Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
یہ ’بریکنگ نیوز‘ بھی ایک ایسی ریس کا بے لگام گھوڑا ہے ، جس کا آغاز کوئی ایک چینل کرتا ہے تو باقی اس کے تعاقب میں سرپٹ بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں۔ راہ میں رکاوٹیں بھی آتی ہیں، لیکن قلا بازیاں کھاتے ہوئے انہیں پار کرنے کا وہ جنون اور جوش ہوتا ہے، جس کے سامنے اولمپکس کے شہ سوار بھی ہمت ہار بیٹھیں۔ لال پیلے، نیلے گلابی کالے غرض رنگ برنگے ’گولے ڈنڈے‘ اسکرین پر آندھی طوفان کی طرح جھلمانے لگتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس دوڑ کے فاتح کوفوری طور پر کوئی اعزاز نہیں ملتا۔ چمچاتی ٹرافی اور ناہی مین آف دی میچ،حیران کن امر یہ ہے کہ جو اس دوڑ میں لنگڑاتے ہوئے گرتے پڑتے سب سے آخر میں رہتا ہے‘ وہ بھی بعد میں ڈھول پیٹتے ہوئے یہ راگ الاپتا ہے کہ وہی ہے اصل میں اس ’بریکنگ کا سکندر‘ ۔ اور بعض دفعہ اس دوڑ میں منہ کے بل اُس وقت گرنا پڑتا ہے جب پتاچلتا ہے کہ جس مقابلے میں تھے ‘ وہ تو سرے سے شروع ہو ا ہی نہیں۔ پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی آمد کے ساتھ ہی نجانے کس دانش مند نے انہیں یہ گھول کر پلادیا ہے کہ ان کی جنگ، حالات او ر واقعات سے نہیں بلکہ سکینڈز سے ہے۔ اب اس’ سکینڈز کی جنگ ‘ کو جیتنے کے لیے میدان میں اترے سپاہی ہر اصول اور ضوابط کو پیروں تلے روندتے ہوئے بڑھتے جاتے ہیں اور کیوں نہ کریں جناب‘ جنگ اور محبت میں تو سب جائز ہے۔ خیر ہم تو اُس دور سے تعلق رکھتے ہیں‘ جب کسی بھی اہم خبر کے لیے کسی نہ کسی اخبار کا ضمیمہ نکلتا تھا ، جو اخبار فروش’آج کی تازہ خبر‘ کی گردان کرتے ہوئے ہاتھ لہرا لہرا شاہی ہرکارے کا روپ دھار لیتا۔ حکومت کا تختہ الٹا ہو، کوئی بڑا حادثہ یا پھر امتحانات کے نتائج سب اس ضمیمہ کے طفیل مل جاتے، یہی ہمارے بریکنگ نیوز کا اکلوتا ذریعہ ہوتا۔جس کے بازار میں آنے سے اور اس کی ’سستی تشہری مہم‘ کی آواز سننے کے بعد لگتا کہ واقعی کوئی بہت بڑا سانحہ ہوہی گیا۔ لیکن ناکوئی ہڑبونگ، افراتفری، نا غیر معمولی شور وغل اور نا سکینڈز کے ساتھ جنگ،زندگی کے ساتھ ساتھ خبرمیں بھی کوئی غیر معمولی سنسنی خیزی نہ ہوتی‘ خبر کوا س کے معیارسے پرکھنے کے بعد ہی یہ ضمیمہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ اس دوڑ میں کون جیتا کون ہارا، نہ خبر بنانے والے کو اس کی فکر نہ پڑھنے والے کو۔ مگر اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ خبریں ریز گاری کی طرح گرتی ہیں جنہیں سمیٹنے کے لیے نیوز روم کے ’مزدور‘ مشینی انداز میں کام کرتے ہیں۔ بازی لے جانے کی اس دوڑ میں اخلاقیات اور ذمے داری دامن چھڑا کر دور کھڑی ہوجاتی ہے اور اس سارے تماشے پر بے بسی کے ساتھ مسکرانے پر مجبورہوتی ہے۔ اسی عجلت، جلدبازی یا پھر پھرتی کا نتیجہ ہے کہ ہم کورونا سے جنگ لڑنے والے برطانوی وزیراعظم کی تکلیف اور مشکل آسان کرتے ہوئے انہیں زندگی کے پنجرے سے آزاد کرکے اس جہاں فانی سے کوچ کر ا بیٹھتے ہیں۔ تو کبھی وسیم اختر کو وسیم اکرم تو کبھی کسی مولانا کو ’ڈیزل‘ لکھنے میں دیر نہیں لگاتے۔ رمضان کی مبارک باد دینے کے بجائے عید کی دے دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے جہاز میں فنی خرابی کی جگہ ان میں یہ عیب لگا کر پیش کردیتے ہیں۔جب ’روبوٹک انداز‘ میں ’سب سے پہلے‘ کی صدا لگانی مقصود ہو تو ایسی غلطیاں ہوں گی اورکرنے والے
قطعی طور پر قصور وار نہیں۔ کیونکہ ہم تو اس فکر میں بھی ہلکان ہوجاتے ہیں کہ کوئی مشیر وزیریا پھر اہلکار دوران اجلاس نیند کی وادی کا مہمان تو نہیں بنا۔ فلاں نے فلاں شاعر کا غلط شعر کیوں پڑھا۔ کس سیاست دان یا وزیر نے کون سا لفظ کتنی بار تواتر کے ساتھ استعمال کیا۔ کون سیاست دان انکڑوں کے حساب کتاب میں لاعلم ہے اور کون کتنا بھلکٹر۔کسی دل خراش خبر پر کبھی اینکر کی نم آنکھیں، مینا کماری کی یاددلاتی ہیں تو کبھی بریانی یا کیک کے پیچھے بھاگتے دوڑتے غریب عوام کی بے بسی، مفلسی اور بے چارگی کو موسیقی کا تڑکا لگا کر اور چٹ پٹا بنا دیتے ہیں۔غور کریں بلکہ کاغذ قلم سنبھال کر بیٹھیں اور نگاہیں دوڑائیں ٹی وی چینلز پر۔ کئی ایسے نظارے ملیں گے جن کو دیکھنے کے بعد ذہن میں بس یہی سوال گردش کرتا ہے ’کیا اسے بریکنگ نیوز ہونا چاہیے تھا؟‘کہا جاتا ہے کہ قوموں کے مزاج بنائے جاتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ فی زمانہ نیوزچینلز نے ہم سب کا مزاج یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ جب تک تڑپتی ہوئی لا ل پیلے والی ’بریکنگ نیوز‘ اسکرین پر نظر نہ آئے تو کسی خبر کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اُس پر اینکر کا کسی فلمی ہیرو یا ہیروئن کی طرح ڈرامائی انداز، سونے پر سہاگہ کا کام کرجاتا ہے۔ ہم تو اس بات کے بھی عادی ہوگئے ہیں کہ کسی شخصیت کی نماز جنازہ کے بعد تدفین کی خبربھی ’بریکنگ نیوز‘ کی اہل ہوتی ہے۔ہر گھنٹے کے خبر نامے کا آغاز، رنگ برنگے ’ڈبے‘ میں قید ہو کر نہ کیا جائے توزندگی بے رنگ لگتی ہے ۔ اس سارے شور شرابے میں ’خبریت‘ کہیں سات پردے میں پوشیدہ ہوگئی ہے ۔بنیادی مسائل جو واقعی بریکنگ کے حقدار ہیں، نظروں سے اوجھل ہوتے جارہے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ ’خبر‘ بھی برسوں سے جان بوجھ کر قرنطینہ میں دھکیل دی گئی ہے ۔ صحت یاب تو کب کی تھی لیکن کوئی بھی نہیں جو اسے اس ’قید تنہائی‘ سے نکالے‘ جبھی وہ چیخ چیخ کر اپنی رہائی کی صدائیں کبھی کبھی لگا ہی دیتی ہے۔
