جس وقت یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں، عمران خان کی جیل بھرو تحریک کو ٹھیک دو روز گزر چکے ہیں۔ سوال یہی ہے کہ پی ٹی آئی کی تازہ مہم جوئی کیا رنگ لائے گی؟
یہ سوال اس پس منظر میں زیادہ اہم ہے کہ اس سے پہلے مہم جوئی کی دونوں کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ یہاں ان واقعات کو دہرانے کی ضرورت ہرگز نہیں کہ لاہور جیسے شہر سے اعلان کے مطابق دو سو افراد بھی گرفتاری دینے کے لیے میسر نہ آ سکے۔ دوسرے روز پشاور سے تو کوئی ایک فرد بھی دستیاب نہ ہوا جو لوگ پشاور میں نکلے انھوں نے فوٹو سیشن کیے اور گھروں کو لوٹ گئے۔ یہ دو واقعات مستقبل کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ ممکن ہے دو دن کی ناکامی کے بعد حکمت عملی میں کوئی تبدیلی لا کر ہنگامہ اٹھانے کی کوشش کی جائے لیکن یہ تحریک اٹھتی ہوئی دکھائی دیتی نہیں۔
جیل بھرو تحریک کا ایک اور پہلو توڑ پھوڑ کا رویہ ہے۔ لاہور پشاور دونوں جگہ پی ٹی آئی کے لوگوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایسا طرز عمل تحریکوں میں شدت پیدا کر کے حکومت کو بے بس کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ اس طرز عمل کے جواب میں حکومت سختی بلکہ تشدد کا رویہ اختیار کرتی ہے۔ موجودہ صورت حال میں حکومت تحمل سے کام لے رہی ہے۔ یہ تحمل حکومت کا اعتماد ظاہر کرتی ہے۔ حکومت شاید یہ سمجھتی ہے کہ گرفتاریوں کا سلسلہ زیادہ دیر چل نہ پائے گا، اس لیے قوت کا استعمال فی الحال مناسب نہ ہو گا۔
یہ بھی پڑھئے:
پرویز مشرف: قومی ترانہ سے قومی پرچم تک
سماج میں تبدیلی کے ماخذات اور نعیم فاطمہ علوی کا سفر نامہ
دو روز قبل ضمانت کروانے کے بعد جیل بھرو مہم شروع کرنے والے عمران خان کی حکمت عملی کی ناکامی کا ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ خود ان کے گھر بیٹھے رہنے کی وجہ سے نہ کوئی لیڈر میدان میں نکلا اور نہ کارکن۔ یوں یہ ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ قیادت میدان میں نہ نکلے تو پھر کوئی بھی نہیں نکلتا۔
یقیناً یہ اتفاق ہی ہو گا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے جیل بھرو تحریک شروع ہو جانے کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ کی طرف سے دو صوبوں میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس بھی لے لیا گیا۔ ان دونوں واقعات کے ایک ساتھ رونما ہونے پر زیادہ گفتگو نہیں ہوئی لیکن محسوس ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کے ذہن میں یہ سوال موجود ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو محترمہ مریم نواز سرگودھا کے جلسے کھل کر بات نہ کرتیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتیں اگر یہی طرز عمل برقرار رکھتی ہیں تو آنے والے دنوں میں یہ معاملہ حسب خواہش پروان چڑھتا دکھائی نہیں دیتا۔
از خود نوٹس کے بارے میں سیاسی اور قانونی حلقوں میں بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا قابل ذکر اعتراض تو فل بینچ کی تشکیل کے بارے میں ہے۔ ایک معزز جج کے خلاف ریفرنس کادائر کیا جانا اپنی جگہ اہم ہے لیکن جب کسی بینچ کے ارکان کے بارے میں اتنی بڑے پیمانے پر سوالات پیدا ہو جائیں تو فیصلہ کوئی بھی ہو، سماج میں عمومی طور پر بے اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے۔
از خود نوٹس کی پہلی سماعت کے دوران میں خود کئی فاضل ججوں نے کئی اہم سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ان سوالات نے اس مقدمے کے مستقبل کا قریب قریب فیصلہ کر دیا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ اس صورت حال میں عمران خان کے لیے کوئی خاص خوش خبری دکھائی نہیں دیتی۔