13 دسمبر 2000 کو میں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں یونہی ایک سال گذارنے کے بعد ماسکو پہنچا تھا۔ 13 دسمبر 1999 کو امریکہ جانے سے پہلے، 9مارچ 1999 کو کسی نامعلوم شخص نے ماسکو میں میرے سر پہ پیچھے سے کسی کند آلے سے وار کرکے میری کھوپڑی تین مقامات سے توڑ دی تھی۔ بھاری جوتوں کی ٹھوکروں سے ناک کان توڑ دیے تھے۔ میری تو سر پر وار سے ہی شاید کلینیکل ڈیتھ ہو گئی تھی، ٹھوکروں پہ لیا جانا قیاس ہے۔ دماغ سے خون بہہ کر ریڑھ کی ہڈی میں چلا گیا تھا جس سے مرنے کا امکان بہت یادہ بڑھ جاتا ہے، خیر میں جانبر ہو گیا تھا۔ سر پہ پڑی تو اٹھائیس برس لادین رہنے کے بعد پھر سے مذہب کی جانب راغب ہوا تھا، بس کبھی کبھار نماز پڑھ لینے اور روزہ رکھنے کے شوق کی حد تک۔
اپنے قصبہ علی پور ضلع مظفر گڑھ میں لڑکپن میں بتائے گئے ماہ ہائے رمضان کے ایام یاد تھے کہ کیسے علی پور میں کام کرنے والی پہلی ہندوستانی لیڈی ڈاکٹر، جن کی شہر کے اندر بڑی سی حویلی تھی، کا خوبرو اور وجیہہ، خاموش طبع اور موسیقی کا دلدادہ، میرے بڑے بھائی مرزا محمد شعیب کا دوست امانت علی ہارمونیم بجاتے گاتے ہوئے سحری جگانے آتا تو میری ماں بہنوں کے آنسووں کی جھڑی لگ جاتی کیونکہ امانت علی دنیا میں اکیلا رہ گیا تھا اور موسیقی کی لگن کے سبب بے روزگار بھی۔ افطاری سے پہلے کئی ایسے فقیر آیا کرتے، جنہیں پھیری والے کہا جاتا تھا۔ یہ ایسے افراد ہوتے تھے جو صرف ماہ رمضان میں ہی آتے تھے، خیرات لینے کو لمحہ بھر ہر در پہ رکتے تھے، خیرات مانگا نہیں کرتے تھے، بس کچھ بولتے یا گاتے تھے۔ کسی نے خیرات دی تو لے لی، نہیں تو لمحہ بھر کے توقف کے بعد آگے بڑھ جایا کرتے تھے۔ انہیں میں ایک فقیر مجھے تب بھی یاد تھا اور آج بھی یاد ہے، جس کی دائیں کلائی میں لوہے کے سفید چمکدار کڑے چڑھے ہوتے، ہاتھ میں فٹ بھر کا پتلا ڈنڈا ہوتا جسے وہ کڑوں پر مار مار کے جھنکار پیدا کرتا اور لے ملا کر اپنی گمبھیر آواز میں مخصوص نعت پڑھا کرتا تھا۔ یہ سارے لوگ عید کی رات اور عید کے روز مانگ کے اپنا محنتانہ لیا کرتے تھے۔
تو میرے ذہن میں وہی ناستلجیا تھا جس کے تحت میں نے پھر سے مذہب کی جانب راغب ہونے کے بعد پہلا رمضان علی پور میں منانے کا ارادہ کیا تھا اور ماسکو سے پہلے کراچی اور پھر علی پور پہنچا تھا۔ رمضان تو پورا کیا تھا لیکن یہ بالکل مختلف رمضان تھا۔ نہ وہ لڑکپن کے دور کا پھولوں کی کیاریوں، کیکر کے دو درختوں اور سرخ پھولوں سے بھرے گڑھل کے پودے والا کچا صحن تھا۔ نہ ہی اس گڑھل کے پودے کے ساتھ زمین سے تھوڑے سے بلند تخت پہ بیٹھی مسلسل عبادت کرتی اور سلام پھیرنے کے وقفوں میں بہنوں کو پکوانوں سے متعلق ہدایات دیتی ہوئی ماں رہی تھی۔ نہ بڑے بھائی زندہ تھے نہ ان کی بیوی۔ ان کے بچے دوسرے شہروں میں منتقل ہو چکے تھے۔ ان کا خالی گھر تھا یا چاروں جانب سے نئی حویلی کے بیچوں بیچ پکی اینٹوں کے فرش والا سپاٹ صحن۔ نہ وہ گیت گاتے اور خیرات مانگے بن چلے جاتے فقیر تھے، نہ ہارمونیم بجا کے گاتا کوئی سحری جگانے والا۔ یوں اس رمضان میں جسے کہتے ہیں کہ میں خاصا بور ہوا تھا۔
