کراچی اتنا بڑا پاکستان کا سب سے بڑا شہر۔ نسلہ ٹاور ٹوٹا الہ دین ٹوٹا ناجائز بستیاں ٹوٹی اور آپریشن جاری ہے۔ جب اتنے بڑے کام ہو رہے ہیں تو پھر یہ مین روڈوں پر بنے فٹ پاتھ کیوں آزاد نہیں کرائے جا رہے۔ کیوں زیبرا کراسنگ ختم کر دی گئی۔ کیوں پیدل چلنے والوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا کیا مشکل ہے۔ یہ دو کام کرنے میں ارے ایک بار کر کے تو دیکھو بہت خوبصورت چہرہ نکل آئے گا شہر کا پھر اسکے بعد یہ جو مخالف سمت سے لوگ گاڑیوں موٹرسائیکل اور بسوں کو لے آتے ہیں۔ اس پر قابو پا لو قانون سرخرو ہو جائے گا روز قانون کو لوگوں کے حقوق کو بے توقیر ہوتے ہوئے دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم روزانہ بے حسی کی ایک نئی منزل طے کر رہے ہیں۔
کراچی بہت ٹوٹ چکا ہے۔ خدا کے واسطے اسے بچا لیں ہم سب کو مل کر اسے سنوارنا ہے بنا نا ہے۔ سجانا ہے۔ پورے پاکستان کے لوگوں کا روزگار ہے۔ یہ میٹرو پولیٹن سٹی میں سب آتے ہیں پوری دنیا میں آتے ہیں یہاں بھی آتے ہیں آئیں گے آنا چاہیے دھرتی ماں کا سب سے بڑا بیٹا کراچی ہے وہ سب کا خیال رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
جنرل باجوہ اور ففتھ جنریشن وار
آئی ایم ایف نے عمران خان کا سیاسی مستقبل تاریک کیسے کیا؟
بس یہاں رہنے والے ہر شخص سے درخواست یہ ہے آپ بھی اسکا خیال رکھیں۔ اسے دوست سمجھیں اسکی دیواروں پر نہ تھوکیں نہ ہی اسے واش روم سمجھیں جو کام جہاں کرنے کا ہے۔ اسے وہاں کریں ہم سب کی ماں بہنیں بیٹیاں ان سڑکوں پر سے گزرتی ہیں اور کچھ لوگ سب نظر انداز کر کے رفع حاجت کے لیئے بیٹھ جاتے ہیں جدھر جی چاہتا ہے۔ کچرا پھینک دیتے ہیں۔ جہاں جی چاہتا ہے گاڑی کھڑی کر دیتے ہیں کیا قانون کو نسا قانون کس کے لیے قانون مگر قانون بھی کیا کرے جب لوگ ہی راضی نہ ہوں کیا مقامی اور کیا غیر مقامی سب ایک ہی رنگ میں ڈھل گئے ہیں روز کراچی کو کرچی کرچی کرتے ہیں اور شام کو اپنے صاف ستھرے گھروں میں سو جاتے ہیں مرتضی وہاب مصطفی کمال اور حافظ نعیم تینوں مل کر بھی چاہیں تو ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