Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
بمبئی کے اس پتلے دبلے سانولے سے شرمیلے توتلے لڑکے کا خواب ڈاکٹروں کا سفید کوٹ تھا یہ لڑکا تتلاہٹ کا شکار تھا جب بولتا تو سننے والے کے لبوں سے مسکراہٹ دوڑنے لگتی،سنجیدہ مزاج لوگوں کے چہروں پر بیزاری کے آثار آجاتے کہ وقت ضائع ہو رہا ہے منچلے اس پر ہکلے اور توتلے کی پھبتیاں کستے کوئی کہتا پہلے گیئر باکس ٹھیک کروا لو بار با گیئر پھنس جاتے ہیں کوئی کہتا قسطوں میں باتیں کرتا ہے ۔۔۔ اس کے باوجود یہ لڑکا کسی کمپلکس کا شکار نہیں ہوا اس نے دن رات محنت کی اور اپنی منزل پالی وہ سرجن ڈاکٹر بن گیا اب اسکے سامنے سوسائٹی میں ایک بلند مقام تھا آسودہ زندگی تھی وہ اس خوشحال زندگی کی جانب بڑھنےکو تھا کہ تقابل ادیان کے احمد دیدات کی جانب بڑھ گیا اور پھر سفید کوٹ کہیں پیچھے رہ گیا ہاں اس نے علاج معالجے سے ناطہ نہیں توڑا لیکن اب اسکے علاج کی نوعیت بدل چکی تھی وہ عقیدت میں ملفوف مکر اور فریب کی سرجری کرنے لگا وہ بیمار جسموں کا علاج کرتے کرتے مضطرب روحوں کا علاج کرنے لگا ہم اسے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نام سے جانتے ہیں
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے 1991 میں تقابل ادیان اور تبلیغ کی طرف مائل ہوئے اور اپنے مدلل انداز بیاں سے مقبول ہوتے چلے گئے ایک عجیب بات یہ کہ جب وہ پہلی بار تقریر کرنے اسٹیج پر آئے تو حیرت انگیز طور پر انکی لکنت ختم ہو گئی اور پھر پلٹ کر نہیں آئی ان کا انداز بیاں دلشنیں نہیں ہے ان کے پاس خوبصوت الفاظ ہیں نہ لہجے کے زیروبم سے وہ سامعین ناظرین کو ہپناٹائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہاں وہ جس انداز سے دلیل لاتے ہیں اسکا جواب مشکل سے کسی کے پاس ہوتا ہے اور یہی انکی انفرادیت ہے وہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے سربراہ اور انکی سربراہی میں PEACE TV کافی مقبول رہا ہے۔
ان کے بیانات سننے ہزاروں کی تعداد میں لوگ آیا کرتے تھے اور لائیو نشریات میں ان کی گفتگو سے متاثر ہو کر کلمہ ء شہادت پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے تھے کچھ فقہی معاملات میں ان کے موقف نے شیعہ اور بریلوی حضرات کو ان کے خلاف کردیا کراچی کے در و دیوار پر انکے خلاف نعروں سے رنگ گئے 2015 میں ملنے والے شاہ فیصل ایوارڈ نے اس خلیج میں اور اضافہ کردیا اور ان پر وہابیت کی مہر لگانے کی کوشش کی گئی۔
بھارت میں مودی حکومت آئی تو ذاکر نائک کے لئے مشکلات بڑھ گئیں انہیں بھارت سے نکل جانا پڑا آج کل وہ ملائیشیا میں رہائش پذیر ہیں اور بی بی سی کے مطابق ملائیشیا کے مسلمان انہیں کسی اوتار دیوتا کی طرح مانتے ہیں
ذاکر نائیک پر ۤج بھارت میں مقدمات درج ہیں کچھ عرصہ پہلے مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی حمائت کے بدلے مقدمات ختم کرنے کی پیشکش کی تھی جسے ذاکر نائیک نے ٹھکرا دیا
