Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
محترم عطا الرحمٰن بھی رخصت ہو گئے اور چار عشرے کا تعلق ساتھ لے گئے۔ بڑے بے باک اور آئین و قانون کے پاسدار سینئر صحافی روزنامہ ‘نئی بات’ کے گروپ ایڈیٹر عطاالرحمان سے میرا تعارف تو بہت پرانا تھا لیکن تعلق اس وقت بنا جب مجیب الرحمان شامی صاحب نے ان کو اپنی زیر ادارے شائع ہونے والے ہفت روزہ ‘زندگی’ کا مدیر بنایا۔ ‘زندگی’ میں میرا لکھنا اس وقت شروع ہوا تھا جب یہ پرچہ قریشی برادران کی ملکیت میں تھا لیکن عطا صاحب سے قربت اس وقت پیدا ہوئی جب یہ پرچہ شامی صاحب کی ملکیت بن گیا تھا۔ میں ‘جسارت’ اور ‘تکبیر’ سے ہوتا ہوا ایک عرصے میں مجید نظامی مرحوم کی زلف کا اسیر ہوا۔
یہ بھی دیکھئے:
عطاالرحمان صاحب پہلے ہی ‘نوائے وقت’ سے وابستہ تھے۔ میں بھی وہاں لکھنے لگا۔ لیکن جب روزنامہ ‘نئی بات’ کا ظہور ہوا تو اس کا گروپ ایڈیٹر جناب عطاالرحمان کو بنایا گیا۔ وہ خود ‘نوائے وقت’ چھوڑ گئے تو مجھے بھی کھینچ کر ‘نئی بات’ میں لے گئے۔
انہوں نے اس اخبار کے لیے کالم نگاروں کی ایک کہکشاں اکٹھی کر لی تھی۔ سجاد میر، عبداللہ طارق سہیل، ڈاکٹر طاہر مسعود، ابو نثر اور اس خاکسار کے علاوہ ‘اعتدال پسندوں’ سے عارف نظامی اور بائیں بازو کے دانشوروں اور صحافیوں میں سے سہیل گوئندی اور مجاہد بریلوی سب عطاالرحمان صاحب کے ‘سائے میں ایک ہی ‘چھت’ کے نیچے اکٹھے ہو گئے۔ میں نے چار سال تک وہاں کالم لکھے لیکن اس اخبار کے مالکان نے اس اخبار کے دودھ سے ایک ٹی وی چینل کا بچہ پالنا شروع کر دیا تو دودھ سوکھنے لگا تھا۔
عطاالرحمان صاحب بے بس اور مجبور تھے۔ سب ‘کہکشانیوں’ سے انہوں نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہ ہوئے تو کہکشاں بکھر گئی اور تارے ٹوٹ کر کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔ میں نے بھی کالم نگاری ترک کر کے اپنی ساری توجہ تصنیف و تالیف پر مرکوز کر دی۔ لیکن محترم عطاالرحمان صاحب سے تعلق قائم رہا۔ جب لاہور جانا ہوتا تو ان کے گھر یا دفتر میں حاضر ہو کر شرف ملاقات پاتا تھا۔ آخری عمر میں عطاالرحمان صاحب آئین و قانون کے پاسداروں کی صف کے سرخیل بن گئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
چھبیس فروری: آج قدرت اللہ شہاب کی سالگرہ ہے
آج پاکستان کے ممتاز اداکار حبیب کی برسی ہے
کیا حجاب پر پابندی سے بی جے پی کو انتخابی فوائد حاصل ہوں گے؟
عطا الرحمٰن آمریت کے ہر چہرے کے سخت ناقد اور مخالف تھے خواہ وہ آمریت باوردی ہو یا سول۔ سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی ٹوپی پہننے والے ذوالفقار علی بھٹو کے بھی وہ بے پناہ مداح ہو گئے تھے کیوں کہ اس کو ایک وردی والے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے سولی پر چڑھانے کا اہتمام کیا تھا۔ میں مدیر اردو ڈائجست جناب الطاف حسن قریشی کے دبستان کا آدمی تھا۔ عطاالرحمان صاحب اس ‘گدی’ سے شامی کے توسط وابستہ ہوئے اور ان کو وہ اپنا محسن اور مرشد ہی مانتے تھے۔ ہر معاملے میں شامی صاحب سے مشورہ لیتے تھے۔
