Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
گذشتہ ہفتے بھارتی ریاست کرناٹکا کے مسلمان خواتین کے تعلیم اداروں میں حجاب پہنے پر پابندی کے فیصلے کے نتیجے میں بھارت کی ہندو و مسلمان کمیونٹیوں کے درمیان تناؤ کی صورتحال بڑھتی جارہی ہے،
یہ قانون پہلے ہی گذشتہ چند ہفتوں سے احتجاج کی وجہ بنا ہوا تھا لیکن گذشتہ ہفتے ایک برقع پوش مسلمان لڑکی کی کالج میں داخلے کے وقت ہندو ہجوم کی جانب سے ہراسانی کی ویڈیو وائرل ہونے کی وجہ سے اس معاملے میں شدت آگئی ۔جس کی وجہ سے کرناٹکا میں صورتحال پر قابو لانے کے لیے تمام اسکول و کالج بھی تین دنوں کے لئے بند کرنے پڑے ۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا کہنا ہے کہ حجاب پر پابندی کا مقصد مذہبی علامات کو کلاس روم سے دور رکھنا ہے، لیکن مخالفین کی نظر میں یہ بی جے پی کی جانب سے ملک میں مسلمانوں کی حیثیت کو گھٹانے کے عمل کا حصہ ہے۔ فی الوقت یہ معاملہ کرناٹکا ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
یہ واقعہ بھارت میں ہندو قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے طوفان کے درمیان مسلمانوں کی حیثیت پر اُٹھنے والے سوالات کا مظہر بھی ہے۔ حالانکہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بیس کروڑ ہے لیکن وہ بھارت کی مجموعی آبادی کا صرف 14 فیصد حصہ ہیں۔
حالیہ چند برسوں میں بھارت میں مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے، 2019 کا قانون برائے شھریت جس میں مسلمانوں کے خلاف تعصب برتا گیا، اس کے علاوہ بین المذہب شادیوں کی حوصلہ شکنی کا قانون بھی درحقیقت مسلمانوں ہی کے خلاف ہے۔
مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا نتیجہ فسادات کی صورت میں بھی نکلا اور 2020 کے دہلی کے فسادات میں 56 افراد قتل ہوئے جن میں سے 40 مسلمان تھے۔
پڑوسی پاکستان نے بھی حجاب پر پابندی کے معاملے میں بھارتی سفارتکار کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے بھارتی حکومت پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا، بلکہ پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمد قریشی نے یہاں تک کہا کہ یہ بھارتی حکومت کی اپنی مسلمان آبادی کو (معاشی و تعلیمی طور پر) پسماندہ رکھنے کی سازش کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
چوبیس فروری: آج ممتاز ناول نگار اے آر خاتون کی برسی ہے
مقبوضہ کشمیر: جب بھارتی درندوں نے ماؤں کے سامنے بیٹیوں کی عصمت دری کی
عمران خان فسطائیت کی راہ پر کیوں چل رہے ہیں؟
کرناٹکا کی اس بدامنی کا فائدہ بی جے پی کو شمالی ریاست اترپردیش میں ہونے والے انتخابات میں ہوسکتا ہے، بھارت سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں آیندہ چند ہفتوں بعد ریاستی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں۔ انھیں بی جے پی کی اقتدار پر گرفت کا بڑا امتحان سمجھا جارہا ہے۔
اس انتخابی مہم میں پہلے ہی ڈھکی چھپی مسلمان دشمن آوازیں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ بی جے پی لیڈر اور اتر پردیش کے وزیراعلی یوگی ادیتیاناتھ کا یہ کہنا کہ یہ انتخابات 80 فیصد بمقابلہ 20 فیصد ہے۔ ریاست کی 20 فیصد مسلم آبادی کی طرف اشارہ ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریند مودی نے سہارنپور کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حجاب کے تنازعے کا ذکر کیے بغیر کہا” بی جے پی مظلوم مسلمان خواتین کے ساتھ کھڑی ہے”۔ اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اپوزیشن لیڈر پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ “وہ مسلمان خواتین کو پسماندہ رکھنے کی کوششیں کررہے ہیں”۔
