Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
میری دادی نے ایک دن میرے ابو سے کہا کہ اس مرتبہ شبیر کو بھی محرم کا جلوس دکھانے لے جاؤں گی۔ ابو مجھے دیکھ کر مسکرائے اوربولے کہ اب یہ جوان ہوگیا ہے، ناں۔ میں حیران ہوا کہ چارپانچ سال کابچہ کیسے جوان؟ اُن کی مراد یہ تھی کہ میرا قد عام بچوں سے زیادہ تھا یعنی پانچ سال کی عمر میں چارفٹ۔ اسلئے (دادی) اماں کے ساتھ جانے کی بخوشی اجازت دے دی اور ان کی یہ ہمت کہاں تھی کہ دادی کو اجازت دیں یا وہ ابوسے اجازت لیں۔ انہوں نے صرف ابو کو مطلع کردیا۔
یومِ عاشور کے دن صبح صبح تیار ہوئے۔ کرتہ پاجامہ پہنا (یا پینٹ شرٹ، یاد نہیں) اور گیارہ بجے کے قریب دادی پھوپھی اماں (وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں) کے ساتھ گھر سے نکلے۔ اس وقت نہ تو دادی اماں کی عمر زیادہ تھی اور نہ ہی وہ بہت بوڑھی ہوئی تھیں۔ ایک طرح سے دادی اماں اور پھوپھی اماں ماں بیٹی کے علاوہ بہنیں یا سہیلیاں لگتی تھیں۔ اتقاق سے دادی اور ان کے تین بیٹے بہت گورے، اور دوبیٹیاں اورچھوٹا بیٹا کالے تھے۔ ایک دن کسی نے دادی اماں سے دریافت کیا تو انہوں نے ڈانٹ دیا۔ امی سے پوچھا تو انہوں نے ہنس کر بتایا کہ تمہارے دادابہت کالے تھے، وہ رائل انڈین ریلوے میں ملازم تھے اور ان کا لکھنؤ میں انتقال ہوگیا تھاجو ہمارا وطن ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
دادی اماں نے کپڑے کا تھیلا میرے حوالے کیا، جس میں چند برتن تھے۔ کیونکہ اس زمانے میں شاپر یاپلاسٹک کی تھیلیوں کی لعنت نہیں آئی تھی اور ان برتنوں کے ذریعہ تبرکات کا حصول تھا اور چند چادریں۔دادی اور پھوپھی اماں بہت خوشگوار مو ڈ میں تھیں اور ان کی کوشش تھی کہ جلد سے جلد ایم اے جناح روڈ پر سعید منزل کے قریب کسی موقع کی جگہ قبضہ کیا جائے۔تاکہ وہاں سے یوم عاشور کے جلوسوں کا نظارہ کیا جاسکے۔خیراُن کی کوششیں کامیاب رہیں اور ہم لوگ گیارہ ساڑھے گیارہ بجے بس سے اتر کر اندر کی گلیوں سے گزرتے ہوئے ایم اے جناح روڈ پر سعید منزل کے قریب آس پاس کے علاقے میں کسی بند دکان سامنے تھیلے سے چادریں نکا ل کے انہیں بہت اچھی جگہ پر بچھا کر پڑاؤ ڈالا۔
اس وقت تک سڑک سنسان پڑی تھی البتہ راستوں پر چہل پہل تھی۔ پیاس لگے تو سبیلیں لگی ہوئی تھیں۔ جس میں پانی، شربت اور دودھ بکثرت دستیاب تھا۔ ان سبیلوں میں سنیوں اور شیعوں سب کی سبیلیں تھیں اور پینے والوں کو اس سے غرض نہیں تھی کہ کس فرقے کی سبیلیں ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
سبز پرچم، گولڈ میڈل نوح بٹ آپ نے کمال کردیا
فارن فنڈنگ کیس نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد کیسے بنے گا؟
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایم اے جناح روڈ پر مزار قائداعظم کی جانب سے شور شروع ہوگیا۔ دادی کا حکم تھا کہ تمھیں اس چادرسے باہر جانے کے لئے میری اجازت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ پھوپھی اماں اور دادی صاحبہ کے پاس کھڑے ہو کر دور تک نظر یں دوڑا رہا تھا، رفتہ رفتہ اس شور کی آوازیں سمجھ میں آنے لگیں۔ یوم عاشور کے جلوس سے ”یا حسین ؑ“ کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ جوں جوں جلوس قریب آتا گیا، مرثئے، نوحے اور سلام کی دھمک سے میرا دل دہل رہا تھا۔ اس وقت تک جلوسوں میں لاؤڈاسپیکرعام نہیں ہوئے تھے اور میگا فون ایجاد نہیں ہوئے تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ بچپن میں میلاد شریف میں، جس کا تقریباً ہر گھر میں انعقاد ضروری تھا۔ اس میں حسنین کریمین ؑ کا ذکر ضرور سنا تھا۔جس کے شروع میں اشعار کی صورت میں ذکر تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمان یا جنت سے دو جوڑے لائے اور حضور اکرم ﷺ کو پیش کئے۔ ایک سبز اوردوسرا سرخ، جب نبی کریم ؐ نے جوڑوں کے رنگوں پر استفسار کیا تو اس کی وضاحت یوں کی کہ حضرت امام حسن ؑ کو زہر دے کر مارا جائے گا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کربلا کے میدان میں اپنے اہل بیت مردوں کے ساتھ ایک خونیں معرکہ میں شہید ہوں گے۔ پھر جب کربلا کے مصائب کا ذکر آیا تو اس کا ایک مصرع یہ یاد تھا کہ آئی صدا امام (حسین ؑ)کو بس اب ہاتھ تھام لو۔ بچپن میں جو وعدہ کیا تھا، وہ وفا کرو “۔ اُس کے علاوہ مجھے واقعہ کربلا کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ بس میں اس پر اس وقت بھی فخر کرتا تھا اور تاحیات کرتا رہوں گا کہ میرا نام شبیر ہے اور جب کالج مراثی میر انیس ؔ کا مطالعہ کیاتو اس شعر سے بہت خوشی ہوتی تھی کہ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں۔۔۔ ساتویں پشت ہے شبیر ؑکی مداحی میں۔
ہاں تومیں ایم اے جناح روڈ پرسعید منزل پر یوم عاشور کے جلوس دیکھ رہا تھا۔ اس کے آگے آگے سیاہ پرچم اٹھائے علمدار چل رہے تھے،اس کے بعد مرثیئے اور سلام۔ اس کے بعد ماتمی دستہ، اس کے بعد چھریوں کے ماتم،اس کی دھمک اور خون کے اڑتے چھینٹوں نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ میں ڈر کر اپنی دادی سے لپٹ گیا۔وہ مسکرا کر بولیں کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ وہ خون آلود ماتم، چھریوں کی جھنکار۔ بولیں کہ ڈرو نہیں، اور غور سے دیکھو، تم میرے قد کے برابر اورڈر رہے ہو۔
دادی اور پھوپھی اماں جہاندیدہ تھیں انہوں نے چادریں ایک بہت بڑے درخت کے نیچے بچھائی تھا، جہاں شام تک سایہ رہا۔ ماتمی جلوسوں کے بعد مزید جلوس آئے، ان میں سب سے خوشی کھانے پینے کی اشیاء کی تقسیم سے ہوئی۔ دادی اماں نے ایک برتن دیا اور کہا کہ اس میں حلیم لے آؤ۔ میں نے کہا کہ آپ نے چادر سے باہر نکلنے کی ممانعت کررکھی ہے، بولیں کہ چیزیں اور تبرکات لے آؤ۔ دادی کے حکم پر میں نے زیادہ نہیں تھوڑاحلیم، پلاؤ، جگ میں شربت اور دودھ لیا۔اشیاء کی تقسیم کرنے والوں اور لینے والوں میں کوئی لوٹ مار کا تاثر نہیں مل رہا تھا۔