ڈاکٹر ذاکر نائیک اب تقاریر نہیں کرتے ان پر پابندی ہے لیکن ان کی مقبولیت ابھی بھی برقرار ہے اسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ کبھی درباری نہیں رہے انہوں نے کسی شاہ کی مدح سرائی نہیں کی اور کبھی کوئی بات کہی تو دلیل بھی دی ان سے غلطیاں بھی ہوئیں غیرمحتاط بیانات بھی دیئے جس پر انہیں معافی بھی مانگنی پڑی۔
یہاں ان کی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ غیر محسوس طریقے سے اس ایریا میں داخل ہوتے دکھائی دیتے ہیں جہاں اختلافات کی دلدل کسی کو بھی لینے کے لئے موجود ہوتی ہے ڈاکٹر زاکر نائیک ان اختلافات سے فاصلہ رکھتے تو آج ہم سب ان سے استفادہ کر رہے ہوتے ان کے تقابل ادیان کا انداز ان کا مطالعہ اور یاداشت واقعتاً بندے کو حیرت میں ڈال دیتی ہے فی الوقت تو مودی سرکار انہیں جیل میں ڈالنے کے لئے باؤلی ہوئی جارہی ہے ۔
بمبئی کے اس پتلے دبلے سانولے سے شرمیلے توتلے لڑکے کا خواب ڈاکٹروں کا سفید کوٹ تھا یہ لڑکا تتلاہٹ کا شکار تھا جب بولتا تو سننے والے کے لبوں سے مسکراہٹ دوڑنے لگتی،سنجیدہ مزاج لوگوں کے چہروں پر بیزاری کے آثار آجاتے کہ وقت ضائع ہو رہا ہے منچلے اس پر ہکلے اور توتلے کی پھبتیاں کستے کوئی کہتا پہلے گیئر باکس ٹھیک کروا لو بار با گیئر پھنس جاتے ہیں کوئی کہتا قسطوں میں باتیں کرتا ہے ۔۔۔ اس کے باوجود یہ لڑکا کسی کمپلکس کا شکار نہیں ہوا اس نے دن رات محنت کی اور اپنی منزل پالی وہ سرجن ڈاکٹر بن گیا اب اسکے سامنے سوسائٹی میں ایک بلند مقام تھا آسودہ زندگی تھی وہ اس خوشحال زندگی کی جانب بڑھنےکو تھا کہ تقابل ادیان کے احمد دیدات کی جانب بڑھ گیا اور پھر سفید کوٹ کہیں پیچھے رہ گیا ہاں اس نے علاج معالجے سے ناطہ نہیں توڑا لیکن اب اسکے علاج کی نوعیت بدل چکی تھی وہ عقیدت میں ملفوف مکر اور فریب کی سرجری کرنے لگا وہ بیمار جسموں کا علاج کرتے کرتے مضطرب روحوں کا علاج کرنے لگا ہم اسے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نام سے جانتے ہیں
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے 1991 میں تقابل ادیان اور تبلیغ کی طرف مائل ہوئے اور اپنے مدلل انداز بیاں سے مقبول ہوتے چلے گئے ایک عجیب بات یہ کہ جب وہ پہلی بار تقریر کرنے اسٹیج پر آئے تو حیرت انگیز طور پر انکی لکنت ختم ہو گئی اور پھر پلٹ کر نہیں آئی ان کا انداز بیاں دلشنیں نہیں ہے ان کے پاس خوبصوت الفاظ ہیں نہ لہجے کے زیروبم سے وہ سامعین ناظرین کو ہپناٹائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہاں وہ جس انداز سے دلیل لاتے ہیں اسکا جواب مشکل سے کسی کے پاس ہوتا ہے اور یہی انکی انفرادیت ہے وہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے سربراہ اور انکی سربراہی میں PEACE TV کافی مقبول رہا ہے۔
ان کے بیانات سننے ہزاروں کی تعداد میں لوگ آیا کرتے تھے اور لائیو نشریات میں ان کی گفتگو سے متاثر ہو کر کلمہ ء شہادت پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے تھے کچھ فقہی معاملات میں ان کے موقف نے شیعہ اور بریلوی حضرات کو ان کے خلاف کردیا کراچی کے در و دیوار پر انکے خلاف نعروں سے رنگ گئے 2015 میں ملنے والے شاہ فیصل ایوارڈ نے اس خلیج میں اور اضافہ کردیا اور ان پر وہابیت کی مہر لگانے کی کوشش کی گئی۔
