سزا سے بچنے یا کسی دوسرے کو بچانے کی خاطر جھوٹ بولا جاتا ہے، ہم اپنی خفت، شرمندگی اور کسی بھی خراب صورتحال کا سامنا نہ کرنے کیلئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں، حقیقت سے جان چھڑانے کی بے شمار وجوہات ہیں۔ کوئی آپ کے بارے میں بری رائے نہ بنائے اس بنا پر بھی جھوٹ کا سہارا لینا پڑجاتا ہے۔ کچھ جھوٹ ایسے ہوتے ہیں، جنہیں کسی صورت اچھا سمجھا یا سراہا نہیں جاتا، وہ کسی کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہوتے۔ یعنی اپنے گھڑے جواز بھی اکثر کام نہیں آتے،
انسان شاید ہوش سنبھالتے ہی کسی نہ کسی طور اس عادت کو اپنا لیتا ہے، یہ ضرور ہے کچھ میں کم اور کچھ میں باکثرت پائی جاتی ہے۔ پہلا جھوٹ شاید بچہ ماں سے اور پھر والد سے بولتا ہے، وہ چاہے دودھ نہ پینے کا بہانہ ہو یا پھر کسی منع کی گئی شے کے کھانے کی لالچ ہو، صرف وجہ سزا اور غصے سے بچنا ہے، سکول میں کلاس فیلو، خاندان اور گھر میں بھائی بہن یا کزن ، محلے میں دوست آفس میں کولیگ کی خاطر بھی جھوٹ بولنے پڑ جاتے ہیں۔ کبھی کبھار کسی کی جان کو خطرہ ہوتا ہے، اس کو محفوظ کرنے کیلئے کوئی بہانہ بنادیا جاتاہے،
اپنی تعریف کسے اچھی نہیں لگتی، خود کو سراہے جانے کا بڑا نشہ ہوتا ہے، اس مقصد کا حصول بعض اوقات جھوٹ بولنے پر مجبور کردیتا ہے، سماجی طور پر کسی شرمندگی سے بچنے کیلئے بھی اس ہتھیار کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
آئی ایم ایف نے عمران خان کا سیاسی مستقبل تاریک کیسے کیا؟
سیاست کے میدان میں بڑے وعدے اور دعوے بھی تقریباً ایسی ہی شکل اختیار کرجاتے ہیں، جن کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ سب جانتے ہیں کہ غلط بیانی کی جارہی ہے اس کے باوجود بولنے والے کااعتماد اور بھروسا اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ سچ کا گمان ہوتا ہے۔
جھوٹ میں ایک سلیقہ اور طریقہ کار ہوتا ہے جسے اپنا کر مخاطب کو نہ صرف قائل کیا جاتاہے بلکہ ایسے حالات سے متعارف کرادیا جاتا ہے کہ وہ اسے سچ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔
اخلاقیات اور سماجیات کے تمام رہنما اصول اس کی نہ صرف نفی کرتے ہیں بلکہ اس عادت کے خلاف بڑے درس اور تلقین پر مبنی ہدایات دی جاتی ہیں۔ جس میں انسانی ذہن سے لے کر اس کے کردار اور چال چلن پر طرح طرح کے سوالات کھڑے کردیئے جاتے ہیں۔ سماج میں جھوٹ بولنے والے کو بظاہر کہتے ہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ مگر جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھیں تو آج دوسروں کو مطمئن کرنے ترقی کے زینے چڑھنے اور بہتر کاروباری طریقے اپنانے کے لئے بہت حد تک جھوٹ ہی معاون اور مدگار ثابت ہوتا ہے۔ اشتہاروں میں فلموں ڈراموں میں فسانے اور امیجی نیشن کے نام پر سب کچھ بکتا ہے۔ سیاست میں ایسی ذہن سازی کردی جاتی ہے کہ لیڈر کی بات جیسے حق سچ پتھر پے لیکر ہو۔ اپنے پیر کے حالات بدل دینے کے دعوے کوئی کہہ دے جھوٹ ہیں تو مرید اس شخص کی جان لینے تک آجاتا ہے۔
جھوٹ کی دکان بظاہر بڑی کمزور بنیادوں پر کھڑی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کی حقیقت اور سچ یہ ہے کہ مسجد مندر چرچ گوردوارہ عدالت کہیں بھی اس کا دامن چھوٹ نہیں پاتا۔
اس کے برعکس کھڑے ہوجائیں اکثریت خود کو ناتواں کمزور بے آسرا لاوارث محسوس کرنے لگتی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے سچ ضرور بولیں لیکن اس کے نقصانات کو پیش نظر رکھے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ مزاج ایسا بن گیا ہے کہ درست اور حقائق پر مبنی بات یعنی ابلاغ ممکن نہیں جب مکمل تصدیق کے بغیر ادھوری نامکمل معلومات کا تبادلہ ہوگا ایسے دور میں جب اکثریت یعنی پڑھے لکھے اور کم تعلیم یافتہ ان ہڑھ سوشل میڈیا سے اطلاعات موصول کرتے ہیں جہاں زیادہ تر ذاتی تسکین اور شغل کے طور پر کچھ بھی پوسٹ کرکے ردعل اور بحث ومباحثے چھیڑ دیتے ہیں کسی غلط اطلاع موضوع بناکر مکالمے کا عمل شروع ہوجاتا ہے پھر بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے تصدیق کا عمل کہیں گم ہوجاتا ہے۔
ادھورے سچ سے مکمل جھوٹ تک کا سفر منٹوں میں طے کرجاتے ہیں کسی کو شرمندگی خفت یا پشیمانی کا احساس تک نہیں ہوتا کیونکہ اکثریت ان سب کے مفہوم سے بھی ناآشنا ہیں۔ اس سب کے نتیجے میں جھوٹ کبھی ثابت نہیں ہوپاتا سچ اپنی شناخت اور پہچان کی تلاش میں ہمیشہ کی طرح تاریک راہوں میں بھٹکتا رہتا۔ کوئی پروا نہیں کرتا آخر سچ کے مقابلے میں جھوٹ کیسے فاتح بن کر سامنے آجاتا ہے۔ سچ کی حقیقت اب کتابوں اور تاریخ کے اوراق میں بھی ڈھونڈنا مشکل ہے۔
ہمیں جھوٹ کے بہتر مستند اور قابل اعتبار طریقے تلاش کرکے اپنی مشکل کا حل نکالنا ہوگا کیونکہ یہی جھوٹ اصل میں آج کا سچ ہے۔