عمر کے 67 برس گزارنے کے بعد یہ احساس جنم لے رہا ہے کہ بہت سے خواب بکھر گئے اور اب زندگی اتنی تھوڑی ہے کہ وہ خواب پورے نہیں ہوسکتے ۔ ان کو پورا کرنے کے لئے کم از کم پچاس ساٹھ عشرے مزید چاہئیں ۔
خوابوں سے میری مراد دولت، شہرت یا حاکمیت نہیں. یہ تو کبھی میری ترجیحات میں شامل ہی نہیں تھے ۔ ہاں تتلیاں، رنگ برنگ کے پھول، خوشبو، برفہوش پہاڑ، حسین وادیاں، خوبصورت ساحل، بارش، خزاں، بہار اور کتابی چہرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب امنگیں تھی، خواب نہ تھے ۔
تو پھر خواب کیا تھے ؟ اپنے رب کی بہت ذوق و شوق سے بندگی کرنا، ایک نامور ادیب اور کسی یونیورسٹی میں پروفیسر بننا ۔
یہ بھی پڑھئے:
فاروق عادل کے خاکے جو صورت نظر آئی
ساتویں خانہ و مردم شماری: اہم ترین حقائق جن کا تعلق آپ سے بھی ہے
یہ خواب ایک حد تک پورے بھی ہوئے، لیکن اب حساب کتاب کرنے بیٹھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ زندگی کی مہلت یا بہت سارا وقت اور سال ضائع کر دئیے ۔
ہندوستان سے ہجرت کے دوران ہمارے کچھ ننہیالی رشتے دار بچھڑ گئے تھے ۔ جب میں 8 ویں کلاس میں تھا تو وہ مل گئے. اس خاندان کی بزرگ شخصیت کو ہم سب نانا کہا کرتے تھے ۔ سفید اور شفاف داڑھی، کرتہ ، پاجامہ، سر پر عمامہ یا سفید ٹوپی ۔ نورانی چہرہ اور لبوں پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی ہوئی ۔
وہ تصوف کے کسی سلسلے سے وابستہ تو نہ تھے ، البتہ فرائض و واجبات کے پابند تھے ۔
ان کے اوصااف کی وجہ سے میں ان کے قریب ہوگیا ۔ بہت عمدہ انداز میں نصیحت کرتے اور انہیں گرہ سے باندھتا جاتا ۔ ایک مرتبہ انہوں نے کاغذ پر استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ لکھ کر دی اور نصیحت کی کہ اسے علی الحساب پڑھا کرو ۔ چنانچہ میں نے دن رات استغفر اللہ کا ورد شروع کر دیا ۔ ایک ماہ بعد ہی دل بے اختیار نمازیں پڑھنے کو چاہنے لگا اور میں نے نمازیں شروع کردیں ۔ حالانکہ برسوں قبل چار پانچ سال کی عمر میں اپنے ابو کو نماز پڑھتا دیکھ کر میں ان کے برابر میں نماز پڑھنے کھڑا ہوجاتا۔ وہ قیام کی حالت میں تلاوت کر رہے ہوتے اور میں انڈین گانے گارہا ہوتا ۔
البتہ ایک چیز میں نے مضبوطی سے پکڑ لی۔ وہ رمضان کے فرض روزے تھے ۔ خیر دین سے وابستگی کا سلسلہ بہت طویل ہے اور اس میں ریاکاری کا احتمال بھی رہتا ہے ۔
اب آتے دوسرے خواب کی طرف یعنی ادیب بننے کا خواب ۔ چونکہ میرے والد عادل جہانگیری مرحوم و مغفور بہترین ناول نویس تھے اور بچوں کا ایک رسالہ بھی شائع کرتے تھے ۔ اس لئے انہوں نے کوشش کی کہ میں اچھا لکھاری بن جاؤں، اس سلسلے میں انہوں نے میری بہت تربیت کی ۔
بچپن میں وہ گھر میں بچوں کے رسالے منگواتے ۔ جن کے علاوہ میں اردو ڈائجسٹ اور دینی کتب کا بھی مطالعہ کرتا تھا ۔ وہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ کسی ایک شعبے کا انتخاب کرو۔ بچوں یا. بڑوں کے لئے ، افسانے، کہانیاں یا ناول یا مضامین اور کالم وغیرہ ۔ پھر اس موضوع پر مسلسل لکھتے چلے جاؤ ۔ دس سال بعد تم ادب یا صحافت میں اپنا مقام بناسکو گے ۔ میں نے اس پر بھی عمل نہیں کیا، دو تین ماہ لکھا اور چھ سات ماہ خاموشی ۔
تیسرا خواب پروفیسر بننے کا تھا اور میرے خیال میں اس کے لئے پی ایچ ڈی ضروری تھی ۔ اس زمانے میں ہمارے گھر کے معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔
اب جبکہ وقت کی نقدی ختم ہونے کو ہے تو میں اپنی زندگی کا حساب کتاب لے کر بیٹھ گیا ۔
ویسے تو میں نے کامیاب زندگی گزاری ہہے، لیکن میرے خواب ؟
ان کے پورا نہ ہونے کا میں خود بھی ذمہ دار ہوں ۔ جب جوانی تھی، قوت تھی اور بہت سا وقت تو میں نے وقت ضائع کر دیا ۔ جبکہ تخلیقی کاموں میں بھرپور لگن اور جنون کی ضرورت ہوتی ہے ۔
جب میری کہانیاں مختلف جرائد میں شائع ہورہی تھیں اور خاص طور پر سال کے اہم واقعات پر مبنی کتاب “عالمی المانک” ہر سال شائع ہورہی تھی اور 2000 تک اشاعت پہنچ گئی تھی ۔ امریکہ کی لائبریری آف کانگریس سے اس کی 20 کاپیاں ہر سال منگوائی جاتی تھیں ۔
4 جنوری 1991 کو ہمارے ابو ہمیں چھوڑ کر دوسرے جہان میں چلے گئے ۔ میں اتنا غمگین ہوا کہ میں نے اپنی سالانہ کتاب لکھنا ہی بند کردی، حالانکہ کسی کے انتقال سے اس دنیا کے کام کبھی نہیں رکتے ۔
بہرحال اب عمر کی نقدی کا حساب کرنے بیٹھا ہوں تو اندازہ ہوا کہ بہت وقت ضائع کیا، اپنے خوابوں کے حوالے سے مستقل مزاجی نہیں تھی، کمٹمنٹ کی کمی تھی، بہت کوشش کری کہ ٹائم ٹیبل بنا کر زندگی گزاروں ۔ مگر یہ نہ ہوسکا اور اب زندگی کی مہلت بھی ختم ہورہی ہے ۔
اب جو سوچیں بھی تو خوف آتا ہے
کس قدر خواب تھے جو خواب رہے
کس قدر نقش تھے جو نقش سر آب رہے
کس قدر لوگ تھے جو
دل کی دہلیز پہ دستک کی طرح رہتے تھے اور نایاب رہے
کس قدر رنگ تھے جو
بند گلیوں کے خم و پیچ میں چکراتے رہے
اپنے ہونے کی تب و تاب میں لہراتے رہے
پر کبھی آپ سے با…