بھارت میں مودی حکومت آئی تو ذاکر نائک کے لئے مشکلات بڑھ گئیں انہیں بھارت سے نکل جانا پڑا آج کل وہ ملائیشیا میں رہائش پذیر ہیں اور بی بی سی کے مطابق ملائیشیا کے مسلمان انہیں کسی اوتار دیوتا کی طرح مانتے ہیں
ذاکر نائیک پر ۤج بھارت میں مقدمات درج ہیں کچھ عرصہ پہلے مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی حمائت کے بدلے مقدمات ختم کرنے کی پیشکش کی تھی جسے ذاکر نائیک نے ٹھکرا دیا
ڈاکٹر ذاکر نائیک اب تقاریر نہیں کرتے ان پر پابندی ہے لیکن ان کی مقبولیت ابھی بھی برقرار ہے اسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ کبھی درباری نہیں رہے انہوں نے کسی شاہ کی مدح سرائی نہیں کی اور کبھی کوئی بات کہی تو دلیل بھی دی ان سے غلطیاں بھی ہوئیں غیرمحتاط بیانات بھی دیئے جس پر انہیں معافی بھی مانگنی پڑی۔
یہاں ان کی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ غیر محسوس طریقے سے اس ایریا میں داخل ہوتے دکھائی دیتے ہیں جہاں اختلافات کی دلدل کسی کو بھی لینے کے لئے موجود ہوتی ہے ڈاکٹر زاکر نائیک ان اختلافات سے فاصلہ رکھتے تو آج ہم سب ان سے استفادہ کر رہے ہوتے ان کے تقابل ادیان کا انداز ان کا مطالعہ اور یاداشت واقعتاً بندے کو حیرت میں ڈال دیتی ہے فی الوقت تو مودی سرکار انہیں جیل میں ڈالنے کے لئے باؤلی ہوئی جارہی ہے ۔
بمبئی کے اس پتلے دبلے سانولے سے شرمیلے توتلے لڑکے کا خواب ڈاکٹروں کا سفید کوٹ تھا یہ لڑکا تتلاہٹ کا شکار تھا جب بولتا تو سننے والے کے لبوں سے مسکراہٹ دوڑنے لگتی،سنجیدہ مزاج لوگوں کے چہروں پر بیزاری کے آثار آجاتے کہ وقت ضائع ہو رہا ہے منچلے اس پر ہکلے اور توتلے کی پھبتیاں کستے کوئی کہتا پہلے گیئر باکس ٹھیک کروا لو بار با گیئر پھنس جاتے ہیں کوئی کہتا قسطوں میں باتیں کرتا ہے ۔۔۔ اس کے باوجود یہ لڑکا کسی کمپلکس کا شکار نہیں ہوا اس نے دن رات محنت کی اور اپنی منزل پالی وہ سرجن ڈاکٹر بن گیا اب اسکے سامنے سوسائٹی میں ایک بلند مقام تھا آسودہ زندگی تھی وہ اس خوشحال زندگی کی جانب بڑھنےکو تھا کہ تقابل ادیان کے احمد دیدات کی جانب بڑھ گیا اور پھر سفید کوٹ کہیں پیچھے رہ گیا ہاں اس نے علاج معالجے سے ناطہ نہیں توڑا لیکن اب اسکے علاج کی نوعیت بدل چکی تھی وہ عقیدت میں ملفوف مکر اور فریب کی سرجری کرنے لگا وہ بیمار جسموں کا علاج کرتے کرتے مضطرب روحوں کا علاج کرنے لگا ہم اسے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نام سے جانتے ہیں
