آئی ایم ایف کے تعلق سے ملکی معیشت بہت زیادہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے اور اس کا سب سے زیادہ بوجھ عام آدمی کو اٹھانا پڑ رہا ہے کہ روزمرہ کے استعمال کی عام اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ہماری معیشت کی خرابی کے حقیقی اسباب نئے نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی نئی چیز اچانک سے ایسی سامنے آگئی ہے جو پہلے سے معلوم نہ ہو۔
پاکستان میں جس طرح تقریبا ہر چیز میں دو نمبری کا احتمال رہتا ہے اس طرح بسا اوقات گمان ہوتا ہے کہ ہمارے کرائسس بھی مصنوعی اور غیر حقیقی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ قاف لیگ کی حکومت کے آخری دن تھے تو کس طرح آٹا اچانک ملک سے غائب ہو گیا تھا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے اقتدار کے آخری دنوں میں بجلی کا کرائسس سامنے آ گیا تھا۔ امن و امان کی خرابی کے حقیقی اسباب تو کبھی سمجھ ہی نہیں آتے کہ اچانک دہشت گردی اور قتل و غارت کی لہر آتی ہے اور پھر غائب!
یہ بھی پڑھئے:
راستہ دکھانے والوں کی غیر مختتم کہانی
اس وقت بھی جو معاشی بحران چل رہا ہے اس کے حقیقی عوامل یقینا اپنی جگہ اہم ہیں مگر اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ یہ معاشی بحران تو پاکستان میں ہمیشہ سے رہتا ہے۔ اس بحران کے سیاسی پہلوؤں اور عوامل پر بہت کم گفتگو ہو رہی ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی قسط میں تاخیر ہو رہی ہے تو آئی ایم ایف کی ورکنگ سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اس ادارے کے فیصلوں میں تکنیکی و اقتصادی پہلو اپنی جگہ اہم ہوتے ہیں مگر یہ ادارہ بنیادی طور پر سیاسی فیصلوں کے تابع ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو ایک گرداب میں رکھ کر اس کی سانسیں بحال رکھنے میں دلچسپی رکھنے والے خارجی اسٹیک ہولڈرز کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ بظاہر وہ آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ پہلے آئی ایم ایف آگے آئے تو پھر دوسرے اسٹیک ہولڈرز بھی اپنا حصہ ڈالیں گے۔ بادی النظر میں ان تمام قوتوں کو پی ڈی ایم کی قیادت کی خاموش تائید بھی حاصل ہے جو اپنی جگہ اچنبھے کی بات لگتی ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت کیونکر اپنی حکومت کے لئے معاشی مشکلات کھڑی کرے گی؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں کہ ان اندرونی اور بیرونی اسٹیک ہولڈرز کو یہ یقین دہانی مطلوب ہے کہ پاکستان میں فوری طور ہر الیکشن نہیں ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے مطالبے پر اگر ملک عام انتخابات کی طرف جاتا ہے تو پھر اس معاشی کنفیوژن سے نکالنے کی ذمہ داری بھی عمران خان پر ہوگی جو بظاہر ممکن نہیں ہے۔ حکومت اور بیرونی اسٹیک ہولڈرز اگر پاکستان کی معیشت کے لئے لائف لائن کا بندوبست کرتے ہیں تو وہ اپنی شرائط منوائے بغیر یہ کام نہیں کریں گے۔ ملک کی مقتدر قوتیں جن میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سرفہرست آج یہ واضح کر دیں کہ فوری الیکشن کا کوئی امکان نہیں ہے تو کل آئی ایم ایف سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز آن بورڈ آ جائیں گے۔
عمران خان اسے سازش کہیں یا بیرنی مداخلت مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے ریاسی بندوبست کے مستقل اسٹیک ہولڈرز اس وقت عمران خان کی اقتدار میں واپسی کے کسی امکان کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ہماری دانست میں یہ سازش سے زیادہ خان صاحب کی غیر حکیمانہ پالیسیوں اور رومانوی تصورات پر مبنی سیاسی حکمت عملی کا شاخسانہ ہے کہ انہیں پاورفل طبقات میں کوئی بھی قبول کرنے کا تیار نہیں ہے۔ اس تناظر میں ہمارا موجودہ معاشی بحران بھی ایک مصنوعی سنسنی خیزی کے سہارے ہائی لائٹ کیا جا رہا ہے تاکہ فیصلہ کن قوتیں جلد از جلد یکسوئی سے اپنا وزن ایک پلڑے میں رکھ سکیں۔