آخری عمر میں عطا الرحمٰن ہمشیرہ نے اپنا ایک پلاٹ ان کے سپرد کیا۔ عطاالرحمان صاحب نے وہاں ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرا دی اور اس کے ٹرسٹ کا ذمہ دار بھی شامی صاحب کو بنایا۔ قریب ایک اور پلاٹ کسی نے عطاالرحمان صاحب کے توسط سے اس مسجد کے لیے وقف کیا تھا لیکن مسجد کمیٹی بوجوہ اسے مسجد میں شامل نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ پلاٹ جماعت اسلامی لاہور کے رہنماؤں، ذكراللہ مجاہد اور سلمان بلوچ، کو بلا کر انہوں نے ‘الخدمت’ کے لیے وقف کر دیا۔ ساری زندگی ایک سادہ سے آبائی گھر میں گزاری۔ نہ کوئی کوٹھی، نہ بنگلہ اور نہ پلاٹ لیا۔ الله ان کی مغفرت فرمائے اور حسنات قبول فرمائے۔ آمین
محترم عطا الرحمٰن بھی رخصت ہو گئے اور چار عشرے کا تعلق ساتھ لے گئے۔ بڑے بے باک اور آئین و قانون کے پاسدار سینئر صحافی روزنامہ ‘نئی بات’ کے گروپ ایڈیٹر عطاالرحمان سے میرا تعارف تو بہت پرانا تھا لیکن تعلق اس وقت بنا جب مجیب الرحمان شامی صاحب نے ان کو اپنی زیر ادارے شائع ہونے والے ہفت روزہ ‘زندگی’ کا مدیر بنایا۔ ‘زندگی’ میں میرا لکھنا اس وقت شروع ہوا تھا جب یہ پرچہ قریشی برادران کی ملکیت میں تھا لیکن عطا صاحب سے قربت اس وقت پیدا ہوئی جب یہ پرچہ شامی صاحب کی ملکیت بن گیا تھا۔ میں ‘جسارت’ اور ‘تکبیر’ سے ہوتا ہوا ایک عرصے میں مجید نظامی مرحوم کی زلف کا اسیر ہوا۔
یہ بھی دیکھئے:
عطاالرحمان صاحب پہلے ہی ‘نوائے وقت’ سے وابستہ تھے۔ میں بھی وہاں لکھنے لگا۔ لیکن جب روزنامہ ‘نئی بات’ کا ظہور ہوا تو اس کا گروپ ایڈیٹر جناب عطاالرحمان کو بنایا گیا۔ وہ خود ‘نوائے وقت’ چھوڑ گئے تو مجھے بھی کھینچ کر ‘نئی بات’ میں لے گئے۔
انہوں نے اس اخبار کے لیے کالم نگاروں کی ایک کہکشاں اکٹھی کر لی تھی۔ سجاد میر، عبداللہ طارق سہیل، ڈاکٹر طاہر مسعود، ابو نثر اور اس خاکسار کے علاوہ ‘اعتدال پسندوں’ سے عارف نظامی اور بائیں بازو کے دانشوروں اور صحافیوں میں سے سہیل گوئندی اور مجاہد بریلوی سب عطاالرحمان صاحب کے ‘سائے میں ایک ہی ‘چھت’ کے نیچے اکٹھے ہو گئے۔ میں نے چار سال تک وہاں کالم لکھے لیکن اس اخبار کے مالکان نے اس اخبار کے دودھ سے ایک ٹی وی چینل کا بچہ پالنا شروع کر دیا تو دودھ سوکھنے لگا تھا۔
عطاالرحمان صاحب بے بس اور مجبور تھے۔ سب ‘کہکشانیوں’ سے انہوں نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہ ہوئے تو کہکشاں بکھر گئی اور تارے ٹوٹ کر کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔ میں نے بھی کالم نگاری ترک کر کے اپنی ساری توجہ تصنیف و تالیف پر مرکوز کر دی۔ لیکن محترم عطاالرحمان صاحب سے تعلق قائم رہا۔ جب لاہور جانا ہوتا تو ان کے گھر یا دفتر میں حاضر ہو کر شرف ملاقات پاتا تھا۔ آخری عمر میں عطاالرحمان صاحب آئین و قانون کے پاسداروں کی صف کے سرخیل بن گئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
چھبیس فروری: آج قدرت اللہ شہاب کی سالگرہ ہے
