آئیں گے
جان و جانان مجھ سے جدا کرے، جو بھی میرے پاس ہو وہ سب مجھ سے چھین لے
بس ایک دعا ہے میری اپنے رب سے! مجھے اپنے وطن سے جدا نہ کردے!
حوالے
- https://www.turkcenindirilisi.com/gokturkce/orhun-yazitlari-tam-metni-orhun-anitlari-tam-metin-turkce-gokturk-h98138.html
- Mustafa Kemal Ataturk, https://www.atam.gov.tr/nutuk/ya-istiklal-ya-olum
- Adem Calıskan, Namik Kemal’in Hurriyet Kasidesi ve Tahlili, The Journal of International Social Research, Vonume: 7, Issue: 31, pp. 85-86.
- Ibid, p. 98
- Ibid, p.91
- Ibid, p. 106
- Ibid, p. 98
- Ibid, p. 91
- Ibid, p. 101
- Ibid, p. 106
- Rıza Polat Akkoyunlu, https://www.bolgegundem.com/en-guzel-istiklal-marsi-siirleri-istiklal-marsi-siir-1240103h.htm
- Uluğ Turanli Oglu, https://www.bolgegundem.com/en-guzel-istiklal-marsi-siirleri-istiklal-marsi-siir-1240103h.htm
- خلیل طوقار۔محمد کامران، محمد اقبال اور محمد عاکف: دو عہدساز شاعر، ماورا، لاہور ۲۰۱۸، ص ۶۹۔۷۴
بہ شکریہ، الماس، تحقیقی مجلہ، شعبہ اردو، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیر پور