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے 1991 میں تقابل ادیان اور تبلیغ کی طرف مائل ہوئے اور اپنے مدلل انداز بیاں سے مقبول ہوتے چلے گئے ایک عجیب بات یہ کہ جب وہ پہلی بار تقریر کرنے اسٹیج پر آئے تو حیرت انگیز طور پر انکی لکنت ختم ہو گئی اور پھر پلٹ کر نہیں آئی ان کا انداز بیاں دلشنیں نہیں ہے ان کے پاس خوبصوت الفاظ ہیں نہ لہجے کے زیروبم سے وہ سامعین ناظرین کو ہپناٹائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہاں وہ جس انداز سے دلیل لاتے ہیں اسکا جواب مشکل سے کسی کے پاس ہوتا ہے اور یہی انکی انفرادیت ہے وہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے سربراہ اور انکی سربراہی میں PEACE TV کافی مقبول رہا ہے۔
ان کے بیانات سننے ہزاروں کی تعداد میں لوگ آیا کرتے تھے اور لائیو نشریات میں ان کی گفتگو سے متاثر ہو کر کلمہ ء شہادت پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے تھے کچھ فقہی معاملات میں ان کے موقف نے شیعہ اور بریلوی حضرات کو ان کے خلاف کردیا کراچی کے در و دیوار پر انکے خلاف نعروں سے رنگ گئے 2015 میں ملنے والے شاہ فیصل ایوارڈ نے اس خلیج میں اور اضافہ کردیا اور ان پر وہابیت کی مہر لگانے کی کوشش کی گئی۔
بھارت میں مودی حکومت آئی تو ذاکر نائک کے لئے مشکلات بڑھ گئیں انہیں بھارت سے نکل جانا پڑا آج کل وہ ملائیشیا میں رہائش پذیر ہیں اور بی بی سی کے مطابق ملائیشیا کے مسلمان انہیں کسی اوتار دیوتا کی طرح مانتے ہیں
ذاکر نائیک پر ۤج بھارت میں مقدمات درج ہیں کچھ عرصہ پہلے مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی حمائت کے بدلے مقدمات ختم کرنے کی پیشکش کی تھی جسے ذاکر نائیک نے ٹھکرا دیا
ڈاکٹر ذاکر نائیک اب تقاریر نہیں کرتے ان پر پابندی ہے لیکن ان کی مقبولیت ابھی بھی برقرار ہے اسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ کبھی درباری نہیں رہے انہوں نے کسی شاہ کی مدح سرائی نہیں کی اور کبھی کوئی بات کہی تو دلیل بھی دی ان سے غلطیاں بھی ہوئیں غیرمحتاط بیانات بھی دیئے جس پر انہیں معافی بھی مانگنی پڑی۔
یہاں ان کی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ غیر محسوس طریقے سے اس ایریا میں داخل ہوتے دکھائی دیتے ہیں جہاں اختلافات کی دلدل کسی کو بھی لینے کے لئے موجود ہوتی ہے ڈاکٹر زاکر نائیک ان اختلافات سے فاصلہ رکھتے تو آج ہم سب ان سے استفادہ کر رہے ہوتے ان کے تقابل ادیان کا انداز ان کا مطالعہ اور یاداشت واقعتاً بندے کو حیرت میں ڈال دیتی ہے فی الوقت تو مودی سرکار انہیں جیل میں ڈالنے کے لئے باؤلی ہوئی جارہی ہے ۔
بمبئی کے اس پتلے دبلے سانولے سے شرمیلے توتلے لڑکے کا خواب ڈاکٹروں کا سفید کوٹ تھا یہ لڑکا تتلاہٹ کا شکار تھا جب بولتا تو سننے والے کے لبوں سے مسکراہٹ دوڑنے لگتی،سنجیدہ مزاج لوگوں کے چہروں پر بیزاری کے آثار آجاتے کہ وقت ضائع ہو رہا ہے منچلے اس پر ہکلے اور توتلے کی پھبتیاں کستے کوئی کہتا پہلے گیئر باکس ٹھیک کروا لو بار با گیئر پھنس جاتے ہیں کوئی کہتا قسطوں میں باتیں کرتا ہے ۔۔۔ اس کے باوجود یہ لڑکا کسی کمپلکس کا شکار نہیں ہوا اس نے دن رات محنت کی اور اپنی منزل پالی وہ سرجن ڈاکٹر بن گیا اب اسکے سامنے سوسائٹی میں ایک بلند مقام تھا آسودہ زندگی تھی وہ اس خوشحال زندگی کی جانب بڑھنےکو تھا کہ تقابل ادیان کے احمد دیدات کی جانب بڑھ گیا اور پھر سفید کوٹ کہیں پیچھے رہ گیا ہاں اس نے علاج معالجے سے ناطہ نہیں توڑا لیکن اب اسکے علاج کی نوعیت بدل چکی تھی وہ عقیدت میں ملفوف مکر اور فریب کی سرجری کرنے لگا وہ بیمار جسموں کا علاج کرتے کرتے مضطرب روحوں کا علاج کرنے لگا ہم اسے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نام سے جانتے ہیں
