بیسویں صدی کے مفکرین سائنسی ترقی کے بل بوتے پر اکیسویں صدی کو دنیا کی پر امن ترین صدی گردانتے تھے لیکن اس کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل ہی 9/11جیسے واقعے نے دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا تہذیب یافتہ امریکا نے پسماندہ ترین افغانستان پر ڈیزی اور کیٹر بموں کے ساتھ غضب ناک حملہ کر دیا۔ ابھی برطانوی اور امریکی جنگی جنون تھمنے نہ پایا تھا کہ چھ ستمبر2002کو ایک سو امریکی اور برطانوی جنگی طیاروں نے عراق کو اپنی مذموم جارحیت کا نشانہ بنایا پھر فرداً فرداً اسلامی ممالک کا شکار کیا شام،فلسطین،یمن اور کشمیر کے نہتے عوام پر بدترین تشدد کی مثالیں قائم کیں۔ اپنی حفاظت کے لیے ایٹم بم اور مہلک ہتھیار بنانے والے مسلم ممالک کو اپنی حفاظت کرتا دیکھ نہیں سکےاور انھیں نشانے پر رکھ لیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حد درجہ وفاداری کے باوجود خودکش حملوں ،داخلی انتشار اور سیاسی اضطراب کو ہوا دی جاتی رہی جس نے عوام کے اوسطاً معیار زندگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
یہ بھی پڑھئے:
فاروق عادل کے خاکے جو صورت نظر آئی
ساتویں خانہ و مردم شماری: اہم ترین حقائق جن کا تعلق آپ سے بھی ہے
بدلتے ہوئے سیاسی موسم میں مریم نواز کی نئی یلغار
دنیا اس اقدام کی تعریف میں مشغول تھی کہ ایک پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی تعلیم کے حصول کی خاطر طالبان کی گولیوں کا نشانہ بنی۔ تعلیم کے لیے اس کی خدمات کے صلے میں نوبل انعام بھی ملا اور اہل خاندان کے ہمراہ امریکہ میں سکونت پذیر ہوئی لیکن دوسری جانب ایک شادی شدہ خوشحال اور تعلیم یافتہ بلوچ خاندان کی خاتون تعلیمی درسگاہ پر خودکش حملے میں ملوث ہو گئی۔ کہیں یہ استحصال مشرف دور میں بلوچوں کی غیر ملکی عقوبت خانوں میں منتقلی کا ردعمل تو نہیں تھا؟ لیکن خاتون کے اس عمل نے پاکستانی صنف نازک کی تابناک تاریخ پر بدنما دھبہ لگا دیا ہے۔
بلوچ خواتین بدترین خانگی زندگی کے باعث نفسیاتی ہیجان کا شکار رہتی ہیں ان کی زندگی ایک کمرے سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم سمجھی جاتی ہے۔ ایسی ہی ذہنی خجالت دہشتگردی کے سازگارمحرکات میں شامل ہو سکتی ہے۔ پاکستانی خواتین کے لیے یہ امر وجہ تضحیک بھی ہے اور لائق ملامت بھی۔پاکستان پر عرصہ دراز سے دقیانوسی روایات کےجو لیبل لگے ہوئے تھے جیسے”حقوق نسواں کی آگاہی نہیں” ،”تعلیم نسواں کا فقدان اور بحران ہے”،”پیشہ ورانہ زندگی میں خواتین کی شمولیت ازحد ضروری ہے”پھر افسوس ناک نعرہ”میرا جسم میری مرضی” لیکن حالات تو نسائی دہشتگردی کی جانب مبذول ہو گئے اور سارے نعرے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
عرصہ دراز سے افغان بارڈر سے ملحقہ پاکستانی علاقوں کی خواتین جنھیں قبائلی روایات کے تحت جامہ تلاشی سے استثنیٰ حاصل ہے۔ پاک فوج پر حملوں میں ملوث رہیں اور باقی آزادی اور حقوق کے نعروں میں مشغول رہیں۔
حالات نہایت گھمبیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ اگر ایٹمی حفاظتی بند باندھے جا چکے ہیں تو ثقافتی یلغار اور سوشل میڈیا کے زہر آلود مواد سے نجات کی تدابیر بھی فی الفور اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی عوام کے دلوں سے جذبہ ایمانی ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے دوسری جانب اقتصادی شکنجے میں جکڑ کر ایٹمی پروگرام منجمند کرنے کی منصوبہ بندی بھی زوروں پر ہے اگر اپنی زبان وثقافت،رسوم و رواج اور اقتصادی خود انحصاری پر تکیہ کیا ہوتا تو آج اقوام عالم میں باوقار انداز میں اپنا مقدمہ پیش کر سکتے
ایک بادشاہ نے میدانِ جنگ میں دیکھا کہ دشمن کا ایک سپاہی تلوار چلاتا ہوا اس کے لشکر کے ایک دستے کے قریب آ گیا ہے۔ ایک موٹے تازے سپاہی سے اس کا مقابلہ ہوا تو وہ چند ہی منٹ میں رفو چکر ہو گیا۔ دوسرے لمحے ایک دبلے پتلے سپاہی نے آگے بڑھ کر ایک ہی وار میں اس کا سر قلم کر دیا۔ جنگ کے خاتمے پر بادشاہ نے سرداروں کو بلایا اور دونوں کی بابت استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ موٹا سپاہی پر آسائش آرام گاہ میں رہتا تھا اور اس کی خوراک بھنا مرغ اور مکھن تھی جب کہ فاتح سپاہی اکیس روز سے جنگل میں روانہ مٹھی بھر چنوں پر گزارہ کر رہا تھا۔
موجودہ صورت حال میں خود انحصاری کی بنیاد پر اگر ہم بھی فقر و فاقہ کو شعار بنا لیں تو بھیک میں ملنے والے ڈالروں کو پاؤں تلے روند کر تاریخ رقم کر سکیں گے جس سے تہذیب کا راگ الاپنے والے ظالموں کی قلعی کھل جائے گی
طاقت کا اپنی کرتا ہے یوں بھی مظاہرہ
اپنی درندگی کو بھی تہذیب وہ کہے