خیبر پختونونخوا کراچی اور ملتان میں ہونے والے ضمنی الیکشن ایک بار پھر عمران خان نیازی کے حق میں لوگ مہربان ہوگے جو کہ سات مختلف حلقوں پر عمران خان کی واضح برتری نے پی ڈی ایم کے لیے سوالیہ نشان بنا دیا
ان حلقوں میں پچھلے کئی سالوں سے حکومت کرنے والی پارٹی مورثی قوم پرست سیاسی پارٹی کا خیبر پختونونخوا کے صدر ایمل ولی خان اور حاج بلور صاحب نے پی ڈی ایم سمت سب نے متحد ہوکر عمران کو ہرانا تھا مگر دونوں جگہ ہی جیت نصیب نہیں ہوا کراچی میں اور ملتان کے سیٹ پی ڈی ایم کے نام مگر اکثریت عمران خان کی ہوئی اس کے مقبولیت اور چودہ پارٹیوں کا جنگ میں عمران خان آگے بڑھ گیا ۔
پی ڈی ایم کی اس ناکامی کے بنا پر اگر یہ تحریک ختم ہوئی تو ممکن ہے کہ عمران خان کے عوامی مقبول نعرے امریکی غلامی نا منظور اسلامی نظام کا دعویٰ کرپشن کا خاتمہ اور سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کو بیہودہ الفاظ سے نوازنے کی وجہ سے اقتدار کی منزل ان سے دور ہو جائے۔
پاکستانی تاریخ کے پندرہویں قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا انتخاب کرنے کے لیے پاکستان میں عام انتخابات کا اعلان کیا گیا جس میں پاکستان کے سیاسی جمہوری اور اسلامی پارٹیوں نے اپنا اعلانیہ شامل کرتے ہوئے ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوا۔ انتخابات 25 جولائی، 2018ء کو منعقد ہوئے۔جس میں قومی اسمبلی وصوبائی کے انتخابات شامل تھا جس میں خاص طور قومی اسمبلی کی کل 272 نشستوں میں سے 270 نشستوں پر عام انتخابات ہوئے۔
یہ بھی پڑھئے:
ضمنی الیکشن: وہ ٹریپ جو پی ڈی ایم کی شکست کا باعث بنا
مزاحمت اور علی اکبر عباس کی شاعری
کامرانی ٹیسوری: کیا انھیں حافظ نعیم کا راستہ روکنے کے لیے لانچ کیا گیا؟
عوامی رائے سے پچھلے انتخابات کے طرح ن لیگ کے ووٹرزیادہ تھے اور بیشتر کا خیال تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پہلے نمبر پر ہو گی جبکہ پاکستان تحریک انصاف واضح طور پر دوسرے اور تیسرے درجے کے ووٹ حاصل حاصل کرے گی۔
لیکن پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 116 سیٹیں لے کر پاکستان مسلم لیگ ن کو 64 نشستوں پر محدود کیا اور پاکستان تحریک انصاف وفاق خیبر اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی مگر وقت کے ساتھ معاشی بحران کا بڑھنا قرضے دوبالا مہنگائی کی شدت اور ائی ایم ایف سے خراب تعلقات اور میں اس قدر مایوسی بڑھتی گئی کہ عمران کی خواب خواب ہی رہ گیا اور عوام میں عمران کی حکومت کی ناکامی کا تاثر گہرا ہو گیا
اسی دوران ملکی معیشت کا خراب رزلٹ کے کی وجہ سے ایک سال پہلے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی بنیاد اس جواں اور توانا امید پر رکھی گئی کہ سیاسی مزاحمت کے ذریعے موجودہ نظام کو سرنگوں اور 2018 کے انتخابات کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران کو قبل ازوقت انتخابات کے ذریعے سیاسی کامیابی میں بدلنا ہوگا۔
پچھلے اتحادوں کی طرح پی ڈی ایم بھی سیاسی طاقت کے حصول کے لیے ایک ذریعہ تھا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ملکی مسائل کو حتمی طور پر طے کرنے کا عزم بظاہر اس اتحاد کو ایک غیرمعمولی اہمیت دیتا ہوا نظر آ رہا تھا حالات بھی موافق تھے۔
