Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
استنبول سے حال ہی میں دنیا میں قوم پرستی کی مختلف تحریکوں کے جائزے پر مشتمل ایک ضخیم کتاب شائع ہوئی ہے جس
نام ہے”Milliyetçilik”{ملیتچی لک۔ یعنی قوم پرستی}۔ اس کتاب کو ترکی کے معروف محقق اور دانش ور پروفیسر ڈاکٹر توفیق ایردیم نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب گزشتہ ماہ یعنی مارچ 2020ء میں شائع ہو ئی۔ پر فیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود قومی تحریکیں بالفاظ دیگر قوم پرستی کی تحریکیں۔ ان کی تاریخی بنیادیں، شرائط، مقاصد اور اہداف، اس میں ترک قوم پرستی سے لے کر کُرد اور عرب قوم پرستی تک کی نہ صرف اسلامی ممالک میں بلکہ تمام دنیا میں پیدا ہونے والی قوم پرستی کی تحریکوں کا ذکر ہے۔ ہندو توا کی موجودہ تحریک کے پس منظر اور اغراض و مقاصد کے بارے میں ڈاکٹر خلیل طوقار کا ایک چشم کشا مقالہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری درخواست پر اپنے مقالے کا تعارف نما خاکہ ” آوازہ” کے لیے خصوصی طور پر قلم بند فرمایا ہے جس کے لیے ادارہ ان کا شکر گزار ہے اور اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ ذیل میں اس مقالے خلاصہ جو ڈاکٹر کی تحریر ہے۔
******
ہندتو: ہندو قوم پرستی
دراصل میں کافی عرصے سے مسئلہء کشمیر پر تحقیق کرتے کرتے اسی نتیجے پر پہنچ گیا تھا کہ یہ مسئلہ محض ایک سیاسی، جغرافیائی اور ملکی مفادات کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اس مسئلہ کی بنیاد میں ہندو مذہبی انتہاپسندی اور فسطائیت ہے، کیوں کہ کشمیر کی جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت سے لے کر جموں و کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ تک کےطویل عرصے میں ڈوگرہ خاندان کے مسلمانوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک ہے اس کی بنیاد مسلمانوں سے نفرت پر ہے۔ اور اس نفرت کا اطلاق محض ایک خاندان پر نہیں بلکہ ہندو مذہب کے ان تمام پیرووں پر ہوسکتا ہے جن کا اعتقاد مذہب کی حدود پار کرکے ایک فسطائی سیاسی مطمح نظر کی صورت اختیار کرگیا ہے۔
لہذا میں تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے ترکی میں یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ بھارت کی فوج اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے جموں کشمیر میں جو ظم ہوا ہے اور مسلسل مظالم ہورہے ہیں، ان کی وجہ ایک ملک یعنی ہندوستان سے علیحدگی پسند ایک قوم یعنی کشمیری قوم کی مسلح جد و جہد کے غیر متوقع نتائج نہیں بلکہ ایک قوم کی جد و جہد آزادی ہے جس کا ملک ایک ایسی غیرمذہب طاقت کے قبضے میں ہے اور یہ غیرمذہب طاقت کے ظالمانہ سلوک کی بنیاد میں مذہبی فسطائیت نمایاں ہے۔
میرے اس مقالے یا قوم پرستی کے عنوان کی اس تصنیف کے باب میں نہ ہندوؤں کی اور نہ ہی ہندومت پر نکتہ چینی یا اس کی مذمت ہے۔ میں اس مضمون میں اس نکتہ کی جانب توجہ دلارہا ہوں کہ اگر ایک مذہب جس کے ذات پات کے نظام نے اس کے اپنے پیرووں کو سماجی طبقاتی دیواروں کے اندر جکڑ کر رکھا ہے اور اس مذہب کے ایک ایسے طبقہ جو اچھوت کہلاتا ہے کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا ہے اور کررہا ہے۔ اس سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ جنھیں وہ اجنبی ظالم طاقت کی نظر سے دیکھتے ہیں پر برابری اور رحم و تحمل کا سلوک کرے۔