فارن پالیسی میگزین کے کالم نگار سُمیت گنگولی کا کہنا ہے کہ حجاب کا تنازعہ بی جے پی کا مسلم مخالف ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اس شور کی وجہ سے ان کی اپنی معاشی کارکردگی کے بارے میں سوالات سے بچنے کا حربہ ہے۔ “یہ سب پُرانا روٹی اور سرکس کا تماشاہے فرق اتنا ہے روٹی تو نہیں مل رہی بس سرکس باقی رہ گیا” گنگولی نے کہا۔
بھارت میں دن بہ دن بڑھتی ہوئی مسلمم دشمنی کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے، لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ امریکہ و دیگر ممالک جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپین کہتے ہیں، بھارتی قیادت کو مسلمانوں سے بہتر سلوک کی طرف متوجہ کرنے کے لئے زبانی جمع خرچ سے آگے جائیں گے۔
گنگولی کے مطابق اس کی اصل وجہ بھارت کی منفرد علاقائی اہمیت، اور بعد از کورونا معاشی سرگرمیوں کی بحالی کی صورت میں تجارتی مفادات ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی حکومت کو اس معاملے میں کوئی خاص (بین القوامی) ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ گنگولی کا کہنا ہے کہ “زیادہ تر ممالک اس معاملے سے نگاہیں چُرائیں گے کیونکہ ان کی رال بھارتی مارکیٹ سے ممکنہ تجارتی فوائد پر ٹپک رہی ہوگی” ۔
فی الوقت تو بی جے پی کو مسلمانوں کے بارے میں نرم روئیے پر صرف اور صرف انتخابی شکست ہی مجبور کرسکتی ہے لیکن حالیہ رائے عامہ کے سروے کے مطابق اس کا امکان کم ہے۔
گذشتہ ہفتے بھارتی ریاست کرناٹکا کے مسلمان خواتین کے تعلیم اداروں میں حجاب پہنے پر پابندی کے فیصلے کے نتیجے میں بھارت کی ہندو و مسلمان کمیونٹیوں کے درمیان تناؤ کی صورتحال بڑھتی جارہی ہے،
یہ قانون پہلے ہی گذشتہ چند ہفتوں سے احتجاج کی وجہ بنا ہوا تھا لیکن گذشتہ ہفتے ایک برقع پوش مسلمان لڑکی کی کالج میں داخلے کے وقت ہندو ہجوم کی جانب سے ہراسانی کی ویڈیو وائرل ہونے کی وجہ سے اس معاملے میں شدت آگئی ۔جس کی وجہ سے کرناٹکا میں صورتحال پر قابو لانے کے لیے تمام اسکول و کالج بھی تین دنوں کے لئے بند کرنے پڑے ۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا کہنا ہے کہ حجاب پر پابندی کا مقصد مذہبی علامات کو کلاس روم سے دور رکھنا ہے، لیکن مخالفین کی نظر میں یہ بی جے پی کی جانب سے ملک میں مسلمانوں کی حیثیت کو گھٹانے کے عمل کا حصہ ہے۔ فی الوقت یہ معاملہ کرناٹکا ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
یہ واقعہ بھارت میں ہندو قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے طوفان کے درمیان مسلمانوں کی حیثیت پر اُٹھنے والے سوالات کا مظہر بھی ہے۔ حالانکہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بیس کروڑ ہے لیکن وہ بھارت کی مجموعی آبادی کا صرف 14 فیصد حصہ ہیں۔
حالیہ چند برسوں میں بھارت میں مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے، 2019 کا قانون برائے شھریت جس میں مسلمانوں کے خلاف تعصب برتا گیا، اس کے علاوہ بین المذہب شادیوں کی حوصلہ شکنی کا قانون بھی درحقیقت مسلمانوں ہی کے خلاف ہے۔
مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا نتیجہ فسادات کی صورت میں بھی نکلا اور 2020 کے دہلی کے فسادات میں 56 افراد قتل ہوئے جن میں سے 40 مسلمان تھے۔
پڑوسی پاکستان نے بھی حجاب پر پابندی کے معاملے میں بھارتی سفارتکار کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے بھارتی حکومت پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا، بلکہ پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمد قریشی نے یہاں تک کہا کہ یہ بھارتی حکومت کی اپنی مسلمان آبادی کو (معاشی و تعلیمی طور پر) پسماندہ رکھنے کی سازش کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
چوبیس فروری: آج ممتاز ناول نگار اے آر خاتون کی برسی ہے
مقبوضہ کشمیر: جب بھارتی درندوں نے ماؤں کے سامنے بیٹیوں کی عصمت دری کی
عمران خان فسطائیت کی راہ پر کیوں چل رہے ہیں؟
کرناٹکا کی اس بدامنی کا فائدہ بی جے پی کو شمالی ریاست اترپردیش میں ہونے والے انتخابات میں ہوسکتا ہے، بھارت سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں آیندہ چند ہفتوں بعد ریاستی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں۔ انھیں بی جے پی کی اقتدار پر گرفت کا بڑا امتحان سمجھا جارہا ہے۔
اس انتخابی مہم میں پہلے ہی ڈھکی چھپی مسلمان دشمن آوازیں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ بی جے پی لیڈر اور اتر پردیش کے وزیراعلی یوگی ادیتیاناتھ کا یہ کہنا کہ یہ انتخابات 80 فیصد بمقابلہ 20 فیصد ہے۔ ریاست کی 20 فیصد مسلم آبادی کی طرف اشارہ ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریند مودی نے سہارنپور کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حجاب کے تنازعے کا ذکر کیے بغیر کہا” بی جے پی مظلوم مسلمان خواتین کے ساتھ کھڑی ہے”۔ اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اپوزیشن لیڈر پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ “وہ مسلمان خواتین کو پسماندہ رکھنے کی کوششیں کررہے ہیں”۔
فارن پالیسی میگزین کے کالم نگار سُمیت گنگولی کا کہنا ہے کہ حجاب کا تنازعہ بی جے پی کا مسلم مخالف ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اس شور کی وجہ سے ان کی اپنی معاشی کارکردگی کے بارے میں سوالات سے بچنے کا حربہ ہے۔ “یہ سب پُرانا روٹی اور سرکس کا تماشاہے فرق اتنا ہے روٹی تو نہیں مل رہی بس سرکس باقی رہ گیا” گنگولی نے کہا۔
بھارت میں دن بہ دن بڑھتی ہوئی مسلمم دشمنی کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے، لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ امریکہ و دیگر ممالک جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپین کہتے ہیں، بھارتی قیادت کو مسلمانوں سے بہتر سلوک کی طرف متوجہ کرنے کے لئے زبانی جمع خرچ سے آگے جائیں گے۔
گنگولی کے مطابق اس کی اصل وجہ بھارت کی منفرد علاقائی اہمیت، اور بعد از کورونا معاشی سرگرمیوں کی بحالی کی صورت میں تجارتی مفادات ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی حکومت کو اس معاملے میں کوئی خاص (بین القوامی) ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ گنگولی کا کہنا ہے کہ “زیادہ تر ممالک اس معاملے سے نگاہیں چُرائیں گے کیونکہ ان کی رال بھارتی مارکیٹ سے ممکنہ تجارتی فوائد پر ٹپک رہی ہوگی” ۔
فی الوقت تو بی جے پی کو مسلمانوں کے بارے میں نرم روئیے پر صرف اور صرف انتخابی شکست ہی مجبور کرسکتی ہے لیکن حالیہ رائے عامہ کے سروے کے مطابق اس کا امکان کم ہے۔