اس کے بعد تعزیوں کے جلوس، پھر تھوڑے سے وقفے سے سنی جلوس آنے لگے، جن میں تعزیئے، کھانے پینے کی مختلف اشیاء کی تقسیم کے لئے وہی اونٹ گاڑیاں، لیکن ان پر سیاہ کے بجائے سبز پردے لگے ہیں، تلواروں کے کرتب (قمع) اور دیگر کرتب دکھانے والوں کے گروہ۔ یوم عاشور کا جلوس اپنے اختتام کو پہنچنے لگا توپھوپھی اماں نے مجھے آواز دے کربلایا۔ لوٹے میں پانی دیا اور مجھ سے ہاتھ دھونے کو کہا۔ اس وقت تک ان چادروں پر دسترخوان لگ گئے تھے۔ دیگر عورتوں اور بچوں کو بھی درخواست کرکے اس دسترخوان پربیٹھنے کی دعوت دی گئی۔
ان لوگوں نے اپنی اپنی اشیائے خوردونوش ایک جگہ جمع کردیں۔جبکہ مردوں کے دسترخوان الگ لگوادئیے گئے۔ ان اشیاء میں حلیم، پلاؤ، کھیر بہت مزیدارہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ میں نے مردوں کے دسترخوان کی طرف نظر دوڑائی تو اس میں سیاہ اور سفید پوش سب ہی نظر آئے۔ مزید پیاس ہم نے قریبی سبیلوں سے بجھائی، دادی اماں کے کہنے پر میں نے ان دونوں خواتین کی مدد سے چادریں تہہ کیں، سبیل کے ٹھنڈے اور شیریں پانی سے ہلکے ہلکے برتن پرپانی مار دیا، تاکہ کپڑے کا تھیلا خراب نہ ہو۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ دادی اماں اور پھوپھی اماں پان کھاچکیں اور اپنے اپنے برقعے ٹھیک کرکے اوڑھ چکیں تو ہم آرام باغ والی روڈ تک گئے اور اپنی بزرگ خواتین کے ساتھ بس میں بیٹھ کر اپنے محلے کی جانب چل پڑے۔
مغرب سے پہلے پہلے ہم اپنے گھروں میں تھے۔ اُس زمانے میں ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا، اسلئے رات کے کھانے کے بعد سب ریڈیو پاکستان کے گردجمع ہوگئے اورمجلس شام غریباں سنی۔ محلے کے ہرگھر سے ریڈیو پاکستان پر شام غریباں کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ اس بات کا علم نہیں کہ اس کے بعد گھبرائے گی زینب ؑ اورسلام نشر ہوتاتھا کہ نہیں۔
اس کے میرے ابو نے مجھے گلے لگایا اورپوچھا کہ بھئی آج تو تمہارے مزے آگئے، اپنی دادی اور پھوپھی اماں کے ساتھ یوم عاشور کا جلوس دیکھا۔ تم نے سارا دن کیسے گزارا، ایک ایک تفصیل بتاؤ، میرے مزے آگئے، کیونکہ میری باتیں سننے والے کم تھے اور سنانے والے زیادہ۔ آخر میں نے کہا کہ اتنی محنت سے بنائے گئے تعزیوں کا ہوتا ہے؟ اس کے بعد میری امی نے جواب دیا کہ نیٹی جیٹی کے پل پرتمام تعزیے ٹھنڈے کئے جاتے ہیں۔ سنی اور شیعہ دونوں۔ نیٹی جیٹی کے پل کے نیچے سمندر تھا۔ میں نے امی سے پوچھا تو کیا اتنی محنت سے بنائے گئے تعزئے پل سے نیچے سمندر برد کردیئے جاتے ہیں اوران کی قیمتی چیزیں لوٹ لی جاتی ہوں گی۔ انہوں نے رازداری کے انداز میں کہا کہ پل کے نیچے تیراک وہ تعزیئے نکال کر لے آتے ہیں۔ یہ رسم ہے، اگلے سال پھر مرمت کرکے تعزیے دوبارہ کئے جاتے ہیں۔
یہ تو تھا کراچی کے یو م عاشور کے مشترکہ جلوسوں کا ذکر۔ اس کے علاوہ محرم الحرام شروع ہونے سے قبل چندہ جمع کرتے اور گھر کے باہر سبیل لگاتے، سبزکپڑے اور جھنڈیوں سے سجا کر۔ اس وقت مٹی کے مٹکوں ہی کارواج تھا۔ ہم لوگ اس میں کبھی شربت اور کبھی ٹھنڈا پانی رکھتے۔ چندہ کے پیسے ختم ہوجاتے تو ابو ہمیں پیسے دیتے۔یہ سنی محلّوں کا ذکر ہے، شیعہ محلوں میں بھی یہی اہتمام ہوتا۔ سبیل لگانے کی روایت ہمارے شریف آباد (فیڈرل بی ایریا، کراچی) میں منتقل ہونے تک جاری رہی۔
اور ہاں محرم الحرام آنے قبل سنیوں میں یہ روایت تھی کہ دادی اور نانی چھوٹے بٹوے ستیں،سرخ اور سبز رنگ کے۔ اس میں چھوہارے کتر کر ڈالے جاتے،مصری کوٹ کر بھری جاتی، سونف اور دیگر اشیائے اورجب دادی یا نانی ہم بچوں میں بٹوے بانٹیں تو بہت خوشی ہوتی تھی۔ ہم لوگ وہ بٹوے بہت دن سنبھال کر رکھتے، پھررفتہ رفتہ وہ گم ہوجاتے اور پھر کچھ دن بعد محرم آجاتا۔
اس کے علاوہ ہمارے پرانے محلے میں جہاں سب کی پیدائش ہوئی، ایک امام ؑ چوک ہمارے تایا غلام محمد خان نے تعمیر کرایا تھا۔ امام چوک کے درمیان میں ایک بڑا سا ڈنڈا لگا تھا۔ جس پر یکم محرم کو سبز پرچم بڑے اہتمام سے لہرایا جاتا۔
دسویں محرم کی شب ہمارے ابو عادل جہانگیری سرکس کا اہتمام کراتے، دو یاتین اونٹ گاڑیوں پر سرکس آتا۔ اس میں زیادہ کھیل تلواروں اور نیزوں کے ہوتے۔ اس کے علاوہ دوسرے کرتب بھی ہوتے۔تقریباً پچاس سے اوپر کرتب بازوں کا یہ سرکس بہت شاندار ہوتا۔ اس کے تمام شرکاء سفید لباس پہنے ہوتے۔ اس کے ساتھ مختصر میجک شو بھی ہواکرتا تھا۔اتنے بڑے سرکس اورمیجک شو پرابوصرف پانچ سو روپے خرچ کرتے تھے۔ لیکن وہ اس دور کے حساب سے بہت بڑی رقم تھی، یہ سمجھ لیں کہ اس زمانے میں ایک سو روپے تولہ سونا تھا۔اور میری یعنی شبیر ابن عادل کی عمر عزیز صرف پانچ سال، اب میں اللہ کے کرم سے 66سال کا ہوگیا ہوں۔ زمانے بدل گئے، یعنی نصف صدی کا قصہ ہے یہ۔
تمام فرقہ واریت اور نفرت کے باوجود ایک مشترکہ روایت ابھی چلی آرہی ہے۔ وہ ہے سنی اور اہل تشیع میں حلیم کی روایت۔ ہم سب حلیم امام حسین ؑ بہت عقیدت و احترام سے بناتے ہیں اور بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ سب ہی کھاتے ہیں، اور زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔ نہ سنی اور شیعہ سب ہی عزاداری یا محرم مناتے ہیں، جبکہ یزیدی قوتوں کے آگے کھڑے ہونے کیلئے پورے عالم اسلام میں بہتر (72) آدمی بھی میسر نہیں۔ کیونکہ یہ سب کھیل کرنا آسان ہے اور یزیدی قوتوں کے سامنے کھڑے کرللکارنے کامطلب موت ہے اور ہمیں تو زندگی سے پیارہے ناں، کیونکہ زندگی دوبارہ نہیں آنی اور اگر موت آگئی تو سب کچھ ختم، سمجھے کہ نہیں۔ کچھ نہ سمجھے، خدا کرے کوئی۔