ہندتو کی بیناد میں غیر سے نفرت ہے۔ اس غیر میں مسلمان بھی ہے عیسائی بھی ہے، انگریز بھی ہے، عرب بھی ہے ترک بھی ہے۔ یعنی وہ تمام افراد اورقومیں ہیں جو ہندوستان میں فاتح بن کر آئی ہیں۔ ہندتو کے پیرووں میں یہ نفرت پہلے دشمنی اور پھر طاقت پکڑنے پر اپنے خیالی دشمن کو نیست و نابود کرنے کے مرحلے تک پہنچ گئی ہے۔
جموں کشمیر میں جو دیکھ رہے ہیں وہ یہی نفرت ہے، سکھوں اور عیسائیوں کے ساتھ جو بے رحم سلوک بھارت میں ہے اسی فسطائی انتہاپسندی اور مذہبی جنون کا نتیجہ ہے اور بالخصوص مسلمانان ہند کے ساتھ موجودہ دور میں جو ناجائز سلوک روا کیا جاتا ہے اس کے پس پردہ ہندتوکے یہی فسطائی عزائم ہیں۔
میرا مقالہ یا قوم پرستی نامی کتاب کا باب جو ہے اس میں ہندتو کی مذہبی بنیادیں بالخصوص ذات پات کا نظام اور دلت قوم کے ساتھ روا کئے جانے والے تفریقی اور ظلم و ستم سے لے کر اس فسطائی مذہبی اور سیاسی مطمح نظر کے تاریخی مراحل، بیسویں صدی کے شروع سے لے کر ہیٹلر اور مسولینی جیسے یورپ کے فسطائیت کے علمبرداروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس انتہاپسندتحریک کی ترقی اور نفرت کی اس تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرقہ واریت کو اقتدار تک پہنچنے اور اپنے اقتدار کو محکم بنانے کے وسیلے بنانے والی بھارت کی فسطائی پارٹیوں اور تنظیموں کا ذکر ہے۔ پھر لو جہاد سے لے کر گاورکھشا تک مذہب کو استعمال کرکے مسلمانوں سے نفرت کی علمبرداری کرنے والی بی جے پی، آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جیسی سیاسی تنظیموں پر خاص توجہ دی ہوئی ہے۔
استنبول سے حال ہی میں دنیا میں قوم پرستی کی مختلف تحریکوں کے جائزے پر مشتمل ایک ضخیم کتاب شائع ہوئی ہے جس
نام ہے”Milliyetçilik”{ملیتچی لک۔ یعنی قوم پرستی}۔ اس کتاب کو ترکی کے معروف محقق اور دانش ور پروفیسر ڈاکٹر توفیق ایردیم نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب گزشتہ ماہ یعنی مارچ 2020ء میں شائع ہو ئی۔ پر فیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود قومی تحریکیں بالفاظ دیگر قوم پرستی کی تحریکیں۔ ان کی تاریخی بنیادیں، شرائط، مقاصد اور اہداف، اس میں ترک قوم پرستی سے لے کر کُرد اور عرب قوم پرستی تک کی نہ صرف اسلامی ممالک میں بلکہ تمام دنیا میں پیدا ہونے والی قوم پرستی کی تحریکوں کا ذکر ہے۔ ہندو توا کی موجودہ تحریک کے پس منظر اور اغراض و مقاصد کے بارے میں ڈاکٹر خلیل طوقار کا ایک چشم کشا مقالہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری درخواست پر اپنے مقالے کا تعارف نما خاکہ ” آوازہ” کے لیے خصوصی طور پر قلم بند فرمایا ہے جس کے لیے ادارہ ان کا شکر گزار ہے اور اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ ذیل میں اس مقالے خلاصہ جو ڈاکٹر کی تحریر ہے۔
******
ہندتو: ہندو قوم پرستی