گذشتہ ہفتے بھارتی ریاست کرناٹکا کے مسلمان خواتین کے تعلیم اداروں میں حجاب پہنے پر پابندی کے فیصلے کے نتیجے میں بھارت کی ہندو و مسلمان کمیونٹیوں کے درمیان تناؤ کی صورتحال بڑھتی جارہی ہے،
یہ قانون پہلے ہی گذشتہ چند ہفتوں سے احتجاج کی وجہ بنا ہوا تھا لیکن گذشتہ ہفتے ایک برقع پوش مسلمان لڑکی کی کالج میں داخلے کے وقت ہندو ہجوم کی جانب سے ہراسانی کی ویڈیو وائرل ہونے کی وجہ سے اس معاملے میں شدت آگئی ۔جس کی وجہ سے کرناٹکا میں صورتحال پر قابو لانے کے لیے تمام اسکول و کالج بھی تین دنوں کے لئے بند کرنے پڑے ۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا کہنا ہے کہ حجاب پر پابندی کا مقصد مذہبی علامات کو کلاس روم سے دور رکھنا ہے، لیکن مخالفین کی نظر میں یہ بی جے پی کی جانب سے ملک میں مسلمانوں کی حیثیت کو گھٹانے کے عمل کا حصہ ہے۔ فی الوقت یہ معاملہ کرناٹکا ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
یہ واقعہ بھارت میں ہندو قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے طوفان کے درمیان مسلمانوں کی حیثیت پر اُٹھنے والے سوالات کا مظہر بھی ہے۔ حالانکہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بیس کروڑ ہے لیکن وہ بھارت کی مجموعی آبادی کا صرف 14 فیصد حصہ ہیں۔
حالیہ چند برسوں میں بھارت میں مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے، 2019 کا قانون برائے شھریت جس میں مسلمانوں کے خلاف تعصب برتا گیا، اس کے علاوہ بین المذہب شادیوں کی حوصلہ شکنی کا قانون بھی درحقیقت مسلمانوں ہی کے خلاف ہے۔
مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا نتیجہ فسادات کی صورت میں بھی نکلا اور 2020 کے دہلی کے فسادات میں 56 افراد قتل ہوئے جن میں سے 40 مسلمان تھے۔
پڑوسی پاکستان نے بھی حجاب پر پابندی کے معاملے میں بھارتی سفارتکار کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے بھارتی حکومت پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا، بلکہ پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمد قریشی نے یہاں تک کہا کہ یہ بھارتی حکومت کی اپنی مسلمان آبادی کو (معاشی و تعلیمی طور پر) پسماندہ رکھنے کی سازش کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
چوبیس فروری: آج ممتاز ناول نگار اے آر خاتون کی برسی ہے
مقبوضہ کشمیر: جب بھارتی درندوں نے ماؤں کے سامنے بیٹیوں کی عصمت دری کی
عمران خان فسطائیت کی راہ پر کیوں چل رہے ہیں؟
کرناٹکا کی اس بدامنی کا فائدہ بی جے پی کو شمالی ریاست اترپردیش میں ہونے والے انتخابات میں ہوسکتا ہے، بھارت سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں آیندہ چند ہفتوں بعد ریاستی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں۔ انھیں بی جے پی کی اقتدار پر گرفت کا بڑا امتحان سمجھا جارہا ہے۔
اس انتخابی مہم میں پہلے ہی ڈھکی چھپی مسلمان دشمن آوازیں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ بی جے پی لیڈر اور اتر پردیش کے وزیراعلی یوگی ادیتیاناتھ کا یہ کہنا کہ یہ انتخابات 80 فیصد بمقابلہ 20 فیصد ہے۔ ریاست کی 20 فیصد مسلم آبادی کی طرف اشارہ ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریند مودی نے سہارنپور کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حجاب کے تنازعے کا ذکر کیے بغیر کہا” بی جے پی مظلوم مسلمان خواتین کے ساتھ کھڑی ہے”۔ اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اپوزیشن لیڈر پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ “وہ مسلمان خواتین کو پسماندہ رکھنے کی کوششیں کررہے ہیں”۔