میری دادی نے ایک دن میرے ابو سے کہا کہ اس مرتبہ شبیر کو بھی محرم کا جلوس دکھانے لے جاؤں گی۔ ابو مجھے دیکھ کر مسکرائے اوربولے کہ اب یہ جوان ہوگیا ہے، ناں۔ میں حیران ہوا کہ چارپانچ سال کابچہ کیسے جوان؟ اُن کی مراد یہ تھی کہ میرا قد عام بچوں سے زیادہ تھا یعنی پانچ سال کی عمر میں چارفٹ۔ اسلئے (دادی) اماں کے ساتھ جانے کی بخوشی اجازت دے دی اور ان کی یہ ہمت کہاں تھی کہ دادی کو اجازت دیں یا وہ ابوسے اجازت لیں۔ انہوں نے صرف ابو کو مطلع کردیا۔
یومِ عاشور کے دن صبح صبح تیار ہوئے۔ کرتہ پاجامہ پہنا (یا پینٹ شرٹ، یاد نہیں) اور گیارہ بجے کے قریب دادی پھوپھی اماں (وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں) کے ساتھ گھر سے نکلے۔ اس وقت نہ تو دادی اماں کی عمر زیادہ تھی اور نہ ہی وہ بہت بوڑھی ہوئی تھیں۔ ایک طرح سے دادی اماں اور پھوپھی اماں ماں بیٹی کے علاوہ بہنیں یا سہیلیاں لگتی تھیں۔ اتقاق سے دادی اور ان کے تین بیٹے بہت گورے، اور دوبیٹیاں اورچھوٹا بیٹا کالے تھے۔ ایک دن کسی نے دادی اماں سے دریافت کیا تو انہوں نے ڈانٹ دیا۔ امی سے پوچھا تو انہوں نے ہنس کر بتایا کہ تمہارے دادابہت کالے تھے، وہ رائل انڈین ریلوے میں ملازم تھے اور ان کا لکھنؤ میں انتقال ہوگیا تھاجو ہمارا وطن ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
دادی اماں نے کپڑے کا تھیلا میرے حوالے کیا، جس میں چند برتن تھے۔ کیونکہ اس زمانے میں شاپر یاپلاسٹک کی تھیلیوں کی لعنت نہیں آئی تھی اور ان برتنوں کے ذریعہ تبرکات کا حصول تھا اور چند چادریں۔دادی اور پھوپھی اماں بہت خوشگوار مو ڈ میں تھیں اور ان کی کوشش تھی کہ جلد سے جلد ایم اے جناح روڈ پر سعید منزل کے قریب کسی موقع کی جگہ قبضہ کیا جائے۔تاکہ وہاں سے یوم عاشور کے جلوسوں کا نظارہ کیا جاسکے۔خیراُن کی کوششیں کامیاب رہیں اور ہم لوگ گیارہ ساڑھے گیارہ بجے بس سے اتر کر اندر کی گلیوں سے گزرتے ہوئے ایم اے جناح روڈ پر سعید منزل کے قریب آس پاس کے علاقے میں کسی بند دکان سامنے تھیلے سے چادریں نکا ل کے انہیں بہت اچھی جگہ پر بچھا کر پڑاؤ ڈالا۔
اس وقت تک سڑک سنسان پڑی تھی البتہ راستوں پر چہل پہل تھی۔ پیاس لگے تو سبیلیں لگی ہوئی تھیں۔ جس میں پانی، شربت اور دودھ بکثرت دستیاب تھا۔ ان سبیلوں میں سنیوں اور شیعوں سب کی سبیلیں تھیں اور پینے والوں کو اس سے غرض نہیں تھی کہ کس فرقے کی سبیلیں ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
سبز پرچم، گولڈ میڈل نوح بٹ آپ نے کمال کردیا
فارن فنڈنگ کیس نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد کیسے بنے گا؟
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایم اے جناح روڈ پر مزار قائداعظم کی جانب سے شور شروع ہوگیا۔ دادی کا حکم تھا کہ تمھیں اس چادرسے باہر جانے کے لئے میری اجازت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ پھوپھی اماں اور دادی صاحبہ کے پاس کھڑے ہو کر دور تک نظر یں دوڑا رہا تھا، رفتہ رفتہ اس شور کی آوازیں سمجھ میں آنے لگیں۔ یوم عاشور کے جلوس سے ”یا حسین ؑ“ کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ جوں جوں جلوس قریب آتا گیا، مرثئے، نوحے اور سلام کی دھمک سے میرا دل دہل رہا تھا۔ اس وقت تک جلوسوں میں لاؤڈاسپیکرعام نہیں ہوئے تھے اور میگا فون ایجاد نہیں ہوئے تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ بچپن میں میلاد شریف میں، جس کا تقریباً ہر گھر میں انعقاد ضروری تھا۔ اس میں حسنین کریمین ؑ کا ذکر ضرور سنا تھا۔جس کے شروع میں اشعار کی صورت میں ذکر تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمان یا جنت سے دو جوڑے لائے اور حضور اکرم ﷺ کو پیش کئے۔ ایک سبز اوردوسرا سرخ، جب نبی کریم ؐ نے جوڑوں کے رنگوں پر استفسار کیا تو اس کی وضاحت یوں کی کہ حضرت امام حسن ؑ کو زہر دے کر مارا جائے گا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کربلا کے میدان میں اپنے اہل بیت مردوں کے ساتھ ایک خونیں معرکہ میں شہید ہوں گے۔ پھر جب کربلا کے مصائب کا ذکر آیا تو اس کا ایک مصرع یہ یاد تھا کہ آئی صدا امام (حسین ؑ)کو بس اب ہاتھ تھام لو۔ بچپن میں جو وعدہ کیا تھا، وہ وفا کرو “۔ اُس کے علاوہ مجھے واقعہ کربلا کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ بس میں اس پر اس وقت بھی فخر کرتا تھا اور تاحیات کرتا رہوں گا کہ میرا نام شبیر ہے اور جب کالج مراثی میر انیس ؔ کا مطالعہ کیاتو اس شعر سے بہت خوشی ہوتی تھی کہ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں۔۔۔ ساتویں پشت ہے شبیر ؑکی مداحی میں۔
ہاں تومیں ایم اے جناح روڈ پرسعید منزل پر یوم عاشور کے جلوس دیکھ رہا تھا۔ اس کے آگے آگے سیاہ پرچم اٹھائے علمدار چل رہے تھے،اس کے بعد مرثیئے اور سلام۔ اس کے بعد ماتمی دستہ، اس کے بعد چھریوں کے ماتم،اس کی دھمک اور خون کے اڑتے چھینٹوں نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ میں ڈر کر اپنی دادی سے لپٹ گیا۔وہ مسکرا کر بولیں کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ وہ خون آلود ماتم، چھریوں کی جھنکار۔ بولیں کہ ڈرو نہیں، اور غور سے دیکھو، تم میرے قد کے برابر اورڈر رہے ہو۔
دادی اور پھوپھی اماں جہاندیدہ تھیں انہوں نے چادریں ایک بہت بڑے درخت کے نیچے بچھائی تھا، جہاں شام تک سایہ رہا۔ ماتمی جلوسوں کے بعد مزید جلوس آئے، ان میں سب سے خوشی کھانے پینے کی اشیاء کی تقسیم سے ہوئی۔ دادی اماں نے ایک برتن دیا اور کہا کہ اس میں حلیم لے آؤ۔ میں نے کہا کہ آپ نے چادر سے باہر نکلنے کی ممانعت کررکھی ہے، بولیں کہ چیزیں اور تبرکات لے آؤ۔ دادی کے حکم پر میں نے زیادہ نہیں تھوڑاحلیم، پلاؤ، جگ میں شربت اور دودھ لیا۔اشیاء کی تقسیم کرنے والوں اور لینے والوں میں کوئی لوٹ مار کا تاثر نہیں مل رہا تھا۔
