آئی ایس آئی چیف کے میڈیا نے بریگیڈئیر (ر) ارشاد ترمذی کی یاد دلا دی۔ انھوں نے اپنی کتاب ‘ حساس ادارے ‘ میں بڑا دل چسپ واقعہ لکھا ہے کہ ضیا دور میں ایک صاحب کسی سرکاری ریسٹ ہاوس میں نظر بند تھے ۔ ان کی زوجہ سول سوسائٹی ایکٹوسٹ تھیں اور شاید پی پی سے بھی کوئی تعلق تھا (نام یاد نہیں آ رہا خاتون کا ) سرکاری اجازت سے خاتون ایک روز بچوں کے ہمراہ اپنے مجازی خدا سے ملنے پہنچیں۔ کچھ دیر بعد بچوں کو ملازم کے ہمراہ باہر کھیلنے بھیج دیا اور خود میاں بیوی کمرے میں بند ہو گئے ۔ ‘ چار آنکھوں والے ‘ یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہے تھے ۔ انھوں نے بریگیڈئیر صاحب سے اس ‘ ملاقات ‘ کے صوتی و بصری شواہد اکٹھے کرنے کی اجازت مانگی تاکہ بوقت ضرورت کام میں لائے جا سکیں لیکن بریگیڈئیر صاحب نے میاں بیوی کی نجی ملاقات میں مخل ہونا مناسب نہ سمجھا ۔ چڑھا ہوا طوفان اتر جانے کے بعد بیگم صاحبہ بچوں کے ہمراہ واپس چلی گئیں ۔ واضح رہے کہ یہ ملاقات بریگیڈئیر صاحب کی اجازت سے ہی ہوئی تھی ۔
یہ بھی پڑھئے:
افواج پاکستان کا پیغام، عمران خان کے نام
ارشد شریف کی موت کا اصل ذمے دار
عمران خان نا اہل: یہ فیصلہ کیوں اٹل تھا؟
خیر خاتون نے گھر پہنچتے ہی وہ غلطی کی جو دو پیار کرنے والے اکثر کیا کرتے ہیں کہ ہمیں کون سا کوئی دیکھ رہا ہے ۔ میاں سے ‘ بھر پور ملاقات ‘ کے بعد خاتون ہائی کورٹ پہنچیں اور درخواست دائر کی کہ سرکار ان کے میاں کو نظر بندی کے دوران وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ وہ بے حد لاغر ہو چکے ہیں ۔ ظالموں نے چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا وغیرہ وغیرہ ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خاتون نے اپنی درخواست میں ‘ چار آنکھوں والوں ‘ کو فریق بنایا تھا ۔ چنانچہ عدالت عالیہ نے ان سے وضاحت طلب کر لی۔ عدالتی نوٹس ملنے پر بریگیڈئیر صاحب کو بھی خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ اپنے ماتحتوں کی بات مان کر وحشیانہ سرکاری تشدد سے لاغر و کمزور ہونے والے صاحب کی اپنی بیگم سے ‘ ملاقات ‘ کے صوتی و بصری شواہد اکٹھے کر لیتے۔
خیر بریگیڈئیر صاحب نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ادارے کی صفائی پیش کرنے کے لیے خود عدالت کے روبرو پیش ہوں گے ۔ چنانچہ مقررہ تاریخ پر وہ قومی لباس زیب تن کر کے عدالت عالیہ کے روبرو پیش ہو گئے۔ انھیں دیکھتے ہی درخواست گزار خاتون کا رنگ فق ہو گیا۔ سامنے کھڑے بریگیڈئیر صاحب سے آنکھ ملانا مشکل ہو رہا تھا کہ جانتی تھیں کہ ریسٹ ہاوس میں ‘ لاغر و کمزور ‘ میاں سے ان کی ‘ خصوصی ملاقات ‘ سامنے کھڑے شخص کی اجازت سے ہی ممکن ہو سکی تھی ۔ اس سے پہلے کہ بریگیڈئیر صاحب عدالت کے روبرو اپنے ادارے کی صفائی میں کچھ عرض کرتے ، خاتون نے اپنے وکیل سے مشورے کے بعد درخواست واپس لے لی ۔
جمعرات کی شام ڈی جی آئی ایس آئی کا بذات خود منظر پر آنا گزشتہ پچھتر برس کی سب سے بڑی خبر ہے جس میں شب کی تاریکی میں ‘ خصوصی ملاقات ‘ کرنے والوں کے لیے بڑا واضح پیغام پنہاں ہے ۔ برادر مکرم جناب امتیاز وریاہ کے بقول جب گاوں کا کوئی خاموش طبع اور تنہائی پسند دانا آدمی کسی معاملے میں مداخلت کرے تو لوگ باگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں ” ۔۔۔۔اے تے کدی بولیا ای نئیں سی ، ضرور گل ودھ گئی اے ”
اللہ ملک و قوم کی حفاظت فرمائے ۔