دراصل میں کافی عرصے سے مسئلہء کشمیر پر تحقیق کرتے کرتے اسی نتیجے پر پہنچ گیا تھا کہ یہ مسئلہ محض ایک سیاسی، جغرافیائی اور ملکی مفادات کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اس مسئلہ کی بنیاد میں ہندو مذہبی انتہاپسندی اور فسطائیت ہے، کیوں کہ کشمیر کی جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت سے لے کر جموں و کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ تک کےطویل عرصے میں ڈوگرہ خاندان کے مسلمانوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک ہے اس کی بنیاد مسلمانوں سے نفرت پر ہے۔ اور اس نفرت کا اطلاق محض ایک خاندان پر نہیں بلکہ ہندو مذہب کے ان تمام پیرووں پر ہوسکتا ہے جن کا اعتقاد مذہب کی حدود پار کرکے ایک فسطائی سیاسی مطمح نظر کی صورت اختیار کرگیا ہے۔
لہذا میں تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے ترکی میں یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ بھارت کی فوج اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے جموں کشمیر میں جو ظم ہوا ہے اور مسلسل مظالم ہورہے ہیں، ان کی وجہ ایک ملک یعنی ہندوستان سے علیحدگی پسند ایک قوم یعنی کشمیری قوم کی مسلح جد و جہد کے غیر متوقع نتائج نہیں بلکہ ایک قوم کی جد و جہد آزادی ہے جس کا ملک ایک ایسی غیرمذہب طاقت کے قبضے میں ہے اور یہ غیرمذہب طاقت کے ظالمانہ سلوک کی بنیاد میں مذہبی فسطائیت نمایاں ہے۔
میرے اس مقالے یا قوم پرستی کے عنوان کی اس تصنیف کے باب میں نہ ہندوؤں کی اور نہ ہی ہندومت پر نکتہ چینی یا اس کی مذمت ہے۔ میں اس مضمون میں اس نکتہ کی جانب توجہ دلارہا ہوں کہ اگر ایک مذہب جس کے ذات پات کے نظام نے اس کے اپنے پیرووں کو سماجی طبقاتی دیواروں کے اندر جکڑ کر رکھا ہے اور اس مذہب کے ایک ایسے طبقہ جو اچھوت کہلاتا ہے کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا ہے اور کررہا ہے۔ اس سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ جنھیں وہ اجنبی ظالم طاقت کی نظر سے دیکھتے ہیں پر برابری اور رحم و تحمل کا سلوک کرے۔
ہندتو کی بیناد میں غیر سے نفرت ہے۔ اس غیر میں مسلمان بھی ہے عیسائی بھی ہے، انگریز بھی ہے، عرب بھی ہے ترک بھی ہے۔ یعنی وہ تمام افراد اورقومیں ہیں جو ہندوستان میں فاتح بن کر آئی ہیں۔ ہندتو کے پیرووں میں یہ نفرت پہلے دشمنی اور پھر طاقت پکڑنے پر اپنے خیالی دشمن کو نیست و نابود کرنے کے مرحلے تک پہنچ گئی ہے۔
جموں کشمیر میں جو دیکھ رہے ہیں وہ یہی نفرت ہے، سکھوں اور عیسائیوں کے ساتھ جو بے رحم سلوک بھارت میں ہے اسی فسطائی انتہاپسندی اور مذہبی جنون کا نتیجہ ہے اور بالخصوص مسلمانان ہند کے ساتھ موجودہ دور میں جو ناجائز سلوک روا کیا جاتا ہے اس کے پس پردہ ہندتوکے یہی فسطائی عزائم ہیں۔
میرا مقالہ یا قوم پرستی نامی کتاب کا باب جو ہے اس میں ہندتو کی مذہبی بنیادیں بالخصوص ذات پات کا نظام اور دلت قوم کے ساتھ روا کئے جانے والے تفریقی اور ظلم و ستم سے لے کر اس فسطائی مذہبی اور سیاسی مطمح نظر کے تاریخی مراحل، بیسویں صدی کے شروع سے لے کر ہیٹلر اور مسولینی جیسے یورپ کے فسطائیت کے علمبرداروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس انتہاپسندتحریک کی ترقی اور نفرت کی اس تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرقہ واریت کو اقتدار تک پہنچنے اور اپنے اقتدار کو محکم بنانے کے وسیلے بنانے والی بھارت کی فسطائی پارٹیوں اور تنظیموں کا ذکر ہے۔ پھر لو جہاد سے لے کر گاورکھشا تک مذہب کو استعمال کرکے مسلمانوں سے نفرت کی علمبرداری کرنے والی بی جے پی، آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جیسی سیاسی تنظیموں پر خاص توجہ دی ہوئی ہے۔
