فاروق عادل صاحب سے اکثر و بیشتر ملاقات ہو جاتی ہے اور ہمارے ادیبانہ تعلق میں ایک گونا بے تکلفی بھی ہے۔ ان کی تحریروں کا سرسری مطالعہ بھی کیا ۔مگر “جو صورت نظر آئ “ ان کی خاکوں کی کتاب پڑھی تو یہ احساس کچھ کچھ غرور میں بدل گیا کہ کیسے کیسے لوگ ہمارے حلقہ احباب میں ہیں۔
دھیما مزاج،طبیعت میں انکساری اور تہزیب میں رچی شخصیت ان کے خاص اوصاف ہیں ۔ان سے ملاقات ہمیشہ خوشگوار ی کے میٹھے احساس کا تائثر ہی دیتی ہے۔
صحافیانہ انداز میں لکھے گئے ان خاکوں میں باہر کی چمک دمک سے زیادہ ذاتی اوصاف کو اجاگر کیا گیا ہے۔ایک دفعہ یونہی میں نےفاروق عادل صاحب سے کسی کی ذات کے بارے میں پوچھ لیا۔ ترنت جواب دیا میں کسی کی ذاتی زندگی کو گفتگو کا موضوع نہیں بناتا۔
یہ بھی پڑھئے:
ساتویں خانہ و مردم شماری: اہم ترین حقائق جن کا تعلق آپ سے بھی ہے
بدلتے ہوئے سیاسی موسم میں مریم نواز کی نئی یلغار
جیل بھرو تحریک اور از خود کیس کا مستقبل طے ہو گیا
یہی چیز ان کے خاکوں میں بھی نمایاں ہے۔وہ دلیل سے بات کرتے ہیں ذاتی تعلق اور آنکھوں دیکھے واقعات کو بیان کرتے ہیں ۔مگر کہیں بھی یہ تعلق علم و آگہی اور عقل و شعور کا دامن چھوڑتا ہوا نظر نہیں آتا۔
اسلوب کے بہاؤ کے ساتھ بہتے ہوئے میری آگہی اور فکر کی کشتی کبھی ڈگمگاتی کبھی حیران کر دیتی اور کبھی واقعات کی روانی سے الجھے بغیر اقرار کرتے ہی بنتی۔
نامور شخصیات خصوصا سیاسی طور پر مشہور لوگوں کے شخصی اوصاف کی جس بے رحمانہ ایمانداری سے پرتیں کھولی ہیں وہ قاری کو حیران ضرور کر دیتی ہیں۔
بچپن کے جھٹ پٹے سے جھانکتی یادیں،کہیں عصر حاضر کی چکا چوند،ادبی حوالوں اور باریک بینی سے تجزیئہ کرتی نظر سیاسی واقعات کی پتھریلی زمین سے ادبی چاشنی کے ساتھ لفظوں کی جھانجروں سے چھنا چھن چھننن چھننن کی سنگت بھلا دل کیوں نہ لبھائے۔کتاب میں نے نہیں بلکہ کتاب نے مجھے جکڑن پکڑن کے کھیل میں الجھا دیا۔
فاروق عادل صاحب نے بے جا طوالت کو درد سر نہیں بنایا مشاہداللہ خان سے سوالات ان کی اپنی شخصیت سیاست ایماندار ی،نڈر،اور بیباکانہ انداز گفتگو کی مظہر ہے۔یہ نامور لوگوں کے خاکے ہیں جنہیں ہم اپنے ارد گرد دیکھتے اور ان کے بارے میں سنتے رہتے ہیں۔
مثلا قائد اعظم ،میاں طفیل محمد،بیگم نصرت بھٹو،بے نظیر بھٹو،قاضی حسین احمد،اجمل خٹک،سردار فاروق لغاری،جاوید ہاشمی،مشاہداللہ خاں،شیخ رشید،محمد صلاح الدین عطا الحق قاسمی،ڈاکٹر وزیر آغا،آصف علی زرداری،جاوید احمد غامدی ،بشیر احمد بلور اس کتاب میں تقریبا پینتیس کے قریب خاکے ہیں ۔فاروق عادل صاحب کا ان سےصحافیانہ تعلق ہی ان خاکوں کی بنیاد بنایا گیا ہے جو یقیناً ہمارے مطالعے کے لیئے ایک خوبصورت اضافہ ہے۔اور مجھے یقین ہے کہ عصر حاضر کے اور بے شمار چہرے بھی ان کی باریک بین نگاہوں اور زرخیز ذہن میں جگہ بنا چکے ہونگے جن کی نقاب کشائ کا شدت سے انتظار ہے۔