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے 1991 میں تقابل ادیان اور تبلیغ کی طرف مائل ہوئے اور اپنے مدلل انداز بیاں سے مقبول ہوتے چلے گئے ایک عجیب بات یہ کہ جب وہ پہلی بار تقریر کرنے اسٹیج پر آئے تو حیرت انگیز طور پر انکی لکنت ختم ہو گئی اور پھر پلٹ کر نہیں آئی ان کا انداز بیاں دلشنیں نہیں ہے ان کے پاس خوبصوت الفاظ ہیں نہ لہجے کے زیروبم سے وہ سامعین ناظرین کو ہپناٹائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہاں وہ جس انداز سے دلیل لاتے ہیں اسکا جواب مشکل سے کسی کے پاس ہوتا ہے اور یہی انکی انفرادیت ہے وہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے سربراہ اور انکی سربراہی میں PEACE TV کافی مقبول رہا ہے۔
ان کے بیانات سننے ہزاروں کی تعداد میں لوگ آیا کرتے تھے اور لائیو نشریات میں ان کی گفتگو سے متاثر ہو کر کلمہ ء شہادت پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے تھے کچھ فقہی معاملات میں ان کے موقف نے شیعہ اور بریلوی حضرات کو ان کے خلاف کردیا کراچی کے در و دیوار پر انکے خلاف نعروں سے رنگ گئے 2015 میں ملنے والے شاہ فیصل ایوارڈ نے اس خلیج میں اور اضافہ کردیا اور ان پر وہابیت کی مہر لگانے کی کوشش کی گئی۔
بھارت میں مودی حکومت آئی تو ذاکر نائک کے لئے مشکلات بڑھ گئیں انہیں بھارت سے نکل جانا پڑا آج کل وہ ملائیشیا میں رہائش پذیر ہیں اور بی بی سی کے مطابق ملائیشیا کے مسلمان انہیں کسی اوتار دیوتا کی طرح مانتے ہیں
ذاکر نائیک پر ۤج بھارت میں مقدمات درج ہیں کچھ عرصہ پہلے مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی حمائت کے بدلے مقدمات ختم کرنے کی پیشکش کی تھی جسے ذاکر نائیک نے ٹھکرا دیا
ڈاکٹر ذاکر نائیک اب تقاریر نہیں کرتے ان پر پابندی ہے لیکن ان کی مقبولیت ابھی بھی برقرار ہے اسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ کبھی درباری نہیں رہے انہوں نے کسی شاہ کی مدح سرائی نہیں کی اور کبھی کوئی بات کہی تو دلیل بھی دی ان سے غلطیاں بھی ہوئیں غیرمحتاط بیانات بھی دیئے جس پر انہیں معافی بھی مانگنی پڑی۔
یہاں ان کی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ غیر محسوس طریقے سے اس ایریا میں داخل ہوتے دکھائی دیتے ہیں جہاں اختلافات کی دلدل کسی کو بھی لینے کے لئے موجود ہوتی ہے ڈاکٹر زاکر نائیک ان اختلافات سے فاصلہ رکھتے تو آج ہم سب ان سے استفادہ کر رہے ہوتے ان کے تقابل ادیان کا انداز ان کا مطالعہ اور یاداشت واقعتاً بندے کو حیرت میں ڈال دیتی ہے فی الوقت تو مودی سرکار انہیں جیل میں ڈالنے کے لئے باؤلی ہوئی جارہی ہے ۔