استنبول سے حال ہی میں دنیا میں قوم پرستی کی مختلف تحریکوں کے جائزے پر مشتمل ایک ضخیم کتاب شائع ہوئی ہے جس
نام ہے”Milliyetçilik”{ملیتچی لک۔ یعنی قوم پرستی}۔ اس کتاب کو ترکی کے معروف محقق اور دانش ور پروفیسر ڈاکٹر توفیق ایردیم نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب گزشتہ ماہ یعنی مارچ 2020ء میں شائع ہو ئی۔ پر فیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود قومی تحریکیں بالفاظ دیگر قوم پرستی کی تحریکیں۔ ان کی تاریخی بنیادیں، شرائط، مقاصد اور اہداف، اس میں ترک قوم پرستی سے لے کر کُرد اور عرب قوم پرستی تک کی نہ صرف اسلامی ممالک میں بلکہ تمام دنیا میں پیدا ہونے والی قوم پرستی کی تحریکوں کا ذکر ہے۔ ہندو توا کی موجودہ تحریک کے پس منظر اور اغراض و مقاصد کے بارے میں ڈاکٹر خلیل طوقار کا ایک چشم کشا مقالہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری درخواست پر اپنے مقالے کا تعارف نما خاکہ ” آوازہ” کے لیے خصوصی طور پر قلم بند فرمایا ہے جس کے لیے ادارہ ان کا شکر گزار ہے اور اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ ذیل میں اس مقالے خلاصہ جو ڈاکٹر کی تحریر ہے۔
******
ہندتو: ہندو قوم پرستی
دراصل میں کافی عرصے سے مسئلہء کشمیر پر تحقیق کرتے کرتے اسی نتیجے پر پہنچ گیا تھا کہ یہ مسئلہ محض ایک سیاسی، جغرافیائی اور ملکی مفادات کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اس مسئلہ کی بنیاد میں ہندو مذہبی انتہاپسندی اور فسطائیت ہے، کیوں کہ کشمیر کی جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت سے لے کر جموں و کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ تک کےطویل عرصے میں ڈوگرہ خاندان کے مسلمانوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک ہے اس کی بنیاد مسلمانوں سے نفرت پر ہے۔ اور اس نفرت کا اطلاق محض ایک خاندان پر نہیں بلکہ ہندو مذہب کے ان تمام پیرووں پر ہوسکتا ہے جن کا اعتقاد مذہب کی حدود پار کرکے ایک فسطائی سیاسی مطمح نظر کی صورت اختیار کرگیا ہے۔
لہذا میں تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے ترکی میں یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ بھارت کی فوج اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے جموں کشمیر میں جو ظم ہوا ہے اور مسلسل مظالم ہورہے ہیں، ان کی وجہ ایک ملک یعنی ہندوستان سے علیحدگی پسند ایک قوم یعنی کشمیری قوم کی مسلح جد و جہد کے غیر متوقع نتائج نہیں بلکہ ایک قوم کی جد و جہد آزادی ہے جس کا ملک ایک ایسی غیرمذہب طاقت کے قبضے میں ہے اور یہ غیرمذہب طاقت کے ظالمانہ سلوک کی بنیاد میں مذہبی فسطائیت نمایاں ہے۔
میرے اس مقالے یا قوم پرستی کے عنوان کی اس تصنیف کے باب میں نہ ہندوؤں کی اور نہ ہی ہندومت پر نکتہ چینی یا اس کی مذمت ہے۔ میں اس مضمون میں اس نکتہ کی جانب توجہ دلارہا ہوں کہ اگر ایک مذہب جس کے ذات پات کے نظام نے اس کے اپنے پیرووں کو سماجی طبقاتی دیواروں کے اندر جکڑ کر رکھا ہے اور اس مذہب کے ایک ایسے طبقہ جو اچھوت کہلاتا ہے کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا ہے اور کررہا ہے۔ اس سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ جنھیں وہ اجنبی ظالم طاقت کی نظر سے دیکھتے ہیں پر برابری اور رحم و تحمل کا سلوک کرے۔