آج پاکستان کے ممتاز اداکار حبیب کی برسی ہے
کیا حجاب پر پابندی سے بی جے پی کو انتخابی فوائد حاصل ہوں گے؟
عطا الرحمٰن آمریت کے ہر چہرے کے سخت ناقد اور مخالف تھے خواہ وہ آمریت باوردی ہو یا سول۔ سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی ٹوپی پہننے والے ذوالفقار علی بھٹو کے بھی وہ بے پناہ مداح ہو گئے تھے کیوں کہ اس کو ایک وردی والے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے سولی پر چڑھانے کا اہتمام کیا تھا۔ میں مدیر اردو ڈائجست جناب الطاف حسن قریشی کے دبستان کا آدمی تھا۔ عطاالرحمان صاحب اس ‘گدی’ سے شامی کے توسط وابستہ ہوئے اور ان کو وہ اپنا محسن اور مرشد ہی مانتے تھے۔ ہر معاملے میں شامی صاحب سے مشورہ لیتے تھے۔
آخری عمر میں عطا الرحمٰن ہمشیرہ نے اپنا ایک پلاٹ ان کے سپرد کیا۔ عطاالرحمان صاحب نے وہاں ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرا دی اور اس کے ٹرسٹ کا ذمہ دار بھی شامی صاحب کو بنایا۔ قریب ایک اور پلاٹ کسی نے عطاالرحمان صاحب کے توسط سے اس مسجد کے لیے وقف کیا تھا لیکن مسجد کمیٹی بوجوہ اسے مسجد میں شامل نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ پلاٹ جماعت اسلامی لاہور کے رہنماؤں، ذكراللہ مجاہد اور سلمان بلوچ، کو بلا کر انہوں نے ‘الخدمت’ کے لیے وقف کر دیا۔ ساری زندگی ایک سادہ سے آبائی گھر میں گزاری۔ نہ کوئی کوٹھی، نہ بنگلہ اور نہ پلاٹ لیا۔ الله ان کی مغفرت فرمائے اور حسنات قبول فرمائے۔ آمین
محترم عطا الرحمٰن بھی رخصت ہو گئے اور چار عشرے کا تعلق ساتھ لے گئے۔ بڑے بے باک اور آئین و قانون کے پاسدار سینئر صحافی روزنامہ ‘نئی بات’ کے گروپ ایڈیٹر عطاالرحمان سے میرا تعارف تو بہت پرانا تھا لیکن تعلق اس وقت بنا جب مجیب الرحمان شامی صاحب نے ان کو اپنی زیر ادارے شائع ہونے والے ہفت روزہ ‘زندگی’ کا مدیر بنایا۔ ‘زندگی’ میں میرا لکھنا اس وقت شروع ہوا تھا جب یہ پرچہ قریشی برادران کی ملکیت میں تھا لیکن عطا صاحب سے قربت اس وقت پیدا ہوئی جب یہ پرچہ شامی صاحب کی ملکیت بن گیا تھا۔ میں ‘جسارت’ اور ‘تکبیر’ سے ہوتا ہوا ایک عرصے میں مجید نظامی مرحوم کی زلف کا اسیر ہوا۔
یہ بھی دیکھئے:
عطاالرحمان صاحب پہلے ہی ‘نوائے وقت’ سے وابستہ تھے۔ میں بھی وہاں لکھنے لگا۔ لیکن جب روزنامہ ‘نئی بات’ کا ظہور ہوا تو اس کا گروپ ایڈیٹر جناب عطاالرحمان کو بنایا گیا۔ وہ خود ‘نوائے وقت’ چھوڑ گئے تو مجھے بھی کھینچ کر ‘نئی بات’ میں لے گئے۔
انہوں نے اس اخبار کے لیے کالم نگاروں کی ایک کہکشاں اکٹھی کر لی تھی۔ سجاد میر، عبداللہ طارق سہیل، ڈاکٹر طاہر مسعود، ابو نثر اور اس خاکسار کے علاوہ ‘اعتدال پسندوں’ سے عارف نظامی اور بائیں بازو کے دانشوروں اور صحافیوں میں سے سہیل گوئندی اور مجاہد بریلوی سب عطاالرحمان صاحب کے ‘سائے میں ایک ہی ‘چھت’ کے نیچے اکٹھے ہو گئے۔ میں نے چار سال تک وہاں کالم لکھے لیکن اس اخبار کے مالکان نے اس اخبار کے دودھ سے ایک ٹی وی چینل کا بچہ پالنا شروع کر دیا تو دودھ سوکھنے لگا تھا۔