پچھلے برس بھی، اپنی خود نوشت کی پہلی جلد دیر میں چھپ کر آنے کی وجہ سے، اس کی تقریب پذیرائی کے دنوں میں رمضان کے مخل ہونے کے سبب مجھے ماہ رمضان پبلشر دوست زاہد کاظمی کے گھر ہری پور میں گذارنا پڑا تھا، پھر عید کے فورا” بعد یکے بعد دیگرے ہری پور، اسلام آباد اور لاہور میں تقاریب پذیرائی کے انعقاد کے بعد میں روس سدھار گیا تھا۔
اس بار بھی میں خود نوشت کی دوسری اور آخری جلد کی اشاعت و تقاریب پذیرائی کے ضمن میں پاکستان پہنچا تھا۔ اشاعت بوجوہ مارچ کے اواخر تک موخر ہو گئی تھی مگر کسی کو کیا معلوم تھا کہ ایک بالکل ہی غیر متوقع بنا پر مجھے ” علی پور بند ” ہونا پڑے گا۔ فروری کے اواخر سے کہ چند روز کے لیے یہ سوچ کر ایک بار پھر لاہور سے علی پور آیا تھا کہ یہاں سے ہری پور جاؤں گا۔ کتاب اشاعت کے لیے دے دی جائے گی اور عجلت میں تقاریب ہائے پذیرائی کا انعقاد کرکے ماسکو لوٹ جاؤں گا جہاں بچے منتظر تھے۔ لیکن کورونا وائرس مرض سے احتیاط کے ضمن میں لاک ڈاؤن کے سبب سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
اوپر سے افتاد یہ پڑی کہ مجھے چکن پوکس اور ہرپیز زوسٹر کی امراض نے آن گھیرا۔ چکن پاکس سے تو جان چھوٹ گئی لیکن ہرپیز کے سب درد جسے محض درد نہیں کہا جا سکتا بلکہ الجھن، بے چینی، ارتعاش، جلن، خوف، گھبراہٹ اور نہ جانے کن کن جسمانی و ذہنی کیفیات کا ملغوبہ کہا جا سکتا ہے، کے سبب ریڑھ کی ہڈی کے ایک مہرے سے شروع ہو کر ناف تک، بدن کی چار انچ چوڑی پٹی متاثر ہے۔ یہ جسے محض درد کہنا، درد کو خوشی کہنا لگتا ہے، ڈاکٹروں کے بقول تین سے پانچ ہفتے مریض کو پریشان کیے رکھتا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ ” پوسٹ ہرپیٹک پین ” یعنی بعد از ہرپیز درد مہینوں یا سالوں بھی جان نہ چھوڑے، اللہ نہ کرے۔
چنانچہ یہ رمضان اس درد کے ساتھ، ان گرمیوں میں اپنے مولد علی پور میں ہی بسر ہوگا۔ درد کوئی وجہ نہیں کہ روزے نہ رکھے جائیں۔ مگر گرمی، شکر ہے کہ تا حال قابل برداشت ہے۔ کورونا کے ڈر سے شاید ایرکنڈیشنر کے استعمال سے بھی گریز کرنا پڑے۔ مسلسل گھر میں رہنے، کورونا کے بارے میں سنتے پڑھتے اور غیر متوقع امراض کی وجہ سے اکتاہٹ اور اوہام نے گھیرا ہوا ہے۔ اوہام کی ایک بڑی وجہ میری اپنی طبع کے علاوہ ڈاکٹر ہونا بھی ہے کیونکہ ڈاکٹر بہت برا مریض ہوا کرتا ہے۔ اوپر سے یہ انجان، ناقابل فہم، غیر متوقع اوصاف والا کورونا، پھر ہمارے حکام کی ڈھلمل یقینی۔ عجیب فیصلے جیسے کپڑے کی دکانیں بند ہونگی مگر درزی کی کھلی۔ مسجدیں تراویح کے لیے کھلی ہوں گی لیکن اگر کورونا پھیلا تو بند کر دیں گے۔ عجیب خلجان ہے ساتھ ہی ماہ رمضان ہے۔ اللہ رحم کرے۔ وائرس کی ایکسپونینشل گروتھ نہ ہو اور رمضان کا کیف تباہ نہ ہو، آمین۔