اس کے بعد تعزیوں کے جلوس، پھر تھوڑے سے وقفے سے سنی جلوس آنے لگے، جن میں تعزیئے، کھانے پینے کی مختلف اشیاء کی تقسیم کے لئے وہی اونٹ گاڑیاں، لیکن ان پر سیاہ کے بجائے سبز پردے لگے ہیں، تلواروں کے کرتب (قمع) اور دیگر کرتب دکھانے والوں کے گروہ۔ یوم عاشور کا جلوس اپنے اختتام کو پہنچنے لگا توپھوپھی اماں نے مجھے آواز دے کربلایا۔ لوٹے میں پانی دیا اور مجھ سے ہاتھ دھونے کو کہا۔ اس وقت تک ان چادروں پر دسترخوان لگ گئے تھے۔ دیگر عورتوں اور بچوں کو بھی درخواست کرکے اس دسترخوان پربیٹھنے کی دعوت دی گئی۔
ان لوگوں نے اپنی اپنی اشیائے خوردونوش ایک جگہ جمع کردیں۔جبکہ مردوں کے دسترخوان الگ لگوادئیے گئے۔ ان اشیاء میں حلیم، پلاؤ، کھیر بہت مزیدارہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ میں نے مردوں کے دسترخوان کی طرف نظر دوڑائی تو اس میں سیاہ اور سفید پوش سب ہی نظر آئے۔ مزید پیاس ہم نے قریبی سبیلوں سے بجھائی، دادی اماں کے کہنے پر میں نے ان دونوں خواتین کی مدد سے چادریں تہہ کیں، سبیل کے ٹھنڈے اور شیریں پانی سے ہلکے ہلکے برتن پرپانی مار دیا، تاکہ کپڑے کا تھیلا خراب نہ ہو۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ دادی اماں اور پھوپھی اماں پان کھاچکیں اور اپنے اپنے برقعے ٹھیک کرکے اوڑھ چکیں تو ہم آرام باغ والی روڈ تک گئے اور اپنی بزرگ خواتین کے ساتھ بس میں بیٹھ کر اپنے محلے کی جانب چل پڑے۔
مغرب سے پہلے پہلے ہم اپنے گھروں میں تھے۔ اُس زمانے میں ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا، اسلئے رات کے کھانے کے بعد سب ریڈیو پاکستان کے گردجمع ہوگئے اورمجلس شام غریباں سنی۔ محلے کے ہرگھر سے ریڈیو پاکستان پر شام غریباں کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ اس بات کا علم نہیں کہ اس کے بعد گھبرائے گی زینب ؑ اورسلام نشر ہوتاتھا کہ نہیں۔
اس کے میرے ابو نے مجھے گلے لگایا اورپوچھا کہ بھئی آج تو تمہارے مزے آگئے، اپنی دادی اور پھوپھی اماں کے ساتھ یوم عاشور کا جلوس دیکھا۔ تم نے سارا دن کیسے گزارا، ایک ایک تفصیل بتاؤ، میرے مزے آگئے، کیونکہ میری باتیں سننے والے کم تھے اور سنانے والے زیادہ۔ آخر میں نے کہا کہ اتنی محنت سے بنائے گئے تعزیوں کا ہوتا ہے؟ اس کے بعد میری امی نے جواب دیا کہ نیٹی جیٹی کے پل پرتمام تعزیے ٹھنڈے کئے جاتے ہیں۔ سنی اور شیعہ دونوں۔ نیٹی جیٹی کے پل کے نیچے سمندر تھا۔ میں نے امی سے پوچھا تو کیا اتنی محنت سے بنائے گئے تعزئے پل سے نیچے سمندر برد کردیئے جاتے ہیں اوران کی قیمتی چیزیں لوٹ لی جاتی ہوں گی۔ انہوں نے رازداری کے انداز میں کہا کہ پل کے نیچے تیراک وہ تعزیئے نکال کر لے آتے ہیں۔ یہ رسم ہے، اگلے سال پھر مرمت کرکے تعزیے دوبارہ کئے جاتے ہیں۔
یہ تو تھا کراچی کے یو م عاشور کے مشترکہ جلوسوں کا ذکر۔ اس کے علاوہ محرم الحرام شروع ہونے سے قبل چندہ جمع کرتے اور گھر کے باہر سبیل لگاتے، سبزکپڑے اور جھنڈیوں سے سجا کر۔ اس وقت مٹی کے مٹکوں ہی کارواج تھا۔ ہم لوگ اس میں کبھی شربت اور کبھی ٹھنڈا پانی رکھتے۔ چندہ کے پیسے ختم ہوجاتے تو ابو ہمیں پیسے دیتے۔یہ سنی محلّوں کا ذکر ہے، شیعہ محلوں میں بھی یہی اہتمام ہوتا۔ سبیل لگانے کی روایت ہمارے شریف آباد (فیڈرل بی ایریا، کراچی) میں منتقل ہونے تک جاری رہی۔
اور ہاں محرم الحرام آنے قبل سنیوں میں یہ روایت تھی کہ دادی اور نانی چھوٹے بٹوے ستیں،سرخ اور سبز رنگ کے۔ اس میں چھوہارے کتر کر ڈالے جاتے،مصری کوٹ کر بھری جاتی، سونف اور دیگر اشیائے اورجب دادی یا نانی ہم بچوں میں بٹوے بانٹیں تو بہت خوشی ہوتی تھی۔ ہم لوگ وہ بٹوے بہت دن سنبھال کر رکھتے، پھررفتہ رفتہ وہ گم ہوجاتے اور پھر کچھ دن بعد محرم آجاتا۔
اس کے علاوہ ہمارے پرانے محلے میں جہاں سب کی پیدائش ہوئی، ایک امام ؑ چوک ہمارے تایا غلام محمد خان نے تعمیر کرایا تھا۔ امام چوک کے درمیان میں ایک بڑا سا ڈنڈا لگا تھا۔ جس پر یکم محرم کو سبز پرچم بڑے اہتمام سے لہرایا جاتا۔
دسویں محرم کی شب ہمارے ابو عادل جہانگیری سرکس کا اہتمام کراتے، دو یاتین اونٹ گاڑیوں پر سرکس آتا۔ اس میں زیادہ کھیل تلواروں اور نیزوں کے ہوتے۔ اس کے علاوہ دوسرے کرتب بھی ہوتے۔تقریباً پچاس سے اوپر کرتب بازوں کا یہ سرکس بہت شاندار ہوتا۔ اس کے تمام شرکاء سفید لباس پہنے ہوتے۔ اس کے ساتھ مختصر میجک شو بھی ہواکرتا تھا۔اتنے بڑے سرکس اورمیجک شو پرابوصرف پانچ سو روپے خرچ کرتے تھے۔ لیکن وہ اس دور کے حساب سے بہت بڑی رقم تھی، یہ سمجھ لیں کہ اس زمانے میں ایک سو روپے تولہ سونا تھا۔اور میری یعنی شبیر ابن عادل کی عمر عزیز صرف پانچ سال، اب میں اللہ کے کرم سے 66سال کا ہوگیا ہوں۔ زمانے بدل گئے، یعنی نصف صدی کا قصہ ہے یہ۔
تمام فرقہ واریت اور نفرت کے باوجود ایک مشترکہ روایت ابھی چلی آرہی ہے۔ وہ ہے سنی اور اہل تشیع میں حلیم کی روایت۔ ہم سب حلیم امام حسین ؑ بہت عقیدت و احترام سے بناتے ہیں اور بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ سب ہی کھاتے ہیں، اور زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔ نہ سنی اور شیعہ سب ہی عزاداری یا محرم مناتے ہیں، جبکہ یزیدی قوتوں کے آگے کھڑے ہونے کیلئے پورے عالم اسلام میں بہتر (72) آدمی بھی میسر نہیں۔ کیونکہ یہ سب کھیل کرنا آسان ہے اور یزیدی قوتوں کے سامنے کھڑے کرللکارنے کامطلب موت ہے اور ہمیں تو زندگی سے پیارہے ناں، کیونکہ زندگی دوبارہ نہیں آنی اور اگر موت آگئی تو سب کچھ ختم، سمجھے کہ نہیں۔ کچھ نہ سمجھے، خدا کرے کوئی۔
