عوام کی عدم دلچسپی کے باعث لوٹ کھسوٹ کا نظام اپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہے۔ شاید اسی سبب ملک گیر سطح پر ہونے والی ساتویں مردم شُماری سے ملک کی بڑی اکثریت لاتعلق دکھائی دیتی ہے
xxxxx
18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری نے صوبوں کو انتظامی اور مالی طور پر خود مختار بنا دیا ہے۔ اب این ایف سی ایوارڈ میں طے شدہ فارمولے کے تحت صوبوں کو قومی دولت اور وسائل میں ان کا پورا حصہ ادا کردیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس آئینی ترمیم کے بعد ملک کو عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید ترقی یافتہ بنانا نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔ اس ترمیم کے تحت قومی دولت اور وسائل کو این ایف سی ایوارڈ کے طے شدہ فارمولے کے تحت منصفانہ تقسیم کردینے کے نتیجے میں صوبوں کی مالیاتی خود مختاری کا مطالبہ پورا کردیا گیا، اب صوبے اپنی آمدنی اور وفاق سے حاصل ہونے والے وسائل کو درست سمت میں خرچ کرکے اپنے اپنے صوبوں کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرسکتے ہیں ۔ مزید یہ کہ اس مقصد کے حصول کے لیے جن بنیادی عوامل کی ضرورت ہے ان میں ریاست میں جمہوریت کے نفاذ کے علاوہ صوبوں کی درست آبادی کا تعین بے پناہ ضروری ہے۔ قومی وسائل کی تقسیم میں چونکہ آبادی کے درست اعداد و شمار کا معلوم ہونا حددرجہ لازم ہے کیونکہ پھر اسی تناسب سے قومی دولت کی تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے۔
صرف قومی دولت اور وسائل کی تقسیم ہی نہیں بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کمی بیشی بھی ان ہی بنیادوں پر کی کی ہے لہذا آبادی کی صحیح گنتی بے حد ضروری ہے۔ آئین پاکستان میں اسی وجہ سے خانہ شُماری اور مردم شُماری کو ضروری امر قرار دیا گیا ہے تاکہ آبادی کے درست اعداد و شمار کے حصول سے ملک کے مستحکم مستقبل کے لیے قومی دولت اور وسائل کی فراہمی اور حقیقی نمائندگی پر کوئی ابہام پیدا نہ ہو سکے، ہر صوبے اور شہر کے افراد کی پیدائش، اموات اور ایک صوبے یا شہر سے دوسرے مقام پر منتقلی کی صورت میں ان افراد کو اسی جگہ شمار کرکے انفرااسٹرکچر کی تعمیر یا تعمیر شدہ انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال کے لئے مکمل وسائل مہیا کئے جائیں۔ عوام خواہ وہ ملک کے کسی بھی مقام پر رہائش پذیر ہوں نہ صرف یہ کہ ان کو تمام ایوانوں میں بھرپور نمائندگی حاصل رہے بلکہ انہیں قومی وسائل میں سے ان کا جائز حصہ بھی حاصل ہوتا رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان : گرفتاری میں ناکامی کا مطلب کیا؟
ساتویں خانہ و مردم شماری: اہم ترین حقائق جن کا تعلق آپ سے بھی ہے
آج کل ادارہ شماریات، ملک بھر میں ساتویں مردم شُماری کے کام میں مصروف ہے۔ اس مہم کے تحت خانہ شُماری اور مردم شُماری کا کام مکمل کیا جائے گا۔ اسی خانہ شُماری اور مردم شُماری کے نتیجے میں جمع ہونے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر پالیسی ساز تمام شعبوں کے لیے جامع اور مؤثر پالیسیاں مرتب کریں گے تاکہ پائیدار ترقی اور جدید انفرااسٹرکچر کی منصوبہ بندی کے لیے اقدامات کئے جاسکیں۔ ان ہی اعدادوشمار کی بنیاد پر صوبوں اور شہروں سمیت نچلی سطح تک قومی دولت اور وسائل کو تقسیم کیا جائے گا تاکہ ملک کے کونے کونے تک رہنے والے عوام ترقی اور خوشحالی سمیت اس کے تمام ثمرات سے استعفادہ کرسکیں۔ یعنی خانہ شُماری اور مردم شُماری کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اعداد و شمار قومی دولت اور وسائل کی تقسیم میں بنیادی حیثیت کی حامل ہوتے ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ عوام اپنے مسائل کے حل سے جڑے اس بنیادی نوعیت کے کام میں بھی قطعی دلچسپی نہیں رکھتے۔