موجودہ حکومت کے پہلے سال معیشت 5.8 فیصد کی شرح سے گر کر منفی میں چلی گئی تھی۔ دوسرے سال شرح ترقی دو فیصد پر کھڑی تھی اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار اگلے چند سالوں کے بارے میں ایک بھیانک تصویر بنا رہے تھے۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے نوکریاں ختم ہو رہی تھیں، مہنگائی غیر معمولی حدوں کو چھو رہی تھی۔ عوام پریشان تھی۔
یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے عمران خان آپشن کشش ثقل کھو کر بادلوں میں تحلیل ہو رہی ہے۔ یعنی وہ تمام اجزائے ترکیبی موجود تھے جن سے ایک مضبوط سیاسی مزاحمت کو کامیابی نصیب کروائی جا سکتی تھی مگر ایک سال کے عرصے میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے اپنے ساتھ وہی کیا جو حکومت نے تین سال میں خود پر گزاری اتحاد نفاق میں تبدیل ہو گیا جن توپوں سے حکومت کے قلعے کی فصیلیں تباہ کرنی تھیں وہ اتحادیوں نے اپنی طرف تان لیں جس تنقید سے موجودہ نظام کے پرخچے اڑانے تھے اس کی طاقت ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کے لیے استعمال ہونا شروع ہو گئی۔
حکومت کو تبدیل کرنے کا لائحہ عمل درجنوں یو ٹرن کے بعد ایک ایسے اونٹ میں بدل گیا جس کی کوئی کل سیدھی نہیں آغاز کیا تھا عوامی سیلاب سے اسلام آباد کو مسخر کرنے کا، اختتام ہوا ہے ٹویٹس اور پریس ریلیزز کے توسط مزمت کرنے پر عہد کیا تھا استعفے دے کر اسمبلیوں کو مفلوج کرنے کا، انجام یہ ہے کہ پانچ سال کے بعد انتخابات کی شفافیت کی منتیں کی جا رہی ہیں۔
کہا گیا تھا کہ 2018 میں انتخابات کی مبینہ دھاندلی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے گا اب بات ٹھہر گئی ہے کہ ہر 15 دن کے بعد اپنی ضمانت میں توسیع ہو جائے تو شکر بجا لائیں گے۔ تب مریم نواز اور بلاول بھٹو بھائی بہن کے حوالوں سے خود کو متعارف کرواتے تھے اب حالت یہ ہے کہ حکومتی وزیروں سے بڑھ کر پیپلز پارٹی کی قیادت ن لیگ کا اور ن لیگ پیپلز پارٹی کا تمسخر اڑاتی ہے
کہاں عوامی نیشنل پارٹی مولانا فضل الرحمان کے پیچھے صفیں باندھ کر نماز پڑھنے پر تیار تھی اور کہاں دونوں ایک دوسرے کو موجودہ قومی بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں وہ زمانہ تھا جب آصف علی زرداری جے یو آئی کے ساتھ مل کر سب پر بھاری ہونا چاہتے تھے اب وقت یہ ہے کہ آپس میں رابطہ کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرنا پڑتی ہے پہلے عوامی جلسے کر کے خوش ہوتے تھے، لوگوں کے دلوں کو گرمانے والی تقاریر کرنے کے بعد خود کو شاباشی دیتے تھے، اب اپنے کارکنان کو وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان کوئی خلیج نہیں، دشمن کی افواہوں پر کان نہ دھریں۔ کسی نے پی ڈی ایم کو پورا ساتھ نہیں دیا بغیر مولانا صاحب کے۔عمران کی حکومت گرانے کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت آئی جس میں صوبوں سمیت وفاقی حکومت میں بھی اپنا اپنا حصے بنائے اور چلتے رہیں درمیان میں ملک کو تیسری سمت میں کھنچنے کا عمل شروع ہوا وفاقی میں مولانا کو وزارتیں باقی اتحادی پارٹیوں کو منہ میھٹا کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ دیا گیا پی ڈی ایم کا تھینک ٹھیک پیپلز پارٹی کو وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے کا اعزاز حاصل ہوا اور پالیسی کے تحت ن لیگ کو آگے کرتے ہوئے جناب زرداری نے مشکلات اور سخت حالات ن لیگ اور شہباز شریف کے حوالے کیا اور ممکن ہے ن لیگ کی موجودہ شکل مستقبل میں باقی نہ رہ پائے۔