ہندتو کی بیناد میں غیر سے نفرت ہے۔ اس غیر میں مسلمان بھی ہے عیسائی بھی ہے، انگریز بھی ہے، عرب بھی ہے ترک بھی ہے۔ یعنی وہ تمام افراد اورقومیں ہیں جو ہندوستان میں فاتح بن کر آئی ہیں۔ ہندتو کے پیرووں میں یہ نفرت پہلے دشمنی اور پھر طاقت پکڑنے پر اپنے خیالی دشمن کو نیست و نابود کرنے کے مرحلے تک پہنچ گئی ہے۔
جموں کشمیر میں جو دیکھ رہے ہیں وہ یہی نفرت ہے، سکھوں اور عیسائیوں کے ساتھ جو بے رحم سلوک بھارت میں ہے اسی فسطائی انتہاپسندی اور مذہبی جنون کا نتیجہ ہے اور بالخصوص مسلمانان ہند کے ساتھ موجودہ دور میں جو ناجائز سلوک روا کیا جاتا ہے اس کے پس پردہ ہندتوکے یہی فسطائی عزائم ہیں۔
میرا مقالہ یا قوم پرستی نامی کتاب کا باب جو ہے اس میں ہندتو کی مذہبی بنیادیں بالخصوص ذات پات کا نظام اور دلت قوم کے ساتھ روا کئے جانے والے تفریقی اور ظلم و ستم سے لے کر اس فسطائی مذہبی اور سیاسی مطمح نظر کے تاریخی مراحل، بیسویں صدی کے شروع سے لے کر ہیٹلر اور مسولینی جیسے یورپ کے فسطائیت کے علمبرداروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس انتہاپسندتحریک کی ترقی اور نفرت کی اس تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرقہ واریت کو اقتدار تک پہنچنے اور اپنے اقتدار کو محکم بنانے کے وسیلے بنانے والی بھارت کی فسطائی پارٹیوں اور تنظیموں کا ذکر ہے۔ پھر لو جہاد سے لے کر گاورکھشا تک مذہب کو استعمال کرکے مسلمانوں سے نفرت کی علمبرداری کرنے والی بی جے پی، آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جیسی سیاسی تنظیموں پر خاص توجہ دی ہوئی ہے۔
استنبول سے حال ہی میں دنیا میں قوم پرستی کی مختلف تحریکوں کے جائزے پر مشتمل ایک ضخیم کتاب شائع ہوئی ہے جس
نام ہے”Milliyetçilik”{ملیتچی لک۔ یعنی قوم پرستی}۔ اس کتاب کو ترکی کے معروف محقق اور دانش ور پروفیسر ڈاکٹر توفیق ایردیم نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب گزشتہ ماہ یعنی مارچ 2020ء میں شائع ہو ئی۔ پر فیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود قومی تحریکیں بالفاظ دیگر قوم پرستی کی تحریکیں۔ ان کی تاریخی بنیادیں، شرائط، مقاصد اور اہداف، اس میں ترک قوم پرستی سے لے کر کُرد اور عرب قوم پرستی تک کی نہ صرف اسلامی ممالک میں بلکہ تمام دنیا میں پیدا ہونے والی قوم پرستی کی تحریکوں کا ذکر ہے۔ ہندو توا کی موجودہ تحریک کے پس منظر اور اغراض و مقاصد کے بارے میں ڈاکٹر خلیل طوقار کا ایک چشم کشا مقالہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری درخواست پر اپنے مقالے کا تعارف نما خاکہ ” آوازہ” کے لیے خصوصی طور پر قلم بند فرمایا ہے جس کے لیے ادارہ ان کا شکر گزار ہے اور اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ ذیل میں اس مقالے خلاصہ جو ڈاکٹر کی تحریر ہے۔
******
ہندتو: ہندو قوم پرستی