قوم کی اکثریت خانہ شُماری اور مردم شُماری کی اہمیت ہی سے ناواقف ہے۔ سوال یہ ہے کہ قوم کو اس طرح کے بنیادی نوعیت کے معاملات سے کس نے روشناس کرانا تھا اور یہ کیوں نہ کیا جا سکا؟ کیا محض ادارہ شماریات کا سرکاری محکمہ اور اس ادارے کے اہلکار اتنی اہلیت اور اتنا وسیع وعریض نیٹ ورک رکھتے ہیں کہ وہ قوم کو خانہ شُماری اور مردم شُماری کی اہمیت سے آگاہ کرسکیں؟ یقیناً نہیں بلکہ یہ کام سیاسی جماعتوں کے کرنے کا تھا تو آخر وہ کیوں نہ کر سکیں؟
شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی شعوری طور پر نوزائیدہ ملک میں ایسی فضا قائم کی گئی کہ سیاست اور سیاستدانوں کو عوام کی نظروں میں بے وقعت اور بے توقیر کیا گیا۔ سیاستدانوں کو عوام کے سامنے اس طرح پیش کیا گیا کہ عوام ناصرف ان سے بدظن ہوئے بلکہ اس کے نتیجے میں عوام بتدریج پورے سیاسی عمل سمیت ریاست کے دیگر امور سے لاتعلق ہوتے چلے گئے۔ ایک جانب سیاستداں پھانسی، جلاوطنی، قتل وغارت، کوڑے، تشدد، قیدو بند کی صعوبتیں اور جھوٹے مقدمات غرض اس طرح کے حالات سے نبرد آزما رہے تو دوسری جانب سیاستداں ہمہ وقت قوم کے سامنے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے میں مصروف رہے۔
ملک میں 75 برسوں قبل لگائی گئی اب اس فصل کے کٹائی کا وقت ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب عوام کی اکثریت امور مملکت سے لاتعلق ہو چکی ہے، ملک میں ہر جانب عدم استحکام اپنے عروج پر ہے اور قومی معاملات میں عوام کی عدم دلچسپی کے باعث لوٹ کھسوٹ کا نظام اپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہے۔ شاید اسی سبب ملک گیر سطح پر ہونے والی ساتویں مردم شُماری سے ملک کی بڑی اکثریت لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔ عوام محض مردم شُماری کی اہمیت ہی سے ناواقف نہیں ہیں بلکہ اس پر طرہ یہ ہے کہ اس بار ملک میں ہونے والی پہلی ڈیجیٹل مردم شُماری میں خود شُماری کرانے کے طریقہ کار سے بھی مکمل ناواقف ہیں۔
ملک بھر میں ہونے والی پہلی ڈیجیٹل مردم شُماری کی ذمہ داری ادارہ شماریات ، حکومت پاکستان کو سونپی گئی ہے، جسے وہ پورا کرنے میں مصروف بھی ہے لیکن ناتجربہ کار عملہ اور ادارہ جاتی محدود وسائل اس کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ایسے میں اس بات کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں شاید شہری خود ذاتی حیثیت میں اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کو شمار نہیں کرواپائیں گے۔
جب ریاست کو اس طرح کے قومی مسائل درپیش ہوں اور حکومت اپنی سرکاری مشینری سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے سے قاصر محسوس ہوتو ایسے حالات میں ڈاکٹر عمیر انصاری جیسے لوگ کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے، جو کمٹمنٹ کے ساتھ بلا کسی لالچ اس طرح کے قومی فریضہ کی انجام دہی کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عمیر انصاری عرصہ دراز سے پاکستان کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے تصورات کے مطابق ایک جمہوری ، پر امن اور ترقی یافتہ ملک بنانے کے مشن میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے اپنے اس مشن کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے پاکستان ڈیویلپمنٹ فورم (PDF) کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ملک کے تمام مسائل کا حل مضبوط پارلیمانی جمہوری نظام کو قرار دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں جمہوریت کا مقصد صرف انتخابات کے انعقاد کے نتیجے میں کسی جماعت کا اقتدار میں آنا اور حکومت سازی پر ختم نہیں ہوتا۔ ان کی مستند رائے ہے کہ جمہوریت کا مقصد عوام کو بااختیار بنانا ہوتا ہے۔ یعنی عوام کا اقتدار عوام کو منتقل کرنا، پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصول کو تسلیم کرنا، آئین کی عملداری کو یقینی بنانا، عدلیہ کو ہر طرح کے دباؤ سے پاک آزادانہ فیصلے کرنے کا ماحول پیدا کرنا اور میڈیا کو سچائی کی تلاش میں کام کرنے کے آزادانہ مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جہاں عوام کو آئین میں درج تمام حقوق بلا کسی تخصیص حاصل ہوتے ہیں اور ریاست کے سامنے تمام شہری برابر کے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ وہ خانہ شُماری اور مردم شُماری کو حقیقی جمہوریت کے نفاذ کی جانب پہلا قدم تصور کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عمیر انصاری نے ملکی تاریخ کی پہلی ڈیجیٹل مردم شُماری کے ذریعے درست معلومات جمع کرنے کے دشوار گزار کام کے لیے اپنے ادارے (PDF) کی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کرتے ہوئے ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر موجود ڈیجیٹل مردم شُماری کے فارم کو پرنٹ کرواکر کتابچے کی صورت شائع کیا اور پھر سیاسی جماعتوں سے رابطے کا مربوط پروگرام ترتیب دیا، کم از کم کراچی کی سطح پر قابلِ ذکر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں ممکنہ حد تک تربیت بھی فراہم کی۔ مزید یہ کہ ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے تسلی بخش جوابات بھی پیش کئے۔ ڈاکٹر صاحب کی کوشش ہے کہ اس عمل میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو شریک کرکے ان جماعتوں کے کمیڈٹ رہنماؤں اور کارکنوں کے وسیع نیٹ ورک سے استعفادہ کیا جانا چاہئے تاکہ ملک کے کونے کونے تک پہنچ کر عوام کی پوری گنتی کو ممکن بنایاجاسکے۔
پاکستان ڈیویلپمنٹ فورم (PDF) کے تعارفی لیٹریچر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ماضی کی پالیسیوں کے نتیجے میں معاشرے میں تحمل، برداشت ، رواداری اور باہمی یگانگت کی جگہ انتہا پسندی اور سیاسی عدم استحکام نے لے لی، جس کا حتمی نتیجہ ریاستی ڈھانچے میں پڑنے والی واضح دراڑوں اور معاشی چیلنجز کی صورت میں قوم کے سامنے ہے۔ وہ ان مسائل کے حل کے لیے ریاست میں مکالمے کے فروغ کے ساتھ ساتھ بنیادی مسائل کے حل یعنی تعلیم ، صحت عامہ اور ماحولیاتی تبدیلی کے مضمرات کے سدباب اور حق رائے دہی کی اہمیت کے عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے ہر سطح پر تحقیقی ڈیٹا، آگاہی اور تربیت فراہم کرنے کو تجویز کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں اسی صورت پاکستان ساتویں ایٹمی قوت ہونے کے ناطے اقوام عالم میں معتدل، پرامن، جدید ترقی یافتہ ، مستحکم ملک کا تشخص اجاگر کرسکتا ہے۔