پولیس کسی ملک کے انتظامی ڈھانچے کی بنیادی اکائی ہوتی ہے قیام پاکستان سے قبل ہی 1934کے مروجہ پولیس رولز مسلم اکثریت کی حوصلہ شکنی اور عوام سے سخت گیر رویے کےغمازی تھے۔ آزادی کے بعد بھی یہی قانون رائج رہا۔ خود محکمانہ روش نے بھی ملازمین کا خوب استحصال کیا۔ اصلاحات کے کھوکھلے نعرے اور سہولیات کا عہد شکن رویہ پولیس کو معاشرے میں باعزت مقام دلوانے میں ناکام رہا۔ گذشتہ حکومت نےجمودی جھیل میں ارتعاش کچھ پیدا کیا جب ایک آئی جی صاحب جو خود قانون کے گریجویٹ تھے انھوں نے اصلاحات کا جال بچھا دیا۔ اس کے باوجود پولیس ملازمین کے لہجے کی تلخی اور برتاؤ کی کرختگی کا کوئی سدباب نہ ہو سکا۔ پولیس کے سابقہ افسر اعلیٰ اور موجودہ قانون دان عزیز اللہ خان ایڈووکیٹ نے اس رویے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس اہلکاروں کا فرعونی رویہ اخلاقی تربیت کا متقاضی ہے۔ لیکن کیا کبھی کسی نے اس رویے کی تلخی کا تجزیہ کیاہے؟ کیا کبھی اس استحصال کی نشاندھی بھی کی گئی ہے جو روز اول سے ان کے مقدر میں درج کر دیا گیا ؟اور جس میں ترمیم ناممکن سمجھ لیا گیا ،نظام امن کی بحالی محکمہ پولیس کی اچھی کارکردگی پر منتج ہے اور اچھی کارکردگی کا انحصار انصاف پر مبنی سہولیات مہیا کرنے پر ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان : گرفتاری میں ناکامی کا مطلب کیا؟
ترقی یافتہ ممالک میں اندرونی خلفشار پر قابو پانے کے لیے پولیس کو خود مختار اور با اختیار بنایا گیا ہے۔ ان سہولیات میں پولیس یونیفارم سے ملازمین و اہل خانہ کی صحت ،رہائش،بچوں کی تعلیم تک تمام ضروریات کو یک جنبشِ قلم ان تک پہنچایا جاتا ہے اور وقت کی ضرورت کے مطابق ان قوانین میں مزید فی الفور ترامیم بھی کی جاتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں پولیس وہ شودر محکمہ ہے جو معاشی بحران کے ساتھ ساتھ سماجی نا انصافی سے شدید متاثر ہے پولیس تھانوں کی عمارات ہوں ،قیام و طعام کا انتظام ،گاڑیوں کی سہولت ہو یا فیملی رہائش کا مناسب اہتمام یا پھر اوقات کار ۔۔۔۔منظم انصرام تو دور کوئی بہتر قانون تک نہیں۔ محدود تنخواہ بھاری ذمہ داریاں،ناقص خوراک اور مسلسل محنت و تندہی کے باعث اکثر پولیس افسران و ملازمین مختلف امراض کا شکار ہو جاتے ہیں سونے پہ سہاگا علاج کی سہولت بھی میسر نہیں۔
موسم کی شدت کی مناسبت سے یونیفارم ان کا بنیادی حق ہے لیکن ظلم کی چکی میں پستے ماتحت ملازمین کو افسران کے گھروں کے کام بھی ڈیوٹی سمجھ کر سونپےجاتے ہیں۔ مخصوص رہائش گاہوں میں پولیس کے نسل در نسل براجمان ملازمین کے قبضے کی وجہ سے میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ،رات گشت میں ،دن عدالت میں اور شام مقدمات کی تفتیش میں صرف ہوتی ہے۔ اس دوران نئے مقدمات کا اندراج ،سپیشل ڈیوٹی،پروٹوکول ڈیوٹی بھی گاہے گاہے اپنا نظارہ کراتی رہتی ہے۔ مختلف مقدمات میں سیاسی اثر و رسوخ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ بے جا فون کالز اور بڑھتے جرائم ۔۔۔۔