میری دادی نے ایک دن میرے ابو سے کہا کہ اس مرتبہ شبیر کو بھی محرم کا جلوس دکھانے لے جاؤں گی۔ ابو مجھے دیکھ کر مسکرائے اوربولے کہ اب یہ جوان ہوگیا ہے، ناں۔ میں حیران ہوا کہ چارپانچ سال کابچہ کیسے جوان؟ اُن کی مراد یہ تھی کہ میرا قد عام بچوں سے زیادہ تھا یعنی پانچ سال کی عمر میں چارفٹ۔ اسلئے (دادی) اماں کے ساتھ جانے کی بخوشی اجازت دے دی اور ان کی یہ ہمت کہاں تھی کہ دادی کو اجازت دیں یا وہ ابوسے اجازت لیں۔ انہوں نے صرف ابو کو مطلع کردیا۔
یومِ عاشور کے دن صبح صبح تیار ہوئے۔ کرتہ پاجامہ پہنا (یا پینٹ شرٹ، یاد نہیں) اور گیارہ بجے کے قریب دادی پھوپھی اماں (وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں) کے ساتھ گھر سے نکلے۔ اس وقت نہ تو دادی اماں کی عمر زیادہ تھی اور نہ ہی وہ بہت بوڑھی ہوئی تھیں۔ ایک طرح سے دادی اماں اور پھوپھی اماں ماں بیٹی کے علاوہ بہنیں یا سہیلیاں لگتی تھیں۔ اتقاق سے دادی اور ان کے تین بیٹے بہت گورے، اور دوبیٹیاں اورچھوٹا بیٹا کالے تھے۔ ایک دن کسی نے دادی اماں سے دریافت کیا تو انہوں نے ڈانٹ دیا۔ امی سے پوچھا تو انہوں نے ہنس کر بتایا کہ تمہارے دادابہت کالے تھے، وہ رائل انڈین ریلوے میں ملازم تھے اور ان کا لکھنؤ میں انتقال ہوگیا تھاجو ہمارا وطن ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
دادی اماں نے کپڑے کا تھیلا میرے حوالے کیا، جس میں چند برتن تھے۔ کیونکہ اس زمانے میں شاپر یاپلاسٹک کی تھیلیوں کی لعنت نہیں آئی تھی اور ان برتنوں کے ذریعہ تبرکات کا حصول تھا اور چند چادریں۔دادی اور پھوپھی اماں بہت خوشگوار مو ڈ میں تھیں اور ان کی کوشش تھی کہ جلد سے جلد ایم اے جناح روڈ پر سعید منزل کے قریب کسی موقع کی جگہ قبضہ کیا جائے۔تاکہ وہاں سے یوم عاشور کے جلوسوں کا نظارہ کیا جاسکے۔خیراُن کی کوششیں کامیاب رہیں اور ہم لوگ گیارہ ساڑھے گیارہ بجے بس سے اتر کر اندر کی گلیوں سے گزرتے ہوئے ایم اے جناح روڈ پر سعید منزل کے قریب آس پاس کے علاقے میں کسی بند دکان سامنے تھیلے سے چادریں نکا ل کے انہیں بہت اچھی جگہ پر بچھا کر پڑاؤ ڈالا۔
اس وقت تک سڑک سنسان پڑی تھی البتہ راستوں پر چہل پہل تھی۔ پیاس لگے تو سبیلیں لگی ہوئی تھیں۔ جس میں پانی، شربت اور دودھ بکثرت دستیاب تھا۔ ان سبیلوں میں سنیوں اور شیعوں سب کی سبیلیں تھیں اور پینے والوں کو اس سے غرض نہیں تھی کہ کس فرقے کی سبیلیں ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
سبز پرچم، گولڈ میڈل نوح بٹ آپ نے کمال کردیا
فارن فنڈنگ کیس نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد کیسے بنے گا؟
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایم اے جناح روڈ پر مزار قائداعظم کی جانب سے شور شروع ہوگیا۔ دادی کا حکم تھا کہ تمھیں اس چادرسے باہر جانے کے لئے میری اجازت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ پھوپھی اماں اور دادی صاحبہ کے پاس کھڑے ہو کر دور تک نظر یں دوڑا رہا تھا، رفتہ رفتہ اس شور کی آوازیں سمجھ میں آنے لگیں۔ یوم عاشور کے جلوس سے ”یا حسین ؑ“ کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ جوں جوں جلوس قریب آتا گیا، مرثئے، نوحے اور سلام کی دھمک سے میرا دل دہل رہا تھا۔ اس وقت تک جلوسوں میں لاؤڈاسپیکرعام نہیں ہوئے تھے اور میگا فون ایجاد نہیں ہوئے تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ بچپن میں میلاد شریف میں، جس کا تقریباً ہر گھر میں انعقاد ضروری تھا۔ اس میں حسنین کریمین ؑ کا ذکر ضرور سنا تھا۔جس کے شروع میں اشعار کی صورت میں ذکر تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمان یا جنت سے دو جوڑے لائے اور حضور اکرم ﷺ کو پیش کئے۔ ایک سبز اوردوسرا سرخ، جب نبی کریم ؐ نے جوڑوں کے رنگوں پر استفسار کیا تو اس کی وضاحت یوں کی کہ حضرت امام حسن ؑ کو زہر دے کر مارا جائے گا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کربلا کے میدان میں اپنے اہل بیت مردوں کے ساتھ ایک خونیں معرکہ میں شہید ہوں گے۔ پھر جب کربلا کے مصائب کا ذکر آیا تو اس کا ایک مصرع یہ یاد تھا کہ آئی صدا امام (حسین ؑ)کو بس اب ہاتھ تھام لو۔ بچپن میں جو وعدہ کیا تھا، وہ وفا کرو “۔ اُس کے علاوہ مجھے واقعہ کربلا کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ بس میں اس پر اس وقت بھی فخر کرتا تھا اور تاحیات کرتا رہوں گا کہ میرا نام شبیر ہے اور جب کالج مراثی میر انیس ؔ کا مطالعہ کیاتو اس شعر سے بہت خوشی ہوتی تھی کہ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں۔۔۔ ساتویں پشت ہے شبیر ؑکی مداحی میں۔
ہاں تومیں ایم اے جناح روڈ پرسعید منزل پر یوم عاشور کے جلوس دیکھ رہا تھا۔ اس کے آگے آگے سیاہ پرچم اٹھائے علمدار چل رہے تھے،اس کے بعد مرثیئے اور سلام۔ اس کے بعد ماتمی دستہ، اس کے بعد چھریوں کے ماتم،اس کی دھمک اور خون کے اڑتے چھینٹوں نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ میں ڈر کر اپنی دادی سے لپٹ گیا۔وہ مسکرا کر بولیں کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ وہ خون آلود ماتم، چھریوں کی جھنکار۔ بولیں کہ ڈرو نہیں، اور غور سے دیکھو، تم میرے قد کے برابر اورڈر رہے ہو۔
دادی اور پھوپھی اماں جہاندیدہ تھیں انہوں نے چادریں ایک بہت بڑے درخت کے نیچے بچھائی تھا، جہاں شام تک سایہ رہا۔ ماتمی جلوسوں کے بعد مزید جلوس آئے، ان میں سب سے خوشی کھانے پینے کی اشیاء کی تقسیم سے ہوئی۔ دادی اماں نے ایک برتن دیا اور کہا کہ اس میں حلیم لے آؤ۔ میں نے کہا کہ آپ نے چادر سے باہر نکلنے کی ممانعت کررکھی ہے، بولیں کہ چیزیں اور تبرکات لے آؤ۔ دادی کے حکم پر میں نے زیادہ نہیں تھوڑاحلیم، پلاؤ، جگ میں شربت اور دودھ لیا۔اشیاء کی تقسیم کرنے والوں اور لینے والوں میں کوئی لوٹ مار کا تاثر نہیں مل رہا تھا۔