عطاالرحمان صاحب بے بس اور مجبور تھے۔ سب ‘کہکشانیوں’ سے انہوں نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہ ہوئے تو کہکشاں بکھر گئی اور تارے ٹوٹ کر کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔ میں نے بھی کالم نگاری ترک کر کے اپنی ساری توجہ تصنیف و تالیف پر مرکوز کر دی۔ لیکن محترم عطاالرحمان صاحب سے تعلق قائم رہا۔ جب لاہور جانا ہوتا تو ان کے گھر یا دفتر میں حاضر ہو کر شرف ملاقات پاتا تھا۔ آخری عمر میں عطاالرحمان صاحب آئین و قانون کے پاسداروں کی صف کے سرخیل بن گئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
چھبیس فروری: آج قدرت اللہ شہاب کی سالگرہ ہے
آج پاکستان کے ممتاز اداکار حبیب کی برسی ہے
کیا حجاب پر پابندی سے بی جے پی کو انتخابی فوائد حاصل ہوں گے؟
عطا الرحمٰن آمریت کے ہر چہرے کے سخت ناقد اور مخالف تھے خواہ وہ آمریت باوردی ہو یا سول۔ سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی ٹوپی پہننے والے ذوالفقار علی بھٹو کے بھی وہ بے پناہ مداح ہو گئے تھے کیوں کہ اس کو ایک وردی والے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے سولی پر چڑھانے کا اہتمام کیا تھا۔ میں مدیر اردو ڈائجست جناب الطاف حسن قریشی کے دبستان کا آدمی تھا۔ عطاالرحمان صاحب اس ‘گدی’ سے شامی کے توسط وابستہ ہوئے اور ان کو وہ اپنا محسن اور مرشد ہی مانتے تھے۔ ہر معاملے میں شامی صاحب سے مشورہ لیتے تھے۔
آخری عمر میں عطا الرحمٰن ہمشیرہ نے اپنا ایک پلاٹ ان کے سپرد کیا۔ عطاالرحمان صاحب نے وہاں ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرا دی اور اس کے ٹرسٹ کا ذمہ دار بھی شامی صاحب کو بنایا۔ قریب ایک اور پلاٹ کسی نے عطاالرحمان صاحب کے توسط سے اس مسجد کے لیے وقف کیا تھا لیکن مسجد کمیٹی بوجوہ اسے مسجد میں شامل نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ پلاٹ جماعت اسلامی لاہور کے رہنماؤں، ذكراللہ مجاہد اور سلمان بلوچ، کو بلا کر انہوں نے ‘الخدمت’ کے لیے وقف کر دیا۔ ساری زندگی ایک سادہ سے آبائی گھر میں گزاری۔ نہ کوئی کوٹھی، نہ بنگلہ اور نہ پلاٹ لیا۔ الله ان کی مغفرت فرمائے اور حسنات قبول فرمائے۔ آمین
محترم عطا الرحمٰن بھی رخصت ہو گئے اور چار عشرے کا تعلق ساتھ لے گئے۔ بڑے بے باک اور آئین و قانون کے پاسدار سینئر صحافی روزنامہ ‘نئی بات’ کے گروپ ایڈیٹر عطاالرحمان سے میرا تعارف تو بہت پرانا تھا لیکن تعلق اس وقت بنا جب مجیب الرحمان شامی صاحب نے ان کو اپنی زیر ادارے شائع ہونے والے ہفت روزہ ‘زندگی’ کا مدیر بنایا۔ ‘زندگی’ میں میرا لکھنا اس وقت شروع ہوا تھا جب یہ پرچہ قریشی برادران کی ملکیت میں تھا لیکن عطا صاحب سے قربت اس وقت پیدا ہوئی جب یہ پرچہ شامی صاحب کی ملکیت بن گیا تھا۔ میں ‘جسارت’ اور ‘تکبیر’ سے ہوتا ہوا ایک عرصے میں مجید نظامی مرحوم کی زلف کا اسیر ہوا۔
یہ بھی دیکھئے:
عطاالرحمان صاحب پہلے ہی ‘نوائے وقت’ سے وابستہ تھے۔ میں بھی وہاں لکھنے لگا۔ لیکن جب روزنامہ ‘نئی بات’ کا ظہور ہوا تو اس کا گروپ ایڈیٹر جناب عطاالرحمان کو بنایا گیا۔ وہ خود ‘نوائے وقت’ چھوڑ گئے تو مجھے بھی کھینچ کر ‘نئی بات’ میں لے گئے۔
انہوں نے اس اخبار کے لیے کالم نگاروں کی ایک کہکشاں اکٹھی کر لی تھی۔ سجاد میر، عبداللہ طارق سہیل، ڈاکٹر طاہر مسعود، ابو نثر اور اس خاکسار کے علاوہ ‘اعتدال پسندوں’ سے عارف نظامی اور بائیں بازو کے دانشوروں اور صحافیوں میں سے سہیل گوئندی اور مجاہد بریلوی سب عطاالرحمان صاحب کے ‘سائے میں ایک ہی ‘چھت’ کے نیچے اکٹھے ہو گئے۔ میں نے چار سال تک وہاں کالم لکھے لیکن اس اخبار کے مالکان نے اس اخبار کے دودھ سے ایک ٹی وی چینل کا بچہ پالنا شروع کر دیا تو دودھ سوکھنے لگا تھا۔
عطاالرحمان صاحب بے بس اور مجبور تھے۔ سب ‘کہکشانیوں’ سے انہوں نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہ ہوئے تو کہکشاں بکھر گئی اور تارے ٹوٹ کر کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔ میں نے بھی کالم نگاری ترک کر کے اپنی ساری توجہ تصنیف و تالیف پر مرکوز کر دی۔ لیکن محترم عطاالرحمان صاحب سے تعلق قائم رہا۔ جب لاہور جانا ہوتا تو ان کے گھر یا دفتر میں حاضر ہو کر شرف ملاقات پاتا تھا۔ آخری عمر میں عطاالرحمان صاحب آئین و قانون کے پاسداروں کی صف کے سرخیل بن گئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
چھبیس فروری: آج قدرت اللہ شہاب کی سالگرہ ہے
آج پاکستان کے ممتاز اداکار حبیب کی برسی ہے
کیا حجاب پر پابندی سے بی جے پی کو انتخابی فوائد حاصل ہوں گے؟
عطا الرحمٰن آمریت کے ہر چہرے کے سخت ناقد اور مخالف تھے خواہ وہ آمریت باوردی ہو یا سول۔ سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی ٹوپی پہننے والے ذوالفقار علی بھٹو کے بھی وہ بے پناہ مداح ہو گئے تھے کیوں کہ اس کو ایک وردی والے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے سولی پر چڑھانے کا اہتمام کیا تھا۔ میں مدیر اردو ڈائجست جناب الطاف حسن قریشی کے دبستان کا آدمی تھا۔ عطاالرحمان صاحب اس ‘گدی’ سے شامی کے توسط وابستہ ہوئے اور ان کو وہ اپنا محسن اور مرشد ہی مانتے تھے۔ ہر معاملے میں شامی صاحب سے مشورہ لیتے تھے۔
آخری عمر میں عطا الرحمٰن ہمشیرہ نے اپنا ایک پلاٹ ان کے سپرد کیا۔ عطاالرحمان صاحب نے وہاں ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرا دی اور اس کے ٹرسٹ کا ذمہ دار بھی شامی صاحب کو بنایا۔ قریب ایک اور پلاٹ کسی نے عطاالرحمان صاحب کے توسط سے اس مسجد کے لیے وقف کیا تھا لیکن مسجد کمیٹی بوجوہ اسے مسجد میں شامل نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ پلاٹ جماعت اسلامی لاہور کے رہنماؤں، ذكراللہ مجاہد اور سلمان بلوچ، کو بلا کر انہوں نے ‘الخدمت’ کے لیے وقف کر دیا۔ ساری زندگی ایک سادہ سے آبائی گھر میں گزاری۔ نہ کوئی کوٹھی، نہ بنگلہ اور نہ پلاٹ لیا۔ الله ان کی مغفرت فرمائے اور حسنات قبول فرمائے۔ آمین