محدود وسائل ان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لامحالہ لہجہ کرخت،زبان کڑوی اور برتاؤ فرعونی ہو جاتا ہےبعض اوقات افسران بالا کی خوشنودی کے لیے انھیں جو ٹاسک ملتے ہیں بدعنوانی ناگزیر ہو جاتی ہے اکثر محکمہ پولیس کے ملازمین کی خانگی زندگی ناچاقی اور بدامنی کا شکار ہو جاتی ہے یہ الگ بات ہے کہ حیران کن حد تک پولیس اہلکار کے گھر سے ناچاقی یا جھگڑا رپورٹ نہیں ہوتا اور اگر کوئی باہمت رشتہ دار یہ جرآت کر بھی لے تو پیٹی بھائیوں کا اتحاد لائق تحسین ہوتا ہے آخر کار مایوسی کا شکار مدعی اپنا سا منہ لیے رہ جاتا ہے۔
بنیادی سہولیات کے فقدان اور مسلسل نا انصافی ،تعطیلات میں رکاوٹ اور کم تنخواہ کے باعث معاشرے میں ان کا وقار مجروح رہتا ہے اپنے سماجی مرتبے کو اختیار سے مطابقت دینے کے لیے یہ ملازمین بدعنوانی کی روش اختیار کر لیتے ہیں ،ملازمت کے سلسلے میں بےیقینی کا ماحول قائم رہتا ہے کچھ اہلکاروں کے مطابق جب تعطیل یا پوسٹنگ نہ مل رہی ہو تو وہ کچھ ایسا غیر قانونی اقدام کر لیتے ہیں جس سے کچھ عرصے کے لیے معطل ہو جائیں تا کہ چھٹی کے ساتھ تنخواہ والی سہولت سے لطف اندوز ہو سکیں۔
تفتیش کے معاملات میں محکمہء پولیس جدید وسائل کی بنیاد پر مکمل خودمختار نہیں دیگر سیکیورٹی اداروں کی نسبت انھیں جدید سہولیات میسر نہیں غیر معینہ مدت کی تعیناتی یا بےیقینی کی کیفیت تفتیش پر سخت اثر انداز ہوتی ہے۔ ایس ایچ او علاقے میں امن قائم کرنے کا بنیادی مہرہ ہوتا ہے اس کی تعیناتی میرٹ کی بنیاد پر کی جانی چاہیے اور خاطر خواہ تنخواہ کے ہمراہ جدید سہولیات بھی بآسانی میسر آنی چاہیئں تاکہ متاثرین کو انصاف کی فراہمی میں دشواری نہ ہو۔
تھانوں میں ٹاؤٹ کلچر اور وکلاء کے۔منشیوں کی حاضری ایک مشکوک عمل ہے جس کا خاتمہ ازحد ضروری ہے پولیس اور من پسند صحافیوں کی دوستیاں ایک اور قابلِ غور ہے۔ پولیسں اور وکلا کی ملی بھگت قابلِ افسوس ہے لیکن پولیس کی بے بنیاد تضحیک قابلِ گرفت ہونی چاہیے۔ حال ہی میں پولیس کی ایک نہایت قابل سینئر افسر عمارہ شیرازی اور معروف اینکربیرسٹر احتشام امیر الدین کے مابین تلخ کلامی منظر عام پر آئی ہے۔ پولیس افسر کو اپنے جارحانہ رویے سے زیر دام کرنے والے محترم قانون دان اس سے قبل ایک جج صاحب کو کمرہ ء عدالت میں نہایت بداخلاقی سے زدوکوب کر چکے ہیں اور اب عمارہ شیرازی کے خلاف انکی انتقامی کارروائی طول پکڑ چکی ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران کو فورس کی عزت نفس کا خصوصی خیال رکھتے ہوئے ان کی سرپرستی کرنی چاہیے۔ ان کے معاشی وسائل کی بروقت فراہمی ،مناسب رہائش ،قیام و طعام ،صحت،بچوں کے لیے وظائف، اعلیٰ تعلیم کا مکمل انتظام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انھیں معطل یا پوسٹ کرنے کے اختیار میں لچک پیدا کرنی چاہیے اور اگر وطن عزیز میں امن کی بحالی میں پولیس کے محکمے کو عزت اور وسائل کی فراہمی نہ ہو سکے تو بہتر ہے کہ پورا محکمہء پولیس ہی معطل کر دیں۔