فارن پالیسی میگزین کے کالم نگار سُمیت گنگولی کا کہنا ہے کہ حجاب کا تنازعہ بی جے پی کا مسلم مخالف ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اس شور کی وجہ سے ان کی اپنی معاشی کارکردگی کے بارے میں سوالات سے بچنے کا حربہ ہے۔ “یہ سب پُرانا روٹی اور سرکس کا تماشاہے فرق اتنا ہے روٹی تو نہیں مل رہی بس سرکس باقی رہ گیا” گنگولی نے کہا۔
بھارت میں دن بہ دن بڑھتی ہوئی مسلمم دشمنی کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے، لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ امریکہ و دیگر ممالک جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپین کہتے ہیں، بھارتی قیادت کو مسلمانوں سے بہتر سلوک کی طرف متوجہ کرنے کے لئے زبانی جمع خرچ سے آگے جائیں گے۔
گنگولی کے مطابق اس کی اصل وجہ بھارت کی منفرد علاقائی اہمیت، اور بعد از کورونا معاشی سرگرمیوں کی بحالی کی صورت میں تجارتی مفادات ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی حکومت کو اس معاملے میں کوئی خاص (بین القوامی) ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ گنگولی کا کہنا ہے کہ “زیادہ تر ممالک اس معاملے سے نگاہیں چُرائیں گے کیونکہ ان کی رال بھارتی مارکیٹ سے ممکنہ تجارتی فوائد پر ٹپک رہی ہوگی” ۔
فی الوقت تو بی جے پی کو مسلمانوں کے بارے میں نرم روئیے پر صرف اور صرف انتخابی شکست ہی مجبور کرسکتی ہے لیکن حالیہ رائے عامہ کے سروے کے مطابق اس کا امکان کم ہے۔
گذشتہ ہفتے بھارتی ریاست کرناٹکا کے مسلمان خواتین کے تعلیم اداروں میں حجاب پہنے پر پابندی کے فیصلے کے نتیجے میں بھارت کی ہندو و مسلمان کمیونٹیوں کے درمیان تناؤ کی صورتحال بڑھتی جارہی ہے،
یہ قانون پہلے ہی گذشتہ چند ہفتوں سے احتجاج کی وجہ بنا ہوا تھا لیکن گذشتہ ہفتے ایک برقع پوش مسلمان لڑکی کی کالج میں داخلے کے وقت ہندو ہجوم کی جانب سے ہراسانی کی ویڈیو وائرل ہونے کی وجہ سے اس معاملے میں شدت آگئی ۔جس کی وجہ سے کرناٹکا میں صورتحال پر قابو لانے کے لیے تمام اسکول و کالج بھی تین دنوں کے لئے بند کرنے پڑے ۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا کہنا ہے کہ حجاب پر پابندی کا مقصد مذہبی علامات کو کلاس روم سے دور رکھنا ہے، لیکن مخالفین کی نظر میں یہ بی جے پی کی جانب سے ملک میں مسلمانوں کی حیثیت کو گھٹانے کے عمل کا حصہ ہے۔ فی الوقت یہ معاملہ کرناٹکا ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
یہ واقعہ بھارت میں ہندو قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے طوفان کے درمیان مسلمانوں کی حیثیت پر اُٹھنے والے سوالات کا مظہر بھی ہے۔ حالانکہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بیس کروڑ ہے لیکن وہ بھارت کی مجموعی آبادی کا صرف 14 فیصد حصہ ہیں۔
حالیہ چند برسوں میں بھارت میں مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے، 2019 کا قانون برائے شھریت جس میں مسلمانوں کے خلاف تعصب برتا گیا، اس کے علاوہ بین المذہب شادیوں کی حوصلہ شکنی کا قانون بھی درحقیقت مسلمانوں ہی کے خلاف ہے۔
مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا نتیجہ فسادات کی صورت میں بھی نکلا اور 2020 کے دہلی کے فسادات میں 56 افراد قتل ہوئے جن میں سے 40 مسلمان تھے۔