اس کے بعد تعزیوں کے جلوس، پھر تھوڑے سے وقفے سے سنی جلوس آنے لگے، جن میں تعزیئے، کھانے پینے کی مختلف اشیاء کی تقسیم کے لئے وہی اونٹ گاڑیاں، لیکن ان پر سیاہ کے بجائے سبز پردے لگے ہیں، تلواروں کے کرتب (قمع) اور دیگر کرتب دکھانے والوں کے گروہ۔ یوم عاشور کا جلوس اپنے اختتام کو پہنچنے لگا توپھوپھی اماں نے مجھے آواز دے کربلایا۔ لوٹے میں پانی دیا اور مجھ سے ہاتھ دھونے کو کہا۔ اس وقت تک ان چادروں پر دسترخوان لگ گئے تھے۔ دیگر عورتوں اور بچوں کو بھی درخواست کرکے اس دسترخوان پربیٹھنے کی دعوت دی گئی۔
ان لوگوں نے اپنی اپنی اشیائے خوردونوش ایک جگہ جمع کردیں۔جبکہ مردوں کے دسترخوان الگ لگوادئیے گئے۔ ان اشیاء میں حلیم، پلاؤ، کھیر بہت مزیدارہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ میں نے مردوں کے دسترخوان کی طرف نظر دوڑائی تو اس میں سیاہ اور سفید پوش سب ہی نظر آئے۔ مزید پیاس ہم نے قریبی سبیلوں سے بجھائی، دادی اماں کے کہنے پر میں نے ان دونوں خواتین کی مدد سے چادریں تہہ کیں، سبیل کے ٹھنڈے اور شیریں پانی سے ہلکے ہلکے برتن پرپانی مار دیا، تاکہ کپڑے کا تھیلا خراب نہ ہو۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ دادی اماں اور پھوپھی اماں پان کھاچکیں اور اپنے اپنے برقعے ٹھیک کرکے اوڑھ چکیں تو ہم آرام باغ والی روڈ تک گئے اور اپنی بزرگ خواتین کے ساتھ بس میں بیٹھ کر اپنے محلے کی جانب چل پڑے۔
مغرب سے پہلے پہلے ہم اپنے گھروں میں تھے۔ اُس زمانے میں ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا، اسلئے رات کے کھانے کے بعد سب ریڈیو پاکستان کے گردجمع ہوگئے اورمجلس شام غریباں سنی۔ محلے کے ہرگھر سے ریڈیو پاکستان پر شام غریباں کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ اس بات کا علم نہیں کہ اس کے بعد گھبرائے گی زینب ؑ اورسلام نشر ہوتاتھا کہ نہیں۔
اس کے میرے ابو نے مجھے گلے لگایا اورپوچھا کہ بھئی آج تو تمہارے مزے آگئے، اپنی دادی اور پھوپھی اماں کے ساتھ یوم عاشور کا جلوس دیکھا۔ تم نے سارا دن کیسے گزارا، ایک ایک تفصیل بتاؤ، میرے مزے آگئے، کیونکہ میری باتیں سننے والے کم تھے اور سنانے والے زیادہ۔ آخر میں نے کہا کہ اتنی محنت سے بنائے گئے تعزیوں کا ہوتا ہے؟ اس کے بعد میری امی نے جواب دیا کہ نیٹی جیٹی کے پل پرتمام تعزیے ٹھنڈے کئے جاتے ہیں۔ سنی اور شیعہ دونوں۔ نیٹی جیٹی کے پل کے نیچے سمندر تھا۔ میں نے امی سے پوچھا تو کیا اتنی محنت سے بنائے گئے تعزئے پل سے نیچے سمندر برد کردیئے جاتے ہیں اوران کی قیمتی چیزیں لوٹ لی جاتی ہوں گی۔ انہوں نے رازداری کے انداز میں کہا کہ پل کے نیچے تیراک وہ تعزیئے نکال کر لے آتے ہیں۔ یہ رسم ہے، اگلے سال پھر مرمت کرکے تعزیے دوبارہ کئے جاتے ہیں۔
یہ تو تھا کراچی کے یو م عاشور کے مشترکہ جلوسوں کا ذکر۔ اس کے علاوہ محرم الحرام شروع ہونے سے قبل چندہ جمع کرتے اور گھر کے باہر سبیل لگاتے، سبزکپڑے اور جھنڈیوں سے سجا کر۔ اس وقت مٹی کے مٹکوں ہی کارواج تھا۔ ہم لوگ اس میں کبھی شربت اور کبھی ٹھنڈا پانی رکھتے۔ چندہ کے پیسے ختم ہوجاتے تو ابو ہمیں پیسے دیتے۔یہ سنی محلّوں کا ذکر ہے، شیعہ محلوں میں بھی یہی اہتمام ہوتا۔ سبیل لگانے کی روایت ہمارے شریف آباد (فیڈرل بی ایریا، کراچی) میں منتقل ہونے تک جاری رہی۔
اور ہاں محرم الحرام آنے قبل سنیوں میں یہ روایت تھی کہ دادی اور نانی چھوٹے بٹوے ستیں،سرخ اور سبز رنگ کے۔ اس میں چھوہارے کتر کر ڈالے جاتے،مصری کوٹ کر بھری جاتی، سونف اور دیگر اشیائے اورجب دادی یا نانی ہم بچوں میں بٹوے بانٹیں تو بہت خوشی ہوتی تھی۔ ہم لوگ وہ بٹوے بہت دن سنبھال کر رکھتے، پھررفتہ رفتہ وہ گم ہوجاتے اور پھر کچھ دن بعد محرم آجاتا۔
اس کے علاوہ ہمارے پرانے محلے میں جہاں سب کی پیدائش ہوئی، ایک امام ؑ چوک ہمارے تایا غلام محمد خان نے تعمیر کرایا تھا۔ امام چوک کے درمیان میں ایک بڑا سا ڈنڈا لگا تھا۔ جس پر یکم محرم کو سبز پرچم بڑے اہتمام سے لہرایا جاتا۔
دسویں محرم کی شب ہمارے ابو عادل جہانگیری سرکس کا اہتمام کراتے، دو یاتین اونٹ گاڑیوں پر سرکس آتا۔ اس میں زیادہ کھیل تلواروں اور نیزوں کے ہوتے۔ اس کے علاوہ دوسرے کرتب بھی ہوتے۔تقریباً پچاس سے اوپر کرتب بازوں کا یہ سرکس بہت شاندار ہوتا۔ اس کے تمام شرکاء سفید لباس پہنے ہوتے۔ اس کے ساتھ مختصر میجک شو بھی ہواکرتا تھا۔اتنے بڑے سرکس اورمیجک شو پرابوصرف پانچ سو روپے خرچ کرتے تھے۔ لیکن وہ اس دور کے حساب سے بہت بڑی رقم تھی، یہ سمجھ لیں کہ اس زمانے میں ایک سو روپے تولہ سونا تھا۔اور میری یعنی شبیر ابن عادل کی عمر عزیز صرف پانچ سال، اب میں اللہ کے کرم سے 66سال کا ہوگیا ہوں۔ زمانے بدل گئے، یعنی نصف صدی کا قصہ ہے یہ۔
تمام فرقہ واریت اور نفرت کے باوجود ایک مشترکہ روایت ابھی چلی آرہی ہے۔ وہ ہے سنی اور اہل تشیع میں حلیم کی روایت۔ ہم سب حلیم امام حسین ؑ بہت عقیدت و احترام سے بناتے ہیں اور بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ سب ہی کھاتے ہیں، اور زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔ نہ سنی اور شیعہ سب ہی عزاداری یا محرم مناتے ہیں، جبکہ یزیدی قوتوں کے آگے کھڑے ہونے کیلئے پورے عالم اسلام میں بہتر (72) آدمی بھی میسر نہیں۔ کیونکہ یہ سب کھیل کرنا آسان ہے اور یزیدی قوتوں کے سامنے کھڑے کرللکارنے کامطلب موت ہے اور ہمیں تو زندگی سے پیارہے ناں، کیونکہ زندگی دوبارہ نہیں آنی اور اگر موت آگئی تو سب کچھ ختم، سمجھے کہ نہیں۔ کچھ نہ سمجھے، خدا کرے کوئی۔
