مہکتے لبوں پر دعا دیکھتی ہوں
میں دامن میں اُن کی عطا دیکھتی ہوں
وہ نور مجسم، میں خاکِ پریشان
مگر اُن سے اک رابطہ دیکھتی ہوں
عطائے بصیرت، کرم ہے انہی کا
میں خود کو سخن آشنا دیکھتی ہوں
مرے ہاتھ میں نسخہ ء کیمیا ہے
ہدایت کا میں راستا دیکھتی ہوں
وہ راہ خدا میں ہیں رہبر ہمارے
نہ منزل میں اُن سے جدا دیکھتی ہوں
میں خوابوں میں اکثر مدینے میں آقا
ترے در پہ خود کو گدا دیکھتی ہوں
عطا کی ہے نعتِ نبی اس قلم کو
میں ذکرِ نبی میں خدا دیکھتی ہوں
ملا نور خاک مدینہ سے مجھ کو
میں مٹی کا یہ معجزا دیکھتی ہوں
ہے ذکرِ محمد نے پھیلائی خوشبو
بہاروں کا اک سلسلہ دیکھتی ہوں
ہوں سر بہ نگوں آج عشق نبی میں
تو سیما کو بھی مبتلا دیکھتی ہوں
***********
عشرت معین سیما بنیادی طور پر ابلاغی سائینس کی طالب علم ہیں لیکن زمانہ طالب علمی سے ہی شعر و ادب سے گہری
دل چسپی رہی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ابلاغ عامہ کے طالب علموں کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں ذرائع ابلاغ میں جگہ بنانے اور شائع ہونے کا سلیقہ سیکھیں۔ اس مقصد کے لیے مختلف لوگ اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق طریقے اختیار کرتے ہیں، عشرت نے ادب کو راستہ بنایا اور خوب بنایا۔ آج وہ جرمنی میں پاکستانی ادب کی نمائندہ اور فروغ اردو کی تحریک کی سرخیل کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔
جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں کبھی یہ خیال عام تھا کہ اس شعبے میں لڑکیوں کو نہیں آنا چاہئے کیوں کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم نہیں رکھتیں، اس طرح بہت سے ایسے حق دار جو اس شعبے میں آکر کچھ کر سکتے ہیں، ان کا نقصان ہوتا ہے لیکن عشرت نے اپنے عمل سے اس خیال کو غلط ثابت کیا، وہ صرف شعر و ادب میں ہی نہیں، ابلاغ عامہ کے بین الاقوامی منظر نامے پر نمایاں مقام رکھتی ہیں، یوں انھوں نے اپنی محنت اور لگن سے اپنے ملک ،اساتذہ اور احباب کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ ذیل میں ان کی ایک تازہ نعت شائع کی جارہی ہے جو انھوں نے خاص “آوازہ” کے لیے کہی۔ ہمیں فخر ہے کہ “آوازہ” کو ان کا قلمی تعاون حاصل ہے۔