یہ ’بریکنگ نیوز‘ بھی ایک ایسی ریس کا بے لگام گھوڑا ہے ، جس کا آغاز کوئی ایک چینل کرتا ہے تو باقی اس کے تعاقب میں سرپٹ بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں۔ راہ میں رکاوٹیں بھی آتی ہیں، لیکن قلا بازیاں کھاتے ہوئے انہیں پار کرنے کا وہ جنون اور جوش ہوتا ہے، جس کے سامنے اولمپکس کے شہ سوار بھی ہمت ہار بیٹھیں۔ لال پیلے، نیلے گلابی کالے غرض رنگ برنگے ’گولے ڈنڈے‘ اسکرین پر آندھی طوفان کی طرح جھلمانے لگتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس دوڑ کے فاتح کوفوری طور پر کوئی اعزاز نہیں ملتا۔ چمچاتی ٹرافی اور ناہی مین آف دی میچ،حیران کن امر یہ ہے کہ جو اس دوڑ میں لنگڑاتے ہوئے گرتے پڑتے سب سے آخر میں رہتا ہے‘ وہ بھی بعد میں ڈھول پیٹتے ہوئے یہ راگ الاپتا ہے کہ وہی ہے اصل میں اس ’بریکنگ کا سکندر‘ ۔ اور بعض دفعہ اس دوڑ میں منہ کے بل اُس وقت گرنا پڑتا ہے جب پتاچلتا ہے کہ جس مقابلے میں تھے ‘ وہ تو سرے سے شروع ہو ا ہی نہیں۔ پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی آمد کے ساتھ ہی نجانے کس دانش مند نے انہیں یہ گھول کر پلادیا ہے کہ ان کی جنگ، حالات او ر واقعات سے نہیں بلکہ سکینڈز سے ہے۔ اب اس’ سکینڈز کی جنگ ‘ کو جیتنے کے لیے میدان میں اترے سپاہی ہر اصول اور ضوابط کو پیروں تلے روندتے ہوئے بڑھتے جاتے ہیں اور کیوں نہ کریں جناب‘ جنگ اور محبت میں تو سب جائز ہے۔ خیر ہم تو اُس دور سے تعلق رکھتے ہیں‘ جب کسی بھی اہم خبر کے لیے کسی نہ کسی اخبار کا ضمیمہ نکلتا تھا ، جو اخبار فروش’آج کی تازہ خبر‘ کی گردان کرتے ہوئے ہاتھ لہرا لہرا شاہی ہرکارے کا روپ دھار لیتا۔ حکومت کا تختہ الٹا ہو، کوئی بڑا حادثہ یا پھر امتحانات کے نتائج سب اس ضمیمہ کے طفیل مل جاتے، یہی ہمارے بریکنگ نیوز کا اکلوتا ذریعہ ہوتا۔جس کے بازار میں آنے سے اور اس کی ’سستی تشہری مہم‘ کی آواز سننے کے بعد لگتا کہ واقعی کوئی بہت بڑا سانحہ ہوہی گیا۔ لیکن ناکوئی ہڑبونگ، افراتفری، نا غیر معمولی شور وغل اور نا سکینڈز کے ساتھ جنگ،زندگی کے ساتھ ساتھ خبرمیں بھی کوئی غیر معمولی سنسنی خیزی نہ ہوتی‘ خبر کوا س کے معیارسے پرکھنے کے بعد ہی یہ ضمیمہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ اس دوڑ میں کون جیتا کون ہارا، نہ خبر بنانے والے کو اس کی فکر نہ پڑھنے والے کو۔ مگر اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ خبریں ریز گاری کی طرح گرتی ہیں جنہیں سمیٹنے کے لیے نیوز روم کے ’مزدور‘ مشینی انداز میں کام کرتے ہیں۔ بازی لے جانے کی اس دوڑ میں اخلاقیات اور ذمے داری دامن چھڑا کر دور کھڑی ہوجاتی ہے اور اس سارے تماشے پر بے بسی کے ساتھ مسکرانے پر مجبورہوتی ہے۔ اسی عجلت، جلدبازی یا پھر پھرتی کا نتیجہ ہے کہ ہم کورونا سے جنگ لڑنے والے برطانوی وزیراعظم کی تکلیف اور مشکل آسان کرتے ہوئے انہیں زندگی کے پنجرے سے آزاد کرکے اس جہاں فانی سے کوچ کر ا بیٹھتے ہیں۔ تو کبھی وسیم اختر کو وسیم اکرم تو کبھی کسی مولانا کو ’ڈیزل‘ لکھنے میں دیر نہیں لگاتے۔ رمضان کی مبارک باد دینے کے بجائے عید کی دے دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے جہاز میں فنی خرابی کی جگہ ان میں یہ عیب لگا کر پیش کردیتے ہیں۔جب ’روبوٹک انداز‘ میں ’سب سے پہلے‘ کی صدا لگانی مقصود ہو تو ایسی غلطیاں ہوں گی اورکرنے والے
قطعی طور پر قصور وار نہیں۔ کیونکہ ہم تو اس فکر میں بھی ہلکان ہوجاتے ہیں کہ کوئی مشیر وزیریا پھر اہلکار دوران اجلاس نیند کی وادی کا مہمان تو نہیں بنا۔ فلاں نے فلاں شاعر کا غلط شعر کیوں پڑھا۔ کس سیاست دان یا وزیر نے کون سا لفظ کتنی بار تواتر کے ساتھ استعمال کیا۔ کون سیاست دان انکڑوں کے حساب کتاب میں لاعلم ہے اور کون کتنا بھلکٹر۔کسی دل خراش خبر پر کبھی اینکر کی نم آنکھیں، مینا کماری کی یاددلاتی ہیں تو کبھی بریانی یا کیک کے پیچھے بھاگتے دوڑتے غریب عوام کی بے بسی، مفلسی اور بے چارگی کو موسیقی کا تڑکا لگا کر اور چٹ پٹا بنا دیتے ہیں۔غور کریں بلکہ کاغذ قلم سنبھال کر بیٹھیں اور نگاہیں دوڑائیں ٹی وی چینلز پر۔ کئی ایسے نظارے ملیں گے جن کو دیکھنے کے بعد ذہن میں بس یہی سوال گردش کرتا ہے ’کیا اسے بریکنگ نیوز ہونا چاہیے تھا؟‘کہا جاتا ہے کہ قوموں کے مزاج بنائے جاتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ فی زمانہ نیوزچینلز نے ہم سب کا مزاج یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ جب تک تڑپتی ہوئی لا ل پیلے والی ’بریکنگ نیوز‘ اسکرین پر نظر نہ آئے تو کسی خبر کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اُس پر اینکر کا کسی فلمی ہیرو یا ہیروئن کی طرح ڈرامائی انداز، سونے پر سہاگہ کا کام کرجاتا ہے۔ ہم تو اس بات کے بھی عادی ہوگئے ہیں کہ کسی شخصیت کی نماز جنازہ کے بعد تدفین کی خبربھی ’بریکنگ نیوز‘ کی اہل ہوتی ہے۔ہر گھنٹے کے خبر نامے کا آغاز، رنگ برنگے ’ڈبے‘ میں قید ہو کر نہ کیا جائے توزندگی بے رنگ لگتی ہے ۔ اس سارے شور شرابے میں ’خبریت‘ کہیں سات پردے میں پوشیدہ ہوگئی ہے ۔بنیادی مسائل جو واقعی بریکنگ کے حقدار ہیں، نظروں سے اوجھل ہوتے جارہے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ ’خبر‘ بھی برسوں سے جان بوجھ کر قرنطینہ میں دھکیل دی گئی ہے ۔ صحت یاب تو کب کی تھی لیکن کوئی بھی نہیں جو اسے اس ’قید تنہائی‘ سے نکالے‘ جبھی وہ چیخ چیخ کر اپنی رہائی کی صدائیں کبھی کبھی لگا ہی دیتی ہے۔