میری دادی نے ایک دن میرے ابو سے کہا کہ اس مرتبہ شبیر کو بھی محرم کا جلوس دکھانے لے جاؤں گی۔ ابو مجھے دیکھ کر مسکرائے اوربولے کہ اب یہ جوان ہوگیا ہے، ناں۔ میں حیران ہوا کہ چارپانچ سال کابچہ کیسے جوان؟ اُن کی مراد یہ تھی کہ میرا قد عام بچوں سے زیادہ تھا یعنی پانچ سال کی عمر میں چارفٹ۔ اسلئے (دادی) اماں کے ساتھ جانے کی بخوشی اجازت دے دی اور ان کی یہ ہمت کہاں تھی کہ دادی کو اجازت دیں یا وہ ابوسے اجازت لیں۔ انہوں نے صرف ابو کو مطلع کردیا۔
یومِ عاشور کے دن صبح صبح تیار ہوئے۔ کرتہ پاجامہ پہنا (یا پینٹ شرٹ، یاد نہیں) اور گیارہ بجے کے قریب دادی پھوپھی اماں (وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں) کے ساتھ گھر سے نکلے۔ اس وقت نہ تو دادی اماں کی عمر زیادہ تھی اور نہ ہی وہ بہت بوڑھی ہوئی تھیں۔ ایک طرح سے دادی اماں اور پھوپھی اماں ماں بیٹی کے علاوہ بہنیں یا سہیلیاں لگتی تھیں۔ اتقاق سے دادی اور ان کے تین بیٹے بہت گورے، اور دوبیٹیاں اورچھوٹا بیٹا کالے تھے۔ ایک دن کسی نے دادی اماں سے دریافت کیا تو انہوں نے ڈانٹ دیا۔ امی سے پوچھا تو انہوں نے ہنس کر بتایا کہ تمہارے دادابہت کالے تھے، وہ رائل انڈین ریلوے میں ملازم تھے اور ان کا لکھنؤ میں انتقال ہوگیا تھاجو ہمارا وطن ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
دادی اماں نے کپڑے کا تھیلا میرے حوالے کیا، جس میں چند برتن تھے۔ کیونکہ اس زمانے میں شاپر یاپلاسٹک کی تھیلیوں کی لعنت نہیں آئی تھی اور ان برتنوں کے ذریعہ تبرکات کا حصول تھا اور چند چادریں۔دادی اور پھوپھی اماں بہت خوشگوار مو ڈ میں تھیں اور ان کی کوشش تھی کہ جلد سے جلد ایم اے جناح روڈ پر سعید منزل کے قریب کسی موقع کی جگہ قبضہ کیا جائے۔تاکہ وہاں سے یوم عاشور کے جلوسوں کا نظارہ کیا جاسکے۔خیراُن کی کوششیں کامیاب رہیں اور ہم لوگ گیارہ ساڑھے گیارہ بجے بس سے اتر کر اندر کی گلیوں سے گزرتے ہوئے ایم اے جناح روڈ پر سعید منزل کے قریب آس پاس کے علاقے میں کسی بند دکان سامنے تھیلے سے چادریں نکا ل کے انہیں بہت اچھی جگہ پر بچھا کر پڑاؤ ڈالا۔
اس وقت تک سڑک سنسان پڑی تھی البتہ راستوں پر چہل پہل تھی۔ پیاس لگے تو سبیلیں لگی ہوئی تھیں۔ جس میں پانی، شربت اور دودھ بکثرت دستیاب تھا۔ ان سبیلوں میں سنیوں اور شیعوں سب کی سبیلیں تھیں اور پینے والوں کو اس سے غرض نہیں تھی کہ کس فرقے کی سبیلیں ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
سبز پرچم، گولڈ میڈل نوح بٹ آپ نے کمال کردیا
فارن فنڈنگ کیس نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد کیسے بنے گا؟
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایم اے جناح روڈ پر مزار قائداعظم کی جانب سے شور شروع ہوگیا۔ دادی کا حکم تھا کہ تمھیں اس چادرسے باہر جانے کے لئے میری اجازت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ پھوپھی اماں اور دادی صاحبہ کے پاس کھڑے ہو کر دور تک نظر یں دوڑا رہا تھا، رفتہ رفتہ اس شور کی آوازیں سمجھ میں آنے لگیں۔ یوم عاشور کے جلوس سے ”یا حسین ؑ“ کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ جوں جوں جلوس قریب آتا گیا، مرثئے، نوحے اور سلام کی دھمک سے میرا دل دہل رہا تھا۔ اس وقت تک جلوسوں میں لاؤڈاسپیکرعام نہیں ہوئے تھے اور میگا فون ایجاد نہیں ہوئے تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ بچپن میں میلاد شریف میں، جس کا تقریباً ہر گھر میں انعقاد ضروری تھا۔ اس میں حسنین کریمین ؑ کا ذکر ضرور سنا تھا۔جس کے شروع میں اشعار کی صورت میں ذکر تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمان یا جنت سے دو جوڑے لائے اور حضور اکرم ﷺ کو پیش کئے۔ ایک سبز اوردوسرا سرخ، جب نبی کریم ؐ نے جوڑوں کے رنگوں پر استفسار کیا تو اس کی وضاحت یوں کی کہ حضرت امام حسن ؑ کو زہر دے کر مارا جائے گا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کربلا کے میدان میں اپنے اہل بیت مردوں کے ساتھ ایک خونیں معرکہ میں شہید ہوں گے۔ پھر جب کربلا کے مصائب کا ذکر آیا تو اس کا ایک مصرع یہ یاد تھا کہ آئی صدا امام (حسین ؑ)کو بس اب ہاتھ تھام لو۔ بچپن میں جو وعدہ کیا تھا، وہ وفا کرو “۔ اُس کے علاوہ مجھے واقعہ کربلا کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ بس میں اس پر اس وقت بھی فخر کرتا تھا اور تاحیات کرتا رہوں گا کہ میرا نام شبیر ہے اور جب کالج مراثی میر انیس ؔ کا مطالعہ کیاتو اس شعر سے بہت خوشی ہوتی تھی کہ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں۔۔۔ ساتویں پشت ہے شبیر ؑکی مداحی میں۔
ہاں تومیں ایم اے جناح روڈ پرسعید منزل پر یوم عاشور کے جلوس دیکھ رہا تھا۔ اس کے آگے آگے سیاہ پرچم اٹھائے علمدار چل رہے تھے،اس کے بعد مرثیئے اور سلام۔ اس کے بعد ماتمی دستہ، اس کے بعد چھریوں کے ماتم،اس کی دھمک اور خون کے اڑتے چھینٹوں نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ میں ڈر کر اپنی دادی سے لپٹ گیا۔وہ مسکرا کر بولیں کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ وہ خون آلود ماتم، چھریوں کی جھنکار۔ بولیں کہ ڈرو نہیں، اور غور سے دیکھو، تم میرے قد کے برابر اورڈر رہے ہو۔
دادی اور پھوپھی اماں جہاندیدہ تھیں انہوں نے چادریں ایک بہت بڑے درخت کے نیچے بچھائی تھا، جہاں شام تک سایہ رہا۔ ماتمی جلوسوں کے بعد مزید جلوس آئے، ان میں سب سے خوشی کھانے پینے کی اشیاء کی تقسیم سے ہوئی۔ دادی اماں نے ایک برتن دیا اور کہا کہ اس میں حلیم لے آؤ۔ میں نے کہا کہ آپ نے چادر سے باہر نکلنے کی ممانعت کررکھی ہے، بولیں کہ چیزیں اور تبرکات لے آؤ۔ دادی کے حکم پر میں نے زیادہ نہیں تھوڑاحلیم، پلاؤ، جگ میں شربت اور دودھ لیا۔اشیاء کی تقسیم کرنے والوں اور لینے والوں میں کوئی لوٹ مار کا تاثر نہیں مل رہا تھا۔
