ضمنی الیکشن کے نتائج نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ عمران خان کی نا مقبولیت کی بلند ترین سطح کو چھوتی ہوئی حکومت کو غلط وقت پر اور بھونڈے انداز میں ہٹا کر پی ڈی ایم کی جماعتوں نے ایک ایسے سیاسی بلنڈر کا ارتکاب کیا تھا جس کا مداوا اب شاید ہی ممکن ہو۔ اس پورے عمل میں سب سے زیادہ سیاسی نقصان نون لیگ کو بھگتنا پڑا ہے اور آیندہ الیکشن میں اس کے نتائج مزید واضح ہو کر سامنے آئیں گے۔ عمران خان نے اقتدار سے علیحدہ ہوتے ہی جس بیانیہ کو پروان چڑھایا ہے اسے ملک کے عوام کی اکثریت نے قبول کر لیا ہے اور حکومت پوری کوشش کے باوجود اپنا جوابی بیانیہ عوام کے سامنے پیش کرنے سے قاصر رہی ہے۔
پی ڈی ایم کی طرف سے کہا گیا تھا کہ وہ سیاست کے بجائے ملک بچانے کے لئے میدان عمل میں نکلے تھے کیونکہ پاکستان کو عمران خان کی حکومت دیوالیہ ہونے کے دہانے پر لے آئی تھی۔ اس بات میں جزوی طور پر صداقت بھی ہے مگر سیاست میں عوام کی رائے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور عوام نے اس بیانیہ کو بالکل بھی پذیرائی نہیں بخشی۔ حقائق کی دنیا میں بھی دیکھا جائے تو پاکستان کے اصلی اور بڑے اسٹیک ہولڈر یعنی اسٹیبلشمنٹ کو اس ملک کی معیشت سنبھالنے کے لئے کسی کاندھے کی ضرورت نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت محض اپنی شرمندگی اور خجالت دور کرنے کے لئے ملک بچاؤ بیانیہ کو سامنے لانے کی کوشش کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
مزاحمت اور علی اکبر عباس کی شاعری
انکل سام کے دیس سے،پاکستانی امریکی کادلچسپ سفرنامہ
کالا قانون؛ جس کی کوکھ سے کالے فیصلے جنم لیتے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت کو جنرل فیض کے آرمی چیف بننے کا خوف اس حد تک دلایا گیا تھا کہ حواس باختہ ہو کر یہ ٹریپ ہوگئی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اگر حکومت نہ بدلتی تو عمران خان نے نئے آرمی چیف کے ساتھ مل کر ملک میں ایک فاشسٹ حکومت قائم کر کے اپنے سیاسی مخالفین کو مکمل طور پر کچل دینا تھا۔ اپنے خلاف مقدمات سے چھٹکارا حاصل کرنے اور سیاسی مستقبل کو بچانے کے لئے پی ڈی ایم نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتہ کیا اور پی ٹی آئی کی حکومت کو فارغ کر دیا۔ دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کا یہ بیانیہ بھی بالکل بودا ثابت ہو رہا ہے۔ جس انداز میں عمران خان پیش قدمی کر رہا ہے اس سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ دو تہائی اکثریت سے دوبارہ اقتدار میں آئے گا۔ اس صورتحال میں آج جو مقدمات ختم ہونے پر خوش ہو رہے ہیں وہ کیا کریں گے؟ کیا انہیں دوبارہ اتنی بھاری اکثریت سے جیت کر اقتدار میں آنے والا عمران خان معاف کر دے گا؟
قرائن یہ بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کی وزیراعظم بننے کی دیرینہ خواہش اور فضل الرحمن و زرداری کی لیلائے اقتدار کے حجلہ عروسی میں بیتابی سے داخل ہونے کی خواہش نے نون لیگ کو سیاسی موت کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ نون لیگ اس سارے عمل میں اپنے بیانیے اور سیاسی ساکھ کو کھو چکی ہے۔ اسلام آباد میں حلیف جماعتوں کے وزراء دونوں ہاتھوں سے کرپشن کرنے میں مشغول ہیں اور انہیں حکومت کے امیج کی ذرا بھر بھی کوئی فکر نہیں۔ سیاسی میدان میں صرف نون لیگ کے وزراء موجود ہیں جو بے بسی سے ایک دوسرے کو تکتے رہتے ہیں اور اس کنفیوژن میں عمران خان دھاڑتا پھر رہا ہے۔ نون لیگ کی قیادت کو سنجیدگی سے اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کی سیاست کے لئے عمران خان اور زرداری و فضل الرحمن میں سے زیادہ مضر اور نقصان دہ کون ہے؟