یہ ’بریکنگ نیوز‘ بھی ایک ایسی ریس کا بے لگام گھوڑا ہے ، جس کا آغاز کوئی ایک چینل کرتا ہے تو باقی اس کے تعاقب میں سرپٹ بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں۔ راہ میں رکاوٹیں بھی آتی ہیں، لیکن قلا بازیاں کھاتے ہوئے انہیں پار کرنے کا وہ جنون اور جوش ہوتا ہے، جس کے سامنے اولمپکس کے شہ سوار بھی ہمت ہار بیٹھیں۔ لال پیلے، نیلے گلابی کالے غرض رنگ برنگے ’گولے ڈنڈے‘ اسکرین پر آندھی طوفان کی طرح جھلمانے لگتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس دوڑ کے فاتح کوفوری طور پر کوئی اعزاز نہیں ملتا۔ چمچاتی ٹرافی اور ناہی مین آف دی میچ،حیران کن امر یہ ہے کہ جو اس دوڑ میں لنگڑاتے ہوئے گرتے پڑتے سب سے آخر میں رہتا ہے‘ وہ بھی بعد میں ڈھول پیٹتے ہوئے یہ راگ الاپتا ہے کہ وہی ہے اصل میں اس ’بریکنگ کا سکندر‘ ۔ اور بعض دفعہ اس دوڑ میں منہ کے بل اُس وقت گرنا پڑتا ہے جب پتاچلتا ہے کہ جس مقابلے میں تھے ‘ وہ تو سرے سے شروع ہو ا ہی نہیں۔ پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی آمد کے ساتھ ہی نجانے کس دانش مند نے انہیں یہ گھول کر پلادیا ہے کہ ان کی جنگ، حالات او ر واقعات سے نہیں بلکہ سکینڈز سے ہے۔ اب اس’ سکینڈز کی جنگ ‘ کو جیتنے کے لیے میدان میں اترے سپاہی ہر اصول اور ضوابط کو پیروں تلے روندتے ہوئے بڑھتے جاتے ہیں اور کیوں نہ کریں جناب‘ جنگ اور محبت میں تو سب جائز ہے۔ خیر ہم تو اُس دور سے تعلق رکھتے ہیں‘ جب کسی بھی اہم خبر کے لیے کسی نہ کسی اخبار کا ضمیمہ نکلتا تھا ، جو اخبار فروش’آج کی تازہ خبر‘ کی گردان کرتے ہوئے ہاتھ لہرا لہرا شاہی ہرکارے کا روپ دھار لیتا۔ حکومت کا تختہ الٹا ہو، کوئی بڑا حادثہ یا پھر امتحانات کے نتائج سب اس ضمیمہ کے طفیل مل جاتے، یہی ہمارے بریکنگ نیوز کا اکلوتا ذریعہ ہوتا۔جس کے بازار میں آنے سے اور اس کی ’سستی تشہری مہم‘ کی آواز سننے کے بعد لگتا کہ واقعی کوئی بہت بڑا سانحہ ہوہی گیا۔ لیکن ناکوئی ہڑبونگ، افراتفری، نا غیر معمولی شور وغل اور نا سکینڈز کے ساتھ جنگ،زندگی کے ساتھ ساتھ خبرمیں بھی کوئی غیر معمولی سنسنی خیزی نہ ہوتی‘ خبر کوا س کے معیارسے پرکھنے کے بعد ہی یہ ضمیمہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ اس دوڑ میں کون جیتا کون ہارا، نہ خبر بنانے والے کو اس کی فکر نہ پڑھنے والے کو۔ مگر اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ خبریں ریز گاری کی طرح گرتی ہیں جنہیں سمیٹنے کے لیے نیوز روم کے ’مزدور‘ مشینی انداز میں کام کرتے ہیں۔ بازی لے جانے کی اس دوڑ میں اخلاقیات اور ذمے داری دامن چھڑا کر دور کھڑی ہوجاتی ہے اور اس سارے تماشے پر بے بسی کے ساتھ مسکرانے پر مجبورہوتی ہے۔ اسی عجلت، جلدبازی یا پھر پھرتی کا نتیجہ ہے کہ ہم کورونا سے جنگ لڑنے والے برطانوی وزیراعظم کی تکلیف اور مشکل آسان کرتے ہوئے انہیں زندگی کے پنجرے سے آزاد کرکے اس جہاں فانی سے کوچ کر ا بیٹھتے ہیں۔ تو کبھی وسیم اختر کو وسیم اکرم تو کبھی کسی مولانا کو ’ڈیزل‘ لکھنے میں دیر نہیں لگاتے۔ رمضان کی مبارک باد دینے کے بجائے عید کی دے دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے جہاز میں فنی خرابی کی جگہ ان میں یہ عیب لگا کر پیش کردیتے ہیں۔جب ’روبوٹک انداز‘ میں ’سب سے پہلے‘ کی صدا لگانی مقصود ہو تو ایسی غلطیاں ہوں گی اورکرنے والے
قطعی طور پر قصور وار نہیں۔ کیونکہ ہم تو اس فکر میں بھی ہلکان ہوجاتے ہیں کہ کوئی مشیر وزیریا پھر اہلکار دوران اجلاس نیند کی وادی کا مہمان تو نہیں بنا۔ فلاں نے فلاں شاعر کا غلط شعر کیوں پڑھا۔ کس سیاست دان یا وزیر نے کون سا لفظ کتنی بار تواتر کے ساتھ استعمال کیا۔ کون سیاست دان انکڑوں کے حساب کتاب میں لاعلم ہے اور کون کتنا بھلکٹر۔کسی دل خراش خبر پر کبھی اینکر کی نم آنکھیں، مینا کماری کی یاددلاتی ہیں تو کبھی بریانی یا کیک کے پیچھے بھاگتے دوڑتے غریب عوام کی بے بسی، مفلسی اور بے چارگی کو موسیقی کا تڑکا لگا کر اور چٹ پٹا بنا دیتے ہیں۔غور کریں بلکہ کاغذ قلم سنبھال کر بیٹھیں اور نگاہیں دوڑائیں ٹی وی چینلز پر۔ کئی ایسے نظارے ملیں گے جن کو دیکھنے کے بعد ذہن میں بس یہی سوال گردش کرتا ہے ’کیا اسے بریکنگ نیوز ہونا چاہیے تھا؟‘کہا جاتا ہے کہ قوموں کے مزاج بنائے جاتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ فی زمانہ نیوزچینلز نے ہم سب کا مزاج یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ جب تک تڑپتی ہوئی لا ل پیلے والی ’بریکنگ نیوز‘ اسکرین پر نظر نہ آئے تو کسی خبر کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اُس پر اینکر کا کسی فلمی ہیرو یا ہیروئن کی طرح ڈرامائی انداز، سونے پر سہاگہ کا کام کرجاتا ہے۔ ہم تو اس بات کے بھی عادی ہوگئے ہیں کہ کسی شخصیت کی نماز جنازہ کے بعد تدفین کی خبربھی ’بریکنگ نیوز‘ کی اہل ہوتی ہے۔ہر گھنٹے کے خبر نامے کا آغاز، رنگ برنگے ’ڈبے‘ میں قید ہو کر نہ کیا جائے توزندگی بے رنگ لگتی ہے ۔ اس سارے شور شرابے میں ’خبریت‘ کہیں سات پردے میں پوشیدہ ہوگئی ہے ۔بنیادی مسائل جو واقعی بریکنگ کے حقدار ہیں، نظروں سے اوجھل ہوتے جارہے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ ’خبر‘ بھی برسوں سے جان بوجھ کر قرنطینہ میں دھکیل دی گئی ہے ۔ صحت یاب تو کب کی تھی لیکن کوئی بھی نہیں جو اسے اس ’قید تنہائی‘ سے نکالے‘ جبھی وہ چیخ چیخ کر اپنی رہائی کی صدائیں کبھی کبھی لگا ہی دیتی ہے۔