اس کے بعد تعزیوں کے جلوس، پھر تھوڑے سے وقفے سے سنی جلوس آنے لگے، جن میں تعزیئے، کھانے پینے کی مختلف اشیاء کی تقسیم کے لئے وہی اونٹ گاڑیاں، لیکن ان پر سیاہ کے بجائے سبز پردے لگے ہیں، تلواروں کے کرتب (قمع) اور دیگر کرتب دکھانے والوں کے گروہ۔ یوم عاشور کا جلوس اپنے اختتام کو پہنچنے لگا توپھوپھی اماں نے مجھے آواز دے کربلایا۔ لوٹے میں پانی دیا اور مجھ سے ہاتھ دھونے کو کہا۔ اس وقت تک ان چادروں پر دسترخوان لگ گئے تھے۔ دیگر عورتوں اور بچوں کو بھی درخواست کرکے اس دسترخوان پربیٹھنے کی دعوت دی گئی۔
ان لوگوں نے اپنی اپنی اشیائے خوردونوش ایک جگہ جمع کردیں۔جبکہ مردوں کے دسترخوان الگ لگوادئیے گئے۔ ان اشیاء میں حلیم، پلاؤ، کھیر بہت مزیدارہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ میں نے مردوں کے دسترخوان کی طرف نظر دوڑائی تو اس میں سیاہ اور سفید پوش سب ہی نظر آئے۔ مزید پیاس ہم نے قریبی سبیلوں سے بجھائی، دادی اماں کے کہنے پر میں نے ان دونوں خواتین کی مدد سے چادریں تہہ کیں، سبیل کے ٹھنڈے اور شیریں پانی سے ہلکے ہلکے برتن پرپانی مار دیا، تاکہ کپڑے کا تھیلا خراب نہ ہو۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ دادی اماں اور پھوپھی اماں پان کھاچکیں اور اپنے اپنے برقعے ٹھیک کرکے اوڑھ چکیں تو ہم آرام باغ والی روڈ تک گئے اور اپنی بزرگ خواتین کے ساتھ بس میں بیٹھ کر اپنے محلے کی جانب چل پڑے۔
مغرب سے پہلے پہلے ہم اپنے گھروں میں تھے۔ اُس زمانے میں ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا، اسلئے رات کے کھانے کے بعد سب ریڈیو پاکستان کے گردجمع ہوگئے اورمجلس شام غریباں سنی۔ محلے کے ہرگھر سے ریڈیو پاکستان پر شام غریباں کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ اس بات کا علم نہیں کہ اس کے بعد گھبرائے گی زینب ؑ اورسلام نشر ہوتاتھا کہ نہیں۔
اس کے میرے ابو نے مجھے گلے لگایا اورپوچھا کہ بھئی آج تو تمہارے مزے آگئے، اپنی دادی اور پھوپھی اماں کے ساتھ یوم عاشور کا جلوس دیکھا۔ تم نے سارا دن کیسے گزارا، ایک ایک تفصیل بتاؤ، میرے مزے آگئے، کیونکہ میری باتیں سننے والے کم تھے اور سنانے والے زیادہ۔ آخر میں نے کہا کہ اتنی محنت سے بنائے گئے تعزیوں کا ہوتا ہے؟ اس کے بعد میری امی نے جواب دیا کہ نیٹی جیٹی کے پل پرتمام تعزیے ٹھنڈے کئے جاتے ہیں۔ سنی اور شیعہ دونوں۔ نیٹی جیٹی کے پل کے نیچے سمندر تھا۔ میں نے امی سے پوچھا تو کیا اتنی محنت سے بنائے گئے تعزئے پل سے نیچے سمندر برد کردیئے جاتے ہیں اوران کی قیمتی چیزیں لوٹ لی جاتی ہوں گی۔ انہوں نے رازداری کے انداز میں کہا کہ پل کے نیچے تیراک وہ تعزیئے نکال کر لے آتے ہیں۔ یہ رسم ہے، اگلے سال پھر مرمت کرکے تعزیے دوبارہ کئے جاتے ہیں۔
یہ تو تھا کراچی کے یو م عاشور کے مشترکہ جلوسوں کا ذکر۔ اس کے علاوہ محرم الحرام شروع ہونے سے قبل چندہ جمع کرتے اور گھر کے باہر سبیل لگاتے، سبزکپڑے اور جھنڈیوں سے سجا کر۔ اس وقت مٹی کے مٹکوں ہی کارواج تھا۔ ہم لوگ اس میں کبھی شربت اور کبھی ٹھنڈا پانی رکھتے۔ چندہ کے پیسے ختم ہوجاتے تو ابو ہمیں پیسے دیتے۔یہ سنی محلّوں کا ذکر ہے، شیعہ محلوں میں بھی یہی اہتمام ہوتا۔ سبیل لگانے کی روایت ہمارے شریف آباد (فیڈرل بی ایریا، کراچی) میں منتقل ہونے تک جاری رہی۔
اور ہاں محرم الحرام آنے قبل سنیوں میں یہ روایت تھی کہ دادی اور نانی چھوٹے بٹوے ستیں،سرخ اور سبز رنگ کے۔ اس میں چھوہارے کتر کر ڈالے جاتے،مصری کوٹ کر بھری جاتی، سونف اور دیگر اشیائے اورجب دادی یا نانی ہم بچوں میں بٹوے بانٹیں تو بہت خوشی ہوتی تھی۔ ہم لوگ وہ بٹوے بہت دن سنبھال کر رکھتے، پھررفتہ رفتہ وہ گم ہوجاتے اور پھر کچھ دن بعد محرم آجاتا۔
اس کے علاوہ ہمارے پرانے محلے میں جہاں سب کی پیدائش ہوئی، ایک امام ؑ چوک ہمارے تایا غلام محمد خان نے تعمیر کرایا تھا۔ امام چوک کے درمیان میں ایک بڑا سا ڈنڈا لگا تھا۔ جس پر یکم محرم کو سبز پرچم بڑے اہتمام سے لہرایا جاتا۔
دسویں محرم کی شب ہمارے ابو عادل جہانگیری سرکس کا اہتمام کراتے، دو یاتین اونٹ گاڑیوں پر سرکس آتا۔ اس میں زیادہ کھیل تلواروں اور نیزوں کے ہوتے۔ اس کے علاوہ دوسرے کرتب بھی ہوتے۔تقریباً پچاس سے اوپر کرتب بازوں کا یہ سرکس بہت شاندار ہوتا۔ اس کے تمام شرکاء سفید لباس پہنے ہوتے۔ اس کے ساتھ مختصر میجک شو بھی ہواکرتا تھا۔اتنے بڑے سرکس اورمیجک شو پرابوصرف پانچ سو روپے خرچ کرتے تھے۔ لیکن وہ اس دور کے حساب سے بہت بڑی رقم تھی، یہ سمجھ لیں کہ اس زمانے میں ایک سو روپے تولہ سونا تھا۔اور میری یعنی شبیر ابن عادل کی عمر عزیز صرف پانچ سال، اب میں اللہ کے کرم سے 66سال کا ہوگیا ہوں۔ زمانے بدل گئے، یعنی نصف صدی کا قصہ ہے یہ۔
تمام فرقہ واریت اور نفرت کے باوجود ایک مشترکہ روایت ابھی چلی آرہی ہے۔ وہ ہے سنی اور اہل تشیع میں حلیم کی روایت۔ ہم سب حلیم امام حسین ؑ بہت عقیدت و احترام سے بناتے ہیں اور بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ سب ہی کھاتے ہیں، اور زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔ نہ سنی اور شیعہ سب ہی عزاداری یا محرم مناتے ہیں، جبکہ یزیدی قوتوں کے آگے کھڑے ہونے کیلئے پورے عالم اسلام میں بہتر (72) آدمی بھی میسر نہیں۔ کیونکہ یہ سب کھیل کرنا آسان ہے اور یزیدی قوتوں کے سامنے کھڑے کرللکارنے کامطلب موت ہے اور ہمیں تو زندگی سے پیارہے ناں، کیونکہ زندگی دوبارہ نہیں آنی اور اگر موت آگئی تو سب کچھ ختم، سمجھے کہ نہیں۔ کچھ نہ سمجھے، خدا کرے کوئی۔