دراصل میں کافی عرصے سے مسئلہء کشمیر پر تحقیق کرتے کرتے اسی نتیجے پر پہنچ گیا تھا کہ یہ مسئلہ محض ایک سیاسی، جغرافیائی اور ملکی مفادات کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اس مسئلہ کی بنیاد میں ہندو مذہبی انتہاپسندی اور فسطائیت ہے، کیوں کہ کشمیر کی جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت سے لے کر جموں و کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ تک کےطویل عرصے میں ڈوگرہ خاندان کے مسلمانوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک ہے اس کی بنیاد مسلمانوں سے نفرت پر ہے۔ اور اس نفرت کا اطلاق محض ایک خاندان پر نہیں بلکہ ہندو مذہب کے ان تمام پیرووں پر ہوسکتا ہے جن کا اعتقاد مذہب کی حدود پار کرکے ایک فسطائی سیاسی مطمح نظر کی صورت اختیار کرگیا ہے۔
لہذا میں تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے ترکی میں یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ بھارت کی فوج اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے جموں کشمیر میں جو ظم ہوا ہے اور مسلسل مظالم ہورہے ہیں، ان کی وجہ ایک ملک یعنی ہندوستان سے علیحدگی پسند ایک قوم یعنی کشمیری قوم کی مسلح جد و جہد کے غیر متوقع نتائج نہیں بلکہ ایک قوم کی جد و جہد آزادی ہے جس کا ملک ایک ایسی غیرمذہب طاقت کے قبضے میں ہے اور یہ غیرمذہب طاقت کے ظالمانہ سلوک کی بنیاد میں مذہبی فسطائیت نمایاں ہے۔
میرے اس مقالے یا قوم پرستی کے عنوان کی اس تصنیف کے باب میں نہ ہندوؤں کی اور نہ ہی ہندومت پر نکتہ چینی یا اس کی مذمت ہے۔ میں اس مضمون میں اس نکتہ کی جانب توجہ دلارہا ہوں کہ اگر ایک مذہب جس کے ذات پات کے نظام نے اس کے اپنے پیرووں کو سماجی طبقاتی دیواروں کے اندر جکڑ کر رکھا ہے اور اس مذہب کے ایک ایسے طبقہ جو اچھوت کہلاتا ہے کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا ہے اور کررہا ہے۔ اس سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ جنھیں وہ اجنبی ظالم طاقت کی نظر سے دیکھتے ہیں پر برابری اور رحم و تحمل کا سلوک کرے۔
ہندتو کی بیناد میں غیر سے نفرت ہے۔ اس غیر میں مسلمان بھی ہے عیسائی بھی ہے، انگریز بھی ہے، عرب بھی ہے ترک بھی ہے۔ یعنی وہ تمام افراد اورقومیں ہیں جو ہندوستان میں فاتح بن کر آئی ہیں۔ ہندتو کے پیرووں میں یہ نفرت پہلے دشمنی اور پھر طاقت پکڑنے پر اپنے خیالی دشمن کو نیست و نابود کرنے کے مرحلے تک پہنچ گئی ہے۔
جموں کشمیر میں جو دیکھ رہے ہیں وہ یہی نفرت ہے، سکھوں اور عیسائیوں کے ساتھ جو بے رحم سلوک بھارت میں ہے اسی فسطائی انتہاپسندی اور مذہبی جنون کا نتیجہ ہے اور بالخصوص مسلمانان ہند کے ساتھ موجودہ دور میں جو ناجائز سلوک روا کیا جاتا ہے اس کے پس پردہ ہندتوکے یہی فسطائی عزائم ہیں۔
میرا مقالہ یا قوم پرستی نامی کتاب کا باب جو ہے اس میں ہندتو کی مذہبی بنیادیں بالخصوص ذات پات کا نظام اور دلت قوم کے ساتھ روا کئے جانے والے تفریقی اور ظلم و ستم سے لے کر اس فسطائی مذہبی اور سیاسی مطمح نظر کے تاریخی مراحل، بیسویں صدی کے شروع سے لے کر ہیٹلر اور مسولینی جیسے یورپ کے فسطائیت کے علمبرداروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس انتہاپسندتحریک کی ترقی اور نفرت کی اس تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرقہ واریت کو اقتدار تک پہنچنے اور اپنے اقتدار کو محکم بنانے کے وسیلے بنانے والی بھارت کی فسطائی پارٹیوں اور تنظیموں کا ذکر ہے۔ پھر لو جہاد سے لے کر گاورکھشا تک مذہب کو استعمال کرکے مسلمانوں سے نفرت کی علمبرداری کرنے والی بی جے پی، آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جیسی سیاسی تنظیموں پر خاص توجہ دی ہوئی ہے۔