پشتون خطے کے سیاسی نمائندہ پارٹی پشتونخوا میپ ہے جو مختلف حکومتوں کا اتحادی اور خود کا حکومت بھی بنایا مگر روایتی انداز کا پارٹی حکومت بنتے ہی دراڑیں پیدا ہونے لگے جس کی اصل وجہ وزارتوں کا تقسیم تھا پہلے مرحلے میں انسانی حقوق میں شامل فیصلوں کیلئے کمیٹیوں کی بجائے شخصیات کو سامنے لاتے ہوئے صوبے کا نظام درہم برہم کرنے میں پشتون خواہ کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔
جس میں شامل ہمسائیہ پشتون ملک افغانستاں کا بارڈر تعلیم کو اسان کرنے کیلئے شناخت کارڈ جس سے پڑھنے والے کافی متاثر ہوئے جو پارٹی کا فیصلہ تھا اپنے بے تعلیم ساتھیوں کو روزگار دلانے کیلئے اس کے علاوہ بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوا امن وامان لانے کی بجائے قبضہ مافیا کا گروپ گرم رہا ان چیزوں اور پشتوں قوم کے نقصانات کے ازالے کی بجائے کو مزید دوریاں اور سیاست کو کمزور بنانے میں ساتھیوں نے اہم کردار ادا کیا ۔
بلوچستاں کے عام پشتون اتحادی اور اعتماد رکھنے والے نوجوان نسل عوامی وعدوں پر جھوٹی سیاست بہت دیر تک نہیں چل سکا اس میں عوامی رائے کے بجائے مورثیت کا نفاذ کیا گیا مذید وقتوں میں پارٹی کا سیاسی بحران عوامی رائے اور عثمان کاکڑ جیسا شخصیت کا موت کی مزید نقصانات اور پیشرفت پیدا کیا جس کا اصولی مقصد متحد ہونا تھا مگر مورثیت اور دس سالہ جنگ نے مزید تلخیاں اور علیحدگیاں پیدا کیا جس کے باعث پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چئیرمین نے کمیٹی کے دستخط سے پارٹی کے رہنماوں کو نکالنا شروع کیا جس سے نہ قومی سیاسی پارٹی کو نقصان ہوا بلکہ نوجوان نسل کو مذید بھڑکانے علمی تحقیقی اور روزگاری دنیا سے محروم رکھنے کا مواقع بھی میسر ائے جس سے ہزاروں طلباء اپنا سیاسی کیرئیر اور روزگار سے محروم رہے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
کراچی: ٹوٹا کیسے، بچائیں کیسے؟
آئی ایم ایف نے عمران خان کا سیاسی مستقبل تاریک کیسے کیا؟
شخصی اور ذاتی تحفظات کے حل کے بجائے چئیرمیں پارٹی کی طے شدہ فیصلے سے پارٹی دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا پارٹی رہنماوں کے مطابق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں اختلافات تو طویل عرصے سے تھے، لیکن حالیہ دنوں میں ان میں شدت اس وقت آئی جب محمود خان اچکزئی نے پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل سمیت تین مرکزی سیکریٹریوں اور ایسے عہدے داروں کو بھی پارٹی سے نکال دیا، جو پچھلے چالیس سال سے خان شہید کا نظریہ اور سیاست اجاگر کرنا چاہتے تھے بھی جو عرصہ دراز سے ان کی جماعت سے وابستہ رہے اور ان کے والد کے بھی دیرینہ ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔
پارٹی کے سیکرٹری جنرل مختیاریوسفزئی جن کے پہلے ہی پارٹی سربراہ سے اختلافات تھے دوران فیصلہ محمود خان اچکزئی کے فیصلے کو غیرقانونی اورمن مانا قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کےموجودہ حالات میں ایسے فیصلوں کے بجائے قومی اتحاد واتفاق کو مذید مضبوط رکھنے کیلئے پارٹی رہنماوں کو اپنا کردرا ادا کرنا چاہئے تھا جس میں اہم شخصیات چیئرمین محمود خان اچکزئی۔ نواب ایاز خان جوگیزئی۔ مختیار خان یوسفزئی خورشید کاکا نصراللہ زہری یوسف خان۔خوشحال کاسی رحیم خان زیارتوال اور قہار خان ودان شامل ہونا چاہئے بلوچستان میں موجودہ واحد پشتون قومی پارٹی واحد پارٹی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ہے جو بلوچستان میں کئی دہائیوں سے عوامی سیاست کرتے ارہے ہے جو بمشکل عوام کا اعتماد بن چکا تھا سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا تھا کہ اگر پارٹی مزید اپنی پرانی وقتوں میں تبدیل نہیں ہوا تو یہ عوام اور اعتماد کیلئے سخت امتحان اور مشکلات رہے گا۔