یہ ’بریکنگ نیوز‘ بھی ایک ایسی ریس کا بے لگام گھوڑا ہے ، جس کا آغاز کوئی ایک چینل کرتا ہے تو باقی اس کے تعاقب میں سرپٹ بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں۔ راہ میں رکاوٹیں بھی آتی ہیں، لیکن قلا بازیاں کھاتے ہوئے انہیں پار کرنے کا وہ جنون اور جوش ہوتا ہے، جس کے سامنے اولمپکس کے شہ سوار بھی ہمت ہار بیٹھیں۔ لال پیلے، نیلے گلابی کالے غرض رنگ برنگے ’گولے ڈنڈے‘ اسکرین پر آندھی طوفان کی طرح جھلمانے لگتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس دوڑ کے فاتح کوفوری طور پر کوئی اعزاز نہیں ملتا۔ چمچاتی ٹرافی اور ناہی مین آف دی میچ،حیران کن امر یہ ہے کہ جو اس دوڑ میں لنگڑاتے ہوئے گرتے پڑتے سب سے آخر میں رہتا ہے‘ وہ بھی بعد میں ڈھول پیٹتے ہوئے یہ راگ الاپتا ہے کہ وہی ہے اصل میں اس ’بریکنگ کا سکندر‘ ۔ اور بعض دفعہ اس دوڑ میں منہ کے بل اُس وقت گرنا پڑتا ہے جب پتاچلتا ہے کہ جس مقابلے میں تھے ‘ وہ تو سرے سے شروع ہو ا ہی نہیں۔ پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی آمد کے ساتھ ہی نجانے کس دانش مند نے انہیں یہ گھول کر پلادیا ہے کہ ان کی جنگ، حالات او ر واقعات سے نہیں بلکہ سکینڈز سے ہے۔ اب اس’ سکینڈز کی جنگ ‘ کو جیتنے کے لیے میدان میں اترے سپاہی ہر اصول اور ضوابط کو پیروں تلے روندتے ہوئے بڑھتے جاتے ہیں اور کیوں نہ کریں جناب‘ جنگ اور محبت میں تو سب جائز ہے۔ خیر ہم تو اُس دور سے تعلق رکھتے ہیں‘ جب کسی بھی اہم خبر کے لیے کسی نہ کسی اخبار کا ضمیمہ نکلتا تھا ، جو اخبار فروش’آج کی تازہ خبر‘ کی گردان کرتے ہوئے ہاتھ لہرا لہرا شاہی ہرکارے کا روپ دھار لیتا۔ حکومت کا تختہ الٹا ہو، کوئی بڑا حادثہ یا پھر امتحانات کے نتائج سب اس ضمیمہ کے طفیل مل جاتے، یہی ہمارے بریکنگ نیوز کا اکلوتا ذریعہ ہوتا۔جس کے بازار میں آنے سے اور اس کی ’سستی تشہری مہم‘ کی آواز سننے کے بعد لگتا کہ واقعی کوئی بہت بڑا سانحہ ہوہی گیا۔ لیکن ناکوئی ہڑبونگ، افراتفری، نا غیر معمولی شور وغل اور نا سکینڈز کے ساتھ جنگ،زندگی کے ساتھ ساتھ خبرمیں بھی کوئی غیر معمولی سنسنی خیزی نہ ہوتی‘ خبر کوا س کے معیارسے پرکھنے کے بعد ہی یہ ضمیمہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ اس دوڑ میں کون جیتا کون ہارا، نہ خبر بنانے والے کو اس کی فکر نہ پڑھنے والے کو۔ مگر اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ خبریں ریز گاری کی طرح گرتی ہیں جنہیں سمیٹنے کے لیے نیوز روم کے ’مزدور‘ مشینی انداز میں کام کرتے ہیں۔ بازی لے جانے کی اس دوڑ میں اخلاقیات اور ذمے داری دامن چھڑا کر دور کھڑی ہوجاتی ہے اور اس سارے تماشے پر بے بسی کے ساتھ مسکرانے پر مجبورہوتی ہے۔ اسی عجلت، جلدبازی یا پھر پھرتی کا نتیجہ ہے کہ ہم کورونا سے جنگ لڑنے والے برطانوی وزیراعظم کی تکلیف اور مشکل آسان کرتے ہوئے انہیں زندگی کے پنجرے سے آزاد کرکے اس جہاں فانی سے کوچ کر ا بیٹھتے ہیں۔ تو کبھی وسیم اختر کو وسیم اکرم تو کبھی کسی مولانا کو ’ڈیزل‘ لکھنے میں دیر نہیں لگاتے۔ رمضان کی مبارک باد دینے کے بجائے عید کی دے دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے جہاز میں فنی خرابی کی جگہ ان میں یہ عیب لگا کر پیش کردیتے ہیں۔جب ’روبوٹک انداز‘ میں ’سب سے پہلے‘ کی صدا لگانی مقصود ہو تو ایسی غلطیاں ہوں گی اورکرنے والے
قطعی طور پر قصور وار نہیں۔ کیونکہ ہم تو اس فکر میں بھی ہلکان ہوجاتے ہیں کہ کوئی مشیر وزیریا پھر اہلکار دوران اجلاس نیند کی وادی کا مہمان تو نہیں بنا۔ فلاں نے فلاں شاعر کا غلط شعر کیوں پڑھا۔ کس سیاست دان یا وزیر نے کون سا لفظ کتنی بار تواتر کے ساتھ استعمال کیا۔ کون سیاست دان انکڑوں کے حساب کتاب میں لاعلم ہے اور کون کتنا بھلکٹر۔کسی دل خراش خبر پر کبھی اینکر کی نم آنکھیں، مینا کماری کی یاددلاتی ہیں تو کبھی بریانی یا کیک کے پیچھے بھاگتے دوڑتے غریب عوام کی بے بسی، مفلسی اور بے چارگی کو موسیقی کا تڑکا لگا کر اور چٹ پٹا بنا دیتے ہیں۔غور کریں بلکہ کاغذ قلم سنبھال کر بیٹھیں اور نگاہیں دوڑائیں ٹی وی چینلز پر۔ کئی ایسے نظارے ملیں گے جن کو دیکھنے کے بعد ذہن میں بس یہی سوال گردش کرتا ہے ’کیا اسے بریکنگ نیوز ہونا چاہیے تھا؟‘کہا جاتا ہے کہ قوموں کے مزاج بنائے جاتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ فی زمانہ نیوزچینلز نے ہم سب کا مزاج یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ جب تک تڑپتی ہوئی لا ل پیلے والی ’بریکنگ نیوز‘ اسکرین پر نظر نہ آئے تو کسی خبر کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اُس پر اینکر کا کسی فلمی ہیرو یا ہیروئن کی طرح ڈرامائی انداز، سونے پر سہاگہ کا کام کرجاتا ہے۔ ہم تو اس بات کے بھی عادی ہوگئے ہیں کہ کسی شخصیت کی نماز جنازہ کے بعد تدفین کی خبربھی ’بریکنگ نیوز‘ کی اہل ہوتی ہے۔ہر گھنٹے کے خبر نامے کا آغاز، رنگ برنگے ’ڈبے‘ میں قید ہو کر نہ کیا جائے توزندگی بے رنگ لگتی ہے ۔ اس سارے شور شرابے میں ’خبریت‘ کہیں سات پردے میں پوشیدہ ہوگئی ہے ۔بنیادی مسائل جو واقعی بریکنگ کے حقدار ہیں، نظروں سے اوجھل ہوتے جارہے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ ’خبر‘ بھی برسوں سے جان بوجھ کر قرنطینہ میں دھکیل دی گئی ہے ۔ صحت یاب تو کب کی تھی لیکن کوئی بھی نہیں جو اسے اس ’قید تنہائی‘ سے نکالے‘ جبھی وہ چیخ چیخ کر اپنی رہائی کی صدائیں کبھی کبھی لگا ہی دیتی ہے۔