تادم تحریر اسلام آباد پولیس نے عمران خان کو گرفتار نہیں کیا۔ پولیس واپس جا چکی ہے اور عمران تاحال اپنے ‘ بنکر ‘ موجود ہیں۔
سیاسی روایت میں گرفتاری کو معیوب نہیں سمجھا جاتا بلکہ سیاست دان تو گرفتاری کے لیے اپنا بیگ تیار ہی رکھتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ عمران گرفتاری دینے سے گریزاں ہیں؟
اس کی پہلی اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ سیاست دان نہیں، ایک سیلے بریٹی ہیں۔ وہ سیاسی مزاج نہیں رکھتے۔ سیاسی جدوجہد بھی ان کی سرشت میں نہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ خود کو قانون، حتیٰ کہ ریاست سے بھی بلند سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
بدلتے ہوئے سیاسی موسم میں مریم نواز کی نئی یلغار
فاروق عادل کے خاکے جو صورت نظر آئی
یہ خود کو ریاست سے بلند سمجھنے کی بدترین مثال ہے کہ گرفتاری سے بچنے کے لیے ان کے کارکن تشدد سے کام لے رہے ہیں۔ انھوں نے پولیس کا راستہ روک کر دراصل ایک اور جرم کیا ہے۔ ایسے جرائم کے مرتکب صرف اسی قسم کے سیاسی کارکن ہوتے ہیں جن کے لیڈر جرائم پیشہ ہوتے ہیں جیسے الطاف حسین۔ عمران خان ریاست سے تصادم کا راستہ اختیار کر کے الطاف حسین کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ یہ خطرناک راستہ ہے ۔ ایسے جرائم پیشہ لوگوں کا انجام خطرناک ہوتا ہے۔ قومی سیاست اور ملک کے وسیع تر مفاد میں عمران خان کو یہ راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ راستہ ان کی سیاست ہی کو دفن نہیں کر دے گا بلکہ ان کی جان کو بھی خطرے میں ڈال دے گا کیونکہ اس کا واحد مطلب یہ ہے کہ وہ آئین اور ریاست کے باغی ہیں۔ وہ اپنی عاقبت نااندیشی سے اسی انجام کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر معاملہ اسی طرف بڑھتا ہے تو یہ ملک، قوم، سیاست اور خود ان کے لیے بدقسمتی ہو گی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پولیس عمران خان کو گرفتار کیوں نہ کر سکی؟ اس کا واحد سبب جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں کمشنری نظام کا خاتمہ ہے۔ یہ نظام ہوتا تو ایک جوڈیشل مجسٹریٹ دس منٹ میں انھیں گرفتار کر لیتا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کمشنری نظام بحال کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ ایسا نہ کیا گیا تو اس سے ریاست کی رٹ مزید کمزور ہو جائے گی۔
عمران خان نے گرفتاری پیش نہ کر کے کئی بری مثالیں قائم کی ہیں جیسے:
1- انھوں نے خود کو بزدل ثابت کیا ہے۔ نظر بند مخالف سیاست دانوں کی جیل کی کوٹھری سے اے سی اور پنکھے اتارنے اور ان کے سیل میں چینی بچھا کر انھیں کیڑے مکوڑوں کے سپرد کرنے والا خود جیل جانے سے ڈرتا ہے حالانکہ کے ان کے مخالفین ان کی طرح اذیت پسند نہیں ہیں۔
2- عمران دو نہیں ایک پاکستان کی بات کرتے ہیں لیکن انھوں نے گرفتاری سے راہ فرار اختیار کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ان کا پاکستان مختلف ہے۔ یہاں تک کہ ان کا پاکستان ان کے اپنے کارکنوں سے بھی مختلف ہے جنھیں وہ رضاکارانہ گرفتاری دینے پر مجبور کرتے ہیں۔
3- انھوں نے گرفتاری سے راہ فرار اختیار کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے مخالف سیاست ان سے کہیں زیادہ بہادر ہیں جیسے نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے تمام سیاست دان جنھیں نہایت واہیات الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا جیسے سینیٹر عرفان صدیقی جنھیں کرایہ داری ایکٹ کے تحت پکڑا گیا۔
مختصر یہ کہ عمران خان نے گرفتاری سے بچ کر ثابت کر دیا ہے نہ وہ سیاست دان ہیں اور نہ بہادر آدمی ۔ وہ صرف اور محض الطاف حسین کے پیروکار ہیں۔