مگر پشتونخواہ کے سربراہان ایک دوسرے کے سر کچلنے میں لگے رہے جس کا پہلا مرحلہ پشتونخواہ کے مرکزی ممبرز کا اجلاس جو کچلاک میں ہوا جس سے پارٹی کو مزید بحران کے طرف دھکیل لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چئیرمین پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کا ذاتی پارٹی کو سمجھتے ہوئے مزید مورثیت کا اجاگر کرنے کیلئے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا سے جس میں واضع نام اور عہدہ کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو میڈیا کے سامنے نکال دیا جس سے مزید تلخیاں اور سخت فیصلے کو جنم دیا جس میں محمود خان اچکزئی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پارٹی اس سخت مشکلات کی وجہ سے اختلافات کس میڈیا پر انا پڑ رہا ہے جو میں کھبی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
خان شہید کے بعد پارٹی کی زمہ داریاں مجھے دے دی گئی خان شہید کے بعد سے پارٹی سے کسی کو بےدخل نہیں کیا۔میں بہت صبر رکھنے والا شخص ہوں لیکن اب مشکل فیصلے کرنے پڑرہے ہیں
نکالنے والے گروپ نے مزید محمود خان کے ساتھ چلنے سے راہ راست ہوگئے اور پارٹی کے ائین منشور اور عہدوں کے تقسیم کیلئے سال کے اخری مہنے کے ستائیس اور اٹھائیس تاریخ کو پانچویں کانگرس کا اعلان کیا اس کانگرس کے اخراجات اور تیاریاں وہی نام اور پارٹی کے جھنڈے سے کر رہے تھے۔
اس کانگرے کے دوران میں محمود خان اچکزئی نے دوسری کانگری کا اعلان کیا جسکا نام ساتھویں قومی کانگرہ رکھا جو تین دن مسلسل جاری رہا جس میں صوبوں کے ساتھ ساتھ مرکزی کمیٹی کا بھی اعلان کیا گیا جس میں ستر سال سے خاندانی اور مورثی سیاست کا جیت ہوا محمود خان اچکزئی ایک بار پھر اور تا حیات منتخب ہونے والا چئیرمین بن گیا جو اس کے ساتھی خوش آئیند سمجھ رہے تھے محمود خان اچکزئی نے وکلاء کا ونگ کا آعلان بھی کیا مگر وہی انداز میں عورتوں کیلئے کوئی حصہ نہیں رکھا۔
کل سے شروع ہونے والا کانگرے کے دوسری گروپ کا اجلاس میں پارٹی کو متحد کرنے کی بجائے دن کے اخری مراحل میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے نام سے مسلوب پارٹی کے منتخب ایک ساتھ دو چئیرمین کا نام سامنے ائے جو پاکستان کے سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ آیا جس میں خوشحال چئیرمین اور مختیار خان شریک چئیرمین منتخب ہوا اس کے علاہ عورتوں کا ونگ اور وکلاء کا ونگ بھی منتخب ہوئے جو قابل فخر بات ہے۔
سیاسی ماہرین کے کہنا ہے کہ اس طرح کانگروں کا انعقاد اور نفرت سے صاف ظاہر ہوتے کہ یہ لوگ اپس میں نظریات کی بجائے شخصیات کے تحفظات رکھتے خو ذاتیات پر مبنی ہے اس جنگ کا ازالہ طالبعلموں اور نوجوان نسل بھکتے گا اگر اس پارٹی میں مزید اس طرح کے پیشرفت ہوئے تو وہ وقت دور نہیں جس کی وجہ سے دونوں سیاسی رہنماوں کے جنگ میں نوجوان نسل برباد ہونگے اور مزید بے روزگاری کے سبب اس جنگ سے مزید صوبے میں امن وامان اور اتحاد کا نام ونشان مٹ جائےگا تعلیمی اداروں میں سیاسی جھڑپوں سے طلباء کا وقت اور تعلیمی کئیریر برباد ہوسکتا ہے جو ماضی میں بھی اختلافات کی وجہ سے ہوا۔