پڑوسی پاکستان نے بھی حجاب پر پابندی کے معاملے میں بھارتی سفارتکار کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے بھارتی حکومت پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا، بلکہ پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمد قریشی نے یہاں تک کہا کہ یہ بھارتی حکومت کی اپنی مسلمان آبادی کو (معاشی و تعلیمی طور پر) پسماندہ رکھنے کی سازش کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
چوبیس فروری: آج ممتاز ناول نگار اے آر خاتون کی برسی ہے
مقبوضہ کشمیر: جب بھارتی درندوں نے ماؤں کے سامنے بیٹیوں کی عصمت دری کی
عمران خان فسطائیت کی راہ پر کیوں چل رہے ہیں؟
کرناٹکا کی اس بدامنی کا فائدہ بی جے پی کو شمالی ریاست اترپردیش میں ہونے والے انتخابات میں ہوسکتا ہے، بھارت سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں آیندہ چند ہفتوں بعد ریاستی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں۔ انھیں بی جے پی کی اقتدار پر گرفت کا بڑا امتحان سمجھا جارہا ہے۔
اس انتخابی مہم میں پہلے ہی ڈھکی چھپی مسلمان دشمن آوازیں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ بی جے پی لیڈر اور اتر پردیش کے وزیراعلی یوگی ادیتیاناتھ کا یہ کہنا کہ یہ انتخابات 80 فیصد بمقابلہ 20 فیصد ہے۔ ریاست کی 20 فیصد مسلم آبادی کی طرف اشارہ ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریند مودی نے سہارنپور کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حجاب کے تنازعے کا ذکر کیے بغیر کہا” بی جے پی مظلوم مسلمان خواتین کے ساتھ کھڑی ہے”۔ اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اپوزیشن لیڈر پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ “وہ مسلمان خواتین کو پسماندہ رکھنے کی کوششیں کررہے ہیں”۔
فارن پالیسی میگزین کے کالم نگار سُمیت گنگولی کا کہنا ہے کہ حجاب کا تنازعہ بی جے پی کا مسلم مخالف ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اس شور کی وجہ سے ان کی اپنی معاشی کارکردگی کے بارے میں سوالات سے بچنے کا حربہ ہے۔ “یہ سب پُرانا روٹی اور سرکس کا تماشاہے فرق اتنا ہے روٹی تو نہیں مل رہی بس سرکس باقی رہ گیا” گنگولی نے کہا۔
بھارت میں دن بہ دن بڑھتی ہوئی مسلمم دشمنی کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے، لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ امریکہ و دیگر ممالک جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپین کہتے ہیں، بھارتی قیادت کو مسلمانوں سے بہتر سلوک کی طرف متوجہ کرنے کے لئے زبانی جمع خرچ سے آگے جائیں گے۔
گنگولی کے مطابق اس کی اصل وجہ بھارت کی منفرد علاقائی اہمیت، اور بعد از کورونا معاشی سرگرمیوں کی بحالی کی صورت میں تجارتی مفادات ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی حکومت کو اس معاملے میں کوئی خاص (بین القوامی) ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ گنگولی کا کہنا ہے کہ “زیادہ تر ممالک اس معاملے سے نگاہیں چُرائیں گے کیونکہ ان کی رال بھارتی مارکیٹ سے ممکنہ تجارتی فوائد پر ٹپک رہی ہوگی” ۔
فی الوقت تو بی جے پی کو مسلمانوں کے بارے میں نرم روئیے پر صرف اور صرف انتخابی شکست ہی مجبور کرسکتی ہے لیکن حالیہ رائے عامہ کے سروے کے مطابق اس کا امکان کم ہے۔